جو نا تھن کیولر(JONATHAN CULLER): کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد ۔۔۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا

 

عالمی شہرت کا حامل نامور ماہر لسانیات جو نا تھن کیولر یکم اکتوبر 1944کو امریکہ میں پید اہوا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جو ناتھن کیولر نے سال 1966میں امریکہ کی نجی شعبے کی مشہور جامعہ ’’ہارورڈ یونیورسٹی ‘‘(قائم شدہ، 1636)میں تاریخ اور ادبیات کے مضامین میں انڈر گریجویٹ کلاسز میں داخلہ لیا اور آرٹس میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اس جامعہ میں اس نے اپنے پسندیدہ مضامین تاریخ اور ادبیات میں اس نے اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوایا اور خوب دادِ تحقیق دی۔ یہاں سے اس نے اپنی فقید المثال علمی کامرانیوں کی بنا پر رہوڈس وظیفہ(Rhodes Scholarship) حاصل کیا اور اسی وظیفہ پرسال 1968میں آکسفورڈ یو نیورسٹی لندن سے بی۔ فل کی ڈگری حاصل کی اور سال1972میں آکسفور ڈیو نیورسٹی ہی سے تقابلی ادبیات اور جدید زبانوں کے موضوع پر ڈی۔ فل کیا۔ زمانہ طالب علمی ہی سے اسے لسانیات سے گہری دلچسپی تھی اور اس نے فرانس کے ممتاز ماہرین لسانیات کے کے نظریات کا تجزیاتی مطالعہ کیا۔ اس کا بی۔ فل کا تحقیقی مقالہ ساختیات میں اس کی گہری دلچسپی اور عالمانہ دسترس کا ثبوت ہے۔ مظہریات اور ادبی تنقید (phenomenology and literary criticism)کے موضوع پر جوناتھن کیولر نے جن فکر پرور اور خیال افروز مباحث کا آغاز کیا اسے معاصر ادبی تنقید میں تازہ ہوا کے جھونکے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اپنی افتاد طبع کے مطابق اس نے فرانس میں مروّج و مقبول ساختیاتی تصورات کو اینگلو امریکی حوالے سے پرکھنے کی جو سعی کی وہ اس کے منفرد اسلوب کے متعدد اہم پہلو سامنے لاتی ہے۔ اس نے ساختیات کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ساختیات کو بالعموم ایسا نظریہ سمجھا جاتا ہے جو مکمل طور پر احساسات پر انحصار کرتا ہے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جو نا تھن کیو لر نے سیلوائن کالج، کیمبرج(Selwyn College, Cambridge)اور بریس نوز کالج، آکسفورڈ (Brasenose College, Oxford)میں فرانسیسی زبان کے معلم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس وقت وہ سال 1865میں روشنی کا سفر شروع کرنے والی نیو یارک میں واقع نجی شعبے کی کارنل یو نیورسٹی میں انگریزی ادبیات کی تدریس پر مامور ہے۔ اس کا مفروضہ یہ رہا ہے کہ انسانی تہذیب و ثقافت اور لسانیات میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور لسانیات کا ارتقا در اصل انسانی تہذیب و ثقافت کا ارتقا سمجھنا چاہیے۔ ساختیات، لٹریری تھیوری اور ادبی تنقید کے شعبوں میں اس کا بلند آہنگ اور دبنگ لہجہ اس کے ذوقِ سلیم اور تنقیدی اسلوب کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ جونا تھن کیولر کا شمار شمالی امریکہ کے انتہائی موثر اور منفر داسلوب کے حامل نقادوں میں ہوتا ہے۔

اپنے بی فل ( B.Phil)کے مقالے میں جو نا تھن کیولرنے ماریس میرلو پونٹے ( Maurice Merleau-Ponty )، کلاڈ لیوی سٹرا س، (Claude Lévi-Strauss)رولاں بارتھ (Roland Barthes) اور فر نینڈ ڈی سوسئیر(Ferdinand de Saussure) کے تصورات کا عمیق مطالعہ کیا اور ان کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے دی۔ اس نے عالمی ادبیات بالخصوص تنقید کے جنیوا سکول سے وابستہ جن ممتاز ادیبوں اور نقادوں کے تصورات پر تنقیدی نگاہ ڈالی ان میں سوسیئر(Ferdinand de Saussure)، البرٹ سکائیو( Albert Sechehaye)، چارلس بالی(Charles Bally)، البرٹ ریڈ لینگر(Albert Riedlinger)، اورسرج کا رٹسوسکی(Sergueï Kartsevski) شامل ہیں۔ تنقید کے جنیوا سکول نے ادبی تنقید کو سوسئیر کی معرکہ آرا تصنیف ( Cours de linguistique générale)سے متعارف کرایا۔ یہ کتاب سوسئیر کے ان خطبات پر مشتمل ہے جو اُس نے جنیوا میں اپنے چھے سال (1906-1912) قیام کے دوران میں اپنے شاگردوں کو دئیے۔ تنقید کے جنیوا سکول نے یورپ میں گیارہ سال کے عرصے (1950-1960)میں فکر و خیال پر دُور رس اثرات مرتب کیے۔ تاریخی تناظر میں دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ تنقید کے جنیوا سکول سے وابستہ جن ممتاز ادیبوں نے اپنے اپنے انداز سے قارئین کے فکر و نظر کو مہمیز کیا، ان میں بلجیم سے تعلق رکھنے والے ادیب جارجس پولٹ ( Georges Poulet )، فرانسیسی ادیب جین پئیر رچرڈ (Jean-Pierre Richard)اور سو ئٹزر لینڈ کے ادیب مارسل ریمنڈ، (Marcel Raymond)، البرٹ بیگن(Albert Béguin)، جین روسٹ (Jean Rousset)، جین ستروبنسکی(Jean Starobinski)کے نام قابل ذکر ہیں۔ جونا تھن کیولر نے اس امر پر اصرار کیا کہ لسانی ساختیاتی نمونہ محض اپنی افادیت اور موجودگی کا اثبات نہیں کرتا بل کہ یہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ اس کے وسیلے سے خاص مجلسی نظام کی نمو و ارتقا کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ لسانی ساختیاتی نمونہ ایسے قواعد و ضوابط مرتب کرنے میں بھی ممد و معاون ثابت ہوتا ہے جن کے معجز نما اثر سے مجلسی نظام میں اظہار و ابلاغ کے تمام مراحل صحت مند بنیادوں پر استوار ہو جاتے ہیں اور فکر و خیال کی دنیا میں طلوع صبحِ بہاراں کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جو ناتھن کیولر نے ایک وسیع النظر لسانی شارح کی حیثیت سے افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جستجو کو شعار بنا رکھا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ادب ان تصورات کا خاکہ سامنے لاتا ہے جو جدید دور کے انسانوں کے فکر و خیال کی دنیا میں رچ بس گئے ہیں۔ اس نے اپنے دانش مندانہ تجزیات، بصیرت افروز تصورات اور نئے لسانی امکانات کے ذریعے جس منفرد انداز میں ادبی تھیوری، زبان کی اصلیت اور مفاہیم سے متعلق مباحث کو آ گے بڑھایا ہے وہ اس کی فہم و فراست کی دلیل ہے۔

سال 1971میں جو نا تھن کیولر کی شادی انگریزی زبان کی شاعرہ اور تنقیدی تھیورسٹ ورنیکا فورسٹ تھامسن (Veronica Forrest-Thomson)سے ہوئی۔ ملایا سے تعلق رکھنے والی ورنیکافورسٹ تھامسن(B: 28-11-1947,D: 26-4-1975 )اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ ورنیکا فورسٹ تھامسن کی تعلیم و تربیت گلاسگو(سکاٹ لینڈ ) میں ہوئی اور اس نے کیمبرج یو نیورسٹی سے اعلا تعلیم حاصل کی۔ ورنیکا فورسٹ تھامسن اور جو نا تھن کیولر کی شادی کا عرصہ صرف چار سال(1971-1974) پر محیط ہے۔ ستائیس سالہ ورنیکافورسٹ تھامسن ایک رات بر منگھم میں کثرتِ مے نوشی کے بعد دم بھر کے لیے آرام کرنے کی خاطر لیٹی مگر پھر المیہ یہ ہوا کہ وہ جہاں سے اُٹھ گئی۔ وفا شعار اور مُونس و غم خوار رفیقۂ حیات کی دائمی مفارقت کے صدمے نے جو ناتھن کیولر کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کرچی کرچی کر دیا۔ ورنیکا فورسٹ تھامسن کا شعری مجموعہ (Collected Poems) شائع ہو چکا ہے۔ جوناتھن کیولر کو ورنیکا فورسٹ تھامسن کی جائیداد کا مختارِ کُل مقرر کیا گیا۔

جو نا تھن کیولر کا ڈی فل کا وقیع مقالہ ساختیاتی شعریات (Structuralist Poetics) جب سال 1975میں کتابی شکل میں منظر عام پر آیا تووہ شہرت کی بلندیوں تک جا پہنچا۔ اس کتاب کو سال 1976کے جدید لسانیات کے جیمز رسل انعام ( MLA’s 1976 Lowell Prize)سے نوازا گیا۔ رد تشکیل جیسے اہم موضوع پر اس کی کتاب (On Deconstruction) پوری دنیا میں مقبول ہے۔ اس کی کتاب ادبی نظریہ (Literary Theory ) کا دنیا کی اٹھائیس زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کی کتاب ساختیاتی شعریات کی عالمی سطح پر بے حد پذیرائی ہوئی اور اسے متعدد انعامات سے نوازا گیا۔ عالمی ادبیات پر اس کے لسانی نظریات کے ہمہ گیر اثرات کا ایک عالم معترف ہے۔ جو نا تھن کیولر کو اس بات کا قلق تھا کہ ہر مقام پر تھیوری کی افادیت کا بر ملا اعتراف کیا جاتا ہے مگر ادب میں اس کا وجود ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ اس نے واضح کیا ہے کہ ادبی تھیوری کی جہد للبقا کے لیے پس نو آبادیاتی ادب، اظہار و ابلاغ، متن، اشارہ، تشریح و ترجمانی، شخصی کار کر دگی اور نوائے سروش کی مظہر ہمہ دانی کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہنا چاہیے۔ جدید دور کے لسانی مباحث میں جونا تھن کیو لر کی فکر پرور اور بصیرت افروز تصورات پڑھنے کے بعد قاری وادیِ خیال میں مستانہ وار گھومتے ہوئے اس یگانۂ روزگار فاضل کے اسلوب کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ تنقید کے انضباطی طریقوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے معاصر ادبی تھیوری کے حال اور مستقبل کے نئے امکانات کا نہایت خلوص اور دردمندی سے کھوج لگانا جو نا تھن کیولر کا نصب العین رہا ہے۔ لسانیات، تخلیقِ ادب، اور اُس کے لا شعوری محرکات کے بارے میں اس کی رائے کو ہمیشہ درجۂ استناد حاصل رہا ہے۔ اس نے واضح کیا ہے کہ اپنی ہمہ گیر تاثیر اور اصلیت کے اعتبار سے ادب کوت خلیق کار کے اظہار ذات کے ایک وسیلے کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے ذریعے ایک زیرک تخلیق کار تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جاتا ہے اور اس کی تخلیقات جامد و ساکت پتھروں، سنگلاخ چٹانوں، کھنڈرات میں بکھری حنوط شدہ لاشوں، کرگس و چغد کے خستہ حال نگہبانوں اور درِ کسریٰ کے سامنے منہ کے بل گرے خاک بہ سرمجسموں سے بھی اپنی تاثیر کا لو ہا منوا لیتی ہیں۔ قلب اور روح کیا تھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر  آفرینی سے لبریز ادب پارے دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے پر قادر ہیں۔ جو نا تھن کیولر نے تیس سے زائد وقیع تنقیدی و تحقیقی کتب لکھ کر تنقید کی ثروت میں جو اضافہ کیا اس کے بارِ احسان سے اہلِ علم کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ جونا تھن کیولر کی علمی، ادبی، تحقیقی، تنقیدی اور لسانی خدمات کے پیش نظر اُسے درج ذیل اعزازات سے نوازا گیا:

-1 صدر امریکہ کی علامتی ابلاغ کی سوسائٹی(American Semiotic Society)

-2ٹرسٹی انگلش انسٹی ٹیوٹ (Trustee of the English Institute)

-3 صدر امریکی تقابلی ادبیات ایسو سی ایشن

-4 رکن امریکی دانش وروں کی کونسل

-5 رکن وڈرو ولسن فاونڈیشن (Woodrow Wilson Foundation)کے ایڈوائزری بورڈ

-6 رکن ایم ایل اے کی ایکزیکٹو کونسل

7 -فیلو شب گگا ہیم (Guggenheim Fellowship)

8 -فیلو شپ این ای ایچ(NATIONAL ENDOWMENT FOR THE HUMANITIES RESEARCH FELLOWSHIP)

9 -رکن امریکہ فلسفہ ایسوسی ایشن

بادی النظر میں یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ معاشرتی زندگی میں انسانی افعال، عادات و اطوار، تکلم اور اظہار و ابلاغ کے سلسلوں سے مطالب و معانی کے سوتے پھُوٹتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر اس بارے میں کوئی ابہام نہیں کہ اس تمام عمل کے پس پردہ کوئی نظام یقیناً کار فرما ہے جو اس پُورے نظام کو ممکنہ حد تک صحیح سمت میں رواں دواں رکھنے میں ہمہ وقت مصروف عمل ہے۔ جو نا تھن کیولر نے لسانیات کی تکنیک کو براہ راست تخلیقِ ادب اور اس کے لا شعوری محرکات پر منطبق کرنے کے رجحان کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس نے زور دے کر یہ بات کہی کہ ادب کی گرامر ہی ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہے اور یہی ادبی ساختیات اور تخلیقات کے جُملہ اسرار و رموز کے طلسم کی گرہ کشائی کی استعداد سے متمتع ہے۔ ایک رجحان ساز ادیب اور جری نقاد کی حیثیت سے جوناتھن کیولر نے تخلیق ادب کی گرامر کو بہت اہم قرار دیا۔ اس کا خیال ہے کہ تکلم اور گفتگو کے سبھی سلسلوں سے صرف اُسی صورت میں قابل فہم، مثبت اور نتیجہ خیز مفاہیم اور مطالب کے گہر ہائے آب دار بر آ مد ہو سکتے ہیں جب ان کے بارے میں نہ صرف مکمل سیاق و سباق کا علم ہو بل کہ پہلے سے موجود مجلسی قواعد و ضوابط اور ادب کی گرامر کے بارے میں حقیقی شعور و آ گہی بھی حاصل ہو۔ اس کی رائے میں ادب کے قاری کا ذوقِ سلیم سے متمتع ہونا ضروری ہے جس کے اعجاز سے وہ کسی بھی ادب پارے کے بارے میں اپنی رائے قائم کرنے کا مجاز سمجھا جاتا ہے۔ سوسئیر کا ایک اہم کام یہ ہے کہ اس نے لسانی امور کی تفہیم کے لیے دو اہم اصطلاحیں متعارف کرائیں۔ ان دو اصطلاحوں کے ذریعے وہ اپنے تصورات کی توضیح کرتا ہے۔ پہلی اصطلاح کو وہ لانگ (Langue)ٌ  نام دیتا ہے۔ لانگ سے مراد زبان کا تجریدی نظام (Abstract System)ہے۔ اس سے وہ ایسی زبان مراد لیتا ہے جو ابلاغ، بول چال اور مکالمات کے ذریعے اپنی تفہیم کی یقینی صورت پیدا کر سکے۔ دوسری اصطلاح پارول (Parole)ہے۔ سوسئیر پارول سے ایسی زبان مراد لیتا ہے جو بولنے والے کی کامل دسترس میں ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بات اس طرح بیان کی جا سکتی ہے کہ لانگ(Langue)اپنی نوعیت کے لحاظ سے قواعد کے ایک غیر شخصی ذہنی تصور اور فعالیت کا ایک روپ ہے۔ جہاں تک پارول (Parole)کا تعلق ہے اسے سوسئیر کے خیال کے مطابق ایک طریق کار کا نام دیاجا سکتا ہے۔ اس کے معجز نما اثر سے مطالب و مفاہیم کے غیر مختتم سلسلے سے آ گہی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ دنیا کی کسی بھی زبان کے لسانی ارتقا اور اس میں اظہار و ابلاغ کی کیفیات کے بارے میں جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس زبان کے پورے نظام کو سمجھا جائے اور مختلف مفاہیم اور مطالب کے ضم ہونے کے پیچیدہ عمل پر نگاہ ڈالی جائے۔ ایک ذہین ماہر لسانیات کی بنیادی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ذوق سلیم کی تسکین کی خاطر محض زبان میں ادا کیے جانے والے الفاظ، آوازوں اور لہجوں پر توجہ دے بلکہ دیگر عوامل کو بھی پیشِ نظر رکھنا از بس ضروری ہے۔ اس کی توجہ ان تمام شواہد پر مر کوز رہنی چاہیے جو زیرِ مطالعہ لسانی نظام کی حقیقت اور اصلیت کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوں۔ لانگ اور پارول کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جوناتھن کیولر نے لکھا ہے:

}The basic distinction on which modern linguistics rests, and which is equally crucial to the structuralist enterprise in other fields, is Saussure’s isolation of langue from parole. The former is a system, an institution, a set of interpersonal rules and norms, while the later comprises the actual manifestations of t HW system in speech and writing. It is of course, easy to confuse the system with its manifestations, to think of English as the set of English utterances. But to learn English is not to memorize a set of utterances; it is to master a system of rules and norms which make it possible to produce and understand utterances.(1)

جو نا تھن کیولر نے سو سئیر کے خیالات کے بجائے امریکی ماہر لسانیات نوم چومسکی کے لسانی تصورات کو لائقِ اعتناسمجھا۔ نوم چو مسکی کا خیال ہے کہ کسی بھی شخص کو زبان کی تفہیم کی جو صلاحیت ودیعت کی گئی ہے وہی اس کی اہلیت (Competence) ہے اور وہ جس انداز میں زبان سے اظہار و ابلاغ کو یقینی بناتا ہے اسے نوم چومسکی اس شخص کی کار کردگی (Performance) سے تعبیر کرتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ سامنے آ تا ہے کہ لسانیات میں کسی شخص کی اہلیت اور کار کردگی ہی لسانی ارتقا اور تخلیقی فعالیت کی ضامن ہے۔ جو نا تھن کیولر کا خیال ہے کہ نوم چومسکی کا اہلیت اور کار کر دگی (COMPETENCE and PERFORMANCE )کا نظریہ عصری آ گہی کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ نوم چومسکی نے ان خیالات کا اظہار اپنی تصنیف نظریہ اور نحو کے پہلو( Aspects of the Theory of Syntax)میں کیا ہے۔ اپنے لسانی نظریات کے بارے میں نوم چومسکی نے تخلیقی گرامر ( GENERATIVE GRAMMAR)میں کھُل کر اظہار خیال کیا ہے۔ اس کے مطابق جملوں کی ساخت، تشریح اور تلفظ کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔

لسانی گرامر کے بارے میں نوم چومسکی کا خیال ہے کہ اس کے وسیلے سے اظہار و ابلاغ کے نئے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران تکلم اور سماعت کے سلسلے، ایسے جوڑے اور سیٹ بنائے جاتے ہیں جو صوتیات، نحویات اور لسانیات میں کلیدی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ جو نا تھن کیولر کا خیال ہے کہ لسانی نظام کو اپنی نوعیت کے اعتبار سے نوائے سروش کی حیثیت حاصل ہے۔ اس نے سوسئیر کے بجائے نوم چومسکی کے نظریات کو اس لیے بھی ارفع سمجھا کہ اس کے مطابق متکلم کے فکر و خیال کی دنیا اور اظہار و ابلاغ میں ایک خاص نوعیت کی ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے جس کی نوم چومسکی نے ایک ادراکی ماڈل کے ذریعے لسانی عمل کی تفہیم کے سلسلے میں سعی کی ہے:

اشارات —— PM ——— نحوی نمائندگی

دیگر اطلاعات ——– ——- لسانی نمائندگی

————-صوتی نمائندگی

جو نا تھن کیولر نے اپنے معاصر اور ہم وطن ماہر لسانیات نوم چومسکی کے لسانی نظریات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ نوم چومسکی نے ایس آئی( SI)کی صورت میں لسانی جوڑے کو اپنے ماڈل میں جگہ دی ہے۔ اس نے ایس(S)سے صوتی نمائندگی مراد لی ہے جب کہ وہ آئی ( I ) کولسانی نمائندگی کا ایسامظہر قرار دیتا ہے جو بیان کی تشریح و توضیح کی استعداد رکھتا ہے۔ اپنی اصلیت کے اعتبار سے یہ ایک ایسا  لسانی ماڈل ہے جو اپنی کار کردگی کے اعتبار سے ایک خاص آہنگ رکھتا ہے اور اس کا انسلاک آوازوں اور مفاہیم سے ہے۔ یہ ایک ادراکی ماڈل ہے جسے نوم چومسکی نے پی ایم(PM)کا نام دیا ہے۔ یہی لسانی ماڈل نوم چومسکی کے خیال میں لسانی گرامر کی نمائندگی کا آئینہ دار ہے۔ اسے وہ ایک ایسے ادراکی لسانی آلے سے تعبیر کرتا ہے جو اشارات، نوائے دل کشا اور آہنگ و صوت کو درآمدی معلومات کے طور پر وصول کرنے کے بعد برآمدی اظہارات کے مختلف رُوپ سامنے لاتا ہے جن کا کرشمہ نحوی، لسانی اور صوتی نمائندگی کی صورت میں قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ جو نا تھن کیو لر نے نوم چومسکی کے خیالات کو بہ نظر تحسین دیکھتے ہوئے لکھا ہے:

"In linguistics the distinction between rule and behaviour is most conveniently expressed by Chomsky’s terms competence and performance, which are related ,respectively to langue and parole.(3)

کاروان ہستی کا تیز گام قافلہ پیہم رواں دواں ہے، رخش حیات رو میں ہے اور انسان کا نہ تو ہاتھ باگ پر ہے اور نہ ہی وہ پا در رکاب ہے۔ پرِ زمانہ کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ یہ تو پروازِ نُور سے بھی کہیں بڑھ کر تیز ہے اور عملی زندگی میں افکار و تصورات بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔ جو نا تھن کیولر کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ یورپ میں سال 1900میں نمو پانے والی ساختیاتی فکر کے متعدد علم بردار اپنے کیمپ کو چھوڑ کر چلے گئے اور پس ساختیاتی فکر کا پر چار کرنے میں اپنی صلاحیتوں کا بر ملا اظہار کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں سال 1970کے بعد ساختیاتی فکر کو ہدف تنقید بنایا جانے لگا۔ جو ناتھن کیولر نے جوزی ہراری(Jouse Harari)کی ایک کتاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ مصنف کی تحقیق کے مطابق وہ ماہرین لسانیات، نقاد اور محققین جو کسی زمانے میں ساختیاتی فکر کے بنیاد گزاروں اور پُر جوش حامیوں میں شمار ہوتے تھے مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد اب وہ اپنا پرانا موقف بدل چکے ہیں۔ مثال کے طور پر، رولاں بارتھ(Roland Barthes)، گلز ڈیلیوز(Gilles Deleuze)، یو گینو ڈو نیٹو(Eugenio Donato)، مشل فوکاں (Michel Foucault)، گری ناڈ گرنٹے (Gerard Genette)، رینی گیراڈ (Rene Girard)، لوئس مارن(Louis Marin)، مشل رفاترے (Michael Riffaterre) اور مشل سیریس(Michel Serres) نے پس ساختیاتی فکر کو اپنا لیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ساختیاتی فکر کے ہم نوا کم کم دکھائی دیتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ کلاڈ لیوی سٹراس اور تزویتان تودوروف کے علاوہ کوئی بھی ساختیاتی فکر کے حق میں اپنی آواز بلند نہ کر سکا۔ جو نا تھن کیولر کے خیال میں یہ اصولِ فطرت ہے کہ فکر و خیال کی بنیادی تبدیلیاں اقتضائے وقت کے مطابق رونما ہوتی رہتی ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ چرب زبانی اور ملمع سازی سے کسی نئے نظریے کو تقویت دینا حیران کن واقعہ ہے۔ پس ساختیاتی فکر کی چکا چوند کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جو نا تھن کیو لر نے لکھا ہے:

"Of Course, radical transformations and conversions do occur, but hen so many of yesterdays structuralists are today’s post- structuralists, doubt arise about the distinction, especially since it is so dubiously defined. If post -structuralism is supposed to be the vigilant critique of prior delusions of mastery, it is difficult to find writings by structuralists that are sufficiently unself-conscious to fit this pattern.” (2)

کیا ہے ؟ادبی نظریہ سے کیا مراد ہے ؟ادب، تہذیب و ثقافت اور تخلیقی محرکات کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟یہ وہ استفہامیے ہیں جن کو بالعموم ساتواں در سمجھا جاتا ہے۔ اکثر نقاد ان موضوعات کو بھاری پتھر سمجھتے ہوئے چُوم کر رکھ دیتے ہیں۔ جو نا تھن کیولر نے کلاسیکی عہد کے مصنفین یا اپنے عہد کے پیش رو ادیبوں کی تخلیقات کا محتاط مطالعہ کیا۔ اس نے اس جانب توجہ دلائی کہ ہر عہد میں لسانی تصورات پیہم مائل بہ ارتقا رہے ہیں۔ لسانیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر عہد میں لسانی ارتقا کے متعدد مدارج سامنے آتے رہے ہیں۔ ساختیاتی فکر کے بنیاد گزاروں کے فکری ارتقا کو بھی اسی تاریخی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ کلاڈ لیوی سٹراس اور رولاں بارتھ کے افکار کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت یہ بات کھُل کر سامنے آ تی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان نقادوں کے اسلوب میں ساختیاتی فکر کے ٹمٹماتے چراغ کی لو مدھم پڑنے لگی تھی۔ رفتہ رفتہ ان زیرک تخلیق کاروں کو اس بات کا احساس ہونے لگا کہ اگر انھوں نے اقتضائے وقت کا ساتھ دیتے ہوئے خود کو اظہار و ابلاغ کی حدود اور قیود سے رہا نہ کیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وقت سے بہت پیچھے رہ جائیں۔ آئینِ نو سے ڈرنا اور طرز کہن پہ اڑنا فکر و خیال کی وادی کے رہ نوردانِ شوق کی طویل مسافت میں ایک کٹھن مر حلہ ہے۔ ساختیاتی فکر کو ابتدا ہی سے اپنی جولاں گاہ کی تنگی کا احساس تھا۔ اُن کے ہاں احتسابِ ذات کی مظہر تنقیدی بصیرت قاری کے لیے انوکھا تجربہ ہے۔ اسی بصیرت کے معجز نما اثر سے انھوں نے اپنے افکار کی نئے سرے سے شیرازہ بندی کی اور نئے عزم کے ساتھ پامال راہوں سے بچتے ہوئے، خضر کا سودا چھوڑ کر نئی منزل کی جانب اپنے سفر کا  آغاز کیا۔ انھوں نے ساختیاتی فکر سے نمو پانے والے افکار کی اس طرح حنا بندی کی کہ نئے تصورات کی مسحور کُن مہک سے قریۂ جاں معطر ہو گیا۔ جونا تھن کیولر نے ادب پاروں کے قابل مطالعہ ہونے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس امر کی صراحت کی ہے کہ تخلیق کار کو قارئین ادب کے ذوق اور مقیاس ذہانت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اگر تخلیق کار کی زبان سادہ، سلیس اور عام فہم ہو گی تو یہ وصف اسلوب کی اثر آفرینی کو چار چاند لگا دے گا۔

ادبی تھیوری کیا ہے اس کے بارے میں جو نا تھن کیو لر کا خیال ہے کہ اس کی مکمل تعریف ایک کٹھن مر حلہ ہے۔ اس نے معروف امریکی فلسفی رچرڈ رورٹی (Richard Rorty)کا حوالہ دیا ہے جس نے انیسویں صدی میں شروع ہونے والے ایک نئے ملے جلے اسلوب یا سٹائل کی جانب اشارہ کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گوئٹے (Johann Wolfgang Goethe)، میکالے (Macaulay)، ایمرسن(Emerson) اور کا رلائل(Thomas Carlyle) کے اسلوب کی ہر سُو دھوم مچی تھی۔ اس عہد میں ایک خاص نوعیت کے اسلوب کی آئینہ دار تحریروں کو پذیرائی نصیب ہوئی۔ اسی کی جانب متوجہ کرتے ہوئے رچرڈ ورٹی نے اسے ایک نئے جینر (Genere)سے تعبیر کیا ہے۔ اگر کوئی تخلیق کار اپنے منفرد اسلوب کو اپناتے ہوئے ایسے ادب پارے منصۂ شہود پر لاتا ہے جو قارئین کے فکر و خیال میں سما کر قلب اور روح کی گہرائیوں میں اُتر جائیں تو ایسی تخلیقات کو آفاقیت کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔

اپنی تنقیدی بصیرت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے جو نا تھن کیو لر نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ صریرِ خامہ بلا شبہ نوائے سروش ہی ہے جس کے لا شعوری محرکات اور مضمرات کا کھوج لگانا بعید از قیاس ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ امر بھی پیشِ نظر رکھنا لازم ہے کہ جب ایک تخلیق کار تخلیق فن کے لمحوں میں اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھاتا ہے تو وہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے۔ تخلیقی فعالیت کے دوران میں وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے گل دستۂ معانی کواس منفر د، پر کشش اور نئے ڈھنگ سے آراستہ کرتا ہے کہ ایک گلِ تر کا مضمون بھی سو رنگ سے نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ اسلوب کی اس بو قلمونی، ندرت اور تنوع کے باوجود اس گلِ تر کی رنگینی، رعنائی اور عطر بیزی کا استحسان ممکن ہے۔ جس طرح مٹی کے گل دان کے بجائے اس میں سجے گل ہائے رنگ رنگ دیکھنے والے کی نگاہوں کو بھلے لگتے ہیں اسی طرح متن کے بجائے اس میں موجود مفاہیم ہی قاری کے لیے نشاط اور بے خودی کا منبع ثابت ہوتے ہیں۔ طرزِ خاص، منفرداسلوب (Genere) کے حوالے سے جو نا تھن کیو لر نے لکھا ہے:

"Theory in literature is not an account of the nature of literature or methods for its study. It’s a body of thinking and writing whose limits are exceedingly hard to define.———- The most convenient designation of this miscellaneous genere is simply nick name theory.” (4)

جو نا تھن کیولر نے نئی نسل کو اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے اور تحقیق و تنقید میں دلچسپی لینے کا مشورہ دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح طوفانِ باد و باراں میں سمندروں یا دریاؤں کی متلاطم موجوں میں جو سفینہ پتوار یا بادبان سے محروم ہو اس کا کوئی نگہبان نہیں ہوتا۔ اس بد قسمت سفینے کی تباہی نوشتۂ تقدیر کے مانند اس پر ثبت ہو جاتی ہے۔ اسی طرح عملی زندگی میں منزل مقصود کے تعین کے بغیر کوئی بھی انسان مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ منزل مقصود پر پہنچ کر گوہرِ مراد حاصل کرنے کے لیے علم کی محبت، زندگی کے اسرار و رموز سمجھنے کی لگن، حقائق کی گرہ کشائی کی تمنا اور ادب پاروں میں پنہاں مفاہیم کی تہہ تک پہنچنے کی تڑپ نا گزیر ہے۔ یہی وہ معیار ہے جسے فہم و فراست اور بصیرت و تدبر کی کسوٹی سمجھا جاتا ہے۔

تاریخ کے ہر دور میں مختلف ادبی تحریکیں فکر و نظر کو مہمیز کرتی چلی آ رہی ہیں۔ ان میں نئی تنقید، مارکسی تنقید، وجودیت، مظہریات، جدیدیت ما بعد جدیدیت، ساختیات، پس ساختیات، علامتی ابلاغ اور رد تشکیل نے جمود کا خاتمہ کر کے تنقید، تحقیق اور تخلیق ادب کے شعبوں پر دُور رس اثرات مرتب کیے۔ ادب کے تجزیاتی مطالعہ کے متعدد طریقے ہیں، ان میں نئی تنقید کو ماضی میں ایک معتبر طریقے کی حیثیت حاصل رہی ہے۔۔ لفظ نئی تنقید (New Criticism)کو سب سے پہلے جول الیس سپنگرن (Joel Elias Spingran,B: 17-5-1875,D: 25-7-1939) نے اپنے ایک توسیعی لیکچر میں استعمال کیا جو اس نے کو لمبیا یو نیورسٹی میں نو مارچ 1910کو دیا۔ یہ لیکچر سال 1911میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ سال 1920سے سال1930کے عرصے میں نئی تنقید کے ابتدائی دھندلے نقوش بحر اوقیانوس کے پار کے ممالک اور امریکی ادبیات پر دکھائی دیتے ہیں۔ نئی تنقید کے علم بردار اس امر پر اصرار کرتے تھے کہ تخلیق فن کا مقصد محض تخلیق فن ہی ہے اور تخلیقی فن پارے میں نہاں متن اس قدر جامع ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف آپ اپنے مفاہیم کی گرہ کشائی کرتا ہے بل کہ اس کو ہر اعتبار سے ہئیت کے ہم پلہ سمجھنا چاہیے۔ نئی تنقید نے تخلیقی فعالیت کی درجہ بندی، مختلف اصناف میں اس کے شمار اور خاص زمروں میں اس کی ترتیب کے سلسلے میں وہ معیار اپنانے پر زور دیا جو ادب پارے کی ہئیتی صفات سے مطابقت رکھتا ہو۔ نئی تنقید کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ نئی تنقید نے ادب کے بالعموم اور بالخصوص شاعری کے عمیق مطالعہ پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ نئی تنقید کے علم برداروں کا استدلال یہ تھا کہ ہر متن مجموعی اعتبار سے اس قدر خود کفیل ہوتا ہے کہ اس کی خود انحصاری، جمالیاتی موضوع اور اپنے وجود اور ذات کے معتبر حوالے کی حیثیت سے اس کی جاذبیت قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ متن میں صنائع، بدائع اور اظہار و ابلاغ کے متنوع ذرائع کو مرکز نگاہ بنانے کی نئی سوچ نے رفتہ رفتہ نئی تنقید کی راہ ہموار کر دی۔ نئی تنقید نے واضح کر دیا کہ متن کا عمیق مطالعہ متن کے موضوع، پلاٹ، ترتیب اورساخت سے متعلق جملہ اسرار و رموز کی گرہ کشائی کرتا ہے۔ نئی تنقید سے پہلے ادبی تنقید کا جھکاؤ تاریخ کی جانب تھا۔ اس تحریک کا نام ’’نئی تنقید‘‘ ممتاز امریکی ادیب جان کرو و رینسم(John Crowe Ransom,B: 30-04-1888,D: 03-07-1974) کی سال 1941میں شائع ہونے والی تنقید کی اہم کتاب "The New Criticism” میں بھی موجود ہے۔ شعبہ تنقید میں گراں قدر خدمات اور مقبولیت کی بنا پر جان کرو رینسم کو نئی تنقید کے فلاسفر جنرل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جو نا تھن کیولر نے نئی تنقید کے اسلوب، دائرۂ کار اور اثرات کے بارے میں اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کیا۔ اس کی رائے میں نئی تنقید نے محض تدریس ادب میں آسانیاں تلاش کرنے کی سعی کی جب کہ تخلیق ادب جیسے اہم موضوع پر وہ کوئی موثر لائحۂ عمل دینے میں ناکام رہی۔ نئی تدریس نے مدارس، کالجز اور جامعات میں تدریس ادب کے حوالے سے کسی حد تک مقبولیت اور کامیابی حاصل کی لیکن بالآخر اس کی محدود کار کردگی اور ادبی تنقید کی بے کراں وسعتوں تک نئی تنقید کی نا رسائی اس کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بنتی چلی گئی۔ نئی تنقید نے متن کی خود مختاری اور خود کفالت پر شدت سے انحصار اور اصرار کرتے ہوئے جو موقف اختیار کیا وہ ادبی نقادوں کے لیے ناقابلِ فہم تھا۔ جو نا تھن کیولر نے اس واضح حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے کہ اگر نئی تنقید کے مطابق متن کو خود کفیل تسلیم کر لیا جائے تو پھر اِسے کسی سہارے کی احتیاج نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ متن کا مطالعہ کرتے وقت کوئی حوالہ درکار نہیں۔ اسے کسی بیرونی سیاق و سباق (جن میں سوانحی، تاریخی، تحلیل نفسی اور سماجی حوالے شامل ہیں ) کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں۔ نقاد کے لیے کسی ادیب کی تخلیقی فعالیت کی ترجمانی ایسی کسوٹی ہے جس پر تنقیدی معائر کو پر کھنا دشوار ہے۔ نئی تنقید نے اس کسوٹی پر ادبی تخلیقات اور دیگر تخلیقات کو پرکھنے پر اصرار کیا تاہم آخری تجزیے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہم کون سی الجھن کو سلجھا رہے ہیں اور ادبی تھیوری کے حوالے سے ہونے والے کام کا سراغ کہاں ملے گا۔ اس موضوع پر جو نا تھن کیولر نے اپنے تجزیاتی مطالعہ میں لکھا ہے:

"In short, it would be possible to demonstrate that, given its premises, the New Criticism was necessarily an interpretive criticism. But in fact this is scarcely necessary since the most important and insidious legacy of the New Criticism is the widespread and unquestioning acceptance of the notion that the critic’s job is to interpret literary works.(4)

تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر نگاہ ڈالنے سے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا لسانی تجزیے فی الواقع کسی ادبی تخلیق کی تفہیم میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جو نا تھن کیولر نے نئی تنقید کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسے فکر و خیال کی وادی میں نئی تنقید کے حوالے سے اُترنے والے موسموں اور ان کے مسموم اثرات کا پوری طرح احساس ہے۔ قارئینِ ادب کے لیے یہ بات بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ ادیب کی تخلیقی فعالیت کی ترجمانی کرنے والوں کی تجزیاتی گرفت پر جب نزع کا عالم طاری ہو جاتا ہے تو قطرے پہ گہر ہونے تک کیا گزرتی ہے۔ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اس کیفیت میں تخلیقی فعالیت کیا رخ اختیار کرتی ہے اور اس کے تخلیق کے پس پردہ کار فرما لا شعوری محرکات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

دنیا کے تمام ممالک میں معاشرتی زندگی میں سُریلے گیت تہذیب و ثقافت کی پہچان سمجھے جاتے ہیں۔ اپنی کتاب ’’ گیت کا نظریہ‘‘ (Theory of the Lyric)میں جو نا تھن کیولر نے نظم میں سُر، لے اور آہنگ کے حوالے سے پُر مغز اور موثر بحث کی ہے۔ اُس کا خیال ہے کہ اسلوب کے لحاظ سے گیت کی صورت میں لکھی جانے والی نظم در اصل کسی بھی موضوع پر تخلیق کار کے داخلی مد و جز ر، منفرد تجربات اور منھ زور جذبات کا پر جوش اظہار ہوتا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے گیت حسن و رومان، پیمان وفا اور غمزہ و ادا کا افسانوی انداز پیش کرتے ہیں۔ گیتوں اور تخلیقی ادب پارے میں معانی تو سیاق و سباق کی حدود میں رہتے ہیں مگر سیاق و سباق لا محدود ہے۔ زندۂ جاوید تخلیق تجربہ جو لوح جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیتا ہے اس کی پہچان یہ ہے کہ اس میں شاعری کو سدامحوری حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ گیتوں سمیت ہر قسم کی شاعری ہی وہ صنف ہے جو تخلیقی عمل کے مد و جزر، تخلیق کار کے قلب اور ر وح پر اُترنے والے مو سموں اور ادب کی تشریح و توضیح پر کامل دسترس رکھتی ہے۔ مطالعۂ ادب کے دوران میں قاری کے ذہن میں کئی خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ ان سب سوالات کا جواب اسے سریلے گیتوں کی مدھر تان کی صورت میں ملتا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے قدیم رومانوی گیت کی روایت اور جد ید دور میں گیتوں کے بدلتے ہوئے رجحانات سے بحث کی ہے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں گیت معاشرتی اور سماجی زندگی سے وابستہ ڈسکورس سے بے تعلق ہونے کے باعث عوامی مقبولیت کھو بیٹھے ہیں اور گیتوں کی صدیوں پرانی روایت اور ان سے وابستہ داستانیں تاریخ کے طوماروں میں دب چکی ہیں۔

ممتاز ماہر لسانیات رولاں بارتھ کے بارے میں اپنی کتاب(Barthes: A Very Short Introduction) میں جو نا تھن کیولر نے مطالعۂ احوال کا اعلا معیار پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں مصنف کی گل افشانیِ گفتار کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے۔ جو نا تھن کیو لر نے فرانس سے تعلق رکھنے والے نامور ادبی تھیورسٹ رولاں بارتھ(Roland Barthes) کے بارے میں لکھا ہے:

"Barthes is always flavourful, perhaps especially when,in un expected turns of phrase, he appears to make himself vulnerable. The idea that Barthes is essentially a flavoursome personality has gained authority because it suits two influential groups: Barthes’s idolaters, for whom his every work is ,song of Roland, and journalists ,who can discuss a personality more easily than a theorist.” (6)

جو نا تھن کیو لر کا شمار ان نابغۂ روزگار ماہرین لسانیات، ادبی تھیورسٹس اور تصورات کے مورخین میں ہوتا ہے جن کی عالمانہ تحریریں محض چند خاص موضوعات کا احاطہ نہیں کرتیں بل کہ ان کی تحریر کا ایک ایک لفظ چشم کشا صداقتوں کا امین ثابت ہوتا ہے۔ ساختیاتی فکر کے ایک انتہائی پر جوش حامی کی حیثیت سے جو نا تھن کیولر نے ساختیاتی فکر کے موضوع پر سو سئیر (Ferdinand de Saussure) اور کلاڈ لیوی سٹراس (Claude Lévi-Strauss)کے خیالات کا پوری توجہ سے مطالعہ کیا۔ ان مفکرین نے علامتی ابلاغ (Semiology)کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ان کی تو ضیح کرتے ہوئے جو نا تھن کیو لر نے جس ادبی فہم و فراست اور تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا وہ صحت مند تنقید کا عمدہ نمونہ ہے۔ جو نا تھن کیولر نے معاصر ادبی تھیوری اور اس کی تشریح کرنے والے ادیبوں کے افکار کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت سخت تنقیدی معیاراور انتہائی محتاط مطالعہ کاجو ارفع معیار قائم رکھا ہے وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔ ادبی تنقید میں دلچسپی رکھنے والوں کو اس سلسلے میں جو ناتھن کیولر کے ان تجزیاتی مضامین کا مطالعہ کرنا چاہیے جو اس نے رولاں بارتھ، کلاڈ لیوی سٹراس، رومن جیکب سن اور گریماس کے بارے میں لکھے ہیں۔ جو نا تھن کیولر نہ صرف لسانیات اور ادب کے محتاط مطالعہ پر اصرار کرتا ہے بل کہ معاشرتی زندگی کے جملہ مظاہر جن میں تہذیبی و ثقافتی عوامل اور انسانی زندگی کے جملہ نشیب و فراز کے بارے میں وہ نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ اپنے خیالات کا بر ملا اظہار کرتا ہے۔ عملی طور پراس کے بیان کردہ ہر نکتے سے متنوع خیالات، نادر موضوعات اور نئے تصورات کا دھنک رنگ منظر نامہ سامنے آتا ہے۔

٭٭

 

مآخذ

1.Jonathan Culler: Structuralist Poetics,Routledge London,1975, page ,9.

2.Jonathan Culler: On Deconstruction,Cornell University Press,New York,2007,Page 25.

  1. Jonathan Culler: Structuralist Poetics, Page ,10-
  2. Jonathan Culler: Literary Theory,Oxford University,London,2000,Page,
  3. Jonathan Culler: The Pursuit of Signs,Cornell University Press,NewYork,2002,Page,5-
  4. Jonathan Culler: Barthes A Very Short Introduction, Oxford University Press London, page ,6

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے