(’دَخمہ‘ مجموعے کا ’ابتدائیہ‘)
بیگ احساس کے افسانوں کے تیسرے مجموعے ’’دَخمہ‘‘ کے سارے کے سارے افسانے، افسانہ نگار کی اس انوکھی تدبیر کاری کی عطا ہیں، جسے بیسویں صدی کے ساتویں دہے سے مخصوص جدیدیت کے تحریک کے رد میں اٹھنے والی آوازوں کا ردّ عمل بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور تخلیقی سطح پر جینے کا جتن بھی۔ وہ یوں کہ بیگ احساس کا تعلق بھی ستر ہی کے دہے سے ہے، لیکن وہ جدیدیت کی تحریک سے الگ تھلک رہے۔ نہ ’شب خون‘ الہ آباد میں دکھائی دئیے، نہ اوراق، لاہور میں لیکن انھیں صرف و محض سادہ بیانیہ کبھی نہیں بھایا۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے سیدھے سبھاؤ تشکیل دئیے گئے بیانیہ کے اندر پرت در پرت کئی ایک تہیں جما کر کامل علامتی، استعاراتی، کیوبسٹک اور تجریدی افسانہ لکھنے کی بجائے ایک ایسا تہہ دار بیانیہ تشکیل دیا، جس میں معنویت کی کئی ایک پرتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
بیگ احساس کے اس جتن کو قدرے پیچھے ہٹ کر دیکھنا پڑے گا، جب ستّر کے دہے میں میرے ہم راہی: رشید امجد، منشا یاد، اسد محمد خاں، ظہور الحق شیخ، مظہر الاسلام، احمد داؤد، علی تنہا، ذکاء الرحمن پاکستان میں اور سلام بن رزاق، نیر مسعود، قمر احسن، انور قمر، علی امام اور عبد الصمد بھارت میں، علامتی، استعاراتی، اور تجریدی افسانہ لکھ رہے تھے۔ تب ترقی پسند تحریک کی نمائندہ آواز عصمت چغتائی نے استہزایہ: ’’سانپ کے تلوے‘‘ اور غیر وابستہ افسانہ نگاروں کے سرخیل ممتاز مفتی نے افسانہ ’’کٹ پیس‘‘ لکھ کر ہم لوگوں کا مضحکہ اڑایا تھا۔ احمد ندیم قاسمی نے مجلہ ’’فنون‘‘ لاہور میں سیفٹی والو لگا رکھا تھا، علامت، استعارے اور تجرید پر اور ہمارے افسانوں کے مقابل انھیں تیسرے درجے کے سادہ بیانیہ افسانے مرغوب تھے۔ یہی کچھ نقوش، لاہور اور ’نیا دور‘ کراچی میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ ہمارے افسانوں کی اگر پذیرائی ہوئی تو ’شب خون‘ الہٰ آباد، اوراق، لاہور، سیپ، کراچی اور نئی قدریں، حیدرآباد (سندھ) میں۔ یا پھر، جواز، مالیگاؤں، شاعر، ممبئی، تحریک، دہلی، اسلوب، سہسرام، تخلیقی ادب، کراچی اور جہات، سری نگر نے اردو افسانے میں تکنیکی تجربات کو کھلے دل سے قبول کیا۔ اس کے بعد ترقی پسند تحریک کے گریٹ ماسٹرز کے چیدہ کام اور پانچویں چھٹے دہوں کے افسانہ نگاروں کے انگلیوں پر گنے جا سکنے والے افسانوں ’’چاپ‘‘ (رام لعل) ’سائے اور ہمسائے‘ اور پرندہ پکڑ نے والی گاڑی (غیاث احمد گدّی)، بیلا نائی رے جولدی جولدی، اور ڈاب اور بیئر کی ٹھنڈی بوتل (مسعودا شعر)، سوکھے ساون، اور پچھم سے چلی پُروا (ضمیر الدین احمد)، کو چھوڑ کر جدید افسانہ اس دور کے بڑے بڑے ناموں کو کھا گیا۔ اکثر نے تو لکھنا ہی چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی آیا جب جدید افسانے کے سب سے بڑے اعتراض کنندہ ممتاز مفتی نے ’’چکٹ گاڑی‘،ہونکتا ہوٹر اور موم بتی‘‘ کے عنوان سے پہلا علامتی اور تجریدی افسانہ قلم بند کیا، جو جدید ادب، خان پور کے افسانہ نمبر بابت فروری ۱۹۸۰ء میں رشید امجد، احمد داؤد اور میرے ا فسانوں کے ساتھ شائع ہوا۔ اس افسانے کے بعد انھوں نے ’’چوہا‘‘ اور ’’روغنی پتلے‘‘ کے عنوانات سے دو علامتی افسانے اور لکھے اسی طرح احمد ندیم قاسمی نے اپنا پہلا علامتی افسانہ ’’پہاڑ‘‘ کے عنوان سے لکھا جو ان کے آخری افسانوں میں سے ایک ہے۔ اشفاق احمد کے تین علامتی افسانے’’قصہ نل دمنتی‘‘، ’’بندر لوگ‘‘ اور ’’قصاص‘‘ لکھے۔ رحمان مذنب کا’’ خوشبو دار عورتیں‘‘ اور بانو قدسیہ کا ’’انتر ہوت اداسی‘‘ بھی اسی دور کی یادگار ہیں۔
مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ صرف و محض ناقدین سے ڈر کر تخلیق کار نئے امکانات سے ہاتھ کیسے روک لیتا ہے۔ بیسویں صدی کے آٹھویں دہے کے بعد ایسا کچھ بھی دیکھنے کو ملا، جب ڈاکٹر جمیل جالبی کا علامتی، استعاراتی اور تجریدی افسانے کے خلاف ’’اوراق‘‘ لاہور میں شائع شدہ واحد مضمون شائع ہوا، جس میں ابلاغ کے عنقا ہو جانے کا دکھڑا اس شد و مد کے ساتھ رویا گیا کہ افسانہ بھوسے کا ڈھیر ہو کر رہ گیا۔ کثیر العباد افسانے کی جگہ سیدھی سادہ کہانی سے مخصوص یک سطحی سادہ بیانیہ نے لے لی۔ جب کہ آٹھویں دہے سے متعلق ایک استثنائی مثال سید محمد اشرف (افسانوی مجموعہ’’ باد صبا کا انتظار‘‘) کی ہے۔ سبحان اللہ! کیا افسانے لکھے انھوں نے کہانی پن کی جستجو میں دُبلے ہو جانے والے افسانہ نگار، جید ناقدین کو لبھانے کی خاطر یک سطحی سادہ بیانہ لکھ رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ انھیں صرف و محض زبانی شابشی ہی میسر آئے گی اس لیے کہ کوئی بھی ناقد بھوسے کے ڈھیر پر مہر تصدیق کرے تو کیسے؟
بیگ احساس کے افسانوں پر بات کرنے سے پہلے یہ چند معروضات اس لیے بھی ضروری خیال کیں کہ ساتویں دہے میں اپنے عروج کو پہنچ جانے والی جدیدیت کی تحریک اور بیسویں صدی کے آٹھویں دہے کے وسط تا حال اسے رد کرنے والے پینتیس سالہ دورانیے کے تجزیہ میں آسانی رہے۔
بیگ احساس کا تعلق بھی میری طرح اسی مقہور و مردود ستر کی دہائی سے ہے، جس میں جدید افسانہ نگار بھارت کے فیروز عابد، مظہر الزماں خاں، حسین الحق، شوکت حیات، حمید سہروردی، انور خاں، انجم عثمانی اور شفق بھی متحرک دیکھ گئے، نیز اکرام باگ تھے، جنھوں نے کیوبسٹک طرز کو اپنایا اور یکسر ناکام رہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بیگ احساس نے پانچ،چھے برس بعد افسانہ نگاری شروع کی اور اپنے لیے علامت، استعارہ اور تجرید کی بجائے کچھ الگ بطور Tool کے برتا، وہ ’’الگ‘‘ کیا تھا، اس پر بھی بات کرتے ہیں لیکن پہلے ایک اعتراف، اور وہ یہ کہ میں اس مجموعے میں شامل افسانے’’رنگ کا سایہ‘‘، ’’دَخمہ‘‘،’’ نمی دانم کہ‘‘، ’’دھار‘‘ پڑھ کر یکسر حیران رہ گیا اور بارہا افسوس کیا کہ بیگ احساس کے افسانے اس وقت میری نظر سے کیوں نہ گزرے، جب میں ’’افسانے کا منظر نامہ‘‘ (طبع اول ۱۹۸۱ء) پر ۱۹۷۵ء تا ۱۹۷۷ء کام کر رہا تھا۔ بیگ احساس، بلا شبہ ایک قابل توجہ افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں پر ایک سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو بھی ان کے افسانوں سے مخصوص جداگانہ ٹریٹمنٹ اور عہد موجود سے متعلق گہرا ادراک اور فراست کا ایک ایسا تال میل دکھائی دے گا، جس کے درج ذیل زمرے بنائے جا سکتے ہیں۔
۱) ماضی سے حال اور لمحہ موجود سے ماضی قریب اور ماضی بعید میں اُتر جانے کا عمل، افسانہ ’’دَخمہ‘‘، ’’رنگ کا سایہ‘‘، ’’کھائی‘‘ اور ’’سنگ گراں‘‘
۲) پرانی اور نئی نسل کا ٹکراؤ کئی ایک سطحوں پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ آزاد خیالی اور مذہبی جنونیت، نیز تہذیبی اقدار سے جڑت اور بے گانگی آپس میں ٹکراتے اور ٹوٹ کر شہاب ثاقب کی طرح جلتے بجھتے دکھائی دیتے ہیں جس کی نمایاں امثال ’’دَخمہ‘‘، ’’رنگ کا سایہ‘‘، ’’نمی دانم کہ‘‘ اور ’’دھار‘‘ جیسے افسانے میں۔
۳) سب سے بڑا ٹکراؤ حیدآباد (دکن) کے مسلم گھرانوں کے احساس تفاخر اور عصر نو کی نوجوان نسل کی معاشی الجھنوں سے پیدا شدہ سوچ کے بیچ ہے۔ (مثال: کھائی) اسی طرح ان کے شاہکار افسانے ’’رنگ کا سایہ‘‘ کا نوجوان مرکزی کردار اسی ٹکراؤ کے سبب ڈانواں ڈول ہے۔ جائے تو کدھر جائے۔
دیکھئے، ہر قابل توجہ قلم کار کی ایک اپنی تخلیقی شخصیت ہوتی ہے، جو اس کی تخلیقات میں جھلکتی ہے۔ کبھی واشگاف اور بعض اوقات پس پردہ۔ یہ دیکھا دیکھی کا عمل نہیں۔ اب بات کو ستر ہی کے دہے کے چند افسانہ نگاروں کی امثال سے واضح کر دوں۔ رشید امجد نے علامت نگاری تو کی، لیکن انھوں نے جس نوع کا تشبیہاتی انداز اپنے تجریدی افسانوں میں برتا، اس کا پرتو ہمیں منشا یاد، حمید سہروردی، اعجاز راہی، طاہر نقوی اور احمد داؤد کے ہاں بھی دیکھنے کو ملا۔ منشا یاد اور احمد داؤد نے اس سے کنارہ کر کے ہی اپنی اپنی شناخت وضع کی، جب کہ دیگر افسانہ نگاروں کو اس کا احساس تک نہ ہوا۔ نتیجہ ظاہر ہے۔
بیگ احساس، اپنے ہر افسانے میں اپنے علاقائی حوالوں اور نسبتوں کے ساتھ موجود دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاقائی حوالے حیدرآباد (دکن) سے متعلق سبھی قلم کاروں سے جداگانہ ہیں ماسوائے مکالماتی سطح پر اور نسبتیں، حیدرآبادی انگ کے۔ بول چال کی سطح پر یہ انگ تو نہیں بدلے گا، جیسے مغربی پنجاب سے مخصوص لہجہ، جو احمد ندیم قاسمی، غلام الثقلین نقوی اور منشا یاد کے ہاں یکساں ہے اور مشرقی پنجاب کا لہجہ،جو راجندر سنگھ بیدی، بلونت سنگھ اور رتن سنگھ کے ہاں یکساں ہے۔
بیگ احساس کی اصلی طاقت وہ علاقائی حوالے اور نسبتیں ہیں، جنھوں نے انھیں جدیدیت کی تند ندی سے بھی دور رکھا اور اکہرے بے رس بیانیہ سے بھی۔
مجموعہ ’’دَخمہ‘‘ میں شامل ہر ایک افسانے میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جو ’خاص‘ ہے جس کا تعلق ہمارے تہذیبی منطقے سے بھی ہے اور اکیسویں صدی کی کروٹیں لیتی زندگی سے بھی۔ ان افسانوں میں موجود گہری فراست، کسی نہ کسی معمول کی بات کے اندر سے پھوٹتی ہے اور پھر رفتہ فتہ پھیل کر اس معمول کی بات کے گرد ایک ہالہ سابن دیتی ہے۔ یہ خود رو عمل اندر ہی اندر، نا محسوس طور پر ہوتا ہے اور یوں معمول کی بات، غیر معمولی اور بالآخر بے مثل بن جاتی ہے۔ جیسے افسانہ’’دَخمہ‘‘ میں آزادی (۱۹۴۷ء) کے بعد بڑھتی ہوئی مذہبی لہر کیا اٹھی، ایک پارسی سہراب کا پشتینی میکدہ (1904ء MAI KADA Est.) مسجد سے ہمسائیگی کے سبب بند ہو گیا۔ یہ فی زمانا ایک معمول کی بات ہے۔ لیکن کیا سہراب کی موت کا یہی سبب تھا یا کچھ اور؟ پھر یہ کہ کسی بھی ذی روح کی موت ایک معمول کی بات ہے۔ غیر معمولی اس وقت بنی جب پتا چلا کہ میکدہ ۱۹۰۴ء میں قائم ہوا تو اس کے برابر میں مسجد تھی۔ تا دیر دونوں موجود رہے۔ اب میکدہ بند ہو گیا۔ کیوں؟ مسجد تو پہلے بھی تھی۔ یہ پہلے کیوں نا بند ہوا۔ وقت نے کروٹ لی۔ لوگوں میں روا داری ختم ہو گئی۔ سہراب کے پاس اللہ کا دیا بہت ہے۔ میکدے کے بند ہو جانے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تو کیا روا داری کا ختم ہو جانا اس کی موت کا سبب بنا؟ جب یہ سوال اٹھا تو بات کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ پارسیوں کی نسل تو یوں بھی ختم ہوتی جا رہی تھی۔ کیا اسی مرحلے پر میکدہ بند کروا دینا ضروری تھا؟ یہ سوال اسی تہذیبی رواداری کی کوکھ سے جنم لے سکتا ہے جو کبھی تھی اور اب نہیں رہی۔
دَخمہ گاتھی (Gothic) طرز تعمیر کا افسانہ ہے، جس میں عقائد، رسومات، روایات، تاریخ، سیاست اور انسانی روابط کے متعلقات کی محرابیں اک دوجے میں پیوست ہیں۔ اس افسانے میں جس فراست کے ساتھ حیدرآباد میں ملوکیت کے خلاف چلنے والی کمیونسٹوں کی تلنگانہ تحریک اور آزادی (۱۹۴۷ء) کے بعد پولیس ایکشن، نیز زبان کی بنیاد پر ریاستی حد بندیوں کا حوالہ دیکھنے کو ملتا ہے، اس طرح تو ابراہیم جلیس کی لانگ فکشن:’’دو ملک، ایک کہانی‘‘ میں بھی دیکھنے کو نہ ملا۔
’’پولیس ایکشن نے مسلمانوں کو حواس باختہ کر دیا تھا۔ مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم سے پوری قوم سنبھلی بھی نہ تھی کہ زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی نئی حد بندیاں کی گئیں۔ ریاست کے تین ٹکڑے کر دئیے گئے۔ برسوں گزر جانے کے بعد بھی دوسری ریاستوں سے جڑے یہ ٹکڑے ان کا حصہ نہ بن سکے۔ اپنی مستحکم تہذیب کی بنیاد پر ریاست کے یہ حصے ٹاٹ میں مخمل کے پیوند لگتے تھے۔
جس شہر کی تاریخ نہیں ہوتی اس کی تہذیب بھی نہیں ہوتی۔ نئے آنے والوں کی کوئی تاریخ تھی نہ تہذیب ایک مستحکم حکومت کا دار الخلافہ سیاسی جبر کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں آگیا۔ وہ پاگلوں کی طرح خالی زمینوں پر آباد ہو گئے۔
زمین بیچنا یہاں کی تہذیب کے خلاف تھا۔ شرما شرمی میں قیمتی زمینیں کوڑیوں کے مول فروخت کر دی گئیں۔ آنے والے زمینیں خرید خرید کر کروڑ پتی بن گئے۔
کسی کوٹھی میں صدر ٹپہ خانہ آگیا، کسی حویلی میں انجینئرنگ کا آفس، کسی حویلی میں اے جی آفس تو کسی حویلی میں بڑا ہوٹل کھل گیا۔ باغات کی جگہ بازار نے لے لی۔ لیڈی حیدری کلب پر سرکاری قبضہ ہو گیا۔ کنگ کوٹھی کے ایک حصے میں سرکاری دوا خانہ آگیا۔ جیل کی عمارت منہدم کر کے دوا خانہ بنا دیا گیا۔ رومن طرز کی بنی ہوئی تھیٹر میں اب بہت بڑا مال کھل گیا تھا۔ حویلیاں، باغات، جھیلوں اور پختہ سڑکوں کے شہر کی جگہ دوسرے عام شہروں جیسا شہر ابھر رہا تھا جس کی کوئی شناخت نہ تھی۔ ‘‘
پارسی گٹہ، کی تفصیل اور میت سے متعلق پارسی رسوم و رواج کی تفصیل بھی حیران کن ہے۔ افسانہ نگار، اپنے ہر افسانے میں اس نوع کی حیرانی بانٹتے چلے آئے ہیں لیکن طریقہ کار کے فرق کے ساتھ اس افسانے میں یہ کام شعور کی رو کو مہارت کے ساتھ برت کر کیا گیا۔ یوں ماضی اور حال اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ افسانے کا حصہ بنتے ہیں۔
’’یہ دَخمہ ہے۔ اس کی چھت درمیان سے اونچی ہوتی ہے۔ چھت پر تین دائرے بنے ہیں۔ مرد کی نعش اندرونی دائرے میں، عورت کی درمیانی دائرے میں اور بچوں کی نعش اندرونی دائرے میں رکھی جاتی ہے تاکہ ان پر تیز دھوپ پڑے اور گدھوں کو دور سے نظر آ جائے……… اسے سگ دید کہتے ہیں ۔ چار آنکھوں والا کتّا……… یہ سگ دید ہی آدمی کے نیک و بد ہونے کا کا فیصلہ کرتا ہے۔ ’’اور چاچا یہ گدھ کہاں سے آتے ہیں؟‘‘،’’ اگر فرش پھر چینی گر جائے تو چیونٹیاں کہاں سے آتی ہیں؟‘‘ چاچا نے سوال کیا اور اندر چلے گئے۔ ‘‘
زمانے کس طرح کروٹ لے رہا ہے؟ اس کی تفصیل نہایت عمدگی سے اس دورانیے میں بیان کی گئی ہے، جب سہراب کے اعزاء اور چند ایک شناسا دَخمہ کے اندر سہراب کی آخری رسومات میں مصروف رہے۔
میکدے میں بیٹھنے والا ایک ساتھی، جو امریکہ جا بسا تھا، بیس برس بعد لوٹ کر آیا تو حد درجہ ناسٹالجک ہو گیا تھا۔ پارسی گٹہ کے اندر تعمیر کردہ دَخمہ کی چھت پر سے جب تک گدھ، سہراب کی برہنہ نعش کو نوچ کر لے جائیں، افسانہ نگار ہمیں افسانہ کے راوی اور اس کے امریکہ پلٹ دوست کے ہمراہ سہراب کے گھر لے گئے۔ یہ ماضی قریب کی بات ہے جو حال کے بے رحم لمحات سے آکر جڑ گئی ہے اور پارسی گٹہ میں سہراب کی آخری رسومات جاری ہیں۔ معلوم ہوا کہ حیدرآباد آ کر بس جانے والے پارسی، سیکولر آصف جاہی سلطنت کے چرچے سن کر آئے تھے۔ یہاں انھیں خطابات سے نوازا گیا، نواب سہراب نواز جنگ، فرام جی جنگ، فریدون الملک، وہ شاہی دور تھا۔ آزادی ملی اور جمہوریت آئی تو اس رواداری کا خاتمہ ہوا۔ مسلمانوں کی شکایت پر میکدہ بند کر دیا گیا۔
پارسیوں کے گھٹ جانے کے سبب اب تو دَخمہ کی چھت پر گدھ بھی نہیں منڈلاتے۔ سہراب خوش نصیب تھا کہ جب اس کی برہنہ نعش دَخمہ پر رکھی گئی تو دور دور تک گدھوں کا نام و نشان نہ تھا، پر جانے کہاں سے گدھوں کا ایک جھنڈ دَخمہ کی طرف لپکا۔ بے شک، فرش پر چینی گر جائے تو چیونٹیاں آہی جاتی ہیں۔
افسانہ دَخمہ میں جس سوچ نے مسجد کی ہمسائیگی کے سبب میکدہ بند کروایا، وہی سوچ اب جنوبی ایشیاء کے مسلم گھرانوں کے دروازوں پر مہیب دستک بن گئی ہے۔ نائن الیون کو امریکن ٹریڈ سنٹر کی دو فلک بوس عمارات پر القاعدہ کے حملے نے عالمی معیشت، سیاست اور سوچ کے ڈھروں کو ایک نئی کروٹ دے دی۔ عراق اور افغانستان اتحادی افواج کا نشا نہ بنے تو اس کا رد عمل بالخصوص سوات اور فاٹا (پاکستان) اور مجمل طور پر ایران میں بہت شدید تھا۔ ہندوستان جیسا سیکولر جمہوری ملک بھی اس کی تپش سے جھلسا۔ بابری مسجد کے سانحے کارد عمل پاکستانی میں بہت شرمناک تھا۔ یوں تو ۱۹۴۷ء کے فسادات کے نتیجہ میں ہندوؤں اور سکھوں کے ہجرت کر جانے کے سبب پاکستان میں مندروں اور گوردواروں کو تالے پڑ گئے تھے، لیکن وہ زنگ آلود تالے بھی کہاں گوارا رہے۔ بڑی تعداد میں مندر گرا دئیے گئے، یہاں تک کہ لاہور کا جین مندر بھی۔
ہجوم کی بپھری ہوئی نفسیات عجب ہے۔ فائر بریگیڈ نے جب پشاور کے ایک چرچ سے اٹھنے والی آگ بجھا دی تو اگلے روز اس چرچ کے آگ میں جھلسے ہوئے دروازے پر ایک بورڈ آویزاں دیکھا گیا۔ جس پر لکھا تھا:
’’یہ وہ عبادت گاہ ہے، جس میں پاکستان کی سلامتی کی دعا مانگی جاتی تھی۔‘‘
بیگ احساس نے ایسے میں افسانہ’’دھار‘‘ کی صورت ہندوستان کا درجہ حرارت نوٹ کروانے کو ایک بہت معمولی سی بات کو چنا۔ جو ابتدا میں تو معمولی تھی، لیکن آخر کار غیر معمولی بن گئی۔ ایک ریٹائرڈ مسلم، جس نے ریٹائرمنٹ کے بعد نہ داڑھی بڑھائی، نہ تسبیح ہاتھ میں لے کر مسجد کا رخ کیا، اس وقت مخمسے میں پڑ گیا جب حسب معمول صبح اٹھ کر اس نے شیو بنانا چاہی تو اسے اس کی شیونگ کٹ مخصوص جگہ پر رکھی ہوئی نہ ملی۔ بس اتنی سی بات تھی۔
اس کے بیٹے نے سیاہ شرعی داڑھی رکھ چھوڑی تھی، جو اس کے لیے ناگوار خاطر تھی ۔ کٹر مذہبیت کی اپنے ہی گھر سے اٹھنے والی لہر اس کے لیے ایک مشکل بنتی جا رہی تھی۔ اس سے ایک ایسے ناسٹالجیا نے جنم لیا جو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے کھو جانے سے متعلق ہے سب مٹتا جا رہا ہے، یہ عمل کیسے تھمے؟ جو مٹ گیا، اس کی بازیافت کیوں کر ہو؟
اس نے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا کہ خود اپنے یا اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنا نے کی خاطر کسی یورپی ملک میں چلا جائے۔ اسے یہ گوارا نہیں کہ محض روپے پیسے کی خاطر دوسرے درجے کا شہری بن جائے۔ جب کہ اس کی اگلی نسل ایسا کچھ ہی چاہتی تھی اور یہ اس کے لیے سوہان روح بنتا جا رہا تھا۔
اس نے اپنا آبائی گھر اس لیے چھوڑا کہ وہاں رفتہ رفتہ پنپنے والی مذہبی منافرت، اس کی طرز زندگی پر کھلے طنز میں ڈھلنے لگی تھی۔ اس سے پہلے کہ طنز، قتل و غارتگری میں ڈھلے، چھوڑ دیا اس نے وہ علاقہ اور اٹھ آیا، خالص مسلم آبادی میں جہاں ہر نکڑ پر لمبے کرتے اور اونچے پاجامے پہنے، سروں پر ٹوپیاں اڑسے لمبی داڑھیوں والے بزرگ تھے۔ یا چلتے پھرتے سیاہ برقعے۔ یہاںمسلمانوں ہی کو راہ راست پر لانے والی تبلیغی جماعت کی ٹولیاں گھر گھر دستک دیتیں۔ پر اس کے معمولات میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی البتہ برسوں کے معمولات میں پہلا رخنہ تب پڑا جب اس کی بیوی نے الگ فرش پر بستر بچھا کر سونا شروع کر دیا اور پہلا دھچکہ یہ لگا کہ اس کے بیٹے نے شرعی داڑھی رکھ لی اور روپے پیسے کی خاطر یورپ کا رخ کیا۔ اس نے دل پر پتھر باندھ لیا۔ یہاں تک تو اس میں مزاحمت کی ہمت تھی لیکن غیر معمولی پن نے ایک جست آگے کو تب بھری جب اس کے بیٹے کو اس کے ظاہری حلیے کے پیش نظر یورپ کے ایئر پورٹ سے ہی واپس کر دیا گیا، اس شک کی بنا پر کے اس کی ہیئت کذائی بین الاقوامی دہشت گردوں سے ملتی جلتی تھی۔
کیا ان پر دنیا تنگ ہو رہی ہے؟ یہ وہ سوال تھا، جس کے سامنے اس کے معمولات زندگی کے ہی نہیں، اس کی بچی کھچی مزاحمت کے بخیے ادھڑ گئے۔ ایسے میں جب کئی روز بعد یورپ سے دھتکارے ہوئے بیٹے نے یہ کہتے ہوئے کہ ’’صرف داڑھی رکاوٹ بن گئی ہے پاپا….. یہ لیجئے آپ کا سیٹ تو وہ بولا: ’’نہیں ……اسے تم ہی رکھ لو۔‘‘
اس نے اپنی من چاہی زندگی گزارنا چاہی تھی، جس میں ناکام رہا۔ کٹر مذہبیت اور فرقہ واریت کی سخت مزاحمت کی لیکن اپنے ہی خون کی شکست، ناکامی اور پسپائی کو دیکھ کر وہ ڈھے گیا۔ اس نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا، اپنی بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور خیال کیا کہ کچھ بُرا تو نہیں لگ رہا، گوارا ہی تو ہے۔
افسانے کا یہ اختتامیہ لا تعداد سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا اس کی سوچ غلط تھی؟ کیا بیٹے کی صورت اپنے ہی خون کی یورپ میں Rejection اس کے لیے نا قابل برداشت ہو گئی؟ کیا اس نے بدلے ہوئے حالات کے آگے سر جھکا دیا؟ یا اس کا یہ فیصلہ اپنے جگر گوشے کو اپنی ہی دھرتی سے جوڑے رکھنے کی نئی تدبیر ہے؟ افسانے کو اس درجہ کثیر الجہات بنانا کچھ اتنا ارزاں نہیں۔
افسانہ’’نمی دانم کہ…..‘‘ میں بنیادی قضیہ کیا ہے؟ ایک معمول کی بات قبضہ گروپ نے ایک شریف آدمی کے مکان پر قبضہ کر لیا ہے۔ وہ جو نسلاً مغل ہے، لیکن اس پر کبھی گھمنڈ نہ کیا یونیورسٹی ٹیچر ہے اور اس کا ریٹائرمنٹ قریب ہے۔ اس سے قبل کہ ریٹائرمنٹ ہو جائے اور یونیورسٹی اس سے سرکاری کوارٹر خالی کروا لے، اپنا آبائی مکان جو والد گرامی نے کرائے پر اٹھا دیا تھا، کرایہ داروں سے خالی کروانا چاہتا ہے لیکن وہ کسی طور مان کر نہیں دیتے۔ سخت مشکل میں ہے۔ اللہ والوں سے رجوع کرنے کا سوچتا ہے اور نام پلی، کا رخ کرتا ہے۔ حیدرآباد (دکن ) کا وہ علاقہ، جہاں مرکزی ریلوے اسٹیشن تھا۔ نام پلی کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ عبد اللہ قطب شاہ کے دیوان سلطنت رضا قلی نیک نام خاں کے نام پر آباد ہوا۔ عوام نے نیک نام خاں، سے نام چنا اور اس کے ساتھ تلگو کا لفظ پلی جوڑ کر نام پلی بنا لیا۔ نامپلی میں ایک درگاہ تھی، جہاں جمعرات کے دن معمول سے زیادہ بھیڑ بھڑکا رہتا۔ لوگ فاتحہ خوانی کو بھی آتے اور درگاہ کے سجادہ نشین سے دعا بھی کرواتے۔
وہ وہاں پہلی بار گیا تھا۔ درگاہ میں حاضری کے اطوار سے یکسر نا بلد۔ بس ایک ہی جملے کا ورد کیے جا رہا تھا مجھے مکان واپس دلوا دیجئے۔
درگاہ سے ملحقہ مسجد کے صحن میں ’’اللہ ہو‘‘ کا ورد جاری تھا اور درگاہ کے سجادہ نشین کی وہاں موجودگی بھی ثابت تھی، لیکن مرادیں مانگنے والوں کا ایک اژدہام تھا۔ جب تک ان تک پہنچتا، حضرت نے قوالوں کی منڈلی کارخ کر لیا۔ قوالوں کو نذرانہ پیش کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہا۔ یہ دیکھ کر وہ اٹھ آیا۔ اگلے روز وہ حضرت قبلہ کے گھر چلا گیا کہ عرض گزار ے کسی نے اسے یہ بھی بتا دیا تھا کہ قابض کرایہ دار، حضرت قبلہ کے خاص مریدوں میں سے ہے۔ اب اس کی مشکل سوا تھی۔ سخت مضطرب، وہ دروازے میں جوتوں کے قریب بیٹھ گیا۔ دالان میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور حضرت بیان فرما رہے تھے ’’علم دو ہیں…..ایک علم ظاہر……دوسرا علم باطن …..‘‘ وہ کرے تو کیا کرے حضرت قبلہ کا بیان طول پکڑ گیا۔ تا وقتیکہ نماز کا وقت ہو گیا اور وہ حضوری سے ایک بار پھر محروم رہا۔
ایک یونیورسٹی ٹیچر کی اس سے زیادہ کیا تذلیل ہو سکتی تھی اسے اس مقام تک پہنچا کر معمولی استعداد کا افسانہ نگار نا کام و نامراد شخص کو متعلقہ درگاہ اور حضرت قبلہ کے گرد قائم شدہ عقیدت کے حصار سے متنفر دکھا سکتاتھا پر یہ ایک فطری لیکن حد درجہ معمول کا ادنی سا رد عمل ہوتا۔ افسانے کی بنیاد بننے والی ایک معمول کی بات معمول کے درجے سے اوپر نہ اٹھتی۔ قاری کو جھٹکا اس وقت لگتا ہے جب وہ اپنی دوسری ناکامی پر ان جعل سازوں، جنھوں نے اہل صوف کا مکھوٹا چڑھا رکھا ہے کی جانب قلبی جھکاؤ محسوس کرتا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ تصوف کی حقیقت سے نا آشنا ہے۔ یہودیت کے ’زہاد‘ عیسائیوں کی ’رہبانیت‘ مجوسیوں اور زرتشتوں کی فکر اور ویدانت کے فلسفے پر اس کی گہری نظر ہے۔ یہ جھکاؤ در حقیقت اس کی غرض کی شدت ہے۔ اس کا خواب دیکھنا ثابت کرتا ہے اس نے مکان واگزار کروانے کے جھمیلے میں بہت پا پڑ بیلے۔ آخر بے بس ہو گیا۔ خواب میں بشارت ملنے کا سلسلہ موقوف ہوا وہ تھکا ہارا تیسری بار درگاہ کا رخ کرتا ہے اور صادق العقیدت مرید بن کے آخری سرے پر جا بیٹھتا ہے۔
حضرت قبلہ کا بیان جاری تھا اور ذکر ہو رہا تھا میدان کرب و بلا میں امام حسینؑ کی بیعت کرنے والے صابرین کا اور اشارہ تھا حسینؑ کے یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی جانب۔ اس نے سوچا کہ دل نہ بھی مانے تو کیا مصلحت کے تحت بیعت کر لی جائے؟ اس کے ذہن میں ابھرنے والا یہ سوال ایک بڑی زقند ہے جو اسے کھائی کے اوپر فضا میں ملحق کر دیتی ہے۔ نہ کھائی میں گرتا ہے، نہ اسے الانگھ پاتا ہے۔ یہاں سے یہ افسانہ Habituation کی نفسیات کی جانب نکل جاتا ہے۔ اس کے بعد نہ تو اس محفل میں مکان پر قابض کرایہ دار بیٹھا دکھائی دیا نہ حضرت قبلہ کی لن ترانیوں نے اسے موقع دیا کہ وہ اظہار مدعا کرے۔ وہ تو درگاہ تک جانے، وہاں بیٹھنے اور سننے کا عادی ہوتا چلا گیا۔
اس کی یہ قلب ماہیت، روحانی ہی نہیں جذباتی سطح پر بھی ہے۔ مدت بعد اس کا جی چاہا کہ گھر جائے اور اپنی منکوحہ کی گود میں سر رکھ کر جی ہلکا کر لے۔ اس کا راضی بہ رضا اور پر سکون ہو جانا، اس معمول کی بات (جس پر افسانے کی عمارت کھڑی ہے) میں کتنے ہی معنوی ابعاد پیدا کر دیتے ہیں۔ ایسے میں ایک ضمنی قصہ افسانے میں کیا سجا ہے، سبحان اللہ، بادشاہ دونوں بزرگوں کے آگے سر جھکائے کھڑا ہے۔ انھوں نے اس سے ایک ٹھیکری منگوائی…… پھر وہ بادشاہ کی طرف دیکھتے ہوا بولا ’’جاؤ، ان سے کہہ دو کہ وہ چلا گیا‘‘ وہ چمار نہیں اس زمانے کے قطب تھے جو ابو الحسن تانا شاہ کی سلطنت کی حفاظت کر رہے تھے۔ ان کے جانے کے بعد قلعہ فتح ہو گیا۔
وہ تو اپنی منکوحہ کی گود میں سر رکھ کر جی ہلکا کر لیتا لیکن گھر میں ایک بیوی ہی تو تھی، جسے مکان واگزار کروانے کی جلدی تھی۔ لمحہ بھر کے لیے اپنی بیوی کی جانب اس کے اٹھتے ہوئے قدم، دنیا داری کا آخری حیلہ تھا اور اس کا لیٹے لیٹے کروٹ بدل کر سو جانا، راضی بہ رضا ہو جانے کا اشارہ ہے۔
حضرت قبلہ کا اس کی جانب متوجہ ہونا، اسے اپنے قریب بلانا، سینے سے لگا کر بھینچنا اور پشت تھپتھپانا اپنے اندر خاصی تہہ داری سمیٹے ہوئے ہے۔ حقیقت میں ایسا ہوا یا نہیں؟ کچھ کہہ نہیں سکتے اس لیے کہ وہ تو Habituation کا شکار ہو کر دنیا و مافیہا سے بے پروا ہو گیا تھا۔ اس روز کرایہ دار، مکان خالی کر کے اس کے گھر چابی دے گیا تھا یا نہیں؟ کیا پتا۔ اس کا صدق دل سے یہ دعا مانگنا کہ اے اللہ، مجھے مسکین رکھ، کسی ایک قطعی اور حتمی نتیجہ کی بجائے افسانے کو کئی ایک معنوی ابعاد سے ہمکنار کر دیتا ہے۔
افسانہ ’’سانسوں کے درمیان‘‘ میں مرکزی کردار کی نفسی کیفیات کو ’شعور کی رو‘ کی تکنیک میں رقم کیا گیا ہے ۔ افسانے کا مرکزی کردار مختلف نفسی کیفیات کے تحت تیزی سے محسوسات اور تخیلات کے ایک زون سے دوسرے زون میں حرکت کرتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے اس کا لا شعور اس کا معاون و مددگار ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ کے نظریہ لاشعور کی عطا، اس تکنیک کا تعلق موضوع سے زیادہ Method سے ہے، جس کے تحت دماغ میں آئے بے ربط امور نئی ترتیب میں ڈھلتے ہیں یوں اس افسانے کے مرکزی کردار کے ذہن میں بننے اور تحلیل ہو جانے والی حقیقت سے مشابہ تصویروں کا ربط ضبط کسی منطق یا استدلال کی وجہ سے نہیں بلکہ لحظہ بہ لحظہ لاشعور سے شعور میں داخل ہونے والی کیفیات سے ہے۔ اب تو Pribramاور Spinelli کے لیبارٹری تجربات نے بھی یہ بات ثابت کر دی ہے کہ دماغ کا حرکی نظام، انسان کے حسی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دماغ اپنی ’’در آمد‘‘ کا من پسند انتخاب کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ ’’من پسند انتخاب‘‘ اس کے لیے سود مند بھی ہو۔ وہ اس کے لیے گھاٹے کا سودا بھی ہو سکتا ہے۔ ۔
افسانہ ’’سانسوں کے درمیان‘‘ میں اس کی بہترین امثال وہ ہیں، جب افسانے کے مرکزی کردار کے والد کو ICU سے پیئنگ روم (Paying Room) میں منتقل کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر اس کے محسوسات کے درجے نوٹ کریں تو یکے بعد دیگرے اچنبھے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
۱) اگر مریض پیئنگ روم میں آگیا تو لواحقین کے جیب میں ادائیگی کرنے کو معقول رقم ہونا شرط ہے۔
(2 مریض کی حالت کیا سنبھلی، افسانے کا مرکزی کردار ایک نئی الجھن کا شکار ہو گیا کہ میاں بیوی کے پاس نئے کپڑے، جوتے تو ہیں نہیں، کریں گے کیا؟
اسی نوع کے پیچ، بیگ احساس کی افسانوی تدبیر کاری کا خاصہ ہیں۔ اس دوسرے سوال کے سراٹھاتے ہی افسانے کے بنیادی قضیے مہنگے ہسپتال کی فیس اور باپ کے مر جانے کا اندیشہ قدرے تحلیل ہو گئے۔ اب افسانے کے مرکزی کردار کی دبی ہوئی خواہشات یکے بعد دیگرے اسے ایک ٹائم زون سے دوسرے ٹائم زون میں دھکیلتی ہیں۔ پیئنگ روم سے ملحقہ واش روم میں وہ اکیلا، نہاتے ہوئے کمرے میں موجود عورت کو آواز دے کر بلاتا ہے۔ جو اس کی بیوی ہے، لیکن ذہن کے دوسرے زون میں منتقل ہو جانے کے سبب وہ اپنے ساتھ نہاتی ہوئی منکوحہ عورت کے جسم میں وہ کساوٹ محسوس کرتا ہے، جو صرف اور صرف کسی کنوارے نسوانی وجود سے مخصوص ہے۔ پھر یہ کہ اس کسے ہوئے نسوانی وجود کا مزاحمت کرنا (جب کہ اس کی منکوحہ، اس کے بچوں کی ماں، کیا مزاحمت کرے گی) قدرے الگ نوعیت کی مزاحمت ہے، جس کا تعلق سسر کے مکمل ہوش میں آ جانے سے ہے۔ وہ اگر ہوش میں آ گئے تو کیا سوچیں گے؟ جب کہ اپنی ہی منکوحہ کے وجود میں ان چھوئی حسیناؤں کی تلاش اور بیوی کے بال اور آئی بروز بنوانے اور مینی کیور، پیڈی کیور کی خواہش نیز گھر کے لیے میکسی گرائنڈر، کولر اور اسفنج کے گدے کی خریداری اس تبدیل ہوتے ہوئے ذہن کے سبب ہے۔ والد کی بیماری اور آبزرویشن کے گنے چنے دنوں میں ہسپتال کےVIP ماحول میں رہنے کا لازمہ۔ لیکن ایسے میں جب والد ICU سے نکل کر پیئنگ روم میں آ گیا اور تن درستی کی طرف بڑھ رہا ہے تو بچوں کے لیے ریڈی میڈ کپڑوں کی خریداری کیوں ضروری ہے؟ اس کے جواب میں صرف یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہی تبدیلی، جو VIP ماحول میں رہنے کا لازمہ تھا وہ بھی ہے، لیکن ایک سبب وہ اندیشہ بھی ہے جو اندر ہی اندر جڑ پکڑ رہا ہے کہ باپ مر گیا تو اپنوں اور غیروں کے جمع ہونے پر بچوں کی حالت بہتر دکھائی دے اور بھرم رہ جائے۔ اور بالآخر ہوا بھی وہی۔ جب محسوسات اور مشاہدات کے نتیجہ میں ذہنی اور جذباتی تبدیلی آ گئی تو اس تبدیلی کا واحد سبب (والد) زندگی کی بازی ہار گیا۔
افسانے کے اختتام پذیر ہو جانے پر اک ذرا تامل…… یہ تو ظاہر ہے کہ مرنے والا اپنے بیٹے، بہو اور پوتے پوتیوں کی زندگی میں جینے کی اک نئی امنگ بھر کر گور اُتر گیا۔ لیکن اس پر بھی تدبر کی ضرورت ہے کہ بیگ احساس نے کس طرح افسانے کو اس انجام تک پہنچانے سے پہلے درمیان میں معنویت کی تہیں بچھائیں اور کس طور بچھائیں۔
’’رنگ کا سایہ‘‘ تہہ دار بیانیہ میں تحریر کردہ محبت کی ایک شاہکار کہانی ہے۔ جس کی بنیاد حیدرآباد (دکن) سے مخصوص تہذیبی اور سماجی اقدار اور مسلم آبادی کا احساس تفاخر بنا۔ یہ احساس تفاخر، قلم کار کے پرکھوں سے بذریعہ اجتماعی لاشعور آگے منتقل ہوا اور اب افسانہ نگار کے ناسٹلجیا کی صورت افسانے میں ایک برے قضیے کی صورت ابھرا۔ ناسٹلجیا کی دوسری لہر خود افسانہ نگار کے ذاتی تجربات سے متعلق ہے۔ یوں ان دونوں اقسام کے ناسٹلجیا نے اس بظاہر معمول سے متعلق روز و شب مشاہدے میں آنے والی اوائل جوانی کی نا کام محبت کی کہانی کو خاص بنا دیا ہے۔
افسانے کا آغاز ان دو لائینوں سے ہوتا ہے۔
’’ہم اسی جگہ جا رہے تھے، جہاں سے ہمیں راتوں رات افراتفری کے عالم میں بھاگنا پڑا تھا۔ امی کا تو صرف جسم ساتھ آیا تھا۔ روح شاید وہیں بھٹک رہی تھی پھر جسم بھی اس قابل نہیں رہا کہ ان کے وجود کا بار اٹھا سکتا۔ آج اس جسم کو اسی زمین کے سپرد کرنا تھا۔‘‘
کوئی بھی افسانہ نگار اس طور بہت بڑا جوا کھیلتا ہے۔ لیکن بیگ احساس کو تاش کے پتے پھینٹنے کا فن آتا ہے۔ تاش کے کھیل میں ’فلاش‘ کھیلتے ہوئے اتنا اعتماد صرف اس کھلاڑی میں ہوگا، جسے باون پتے یاد ہوں اور نہ صرف یاد ہوں بلکہ ایک ایک پتہ اس کی انگلیوں کے تابع ہو کہ جب چاہا دوسرے تیسرے ہاتھ Showمانگ لینے والے کسی تھڑدِلے مد مقابل کو غلاموں کی ٹریل تھما کر خود یکوں کی ٹریل رکھ لی اور لگے بلائینڈ کھیلنے۔
افسانے کے راوی کے دو سوال ’’کیا امی کی موت کا ذمہ دار میں ہوں؟‘‘ اور جواب کو سمیٹے ہوئے اگلا سوال کہ ’’گھر چھوڑ کر تو سب بھاگے تھے۔ پھر اس کی ذمہ داری ہمارے عشق پر کیسے آ گئی؟ افسانویت کا جال بچھا نے کا کام کرتے ہیں۔ اسی طرح ماضی بعید سے متعلق بہن کے گھر سے ایک بیوہ کے بچوں سمیت بیڑی کالونی میں اٹھ آنے کا ناسٹلجیا کئی رنگ بدلتا اور افسانویت کی لہر کو طاقت فراہم کرتا ہے۔ بیڑی کالونی سے متعلق یادوں کے بہاؤ کو توڑ توڑ کر بیان کرنے (تاکہ طوالت کا احساس اکتاہٹ نہ پیدا کر دے) کے حوالے سے افسانہ نگار کی فنی مہارت کا پتا چلتا ہے۔
افسانے کے نوجوان مسلم مرکزی کردار (راوی) نے پہلی بار ایک کنویں کی مینڈھ پر ہندو لڑکی لکشمی کو دیکھا جس نے اسے تلگو زبان میں ’پگلا لڑکا‘ کا نام دیا تھا۔ لکشمی اسکول میں پڑھتی تھی اور اس کی ماں گھر میں پرانے رنگ برنگے کپڑوں کو جوڑ کر بنتہ سیتی رہتی تھی۔ سندھی میں ہمارے ہاں ’بنتہ‘ کو ’رلی‘ کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف سب کچھ لٹ جانے کے باوجود مسلمانوں میں ایک طنطنہ تھا۔ ہندو جاتی کے مقابل ایک ایسا احساس تفاخر، جو اس افسانے میں جنم لینے والے المیے کا بنیادی سبب بنا۔ لکشمی، لکشمی کے بہنوئی (ملیا) اور لکشمی کی ماتا (ناگماں) کی عاجزی اور سیس نوائی، افسانے میں میٹھا درد بھر نے کا کام کرتی ہے۔ جب کہ افسانہ نگار کی جانب سے تہذیبی منطقے سے متعلق اٹھائے گئے سوالات کہ ’’ہماری جڑیں کہاں ہیں؟ اس دھرتی سے ہمارا کیا رشتہ تھا؟ وہ جو اس دھرتی کی پہچان تھی؟ کیا ہوئی؟ اس میٹھے درد میں کڑواہٹ اور زہر ناکی بھر دیتے ہیں۔
ماں کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانے والی لکشمی کو کھیتوں کی طرف آنے میں تاخیر ہوئی تو اس کے ہونٹوں سے نکلا ’’شما کر دو‘‘ یہ اس خاندان کا وہی مودبانہ رویہ ہے، جو لکشمی کی ماں، بالماں کے ساتھ فیکٹری میں بیڑیاں بنانے والی کو نام لے کر نہیں، درسانی (بیگم صاحبہ) کے عزت دارانہ طریق سے مخاطب کرواتا ہے۔ جب کہ لکشمی کے راجکمار کو یہ اعتراض کہ لکشمی کا بہنوئی رکشہ کیوں چلاتا ہے، کوئی عزت دارانہ کام کیوں نہیں کرتا اور اس کے جواب میں لکشمی انتہائی عاجزی سے وضاحت کرتی ہے کہ ہم ہمیشہ سے ایسے نہ تھے۔ اس کا یہ بیان حیدرآبادی انگ میں ملاحظہ کیجئے۔
’’کیا کریں گے ان کو کوئی اور کام آتچ نئیں۔ اماں اور بھابھی سمجھا سمجھا کے تھک گئے۔ نائنا (والد) ہمارے گاؤں کے نواب صاحب کے خاص آدمی تھے۔ اماں بولتے کہ نواب صاحب ان پہ بہوت بھروسہ کرتے تھے۔ ان کو ہر جگہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ پولیس ایکشن میں ہمارا گاوں بہوت متاثر ہوا۔ نواب صاحب کا بنگلہ جلا دیا گیا۔ ان کے اپنے گاوں والے ان پر حملہ کرے تو نواب صاحب کو بہوت صدمہ ہوا۔ بعد میں جاگیراں بی ختم ہو گئے۔ پولیس ایکشن کے بعد نواب صاحب گھر سے باہر نئیں نکلے ان کا جنازہ ایچ نکلا۔ نائنا بی زیادہ دن زندہ نہیں رہے۔ نائنا کے انتخال کے وخت بہوت چھوٹی تھی۔ ہم لوگاں گھر بیچ کے یہاں آ گئے۔ یہاں آنے کے بعد انا رکشہ چلانے لگے‘‘۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔ ’’آپ لوگوں کو دیکھ کے اماں نواب صاب کے گھر والوں کو بہوت یاد کرتے۔‘‘
اگر یہ تفصیل حیدرآبادی انگ میں نہ ہوتی تو کیا اس قدر سجتی؟ پھر لکشمی کی یہ سوچ کہ ’’آپ لوگاں یہاں کیوں آئے، بیڑی بنانے والوں کی کالونی میں؟‘‘ ظاہر کرتی ہے کہ وہ راجکمار کی داسی ہے۔ راجکمار کی سندرتا اور گورا رنگ، برباد کر گیا لکشمی کو۔ اس نے دل و دماغ میں بٹھا لی راجکمار کی شبیہہ اور جب بچہ جنا تو وہ ویسا ہی تھا۔ وہی ناک نقشہ وہی رنگ جسے نہ برادری نے قبول کیا نہ اس کے شوہر نے جب کہ ان دونوں کا اس نوع کا جسمانی تعلق تو قائم ہی نہیں ہوا تھا۔ راجکمار کے بیڑی کالونی چھوڑ کر جانے کے سال بھر بعد شادی ہوئی تھی لکشمی کی۔ پر راجکمار کے رنگ کا سایہ ایسا پڑا کہ خاک کر گیا لکشمی کو ایک تہمت کی اتنی مار!
کچلے اور روندے ہوئے، ایک چنگھاڑ اس وقت بنتے ہیں، جب ان کی عزت پر ہاتھ ڈالا جائے۔ اور وہی ہوا۔ راجکمار کو اپنے گھر والوں سمیت، رات کی تاریکی میں نکلنا پڑا اس کالونی سے ۔ رسی جل گئی پر بل نہ گیا۔ ایسے میں گھر چھوڑتے ہوئے اس مسلم گھرانے کا غُرّا دیکھیں کہ لکشمی کو ’حرافہ‘ کہا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان لڑکیوں کا کام ہی یہی ہے کہ اچھے خاندانوں کے لڑکے گھیریں۔ لیکن جب انھوں نے رات کی تاریکی میں کالونی چھوڑی تو انھیں بس اسٹاپ تک رکشے میں لے جانے کے لیے صرف ایک رکشہ ڈرائیور، جو لکشمی کا بہنوئی تھا، تیار پایا گیا۔ پر یہ سب اس کے رکشے میں بس اسٹاپ تک کیوں جاتے، وہ تو اس حرافہ کا بہنوئی تھا۔
وقت گزر گیا اور جب ماں کی اپنے آبائی علاقے میں تدفین کی خاطر لکشمی کے راجکمار کا ادھر آنا ہوا۔ تو وہ لکشمی کے بہنوئی ہی کے رکشے میں بیٹھ کر قبرستان سے وہاں تک آیا۔
’’کافی رونق ہو گئی ادھر تو‘‘
’’ہاں، آبادی بڑھ گئی ہے‘‘
’’پانی کا کنکشن لگ گیا؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’کتنی تکلیف ہوتی تھی کنوئیں سے پانی بھرنے کے لیے‘‘
وہ جواب میں کیا کہتا۔ چپ رہا۔ اس کا زخم ہرا ہو گیا تھا پانی کے کنویں پر ہی تو ملاقات ہوئی تھی لکشمی سے اس کی اور اس کے نتیجہ میں ملنے والی بدنامی اس کی سالی کا مقدر بن گئی۔
افسانے کے اختتام پر کوئی واضح جواب، کوئی واضح لائحہ عمل لٹی پٹی لکشمی کے راجکمار کے پاس نہیں، جو تہذیبی منطقے کی بات کرتا تھا….. زمین سے اپنا ناتہ کھوجتا تھا۔ اس کے سامنے اس کی شکل شباہت کا گورا چٹا ایک ننھا لڑکا کھڑا ہے، جسے بیڑی کالونی کے سبھی لوگ اسی کی ناجائز اولاد تصور کرتے ہیں۔
وہ فولڈنگ چیئر پر بیٹھا، اپنے سامنے اجڑی ہوئی فرش نشین لکشمی سے متعلق اس دُبدا میں پڑ گیا کہ کسی جھمیلے میں پڑے بغیر محض لکشمی کو دلاسہ دے کر وہاں سے چپ چاپ اٹھ آئے یا اس بچے کے سر پر ہاتھ رکھے اور لکشمی کو اپنے ساتھ لیے کہیں دور چلا جائے۔ قوی امکان یہی ہے کہ ’’رنگ کا سایہ‘‘ کھا جائے گا لکشمی کی جوانی…….. کچھ نہیں بچے گا۔
بیگ احساس کے تخلیق کردہ کردار مختلف زمانوں میں چہل قدمی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ زمانہ حال کو ماضی سے اور ماضی سے مستقبل کو اتنی سہولت سے جوڑ دیتے ہیں کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ افسانہ ’کھائی‘ میں مرحوم باپ کی میت برف کی سلوں کے حصار میں رکھی ہے، اس لیے کہ پوتے نے اس وقت تک تدفین سے روک دیا ہے، جب تک وہ اپنے وطن واپس نہ آ جائے۔ ایسے میں شعور کی رو چپکے چپکے محض حال کو ماضی سے ہی نہیں جوڑ دیتی بلکہ گئی محافل کی گرد جھاڑ کر انھیں اجال بھی دیتی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نفسیاتی الجھاوؤں کے سرے ماضی میں جھانکنے سے مل جاتے ہیں۔ جیسے اس افسانے میں باپ سے بیٹے کے متنفر ہو جانے کا سبب معلوم ہوا۔ نیز یہ بھی پتا چلا کہ یہ تین نسلوں کا الجھیڑا ہے، جس میں باپ کے ایک پرانے خدمت گار کی وفا داری جاگیر دارانہ سوچ پر ضرب کاری ہے۔ جاگیر دارانہ سوچ کے حامل باپ کی شاہ خرچیاں گھر کا بجٹ خراب کرنے کا سبب بنتی رہیں اور بیٹے کی میانہ روی کو اہلکارانہ ذہنیت قرار دیا جاتا رہا۔ یہی ٹکراؤ اندر ہی اندر افسانے کی بنت کرتا ہے۔ مرحوم کے بیٹے (کفایت علی) کے لیے سب سے بڑا دھچکہ یہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی جاگیر دارانہ سوچ کی کونپل اس کے بیٹے کی صورت پھوٹی ہے۔ جس کے نزدیک روپیہ، ہر شخص کے مقام اور مرتبے کا تعین کرتا ہے اور رشتے ناتے، سٹیٹس کے مطابق جڑتے ہیں۔ حسب نسب، اعلی اقدار اور ایمانداری کا زمانہ لد گیا۔ عائلی زندگی سے متعلق کتاب میں شامل دو افسانے ’’سنگ گراں‘‘ اور ’’نجات‘‘ بظاہر سادہ بیانیہ میں لکھے گئے افسانے ہیں لیکن ان میں بھی خاص طرح کی تہہ داری ہے ’’سنگ گراں‘‘ تو آخر میں جا کر استعارے میں ڈھل گیا۔
افسانہ’’سنگ گراں‘‘ کی تعمیر نسوانی احساسات و محسوسات پر کی گئی ہے۔ افسانے کے کچھ مقامات تو خالصتاً نسوانی بیالوجی سے متعلق ہیں، جسے رقم کرنے سے ہماری جری اور بے باک خواتین افسانہ نگاروں نے بھی پہلو تہی کی جیسے افسانہ’’سودا‘‘ از رشید جہاں (مشمولہ ’’عورت اور دوسرے افسانے‘‘ مطبوعہ ہاشمی بک ڈپو، لاہور طبع اول، نومبر ۱۹۳۷ء) میں بہت گنجائش تھی جنسی تحریص کے حوالے سے لکھنے کی لیکن رشید جہاں نے اندھیارے میں ہونے والے عمل پر چھچھلتی سی نگاہ ڈالی اور آگے بڑھ گئیں۔ یہ سارا کچھ بیگ احساس کی صورت ایک مرد افسانہ نگار کیوں کر لکھ پایا؟ تفصیل میں جانے سے خوف فساد خلق لاحق ہے۔ اس لیے اسے مقدر چھوڑتا ہوں۔
اس افسانے کا ایک ماضی ہے اور ایک حال۔ ماضی میں مذہبی کٹرپن براہ ِراست نسوانی فطرت سے الجھ رہا ہے ۔ ’’ناخن رنگنے سے وضو نہیں ہوتا‘‘ (مذہب اسلام کے تمام مسالک ماضی قریب کے اس اجتہاد پر متفق ہیں) یہ نانی کا بیان ہے۔ جب کہ فطرت نسوانی ناخن پالش کی طلب گار رہی۔ پھر عہد نو کے الگ بکھیڑے ہیں۔ ٹوٹ گیا، جوائنٹ فیملی سسٹم، روایات کا شیرازہ بکھر گیا۔ روایتی مذہبی گھرانے کی لڑکی گھر والوں کی مرضی کیا، ان کے علم میں لائے بغیر کورٹ میرج تو کر سکتی ہے لیکن آگے؟ لڑکا، لڑکی دونوں جاب کریں، تب بھی حالات ایسے نہیں بن پاتے کہ ایک چھت تلے اکٹھے رہ سکیں۔ بے شک کرائے کا مکان ہی کیوں نا ہو۔ بچہ نہیں لے سکتے، زچہ کی دیکھ بھال، ملازمت کو جاری رکھنا مشکل۔ Child farm میں رکھیں گے بچے کو؟ کیسے ہوگا سب؟ نو بیاہتے جوڑے میں یہ بحث کچھ دن چلتی ہے انجام کار ابارشن ہی ایک حل نکلتا ہے۔ ممتا بہت ہاتھ پاوں مارتی ہے پر کنارا نہیں ملتا۔ ڈوبنا جیسے طے ہے۔
اس سادہ بیانیہ افسانے میں معنوی ابعاد اس وقت چھلکنے لگتے ہیں، جب MTP کے ذریعے بچہ اندھے کنویں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ ایسے میں ممتا کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتی ہے۔
’’شاید وہ محفوظ ہے ۔ کوئی قافلہ ادھر سے گزر ے گا تو اسے باہر نکالے گا۔ اس کی وجاہت نازک انگلیوں کو زخمی کرے گی…..یوں وہ بچہ ماضی بعید کے یوسفؑ کے استعارے میں ڈھل گیا۔ جس کی وجاہت کے سبب زلیخا ہی نہیں، اس کی سہیلیوں نے بھی بھرے دربار میں سیب کاٹتے ہوئے اپنی انگلیاں کاٹ لی تھیں۔ بے شک، اسے مجرم قرار دے کر کال کوٹھری میں دھکیل دیا گیا، لیکن ایک دن آئے گا جب وہ اس کال کوٹھری سے خوابوں کا شارح بن کر نکلے گا اور ماں کی رو رو کر بہہ جانے والی آنکھوں کی بینائی بحال کر دے گا۔‘‘
یہ افسانہ تو تھا عہد جدید میں عائلی زندگی پر پڑنے والی افتاد سے متعلق، جب کہ دوسراافسانہ ’’نجات‘‘ اس عارضے سے متعلق ہے جس نے ’’نائن الیون‘‘ کے بعد پر پرزے نکالے۔ مذہبی کٹّر پن بڑھا اور مسلم ورلڈ ایک دوراہے پر آ کھڑی ہوئی۔
ایک مغربی ملک کی آزاد خیال سوسائٹی (جو کسی طور انڈر ورلڈ کے زیر نگیں علاقہ نہ تھا) میں ایک ذہنی طور پر تبدیل شدہ اجنبی (فرحان) نہ کھپ سکا لہٰذا اس کا وہاں رہنا اور روزی کمانا نا ممکن ہو گیا۔ کیوں اور کیسے؟ اس سوال کو افسانہ میں اٹھا کر قاری کواس کا جواب کھو جنے پر لگا دیا گیا ہے۔ کسی بات کو سمجھانے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی نہیں۔
مذہبی جنونیت کے شکار، فرحان کی بیوی عاشی کا ہر نوع کی تہمت برداشت کرنا، اس ہندوستانی پتی ورتا بیوی کا ایک روپ ہے، جو ہر قیمت پر اپنا سہاگ بچانے کی فکر میں ہوتی ہے۔ لیکن عاشی کا کوئی جتن، مذہبی جنونیت کے مقابل بار آور نہ ہو سکا۔ جب طوفان تھم گیا تو عاشی نے یہ کہہ کر کہ ’’میں تو ویسی ہی رہ گئی۔ پہلے نفرت اور دیوانگی کی وجہ سے دور رہتے تھے، اب شرمندگی اور احسان مندی کی وجہ سے دور رہتے ہیں۔ میں انھیں اس عذاب سے نجات دلانا چاہتی ہوں۔‘‘ خود کو فرحان سے الگ کر لیا۔ یہ ایک ایسا ردّ عمل ہے، جو زمانہ حال میں ہمارے ہاں اٹھنے والے کٹر پن کے طوفان کے آگے بند باندھنے کے مترادف ہے۔
افسانہ ’’چکرویو‘‘ کا منظر نامہ Time-frame کے اعتبار سے تین پہروں میں بٹا ہوا ہے، جس میں دھرت راشٹر اور سنجے کے مکالمے کی صورت ہر یگ سے قدیمی اتہاس کے مختلف بند رقم کر دئیے گئے ہیں۔ ہر یگ کے انت پر آنکھیں دیکھی اور کانوں سنی سے ایک ہی نتیجہ برآمد ہوا کہ اس یگ کی شناخت ہٹ دھرمی، بے حیائی اور بے ضمیری ہے۔ پھر ہر یگ کے انت پر آپ ہی آپ اس جلی ہوئی مٹی سے ایک نئی زندگی جنم لیتی ہے اور نوزائدہ بچے کی مسکان، گہرا طنز بن جاتی ہے، انیائے کرنے والوں کی سوچ پر۔
بیگ احساس نے ویدوں سے مخصوص ملفوظاتی طریق میں کئی یگوں پر محیط انسانی حیات رقم کر دی ہے، لیکن Captions کے بغیر۔ اس میں ماضی بعید کی بربریت بھی موجود ہے، ماضی قریب کا جلتا ہوا احمد آباد بھی اور عہد حاضر کا میرانشاہ، میر علی اور دتہ خیل کا پاکستان سے متعلق علاقہ غیر بھی۔
افسانہ ’’درد کے خیمے‘‘ آزادی ۱۹۴۷ء کے بعد حیدرآباد (دکن) سے کراچی (پاکستان) براستہ کھوکھرا پار، ہجرت سے متعلق ایک یک سطحی بیانیہ افسانہ ہی رہ جاتا، اگر اس میں بہن، بہنوئی اور ننھی بھانجی کی ہجرت کے تجربے میں پیچھے رہ جانے والوں کے ملال کو شامل نہ کر دیا جاتا۔ بیگ احساس نے اس افسانے میں ناسٹلجیا کی ایک نئی جہت یوں شامل کر دی کہ ہم ہجرت کریں یا ہمارا کوئی عزیز، گزرتے ایک ہی تجربے سے ہیں۔ پھر یہ کہ جیسا اوپر بیان ہوا، بیگ احساس کے افسانوں میں دھرتی سے جڑت اور تہذیبی اقدار کی شکست کا بیان اپنی جڑوں کی تلاش کا عمل بن جاتا ہے۔
اس افسانے کے مرکزی کردار کو اس مختصر سے مہاجر گھرانے کی طرف جھانکنے کا وقت تیس برس بعد میسر آیا، جب بہن نہ رہی۔ انسولین کے عادی بہنوئی اور بھانجی نے اسے ایئر پورٹ سے لیا۔ ایسے میں اس ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والی بہن کا آنسوؤں سے ترہ چہرہ، جو کبھی ہجرت کرتے وقت ٹرین کے ڈبے کے ساتھ آگے بڑھ گیا تھا، اس کی آنکھوں میں ٹھہر گیا۔
عمر رسیدہ بہنوئی اور اس کے بچوں کی سوچ کا فرق اس کے لیے حیران کن تھا۔ بچے پاکستان کے فرد ہونے پر اتراتے ہیں اور بہنوئی، اتنا وقت گزر جانے کے باوجود گمشدہ حیدرآباد میں ہی میں جی رہا ہے۔ صد افسوس! کہ تقسیم پر اتنا وقت گزر جانے کے باوجود ویزا کا حصول مشکل۔
اس کے بہنوئی نے فون پر بتایا کہ اسے ایر پورٹ چھوڑ کر وہ دوبارہ قبرستان گئے تھے لیکن بہن کی قبر غائب ہے۔ تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی۔ تو کیا اپنے وطن جانے کی حسرت لیے مر جانے والی اس کی بہن کی مٹی اس کے ساتھ آ گئی؟
افسانہ ’’شکستہ پر‘‘ میں سمیر اور سشما جب پہلی بار ملے تھے تو ننھی سمن نے سشما کی انگلی تھام رکھی تھی اور سمیر نہیں جانتا تھا کہ سشما، طلاق یافتہ اور ایک بیٹی کی ماں ہوگی۔ پھر دس برس بعد ملے تو بہت کچھ کھو چکنے کے احساس کے ساتھ دونوں نے شادی کر لی۔ یوں ان کی محبت کا آغاز شادی کے بعد ہوا۔ سمن، اپنی ماںکے ساتھ جانے سے انکاری تھی، وہ اپنے نانا، نانی کے گھر ہی رہی۔
ابتدا میں بیٹی سے سشما کے کٹ جانے کا دکھ بظاہر دکھائی نہیں دیتا، دھیرے دھیرے سر اٹھاتا ہے۔ جب کہ سمن کے گھر آ جانے تک سمیرا س حقیقت سے لا علم ہے پھر جیسا کہ فطری طور پر ہونا بھی چاہیے، سشما کی یہ آرزو تھی کہ سمیر، سمن کو بیٹی کے طور پر قبول کر لے لیکن اس کے بعد ماں، بیٹی ٹکرا گئیں۔ کبھی سمیر کی محبت سمیٹنے کے معاملے میں اور کبھی سمن کے حد درجہ بولڈ ہونے کے حوالے سے سمن کا اپنے نانا نانی کی جانب جھکاؤ بھی سشما کے لیے ناگوار خاطر رہا۔
سشما کا یہ رویہ بظاہر ابنارمل نفسیات سے مشابہ ہے، لیکن اس کا بھی ایک سبب ہے کہ سشما کی ماں نے اسے کم عمری میں بیاہ کر اس کا گھر بسنے نہیں دیا۔ جب شادی کی عمر کو پہنچی تو اسے سمیر بھا گیا لیکن اس کا طلاق یافتہ اور ایک بیٹی کی ماں ہونا دس برس کھا گیا۔ اب بیٹی کی اٹھتی جوانی اس کے مد مقابل تھی۔
بیگ احساس، اس نوع کی گتھیاں اپنے افسانوں میں سہج سہج کھولتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ گئے دنوں میں سشما، سمن ہی کی عمر میں نا سمجھی کی بنا پر اپنے شوہر کی بھابھی سے شکست کھا کر طلاق تک پہنچی تھی۔ شکست پر شکست وہ تلملا کر رہ گئی۔
اس نوع کے نفسی الجھاوؤں کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے،بیگ احساس، تہہ در تہہ اظہارئیے سے کام لیتے اور سوالات کے لا متناہی سلسلوں کو سہ رستوں اور چو رستوں تک لے آتے ہیں۔ افسانہ نگار یہ کیوں بتائے کہ سمن کا گھر سے ناراض ہو کر نکل جانا کس کے حق میں بہتر رہا۔ پھر یہ سوال الگ کہ سمن اپنے نانا، نانی کی تنہائی میں کمی کا باعث بن کر ایک بار پھر سشما کو شکست سے دو چار تو نہیں کر گئی؟ اس کا جواب بھی کچھ اتنا سہل نہیں یہ سشما کے لیے باعث کرب بھی ہے اور باعث اطمینان بھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بھی رواں تھے اور چہرے پر اطمینان بھی تھا۔ پرندے ایک ایک کر کے پھر سے جاگ گئے تھے اور جال سمیت اونچائی میں پرواز کرنے لگے تھے۔ بیگ احساس کا وہی من پسند طریق کار، جو سادہ بیانیے کو بھی معنوی سطح پر اٹھا کر کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔
اب آئیے زبان و بیان کی طرف اس کے باوجود کہ بیشتر افسانوں میں تاریخ، سیاست، مذہب، معیشت اور معاشرت زیر بحث رہے پھر بھی خالصتاً علمی موضوعات سے مخصوص سپاٹ دو ٹوک زبان کہیں دیکھنے کو ملتی جو Information بہم پہنچانے کا لازمہ ہے۔ بیگ احساس نے کہیں کہیں بولی ٹھولی کی سطح پر حیدرآبادی انگ بھی برتا ہے اور سنسکرت اور ہندی بھی لیکن صرف مکالموں کی سطح پر۔ راوی کے بیانیہ میں نہیں۔ زبان و بیان سے متعلق یہ وہ شعور ہے، جس سے ہندوستان اور پاکستان میں لکھا جانے والا بیشتر حالیہ افسانہ خالی دکھائی دیتا ہے۔ نسبتاً پاکستان میں بلوچی، سرائیکی، پنجابی، پشتو اور ہندوستان میں بڑے شہروں کی Slang اور ہندی کے الفاظ کی پیوند کاری جاری ہے۔ جب اس خامی کی نشاندہی کرو تو جواب میں یہ سننا پڑتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ وسعت الفاظ کون لائے گا؟ حال آنکہ افسانہ نگار کی زنبیل ان مقامی زبانوں کے الفاظ کی متبادل اردو لفظیات سے خالی ہوتی ہے۔ ’’نور اللغات‘‘ فرہنگ آصفیہ اور ’’جامع اللغات‘‘ کے انھوں نے نام تک نہیں سنے، کھول کر کیا دیکھیں گے۔
ایک مدت بعد مجھے ان افسانوں میں اتنی نتھری ستھری زبان پڑھنے کو ملی، جو نہ تو اردو کا لکھنوی رنگ ہے، نہ دہلوی لیکن کیا کہنے صاحب! اب وہ زمانہ لد گیا، جب راشد الخیری، اشرف صبوحی، صادق الخیری اور آمنہ نازلی نے اپنے افسانوں میں اردوئے معلی کی خوشبو بسالی تھی۔ اب تو دلی میں بھی کرخنداری کا چلن ہے۔
انتظار حسین کی زبان و بیان پر صدقے واری جانے والے کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ انتظار حسین کی زبان و بیان کا تعلق دور دور تک دہلوی رنگ سے نہیں، میرٹھ اور بلند شہر کے دیہی علاقہ جات سے ہے۔ جس میں تذکیر و تانیث کی قطعیت پنجاب کی دین ہے۔ دہلی اور لکھنؤ کے مراکز سے دور بیٹھے بیگ احساس کا اس ضمن میں کوئی دعویٰ نہیں۔ وہ تو اسے محض گنگا جمنی تہذیب کی عطا شمار کرتے ہیں۔
ان افسانوں میں بیگ احساس کی حال مست اور پُر باش زندگی کی جھلکیاں بھی ہیں اور ان کی رسمی اعتقادات سے دوری بھی۔ اس کا ایک سبب ہے۔ ان کے اجداد اورنگ زیب عالمگیر کی افواج کے ساتھ دکن میں وارد ہوئے تھے۔ مغل ہوتے ہی ایسے ہیں۔ جب عمر شیخ مرزا کے بیٹے ظہیر الدین بابر نے فرغانہ سے نکل کر ہندوستان کا رخ کیا اس کے بازو بن کر ساتھ چلنے والے بھی مغل ہی تھے، جنھوں نے اپنے چغتہ سردار بابر کے ایک اشارے پر درہ خیبر اور اٹک بنارس کے ’’کالا چٹا‘‘ پہاڑی سلسلے میں قدم جما کر شب خون مارنے والے پٹھانوں کے سروں کے مینار بنائے اور عالمگیر لشکر کا پھریرا دکن پر لہرا کر وہیں بس گئے۔
بیگ احساس کی حیدرآباد (دکن) کی سرزمین اور اس کی قدیمی روایات سے جڑت در حقیقت اپنے اجداد کے قدیمی مسکن سے جڑت کا ثبوت ہے۔ قبرستانوں میں گڑی بوسیدہ ہڈیاں جوڑے رکھتی ہیں ماضی بعید کو لمحہ موجود سے۔
٭٭٭