جنرل صاحب کی پوتی اغوا ہو چکی تھی اور یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ ملک کی نہایت طاقتور آرمی کے ریٹائرڈ جنرل جو گزشتہ پانچ سالوں سے مغرب میں آسودہ حال تھے واپس اپنے ملک پہنچ چکے تھے۔ ان کی پندرہ سالہ پوتی کو اغوا ہوئے ابھی اڑتالیس گھنٹے ہی گزرے تھے لیکن ان کے بیٹے اور بہو کی حالت غیر تھی۔ جنرل صاحب نے واپس پہنچتے ہی اغوا کاروں کے نام اعلان کروا دیا کہ ان کی پوتی کو فوراً سے پیشتر واپس گھر پہنچا دیا جائے اور بغیر کوئی تکلیف دیئے ورنہ وہ اپنی پوری طاقت استعمال کرتے ہوئے اغوا کاروں کو ان کے بلوں سے نکال لیں گے اور انھیں عبرت کا نشان بنا دیں گے۔
جنرل صاحب کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور اعلان کے چند گھنٹوں کے بعد ہی موصول ہونے والے ایک لفافے نے سنسنی پھیلا دی۔ لفافہ کھولتے ہی جنرل صاحب جیسے ہوش میں آ گئے۔ لفافے میں ایک خون آلود انگلی کی تصویر تھی جس کی پشت پر لکھا تھا، ” آپ کی پوتی کی پنکی "۔
چند گھنٹوں کے اندر اندر شہر بھر کی پولیس فورس حرکت میں آ گئی۔
اگلے دن جنرل صاحب کو دوسرا لفافہ موصول ہوا جس میں ایک اور انگلی کی تصویر تھی جس کی پشت پر درج تھا، "آپ کی پوتی کی دوسری پنکی”
اب جنرل صاحب کی حالت با قاعدہ غیر ہونے لگی۔ انھیں احساس ہوا کہ ان کا پالا کسی عام آدمی یا گروہ سے نہیں تھا اور یہ کوئی اغوا برائے تاوان جیسا کیس بھی نہیں تھا بلکہ کسی قسم کی انتقامی کاروائی تھی۔ لفافوں پر بھی سوائے جنرل صاحب کے نام کے کچھ بھی نہیں لکھا ہوتا تھا۔ بس سادہ سا بڑا لفافہ اور اس پر جنرل صاحب کا نام۔ کون کہاں سے آتا اور کیسے خاموشی کے ساتھ لفافہ چھوڑ کر غائب ہو جاتا، کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ انھیں احساس ہوا کہ وہ اب جنرل نہیں تھے بلکہ ان کی حیثیت ایک عام شہری کی تھی۔
اس احساس نے انھیں ایک عام شہری کی طرح سوچنے پر مجبور کر دیا اور انھوں نے اغوا کاروں کے نام اعلان کر دیا کہ اپنی پوتی کے حصول کے لئے وہ ان کی ہر شرط ماننے کے لئے تیار تھے۔
تیسرے دن پھر لفافہ آیا جس میں ان کی پوتی کی ایک اور انگلی کی تصویر تھی۔ تصویروں کی جدید تکنیکی بنیادوں پر جانچ پڑتال کی گئی تو تصاویر اصلی انگلیوں کی ثابت ہوئیں۔ جنرل صاحب کی بہو نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی تھی کہ تصاویر میں دکھائی گئی انگلیاں ان کی بیٹی ہی کی تھیں۔
جنرل صاحب کی پوتی ان کے اکلوتے بیٹے کی اکلوتی اولاد تھی اور ان کی بہو مزید بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں تھی۔ دونوں میاں بیوی اسی پر راضی خوشی زندگی سے سمجھوتہ کر چکے تھے۔
بچی کے اغوا کے بعد ماں پر بے ہوشی کے کئی دورے پڑ چکے تھے۔ باپ کی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی لیکن بیوی کی ڈھارس بندھا نے کے لئے وہ اپنے آپ پر قابو رکھے ہوئے تھا البتہ گزشتہ چند دنوں میں وہ اپنے باپ کے ساتھ کئی جھڑپیں کر چکا تھا۔ وہ اپنی بچی کی گم شد گی کا ذمہ دار جنرل صاحب کو ٹھہرا رہا تھا۔ یہ پہلی بار تھی کہ وہ باپ کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔ گویا اب جنرل صاحب بیک وقت دو محاذوں پر نبرد آزما تھے۔
اب تک پورے ملک کی پولیس فورس حرکت میں آ چکی تھی لیکن اغوا کاروں سے متعلق کسی طرح کی کوئی معمولی سی ٹپ بھی نہیں مل رہی تھی۔
اغوا اور لفافوں کی خبریں ملک کے کونے کونے میں تو زبان زد عام ہو ہی چکی تھیں اب ملک سے باہر بھی پھیل رہی تھیں۔
چوتھے دن کوئی لفافہ نہیں ملا لیکن پانچویں دن لفافہ ایک نئے انداز سے ملا۔ لفافہ کسی نامعلوم طریقے سے اس علاقے کی ایک فروٹ ریڑھی میں رکھا مل گیا۔ پولیس کو خبر پہنچی تو وہ لفافہ کے ساتھ ریڑھی بان کو بھی اٹھا کر لے گئی لیکن پھر اگلے دن ریڑھی بان کو چھوڑ دیا کہ اس بیچارے کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں تھا کہ لفافہ اس کی ریڑھی میں کون رکھ گیا تھا۔
لفافوں کا سلسلہ بند نہ ہوا اور روزانہ ایک نیا لفافہ لوگوں کو کہیں نہ کہیں رکھا مل گیا اور ہر لفافہ میں جنرل صاحب کی پوتی کی ایک خون آلود انگلی کی تصویر ہوتی یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھوں کی دس انگلیوں کی تصاویر موصول ہو چکی تھیں۔
اب تک پولیس فورس کے ساتھ نہ صرف ملک بھر کے سکیورٹی کے سارے ادارے شامل ہو چکے تھے بلکہ ملک کا سب سے حساس ادارہ بھی میدان میں آ چکا تھا کہ آخر جنرل انہی کی فیملی کا بندہ تھا۔ ملک کے کونے کونے میں چھاپے مارے جا رہے تھے۔ سیکڑوں لوگ گرفتار کئے جا چکے تھے جن میں عادی مجرم بھی تھے اور عام سفید پوش لوگ بھی جو محض شک و شبہ کی وجہ سے زیر عتاب آ گئے تھے۔
جنرل صاحب کے گھر میں ایک الگ سے جنگ شروع ہو چکی تھی۔ جنرل صاحب کا بیٹا اور بہو دونوں ان کے منہ پر انہیں مورد الزام ٹھہرا رہے تھے۔ پانچ برس پہلے ریٹائر ہونے سے قبل ملک میں سیاسی تبدیلیاں لانے والے جنرلز میں وہ بھی شامل تھے اور یوں سیاسی مخالفین اور سوال پوچھنے والے صحافیوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنے والوں میں بھی ان کا نام آتا تھا۔ اپنی بیٹی کا اغوا وہ انہی ابتر حالات کا شاخسانہ سمجھتے تھے۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ باپ بیٹا اور بہو میں لڑائی شدت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ جنرل صاحب کی اپنی حالت بھی اتنی اچھی نہیں تھی لیکن سابق فوجی ہونے کے ناطے وہ خاصے مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ البتہ اب ان کی جارحانہ اور فوجی جنرل والی رعونت سے بھر پور خُو میں خاصا فرق آ چکا تھا اور ان کی حالت ایک ہتھیار ڈالے ہوئے سپاہی کی سی تھی۔
جنرل صاحب اور ان کی فیملی کے ساتھ ساتھ اغوا شدہ لڑکی کی تلاش میں سرگرم تمام اداروں کے لئے ایک بات بڑی تکلیف دہ تھی اور وہ یہ کہ اغوا کاروں کی طرف سے اب تک کسی قسم کی کوئی ڈیمانڈ نہیں کی گئی تھی بلکہ ان کی طرف سے کس قسم کا کوئی پیغام بھی نہیں آیا تھا۔ ان اداروں نے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے تمام تر طریقے بروئے کار لاتے ہوئے اغوا کاروں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اب تک ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی تھی۔ جنرل صاحب نے اپنی شناسائی اور تعلقات استعمال کرتے ہوئے ایک فہرست بھی تیار کر کے اداروں کے حوالے کر دی تھی۔ یہ فہرست ان افراد کی تھی جو ان کے دور بربریت میں ان کے حکم پر بہیمانہ ظلم و ستم کا شکار ہوئے تھے۔ لیکن پولیس اور اداروں کے ہاتھ کچھ بھی نہ لگا کہ ان میں سے بے شمار لوگ تو ملک سے باہر جا چکے تھے۔ کئی مر چکے تھے اور جو باقی بچے تھے ان میں بھی اکثریت معذوری کی زندگی گزار رہے تھے۔ مختصر یہ کہ تلاش بسیار کے باوجود اداروں کے ہاتھ کچھ نہ لگا۔
پھر یوں ہوا کہ اچانک خاموشی چھا گئی۔ لفافے آنا بند ہو گئے۔ جوں جوں دن گزرتے گئے جنرل صاحب کی اذیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ ایک- دو -تین- چار- پانچ دن گزر گئے اور نہ ان کی پوتی کی کوئی خبر ملی اور نہ ہی کوئی لفافہ ملا۔ جنرل صاحب کے اعصاب اب جواب دے گئے تھے۔ وہ ٹوٹ گئے تھے۔ پھر دوستوں خیر خواہوں اور حساس ادارے کے مشورے پر جنرل صاحب ٹی وی پر آئے اور رو روکر اپنی پوتی کی زندگی کی بھیک مانگی۔ اغوا کاروں کے لئے عام معافی کا وعدہ کیا اور ان کو منہ مانگا تاوان ادا کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ کیمرے کے سامنے بولتے ہوئے جنرل صاحب رو پڑے بلکہ سارا پیغام بھی رو رو کر ریکارڈ کروایا۔
اذیت سے بھر پور ایک اور ہفتہ بغیر کسی قسم کی پیش رفت کے گزر گیا۔ اس عرصے میں جنرل صاحب کے اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ تعلقات اس حد تک پہنچ گئے کہ بیٹے نے باپ کو گھر سے نکال کیا۔ جنرل صاحب تو ویسے بھی ٹوٹ چکے تھے، اس حادثے نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور وہ ہسپتال پہنچ گئے۔ چند دن تو مار فین کے زیر اثر ذہنی دباؤ کی کمی سے حالت قدرے بہتر ہوئی لیکن پھر ہوش میں آتے ہی اپنی پوتی کا پوچھا جس کا خاطر خواہ جواب نہ ملا تو جنرل صاحب مرجھا سے گئے۔ اسی رات ان کو دل کا دورہ پڑا اور ان کی جان کے لالے پڑھ گئے۔
اس خبر نے بیٹے کے دل میں باپ کے لئے کوئی نرم گوشہ پیدا نہ کیا کہ وہ بیٹی کی گمشدگی کا ذمہ دار صرف اور صرف اپنے باپ کو سمجھتا تھا۔
ایک ہفتہ حالت نزع میں رہنے کے بعد جنرل صاحب کی حالت اچانک سنبھلنے لگی۔ ڈاکٹرز ان کی حالت میں اس غیر متوقع تغیر پر خوش تو تھے لیکن حیران بھی تھے۔ دو تین دنوں میں جب ان کی حالت پہلے سے کئی بہتر ہو گئی اور انھوں نے آنکھیں کھولیں تو ان کا بیٹا ان کے سامنے کھڑا تھا اپنی بیٹی کے ساتھ۔
جنرل صاحب کی نظریں اپنی پوتی کے چہرے پر سے پھسلتے ہوئے اس کے صحیح و سالم ہاتھوں پر آ کر پتھرا گئیں۔
٭٭٭