میرے اس مضمون میں نوجوانوں کو با وقار، با شعور، با ہمت اور بہادر دیکھنے کی تمنا رکھنے والے عظیم المرتبت شاعر علامہ اقبال کی فکر اور نظرئیے کے توڑ کے طور پر بڑا شاعر بنا کر پیش کیے جانے والے، رائیگاں، مایوس، برباد اور ناکام جون ایلیاء کے موضوع پر بات مرکزی ہونے کے باوجود شاید آپ کو ضمنی لگے اور میرا فکری انتباہ مرکزی نقطہ دکھائی دے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں ہو گا کیونکہ اس سے ایک مدعے سے متعلقہ احوال سامنے لانے کا مقصد معاشرے کی اس زبوں حالی کی طرف توجہ دلانا ہے جو پوری منصوبہ بندی سے پوری دنیا میں مذہبی جنونیت پیدا کرنے کے بعد وہی ترکیب آزماتے ہوئے ادب کے نام پر نوجوانوں اور مفاد پرست ادیبوں پر آزمائی جا رہی ہے اور اس کے پیچھے بھی وہی فلتھی سرمایہ دار کلاس سرگرم ہے جو دنیا کی سیاسی سماجی، معاشی اور علمی بیخ کنی پر لگی ہوئی ہے۔ جون بیچارے کتنے مظلوم ہیں کہ وفات کے بعد انہی شیطانی قوتوں کا ٹول بن گئے ہیں جو فیض احمد فیض جیسے شاعر کی نظریاتی قوت کو ٹکے ٹوکری کر چکے ہیں۔ جون ایلیاء سے پہلی ملاقات یاد نہیں، لیکن لاہور میں بے شمار ملاقاتوں کی یادیں ابھی بھی ماضی کے دریچوں میں جھلملاتی ہیں۔ جون کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلُو ان کا بچوں کی طرح بے قرار و مضطرب رہنا اور اپنی ذات کی تباہی میں خود اپنا ہاتھ ہونے کا احساس جرم تھا۔ ان کو یہ بھی احساس تھا کہ ان کی مشاعروں میں کامیابی ان کی شاعری کے باعث کم اور پرفارمنس کی وجہ سے زیادہ تھی۔ جون اپنی گفتگو میں تسلسل کے ساتھ اعتراف کرتے تھے کہ وہ اس پائے کے شاعر بھی نہ بن پائے کہ دنیا کو بتا سکتے کہ میں جو سماج سے ٹوٹا ہوا اور شراب میں غرق ہوں آخر کو میر و غالب سے بڑا شاعر بھی تو ہوں۔ فلسفہ خصوصاً مابعدالطبیعات کا مطالعہ انہیں گھر سے ہی ملا تھا۔ اس مطالعہ کے اثرات نہ تو ان کی شاعری میں کہیں نظر آتے ہیں نہ گفتگو پر حاوی ہو سکے۔ یوں یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ ایک خالص شاعر تھے بلکہ شاعر کا اس تصور کا ہو بہ ہو پرتو تھے جو ہمیں آج سے پچاس سال پہلے کے عوامی تاثر میں ملتا ہے۔ ایک بے عمل اور تباہ حال انسان نہ جسے اپنی ذات سے کوئی خاص دلچسپی ہے نہ کسی سماجی ذمہ داری کا رونا دھونا۔ ایک ناکام عاشق، ناکام شوہر اور بے حس باپ جس کو روزانہ کے عشق، شراب اور مشاعرے کے علاوہ دنیا کی کسی چیز میں دلچسپی نہیں۔ برس ہا برس پیچھا کرنے والے اس تاثر سے بمشکل جان چھوٹی تھی کہ نامعلوم لابیوں نے جون ایلیاء کی شکل میں نہ صرف ایک نمونہ مزید پیش کر دیا بلکہ اس کو اتنا پروموٹ کیا جا رہا ہے کہ کچے ذہنوں کے مالک نوجوان اسے ایک مثالی انسان سمجھنے کے دباؤ سے نکل ہی نہ پائیں۔ پروین شاکر نے سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے اور میں نے مارشل آرٹس میں مہارت حاصل کر کے بمشکل اس تاثر کو زائل کیا تھا کہ شاعر صرف حالات اور ناکام عشق کا مارا ہوا نہیں ہوتا بلکہ ایک با عمل ذمہ دار اور زندگی سے بھرپور انسان ہوتا ہے۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے ایک بار پھر سستی شاعری کرنے والے، شرابی اور کھوکھلے لوگوں کو عظیم بنا کے پیش کیا جا رہا ہے اور پوری دنیا میں مقام دلا کر واپس اسی تباہ حال تاثر کی طرف دھکیلا جا رہا ہے تاکہ ہماری نوجوان نسل کے تخلیقی اذہان کو پستی میں دھکیل دیا جائے۔ اس میں تھوڑا بہت حصہ کراچی کے ان دیار غیر میں رہنے والے چند شعراء کا بھی ہے جو کسی بڑے شاعر کا حوالہ دے کر اس کی پناہ میں اپنے ہونے کا جواز فراہم کر سکیں۔
جون ایلیاء کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے اس بات کا ذکر بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ زبان محاورتاً نہیں بلکہ حقیتاً ان کے گھر کی لونڈی تھی لیکن جس طرح جون ایلیاء نے اسے لباس شعر بنایا یہ اردو میں بہت کم کم شعراء کے حصے میں آیا ہے۔ جون کی شاعری کی دوسری بڑی خوبی بے تکلفی ہے۔ ان کے ہاں شعر کسی خواہ مخواہ کے تکلف کا شکار نہیں ہوتا بلکہ ایسی بے ساختگی کے ساتھ وجود میں آتا ہے کہ قاری اور خصوصاً سامع کو ہمکلام ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
ہمارے ہاں کے بیشتر شعراء اپنی تمام تر مشکلات، دکھوں، پریشانیوں اور اضطراب کا ذمہ دار عام طور پر محبوب، زمانے اور تقدیر کو ٹھہراتے ہیں لیکن جون اپنے تمام اخلاقی جرائم کا الزام کسی دوسرے پر ڈالنے کی بجائے خود اپنے اوپر لیتے ہیں اوراس کی تمام تر ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ بلکہ ایسا ایسا الزام اپنے سر لینے کی جرأت رکھتے ہیں جس سے بچنے کے لیے لوگ ساری ساری زندگی دلیلیں اکٹھی کرتے رہتے ہیں۔ شعر دیکھئیے
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہو کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
اس شعر میں عجیب ہونا خود کو تباہ کرنے کے المیے کی بجائے اپنی تباہی پر ملال تک نہ ہونے کے سانحے کی نشاندیہی ہے۔ اگرچہ مجھے لگتا ہے کہ ملال ان کو ہے لیکن اس ملال کا کوئی اوپائے نہ کر پانے کا احساس بھی ہے جو دوبارہ انہیں اسی احساس جرم کا شکار کر دیتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ درج بالا شعر کو جون کی زندگی اور فن کا نمائندہ ترین شعر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کی تمام شاعری محبت کے کچھ سچے اور کچھ جھوٹے حالات کے علاوہ کہیں کہیں خاندانی معاملات کے دائرے میں سفر کرتی ہے۔ ان کے ہاں کسی جگہ بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ ایک گہری تاریکی ہے جو چاروں طرف پھیلی ہے۔ اس تاریکی کو شعر میں بدلنے والی قوت کوئی مربوط فکر، کوئی نظریہ یا آدرش نہیں بلکہ صرف زبان کا حسن ہے جو جون کے عمومی موضوعات کو بھی شعری حسن بخشتا ہے۔
درج ذیل غزل ان کی شاعری میں میری فیورٹ ترین غزل ہے جس میں جون ہمیں اپنی شاعری کی بلندی پر نظر آتے ہیں۔
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا
خود کو جانا جدا زمانے سے
آ گیا تھا مرے گمان میں کیا
شام ہی سے دکان دید ہے بند
نہیں نقصان تک دکان میں کیا
اے مرے صبح و شام دل کی شفق
تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
آ رہا ہے مرے گمان میں کیا
دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت
خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا
وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
ہے نسیم بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
اس غزل میں جون کے تخلیقی وصف کا ایسا عروج ملتا ہے کہ جس کے بعد خود شاعر کے اپنے کلام میں اس پائے کا اظہار ان کی پوری شاعری میں کہیں نظر نہیں آتا۔ جون کی پہلی کتاب آج بھی ان کے باقی کلام پر بھاری ہے جو اپنے وقت سے بہت دیر بعد شائع ہوئی۔ میں نے دیکھا ہے کہ دیر سے شعری مجموعہ شائع کرنے والوں کے ہاں سب سے پہلی چیز جس کو نقصان پہنچتا ہے وہ ہے شعری ارتقاء۔ جون کے شعری مجموعوں کا اگر بنظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو ارتقاء کی بجائے ترقی معکوس ہی نظر آتی ہے جس کے پیچھے مشاعروں میں ان کی مقبولیت اور داد کے حصول کا عمل دخل کارفرما ہے۔ مشاعرے کے حاضرین کو گرفت میں لینا اور ان کی پوری توجہ و دلچسپی کو آخر تک برقرار رکھنا تو جون کو حاصل ہو گیا لیکن ان کے ہاں موضوعات کی ندرت، رفعت خیال حتیٰ کہ نظریۂ شعر تک موجود نہیں۔ اگرچہ اشارے ملتے ہیں لیکن مجھے کہنے دیجئیے کہ شراب کی لت اور مشاعروں میں پذیرائی نے اردو ادب کو ایک ممکنہ بڑے شاعر سے محروم کر دیا۔ جون کے ہاں ایسے اشعار کی بھرمار ہے جو روایتی اور کمزور شعراء کے وطیرے کا درجہ رکھتے ہیں مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئیے۔۔ ۔
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی
جون بنیادی طور پر فراریت یعنی Escapeism کا شاعر ہے۔ اس کی پوری شاعری میں حقیقت کو چکمہ دینے کا رویہ نمایاں اور غالب نظر آتا ہے۔ خود کو مورد الزام ٹھہرانے کے پیچھے یہ نفسیاتی حربہ پوشیدہ ہے کہ اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا مورد الزام ٹھہرائے شاعر خود کو الزام دے کر یا اپنی تخلیقی و سماجی ناکامیوں کا اعتراف کر کے طعن و تشنیع کی بجائے ہمدردی سمیٹنا چاہتا ہے۔ جون کی بیکار زندگی اور شاعری کی فراریت ہی در اصل معاشرے اور ادب کو نقصان پہچانے والی قوتوں کی توجہ جون کی طرف مبذول بنانے کی بنیادی وجہ نظر آتی ہے تاکہ اقبال کے شاہین کے تصور کے سامنے حقیقت سے آنکھیں چُرا کر اور سماجی و انسانی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کر کے رائیگانی اور بربادی میں پناہ لینے والی نوجوان نسل پیدا کی جائے۔ اور وہ فیک پرسیپشن بنانے والوں کا نہ تو تجزیہ کرنے کی اہل ہو نہ ان کی بربریت کا اندازہ لگانے کی اہلیت کھتی ہو۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ بحث بھی کچھ زیادہ مناسب محسوس نہیں ہوتی کہ جون ایلیا بڑا شاعر ہے کہ نہیں لیکن سوشل میڈیا پر جون کو ایک آئیڈیل مرشد شاعر بنا کر پیش کرنے کے خفیہ ایجنڈے نے جہاں۔۔ ۔۔ ہماری نا بلد نوجوان نسل کے اذہان کو گرفت میں لے کر انہیں ایک ایسے شاعر کو عظیم سمجھ بیٹھنے کی واردات کو عقیدے کی شکل دے دی گئی ہے جس نے ساری زندگی ایک طرف ایک بے ترتیب اور ایسے ظالم انسان کے طور پر گزاری جس نے شفقت سے کبھی اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ نہ رکھا اور اپنی شاعری کی ناکامی کا اعتراف خود اپنی پہلی کتاب ” شاید “ کے دیباچے میں کیا۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ ’شاید‘ 1990 میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ جب یہ مجموعہ قارئین کے ہاتھوں میں پہنچا اس وقت ان کی عمر تقریباً 60 برس تھی۔ اس سلسلے میں ’شاید‘ کے اداریہ بعنوان ’نیازمندانہ‘ میں جون ایلیا نے خود لکھا ہے کہ ’’یہ میرا پہلا مجموعۂ کلام یا شاید پہلا اعتراف شکست ہے جو انتیس تیس برس کی تاخیر سے شائع ہو رہا ہے۔ یہ ایک ناکام آدمی کی شاعری ہے۔ یہ کہنے میں بھلا کیا شرمانا کہ میں رائے گاں گیا “
یعنی پہلے سے مایوسی کی دلدل میں پھنسے نوجوانوں کو ایک ایسے شاعر کے پیچھے لگا دیا گیا جو کسی طرح کی سماجی ذمہ داری پوری کرنے سے منکر ہو گیا اور دوسری طرف اپنے خاندان کی کفالت سے بھی عاری رہا۔۔ ۔۔ بالغ نظر لوگوں کے لیے اشارہ کر رہا ہوں کہ جون ایلیاء کو باقاعدہ علامہ اقبال کی فکر کے کاونٹر کے طور پر لانچ کیا گیا ہے کہ اقبال جو نوجوانوں کو خود آگاہ، مضبوط اور انقلابی دیکھنا چاہتا ہے وہاں ایک ایسا شاعر عظیم بنایا جا رہا ہے جو محبوب سے چپیڑیں کھاتا ہے، شراب میں دھت رہتا ہے اور اپنی ناکامی کو فخر سے بیان کرتا ہے مگر شرمندہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ جون ہی کے عہد کے شعراء عدیم ہاشمی، سلیم کوثر، رام ریاض، صابر ظفر اور بیدل حیدری جیسے طاقتور شعراء اپنے پورے شعری و تخلیقی طمطراق کے ساتھ موجود ہیں مگر ان کا حق مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو جون ایلیاء سے کہیں زیادہ قد آور اور ارفع ہیں۔ عدیم ہاشمی جس کی غزل میں جدت اور تجربات کا بلند آہنگ سرمایہ ملتا ہے صرف اگر اس کی غزل کو تازگی بخشنے کی کاوش ہی کو مد نظر رکھ لیا جائے تو جون ایلیاء اس کے آس پاس بھی نظر نہیں آتے۔ عدیم کے دو اشعار دیکھئیے۔۔ ۔
جو لکھا ہے میرے نصیب میں کہیں تو نے پڑھ تو نہیں لیا
ترا ہاتھ سرد ہے کس لیے ترا رنگ زرد ہے کس لیے
۔۔ ۔
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھُو سکتا نہ تھا
۔۔ ۔۔
رام ریاض کا شعر دیکھئیے
پتھر کی طرح تُو نے مرا سوگ منایا
دامن نہ کبھی چاک کیا بال نہ کھولے
۔۔ ۔۔ ۔
بیدل حیدری کے دو اشعار دیکھئیے
بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی
ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا
بیدلؔ لباس زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا
۔۔ ۔۔ ۔۔
سلیم کوثر کا شعر دیکھئیے
ہم نے تو خود سے انتقام لیا
تم نے کیا سوچ کر محبت کی
۔۔ ۔۔ ۔
صابر ظفر کا شعر دیکھئیے
شام سے پہلے تری شام نہ ہونے دوں گا
زندگی مَیں تجھے ناکام نہ ہونے دوں گا
۔۔ ۔۔
میں نے جس طرح جون کے حوالہ اشعار ڈھونڈ کر پیش کیے ہیں درج بالا اشعار صرف یاد ہونے کی بنیاد پر لکھے ہیں کیونکہ مجھے یہاں کوئی موازنہ کرنا مقصود نہیں ہے ورنہ ان شعراء کے ہاں ایک سے بڑھ کر ایک ارفع و اعلی اشعار موجود ہیں۔ نہ صرف اعلی اشعار بلکہ سلیم کوثر کی نظمیں، صابر ظفر کے گیت، عدیم ہاشمی کی مکالماتی غزلیں اور رام و بیدل کی نظریاتی شاعری ان شعراء کو اس رتبے پر فائز کرتی ہے جس سے اوپر جون جیسے شعراء کو بٹھانا نہ صرف ادبی جرم ہے بلکہ ظلم بھی ہے۔ وہ ادب بڑا ادب کیسے ہو سکتا ہے جو روشنی کی سمت نمائی سے محروم ہو۔ بڑے ادب کے تقاضے بہت مختلف ہیں چلیں ضروری نہیں کہ ہر شاعر نظریاتی ہو یا نظریہ ساز ہو لیکن کم از کم انسانی نفسیات اور عہد کی جمالیات ہی بیان کرنے پر قادر ہو تو اسے کسی سنگھاسن پر بٹھایا جا سکے۔ فراریت، مایوسی، عہد شکنی، قنوطیت، بے حسی، لاتعلقی اور محبت کے سستے اظہار سے کیا برآمد کیا جا سکتا ہے جس کی بنیاد پر جون کو بڑا نہیں تو اہم شاعر ہی قرار دیا جا سکے۔ میرے خیال کے مطابق جون صرف ایک اچھا شاعر ہے جس نے اپنا رونا پیٹنا زبان کی پوری چاشنی اور شعری بے ساختگی کے ساتھ بیان کیا ہے اور ایسے میں اس سے کہیں کہیں اچھے اشعار بھی سرزد ہوئے ہیں۔
اس سارے قضئیے میں میرا مقصد جون کی شاعری کا حقیقی تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس ایجنڈے کی نشاندیہی بھی کرنا ہے جس پر عمل درآمد سے ہمارے ادیب اور ہماری نوجوان نسل کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ یہ پرپیگنڈا اتنا طاقتور ہے کہ اچھے خاصے ذہین لوگ اس کا شکار نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ان کو دور دور تک یہ شائبہ نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کس کس طرح ہماری علمی و ادبی اقدار، فنون اور سماجی جمالیات پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ آئیندہ کچھ ہی مہینوں میں آپ کو پاکستان، اومان، بحرین، قطر اور دبئی میں جون ایلیاء کے جشن ہوتے نظر آئیں گے۔ مختلف پارٹیوں سے پروپوزلز مانگ لی گئی ہیں اور فنڈز ایلوکیٹ کیے جا چکے ہیں۔ کچھ سامنے اور پس پردہ رہ کر کام کرنے والوں میں پیسوں اور مشاعروں کی ذلتوں کے مارے لوگ نظر آئیں گے جو جام پر جام لنڈھانے والے متشاعروں اور تماش بینوں کو دعوتیں دیں گے۔ نہ حقیقی شاعری ہو گی نہ سنجیدہ ادبی مکالمہ بس جشن ہو گا اور مختلف اکاونٹس سے پیسہ نکل کر ادبی خون چوسوں کی جیبوں میں چلا جائے گا۔ کیا احمد فراز، منیر نیازی، پروین شاکر یا سلیم کوثر اس قابل نہیں کہ ان کا جشن منایا جائے اور نہیں تو اس امجد اسلام امجد کا ہی جشن منا لیں جو ان کے فیسٹیولز کا لازمی جز بنے رہے۔ آخر جون ایلیاء جیسا شاعر ہی کیوں اتنا مقدس بنایا جا رہا جس کی شاعری اور زندگی میں روشنی کی رمق تک نظر نہیں آتی اور ٹوٹل دس بارہ غزلوں پر اسے اتنا بڑا ٹریبیوٹ دیا جا رہا ہے۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے پیچھے کتنا پیسہ، کتنے وسائل اور لابیاں کام کر رہی ہیں ہمارے معصوم لوگوں کا اس طرف دھیان تک نہیں جاتا۔ صرف اتنا ہی غور کر لیا جائے کہ جون ایلیاء کو کس طرح کامیابی سے شعری عقیدہ بنایا جا رہا ہے کہ ایسے نوجوان جو شعری فہم سے ہی محروم ہیں جون کے بارے کوئی بات سننا گوارہ نہیں کرتے اور گالیاں دینے میں جون اور اپنی عزت محسوس کرتے حالانکہ اس میں خود جون کی روح کے لیے شرمندگی کا مقام ہے اس پر طرہ یہ کہ کتنے ہی نوجوان شاعر ایسے بھی ہیں جو اچھی خاصی شاعری کرتے کرتے پیسے اور شہرت کے لیے جون کو اپنا والد محترم بنا کر سستے شعر کہنے اور پوری اداکاری سے پیش کرنے میں عزت محسوس کرنے لگے ہیں۔ جبکہ لاتعداد نوجوان جو سنجیدہ اور اعلیٰ شعر کہہ رہے ہیں ان کو بے دردی سے پیچھے دھکیل رکھا جا رہا ہے۔ آخر میں نوجوان شاعر راول حسین کے دو اشعار پیش کر کے آج کے موضوع کو کلوز کرتا ہوں۔
کارخانے سے چھٹیاں لوں گا
گاوں میں فصل کی کٹائی پر
ایک بوسیدہ شہر ہاتھ لگا
اک نئے شہر کی کھدائی پر
٭٭٭