تم دھوپ سے نہ دھوپ کی یلغار سے بچو
دیوار گرنے والی ہے دیوار سے بچو
رکھ دے نہ کاٹ کر کہیں سارے وجود کو
خود ساختہ اناؤں کی تلوار سے بچو
وہ دل کا ٹوٹنا تو کوئی واقعہ نہ تھا
اب ٹوٹے دل کی کرچیوں کی دھار سے بچو
یہ ڈھنڈی چھاؤں شوقِ سفر ہی نہ چھین لے
ہر راستے کے نخلِ سایہ دار سے بچو
ایسا نہ ہو کہ بوجھ سے سر ہی نہ اٹھ سکے
٭٭تم بھیک میں ملی ہوئی دستار سے بچو
٭٭٭