تانیثیت، نسائیت اور آزادیِ نسواں، جیسی مماثل اصطلاحوں سے متعلق اردو میں اطلاقی نوعیت کی تحریریں گذشتہ دو دہائیوں میں بڑی تعداد میں جمع ہو چکی ہیں۔ لیکن چونکہ نظری طور پر ان اصطلاحوں کی جزوی تفریق پر بہت کم لکھا گیا ہے اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے بالعموم ان تمام اصطلاحوں کو مترادفات کی حیثیت سے ادبی مباحث کا حصہ بنا لیا ہے۔ اس لیے Feminism یا تانیثیت کے بنیادی تصوّرات کو نسائیت یا آزادیِ نسواں سے الگ کر کے دیکھنے کی ہنوز ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ نسائیت کو ہم زیادہ سے زیادہ زنانہ پن کا ہم معنی قرار دے سکتے ہیں، جس کی تلاش کو تانیثیت پسند مصنفین پوری طرح مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نسائیت اور زنانہ پن کو جس طرح مردانہ پن سے الگ کر کے دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کا محرک مرد اساس معاشرے کے وہ مفروضات یا مسلمات ہیں جو مردوں کے بنائے ہوئے ہیں اور ان ہی بنیادوں پر عورتوں کے لیے نازک دلی، رقیق القلبی، شرم و حیا یا ضد اور ہٹ دھرمی کی صفات کو اس طرح مخصوص کر دیا گیا ہے کہ ان صفات کے وسیلے سے بہ ظاہر ترحمانہ نصف بہتر کا تصوّر اُبھرتا ہے، مگر اصل میں ان کے پیچھے عورت کے کمزور، کم عقل اور قابلِ رحم ہونے کے مضمرات شامل ہوتے ہیں۔ جہاں تک آزادیِ نسواں کا سوال ہے تو یہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے نصف اوّل کا وہ وقت طلب، بول اور رومانی انداز فکر تھا جس کے زیرِ اثر مجبور اور زیردست عورت کو ہر طرح کی فکری اور عملی آزادی کا سبق پڑھایا گیا تھا۔ تانیثیت کی اصطلاح زیادہ سے زیادہ نصف صدی پرانی اصطلاح ہے، جس کے کچھ بنیادی مقدمات ہیں۔ ان مقدمات پر ایک نگاہ ڈالے بغیر تانیثیت کی اصطلاح کے ساتھ نہ انصاف ممکن ہے اور نہ اس کو ادبی تشریح و تعبیر میں پوری طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ہم نے اردو میں تانیثیت کی اصطلاح کو عموماً ڈھیلے ڈھالے معنوں میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور عورت سے متعلق رائج مفروضات کی تلاش و جستجو کو اکثر تانیثیت کا نام دیا ہے۔ چنانچہ تانیثیت کے نام سے جو تنقیدی جائزے لیے جاتے ہیں ان میں یا تو عورت کے بارے میں رائج تصوّرات اور مرد اساس معاشرے کے ان مفروضات کو عورتوں کے تخلیق کردہ متن میں تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو مردوں کے اپنے قائم کردہ یا عورتوں سے منسوب کردہ صفات سے عبارت ہیں۔
یوں تو مغرب میں نسائی جد و جہد کی تقریباً دو سو سال کی تاریخ ہے، جس کو مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا رہا۔ تاہم نسائیت کے تصوّر کی بنیادیں استوار کرنے میں ان تحریروں کا بھی اہم کردار ہے جو انیسویں صدی میں ہی منظرِ عام پر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ ویسے ورجینیا وولف نے 1929 میں اپنی کتاب "A Room of ones own” اور دوسرے مضامین میں عورتوں کی شناخت کے مسئلے پر بعض بنیادی باتیں لکھی تھیں۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد جب سیمون دی بوائر نے "Second Sex” لکھی، تو گویا عورت کو باقاعدہ مرد کے متوازی طبقے کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کی اور عورتوں کے بارے میں رائج مفروضات کو عورتوں کی بطور طبقہ شناخت میں سب سے بڑی رُکاوٹ بتایا۔ اس کتاب میں سیمون دی بوائر کا لب و لہجہ کچھ ایسا غیر متوقع اور غیر رسمی تھا کہ ان کے ساتھی اور شریکِ زندگی سارتر جیسے روشن خیال دانش ور نے بھی زیادہ پسند نہیں کیا تھا۔ اس کتاب میں سیمون کا کہنا تھا کہ عورت پیدائشی طور پر ہمارے طے کردہ صفات کی حامل نہیں ہوتی بلکہ پدری معاشرے یا Patriarchal society میں وہ عورت بنا دی جاتی ہے اور رفتہ رفتہ وہ بھی خود کو ان ہی صفات سے متصف سمجھنے لگتی ہے جو مردوں کی طرف سے ان کے ساتھ وابستہ کر دی گئی ہیں۔ یوں تو Kate Millet نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب "Sexual Politics” میں اِن تمام مضمرات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے اور سگمنڈ فرائڈ کے تصورِ تحلیل نفسی سے لے کر ڈی۔ ایچ لارنس تک کی تحریروں کا جائزہ لیا ہے اور بتانے کی کوشش کی ہے کہ مردانہ تصو ّرِ زن کے اثرات عورتوں کے بارے میں فلسفیانہ یا نفسیاتی تصوّرات میں ہی نہیں بلکہ ادبی اظہار میں بھی کیوں کر تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں جولیا کرسٹوا اور سوزان سونتاگ کے نقاط نظر اب اتنے عام ہو گئے ہیں کہ صحیح معنوں میں ان ہی نقاط نظر نے Feminism کے بنیادی مقدمات کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔
لیکن تانیثیت کے بنیادی مقدمات کی تفہیم کا حق صرف اسی طرح ادا کیا جا سکتا ہے کہ ہم اسے کسی تحریک یا رجحان سے زیادہ ایک طرزِ قرأت یا اندازِ مطالعہ سے تعبیر کرنے کی کوشش کریں۔ اس پس منظر میں اس حقیقت سے کسی بھی ادبی اور لسانی معاشرے میں انکار مشکل ہے کہ جو ادبی متن تخلیق یا تیار کیا جاتا ہے وہ اگر مردوں کا تخلیق کردہ متن ہے جب بھی اور اگر عورتوں کا تخلیق کردہ متن ہے تب بھی، اس میں پدرانہ معاشرے میں رائج عورتوں سے متعلق تصوّرات کی افراط ہو گی۔ تانیثیت پسند مصنّفین کا کہنا ہے کہ کسی پدری معاشرے میں زندگی گزارنے کا ہی نہیں بلکہ سوچنے سمجھنے تک کا انداز مرد اساس ہوتا ہے۔ اس میں اس بات کی مطلق پرواہ نہیں کی جاتی کہ مردوں کے لکھے ہوئے متن کو ایک عورت کے نقطۂ نظر سے بھی دیکھا گیا ہو گا۔ مگر یہاں تو عورت کے نقطۂ نظر کا مسئلہ بھی خاصا وضاحت طلب ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ ایک پدرانہ معاشرے میں عموماً ایک عورت بھی مرد کے نقطۂ نظر سے نہ صرف زندگی گزارتی ہے بلکہ اس کے سوچنے سمجھنے کا انداز بھی مرد اساس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ اس صورت حال میں عورت کے لیے بھی اپنے اندر مردوں کے قائم کردہ تصوّراتِ زن سے نجات حاصل کرنا اور ان کے متن میں ان عناصر کی نشان دہی کرنا جو طبقہ اناث کی فطری سوچ پر مبنی ہو۔ پورے نظامِ فکر اور رائج زاویہ نظر کی تبدیلی کا متقاضی ہے۔ ظاہر ہے کہ طبقہ اناث کی فطری سوچ کو عورت کی عزّت نفس، طبقاتی یا Gender Base شناخت سے مربوط کیے بغیر کسی بھی متن میں ان مفروضات اور تعصبات کی نشان دہی نہیں کی جا سکتی جو عورت کے خلاف جاتے ہیں اور تانیثیت اسی نشان دہی کا دوسرا نام ہے۔
شاید اس وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں کہ مردوں کی قرأت متن کا انداز اس پس منظر میں عورتوں کی قرأت متن سے مختلف ہو گا۔ تاہم یہ دیکھنے کی ضرورت بھی ہو گی کہ انداز قرأت کا یہ فرق نہ صرف یہ کہ محض مردانہ صفات کی شناخت پر مبنی نہ ہو گا زنانہ صفات کی تفریق کے ہم معنی ہو گا۔ اس لیے کہ مرد کے تخلیق کردہ متن میں پدرانہ معاشرے کے مسلمات کی بالادستی کے باعث ایسے تعصبات کا پایا جانا ناگزیر ہے جو عورت کے خلاف جاتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر ہم ایک لاطینی امریکی مصنفہ وکٹوریا اوکامپو (Victoria Ocampo) کے اس اقتباس کو سامنے رکھیں تو طرزِ قرأت کے اس فرق کو زیادہ بہتر طریقے پر سمجھا جا سکتا ہے:
’’زمانۂ حال تک ہم، عورتوں کے بارے میں مرد گواہوں سے سنتے آئے ہیں۔ وہ گواہ جس کو کوئی بھی عدالت گواہی کی اجازت نہیں دے گی، جس کی گواہی مبنی بر تعصّب سمجھی جائے گی۔ خود عورت نے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔ اور اب عورت پر اس بات کا دار و مدار ہے وہ اس نامعلوم بر اعظم کو دریافت کرے جس کی وہ نمائندہ ہے، بلکہ اپنی ذاتی حیثیت سے مشکوک معاون کے طور پر مردوں کے بارے میں بھی بات کرے۔‘‘
چنانچہ اگر عورت کی اپنی کوئی بھی حیثیت ہے تو اس کو اس بات کا حق تو ہونا ہی چاہیے کہ وہ مطالبہ کر سکے کہ ایک متن کو بھی مرد و زن سے متعلق مفروضات یا مسلمات سے بلند ہو کر پڑھا جانا چاہیے۔ جولیا کرسٹیوا نے تو اس بحث کو مختلف فلسفوں اور سماجی تعبیرات کے حوالے سے بھی پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا تو یہ تک کہنا ہے کہ کارل مارکس کی قائم کردہ سماجی طبقاتی تقسیم محض سماجی اور معاشی طور پر انسانی معاشرے کی عمودی یا Vertical تقسیم کو دکھاتی ہے مگر جنسی یا صنفی طور پر جو زن و مرد کی طبقاتی تقسیم ہے وہ در اصل افقی یا Horizental ہے اور یہ تقسیم زیادہ آفاقی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ اس لیے مارکسزم بھی عورت اور مرد کے درمیان طبقاتی تفریق قائم نہ کر کے ایک نامکمل اور محدود طبقاتی نظام کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف وہ محض پیداوار یا Production کی بنیاد پر اپنی فکری عمارت تعمیر کرتی ہے Re-production کی اس اہمیت کا احساس تک نہیں رکھتی جس کا دارومدار عورت پر ہے۔ ظاہر ہے کہ جنس کے بجائے، عورت اور مرد کی Gender Based طبقاتی تقسیم، سماج کی مارکسی تقسیم سے کہیں زیادہ بنیادی اور جبلّی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے کریسٹوا کا کہنا ہے کہ مرد اساس معاشرہ نہ تو پوری طرح عورت کے انفرادی تجربے اور ادراک کا شعور رکھتا ہے اور نہ پدرانہ معاشرے میں دور تک سرایت کیے ہوئے تعصبات سے الگ تانیثی انداز قرأت کا ثبوت فراہم کر سکتا ہے۔
تانیثیت پسند مصنّفین کا موقف یہ بھی ہے کہ مردوں کی طرف سے بھی عورتوں کے لیے تخلیق کردہ متن کو تفریقی انداز میں پڑھنا اور اس کی تعبیر کرنا مربّیانہ نہیں بلکہ برابری کی سطح پر ہونا چاہیے۔ چنانچہ جب تک متن کا مطالعہ اس طرح نہ کیا جائے کہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ متن میں جنسی تفریق پر مبنی جو تصوّرات یا مفروضات یا تعصبات ہیں ان کی نوعیت کیا ہے اور ان کے محرکات کیا ہیں، کہیں یہ تصوّرات محض جنسی تفریق پر مبنی تو نہیں، ایسی تفریق پر جو عورت کو بطور طبقہ تسلیم ہی نہ کرتی ہو، تانیثیت پسندوں کے مطمح نظر کے مطابق کچھ تجربات صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی ایسے معاشرے میں جو اس حد تک پدری نظام کا زائیدہ اور مردوں کے جنسی تعصبات پر مبنی ہو، ان تک مرد قاری کا پہنچنا قریب قریب نا ممکن ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں میں جہاں عورت بھی خود تعبیر متن کا حوصلہ نہیں رکھتی یا تو وہ مردوں کی تعبیرات کو قبول کرتی ہے یا پھر اس کو کسی اور طرح کے الفاظ میں دُہراتی رہتی ہے۔ تانیثیت کا نقطۂ نظر اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ عورتوں کے بارے میں جو اسٹیریو ٹائپ معاشرے میں رائج ہے اور جس طرح اس کا اظہار ادبی متن میں بھی ہوتا رہتا ہے، اس کا تجزیہ کیا جائے اور اس کے رائج ہونے کے محرکات کے ساتھ اس کی صداقت یا عدم صداقت کا پتہ لگانے کی کوشش بھی کی جائے۔ تانیثی تنقید در اصل عورت کو نہ صرف ادب میں اس کا صحیح مقام دلانا چاہتی ہے بلکہ عورت کے نقطۂ نظر کے فقدان کی تلافی بھی کرنا جانتی ہے۔ ماضی قریب میں چوں کہ مغرب میں شعوری طور پر مردوں کے تخلیق کردہ متن سے مختلف متن، عورتوں نے تیار کرنے پر توجہ صَرف کی ہے۔ اس لیے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عورت کے لکھے ہوئے متن کو مرد نہ تو پوری طرح سمجھ سکتا ہے اور نہ اس کے مضمرات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ تانیثیت پسند مصنّفین کا کہنا ہے کہ پدرانہ معاشرے کے معتقدات اور رائج تصوّرات، اس وقت تک ایک عورت کے لیے مبنی بر تعصب بن جاتے ہیں جب وہ اس معاشرے میں تخلیق ہونے والے متن کا مطالعہ بہ طور طبقہ (Gender) ایک عورت کی امیج یا کردار کے ساتھ انصاف کی تلاش و جستجو کرتی ہے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ اندازِ فکر کی کسی معمولی تبدیلی سے اس کا حق ادا ہی نہیں ہو سکتا، اس لیے اس طرزِ فکر کے برخلاف اور متوازی اب ایک نوع کے Paradigm Shift کی ضرورت ہے۔
تانیثیت، کے بنیادی مقدمات کی روشنی میں تانیثی تنقید کا بنیادی موقف بالکل واضح ہو جاتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کی ضرورت باقی رہتی ہے کہ ماضی کے متن سے جنسی تعصبات پر مبنی عناصر کا اخراج کیوں کر کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مغرب کی یونیورسٹیوں میں متعدد ایسی کوششیں تانیثیت پسندوں کی طرف سے ہوئی ہیں اور آج بھی ہو رہی ہیں، تاکہ کلاسیکی شعر و ادب کو تانیثی انداز قرأت سے گزار کر ایسے متون سے جنسیاتی تفریق اور طبقاتی تعصبات کو کسی طرح منہا کیا جا سکتا ہے۔ اس نوع کی بعض کوششیں پاکستان کی تانیثی تنظیم ’وعدہ‘ کے پلیٹ فارم سے سامنے آنے لگی ہیں۔ اس ادارے میں شامل فہمیدہ ریاض، خالدہ حسین اور فاطمہ حسن نے خاموشی کی آواز اور اردو ادب کی تانیثی ردّ تشکیل کے نام سے متعدد کتابیں شائع کی ہیں، جن میں ڈپٹی نذیر احمد، پریم چند، قرۃالعین حیدر، عصمت چغتائی اور بعض دوسرے مرد اور عورت مصنّفین کے متن کی تانیثی رد تشکیل (یعنی ان کو Deconstruct) کرنے کی بہت کامیاب کوششیں کی ہیں۔
اگر تانیثیت کو محض رسمی طور پر نسائیت یا زنانہ پن کی تلاش سے الگ اس کے مخصوص دائرۂ کار تک محدود رکھا جائے تو ہم کسی بھی متن کو نمونہ بنا کر تانیثی نقطۂ نظر سے اس کی رد تشکیل کر سکتے ہیں۔ زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے عملی اطلاق کے نمونے کے طور پر ایک ایسی نظم کو پیش کیا جا سکتا ہے جو ایک مرد، درگا پرشاد سرور جہان آبادی نے ’پدمنی‘ کے عنوان سے لکھی تھی۔ سرور نے پدمنی کے کردار کے ساتھ اپنی پوری نظم کو بھی عظمت، عفت اور پاکیزگی کا نمونہ بنانے کی کوشش کی ہے اور پدمنی جو در اصل علاء الدین خلجی کے زمانے کی ایک ایسی عورت ہے جو سپاہ گری اور شوہر کی ہلاکت کے بعد بے دست و پا ہو کر رہ جاتی ہے۔ بالآخر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی عصمت و عفت کے تحفّظ کی خاطر آگ کے شعلوں میں جلنا گوارہ کرتی ہے مگر کسی غیر مرد کی چیرہ دستیوں کا شکار نہیں بننا چاہتی۔ درگا پرشاد سہائے نے پدمنی کو وفا کی دیوی اور عصمت و عفت کی ملکہ جیسے القاب سے نوازا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ صفات خود عورت کے لیے بھی بطور ایک طبقہ قابلِ شناخت ہیں بھی یا نہیں۔ کیا یہ صفات عورت کے لیے ہی مخصوص ہیں؟ کیا مرد کا با عصمت ہونا، پاکیزہ ہونا، ظلم و جور کے ساتھ کسی بے قصور خاتون کا اپنا لقمہ ہوس بنا لینا، کچھ مثبت یا قابلِ تعریف صفات ہیں؟ اب ذرا پدمنی، نظم کے دو بند ملاحظہ کیجیے:
عندلیبوں کو ملی آہ و بکا کی تعلیم
اور پروانوں کو دی سوز فضا کی تعلیم
جب ہر اک چیز کو قدرت نے عطا کی تعلیم
آئی حصے میں ترے ذوقِ فنا کی تعلیم
نرم و نازک تجھے اعضا دیے جلنے کے لیے
دل دیا آگ کے شعلوں پہ پگھلنے کے لیے
رنگ تصویر کے پردے میں جو چمکا تیرا
خود بخود لوٹ گیا جلوۂ رعنا تیرا
ڈھال کر کالبد نور میں پتلا تیرا
ید قدرت نے بنایا جو سراپا تیرا
بھر دیا کوٹ کے سوز غم شوہر دل میں
رکھ دیا چیر کے اک شعلہ مضطر دل میں
ان مصرعوں سے اندازہ ہوتا ہے گویا عورت کی بنیادی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنے وجود کو دوسرے ہی نہیں بلکہ دوسرے مرد یا شوہر کے وجود کے لیے قربان کر دے۔ اس نظم کا شاعر اس حد تک مردوں کے ذریعے طے کردہ زنانہ صفات سے مشروط ہے کہ اس سے الگ ہو کر کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔ تمہید یہ قائم کرتا ہے کہ جب خالق کائنات نے اپنی مخلوق کی جبلّتوں کا تعین کیا تو جس طرح بلبل کو آہ و بکا کی صفت عطا کی، اسی طرح پروانوں کو شمع کے عشق میں جل مرنے کی جبلت کا تعین کیا۔ علی ھٰذالقیاس عورت کو اس حد تک ضمنی اور مرد پر انحصار کرنے والی مخلوق بنایا کہ اس کی بنیادی صفات وفا، یا عصمت، یا پاکیزگی، یا قربانی یا جذباتیت سے اسے سرشار کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اے پدمنی تم صرف اور صرف اپنے شوہر کی چِتا پر جلنے کے لیے بنائی گئی اور تمھارے نرم و نازک اعضا صرف اس لیے بنائے گئے کہ وہ آسانی سے شوہر کی عزّت کی بقا کی خاطر جل کر خاکستر ہو سکیں۔ مزید یہ کہ تم کو دل بھی صرف اس لیے عطا ہوا کہ وہ عشق کے شعلوں سے تابندہ ہونے کے بجائے آگ کے شعلوں میں پگھل جائے اور اس طرح تم مردوں کی نصف ثانی یا نصف بہتر ہونے کی حیثیت مرد اساس معاشرے کی عظمت کی نمائندہ بن جاؤ:
ناز آیا ترے حصے میں ادا بھی آئی
جاں فروشی بھی محبت بھی وفا بھی آئی
یا ایک اور ٹیپ کے بند میں وہ کہتے ہیں کہ:
آگ پر بھی نہ تجھے آہ، مچلتے دیکھا
تپش حسن کو پہلو نہ بدلتے دیکھا
اگرچہ اس نظم کا تاریخی پس منظر نہ بھی ہوتا جب بھی نظم اپنی کلیت میں عورت کی اس قربانی کی تمثیل بنائی گئی ہے جو صرف اور صرف مرد کے لیے باعث تسکین ہو سکتی ہے۔ اگر تاریخی سیاق و سباق کو الگ کر کے اس نظم کو پڑھا جائے تو اس سے زیادہ ہیبت ناک تصویر اُبھرتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا پوری نظم میں ستی کی رسم کی پُر زور تائید کر کے مردوں کے معاشرے کی نہایت شقی القلب اور ظالمانہ تصویر کھینچنے کی کوشش کی گئی ہے۔
https: //adbimiras.com/tanisiyat-ke-bunyadi-muqadmat-prof-abul-kalam-qasmi/
٭٭٭