اک ترے وصل کے موسم کے سوا ہاتھوں میں
مستقل کوئی بھی لمحہ نہ رہا ہاتھوں میں
تیری خواہش میں فقط ہاتھ اٹھا لیتا ہوں
اور پھر خود ہی ابھرتی ہے دعا ہاتھوں میں
سوچ رکھا ہے تجھے دل میں بساؤں ایسے
جیسے ہوتا ہے مقدّر کا لکھا ہاتھوں میں
ساتھ چلنے سے بنا کرتے ہیں دل کے رشتے
کون ورنہ لئے پھرتا ہے وفا ہاتھوں میں
میں نے بانٹی تھی اجالوں کی تمنّا دل کو
لکھ دیا کس نے اندھیروں کا پتا ہاتھوں میں
جب بھی تقدیر سے ہٹ کر تجھے سوچا ہم نے
دل کا ہر خواب الجھتا ہی گیا ہاتھوں میں
عمر بھر پھر نہ اکیلا کبھی ہونے پایا
ہاتھ اک بار فقط اس نے دیا ہاتھوں میں
جیسے اک نام کے لکھنے سے مہک اٹھتی ہے
اب بھی کیا ویسے مہکتی ہے حنا ہاتھوں میں
چھین لے جائے نہ قسمت کی سیاہی ثامرؔ ؔ ؔ
مت لکیروں کی طرح اس کو چھپا ہاتھوں میں
٭٭٭