جب مُشکی گھوڑی نے ڈھوک نواں لوک کے آر پار بہتے راج بہا کے تنگ مو گے کو پار کرنے کے لیے اپنے آبنوسی وجود کو تولا۔ تو دونوں وقت مِل رہے تھے اور کچے نیم پکّے گھروں سے نکلتا دھواں جھٹپٹے میں مد غم ہو گیا تھا۔
گھوڑی نے کنوتیاں دبائیں اور اگلے سموں کو اوپر اٹھا کر فضا میں تیری۔ ایک ہی چھلانگ میں موگا عبور کرتی ’’وڈے لوک‘‘ کی سیدھی سطیر سڑک پہ گرد اُڑانے لگی۔ آبادی سے باہر جوہڑ کے کنارے گھوڑ سوار نے ایک ثانیے کے لیے پٹی چھوڑی۔
پھر جھٹکے سے باگ کھینچی اور رکاب میں پاؤں دھرے دھرے بائیں ہاتھ سے نیزے کی نوکیلی انی کائی زدہ اتھلے پانیوں کے بھر بھرے کنارے میں گاڑ کر حلق پھاڑ کے بولا:
’’اکالی جتھے کالی آندھی کی طرح چڑھے آ رہے ہیں۔ اپنا سامان کر لو۔‘‘
جوہڑ سے اپنی پنج کلیانی بھینس کو باہر ہانکتے کرم دین نے چونکیل جانور کی طرح ٹھٹھک کر اِدھر ادھر دیکھا۔
بنسو کے چوکے پہ کسی شریر بچے نے مردہ پرندے کی ہڈی پھینک دی تھی۔ وہ جوہڑ کنارے چلتی پھرتی گایوں کے پیچھے پیچھے زمین سے اُن کا گوبر سمیٹتی پھر رہی تھی۔ جب دھرم شالہ کے مہا پنڈت نے گھوڑ سوار کی بات سن کر پانی سے بھری گڑوی اور دودھ کا تاملوٹ جوہڑ کے داہنی جانب اشنان گھاٹ کے پتھروں پہ رکھ دیا۔
اور بولا:
’’رام۔ رام۔ سنو گھر بھاگ جا۔ چولہ اچکلا پوتنے کی فکر چھوڑ۔ سرداروں کی منڈلی میں لپا ڈگی ہونے کو ہے جب یہ بات فاطمہ اورمحسن کے کانوں میں پڑی۔ تو وہ خوفزدہ ہو کر بڑی گلی میں لٹو کی طرح گھومنے لگے۔
فاطمہ بس اتنی سیانی تھی کہ اُسے گھر کا راستہ آتا تھا اور وہ بہن بھائیوں کو پکڑ کر اندر باہر لا سکتی تھی۔ محمد حسین اتنا چھوٹا، کہ پاؤں پاؤں چلتا تھا اور عام رواج کے مطابق اس کی ماں لمبی قمیض کے نیچے ابھی اسے کچھا نہ پہناتی تھی۔
آناً فاناً پوری گلی آوازوں کے شور سے بھر گئی۔
سِکھ آ گئے۔ سِکھ آ گئے۔
گھوڑی والے نے چند قدم آگے جا کے باگ دوبارہ کھینچی۔
اور پیچھے منہ کر کے بولا:
ڈنگہ شہر سارا جلا دیا گیا۔ چیلیا نوالہ سے دھواں اُٹھ رہا ہے۔
بیچ کے سارے گاؤں کٹ گئے ہیں۔ اُدھر بیلہ لاشوں سے اٹا پڑا ہے۔
جس کے ہاتھ میں جو آیا۔ لاٹھی، ڈنڈا، بلم، کرپان، کلہاڑا اٹھا کر میاں جی کے گھر کی طرف دوڑے۔ فاطمہ اور محمد حسین پھوپھی جی کو میراثیوں کے گھر چار پائی تلے چھپے ملے۔ وہ انھیں بغل میں داب گھر پہنچیں۔ تو صحن عورتوں اور مردوں سے اٹا اٹ تھا۔
اُدھر دھرم شالہ میں غیر مسلموں کا خفیہ اجلاس بلایا گیا۔ گھنٹہ آدھ اندر جانے کیا کھُد بُد ہوتی رہی۔ بالآخر دروازہ کھلا اور سب سے پہلے پنڈت بھجن لعل باہر نکلے۔ کھچڑی بالوں والی چتکبری چٹیا ان کی پشت پر مرے سانپ کی طرح ڈھیلی پڑی تھی۔ پیچھے چلتے ’’پریتما‘‘ کے بوسیدہ گالوں پر آنسوؤں کا تار سا ٹوٹ رہا تھا۔ پریتما کے پیچھے جَکت رام اُس کے پیچھے لبھ‘ پھر ہری سنگھ اور اس کے پیچھے ہندو، سکھِ جاتی کے مردوں عورتوں کا ٹھٹ جلوس کی شکل میں چلتا مرکزی جامع مسجد کے سامنے آ کے کھڑا ہو گیا۔
پنڈت بھجن لعل نے مسجد کی دہلیز پہ ایک پاؤں اندر اور دوسرا باہر رکھا اور نعرہ مار کے بولا:
مولوی صاحب۔ کلمہ پڑھائیے۔ ہم پاک ہونے آئے ہیں۔
بنسو کے ہاتھ ابھی تک گوبر سے سَنے ہوئے تھے۔ وہ موت کے گلیارے میں بھی چوکا پوت کے پاک کر آتی تھی۔
پھر عشاء کی نماز پہ بھرے صحن کی مسجد میں مولوی صاحب نے کلمہ پڑھایا اور سب سے پہلے کلمہ پنڈت جی نے پڑھا۔ پھر سب سے عمر رسیدہ جُگت رام نے پڑھا۔ پھر ملگجی آنکھوں اور کالے کیسوں والے کرتار سنگھ نے پڑھا۔ پھر سُکھے نے پھر پرنیم نے زیر لب کلمہ دُہرایا۔ اس کے بعد جب سجن سنگھ کی باری آئی اور مولوی صاحب بولے۔ کہو۔ ’’میں گواہی دیتا ہوں۔ کہ اللہ کے سِوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ تو سجن نے تن کر پھریری لی۔
اور اپنے تھن متھے ہاتھوں سے مسجد کے دروازے کو پکڑ کر لمحہ بھر کے لیے چپ کھڑا رہا۔ پھر اپنے خشک لبوں پہ زبان پھیرنے لگا۔ نمازیوں میں وزیر علی سجنے کا سنگی تھا۔ گرمیوں کی شاموں میں اُس کے ساتھ گتکا کھیلتا اور سردیوں میں شیر گرم پہ شرطیں بدتا۔ اس نے اپنے ساتھی نمازی کے کندھے پہ ہاتھ مارا اور ٹھٹھا لگا کے بولا۔ سجن کا کلمہ پڑھنا ایسا ہی ہے۔ جیسے عربی فارسی میں بھاشا کا ٹانکا۔
سجن سنگھ نے منہ میں جمع کڑوا پانی باہر تھوکنے کی بجائے ایک گھونٹ میں اندر اتارا اور اپنی گیرو رنگی پگڑی سے چہرہ پونچھ کے کڑک کے بولا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
مولوی صاحب نے باقی لوگوں کی طرح انھیں بھی میاں جی کے گھر کی طرف دھکیل دیا۔ اس رات کوئی نہ سویا۔ مرد لمبی لمبی چھڑیوں پہ جلتی شمعیں لے کر گلیوں میں پہرہ دیتے رہے اور عورتیں اینٹیں، روڑے جمع کر کے چھت پہ بیٹھی بنسو، تارو اور کلونت کور جیسی نو مسلمات کو نماز، روزے کے مسائل بتاتی رہیں۔
یہ رات آنکھوں میں کٹی اور اکالی جتھہ شاید راستہ بھول بیٹھا کہ ممکنہ خون ریزی رک گئی۔ لوگ بکھر نکھر کے اپنے اپنے گھروں کو چلے تو شیدے ماچھی، موجو نائی اور لوہاروں کے دو تین لڑکوں نے مانگے تانگے کی نٹیوں کو ایڑ لگائی اور براستہ چیلیانوالہ ڈنگہ کی طرف روانہ ہوئے۔
راستے ویران اور خاموش پڑے تھے۔ پگڈنڈیاں اور کچی سڑکیں چپ چاپ لیٹی تھیں اور کناروں پہ اُگے چھوٹے موٹے خود رو پودے اُچک اُچک کر مسافروں کی راہ تکتے تھے۔ کبھی آہستہ، کبھی تیز، کبھی دُلکی چال چلتے وہ چیلیانوالہ پہنچے۔ شیر سنگھ جرنیل اور انگریزی فوج کے تاریخی مرن گھاٹ پہ وہ تھوڑی دیر کے لیے رکے۔
شیدے ماچھی نے چوڑے خاکستری پتھروں سے بنی چوکھنڈی کے دروازے پہ کھڑی پرانی بوڑھ کی شاخ سے گھوڑی کی رسی اٹکائی اور زمین پہ گری لال لال گولوں کو پاؤں سے روندتے ہوئے یادگاری مینار کی پانچویں سیڑھی پہ چڑھ کے جنوب مشرق کی جانب نظر دوڑائی۔ اور بڑھک مار کے بولا ’’دیکھ یارو! ڈنگہ بھانبھڑ بنا ہوا ہے۔ آگ کے شعلے یہاں تک نظر آ رہے ہیں۔
تینوں، چاروں دوستوں نے اس کی تقلید میں سیڑھیوں کی جانب زقند بھری۔ پھر اُچک کر دوبارہ گھوڑوں کی پشتیں آباد کرتے ہوئے آسمان سے باتیں کرتے شعلوں کی جانب جانوروں کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں۔
ڈنگہ جیسا بڑا اور تاریخی قصبہ فتح ہوئے تیسرا دن تھا۔ جب گاؤں میں پہلا مہاجر داخل ہوا۔ شیدا ماچھی ڈنگہ سے غنیمت میں دو بچے لایا تھا۔ دونوں شیر بچے تھے۔ مگر سہمی کبوتری کی طرح غٹرغوں تھے۔ اس کی ماں نے انھیں دائیں بائیں ٹھونک بجا کے دیکھا اور ناک بھوں چڑھا کے بولی ’’لو جی اور دیکھو! دوسرے تو سونے کی پوٹلیاں اور چاندی کے توڑے لائے۔ بیل، گائے، بھینسیں ہنکاتے آئے اور نہیں تو برتن بھانڈے اور چارپائیاں ہی اٹھا لائے اور یہ کیا لے کے آیا ہے۔ ایسی سوغاتیں تو ادھر بھی بہت تھیں۔‘‘
شیدا صحن میں آسمان تلے لیٹا دو روز پہلے کی مہم کا مزہ لے رہا تھا۔ آنکھیں موندے موندے بولا ’’اینٹ، پتھر، لوہا، فولاد بندے کا بدل نہیں ہے۔ بات تو تب بنتی ہے جب جگر آوی چڑھے۔ پھر اس پہ جدائی کی کٹاری پھرے۔ ہم یاروں کے یار اور دشمنوں سے دشمنی نبھانے والے ہیں۔‘‘
تو دشمنیاں نبھاتا رہ اور میں ادھر ان کا گُوہ موت اٹھاتی رہوں گی۔ اس کی بوڑھی ہڈی بیٹھے بیٹھے چٹخی تو شیدا تلخ ہو کے اٹھا اور دونوں کو آگے لگا کے میاں جی کی دہلیز پہ چھوڑ گیا۔ رات کو بے جی نے فاطمہ اور محمد حسین کے سامنے سالن کی کٹوری رکھی تو دوسری ان دونوں بہن بھائیوں کے سامنے رکھ کے بولیں: ’’لو بسم اللہ کرو! اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔‘‘
لڑکا بمشکل تین سال کا ہو گا۔ بھوکا تھا یا سالن کی مہک نے اس کی اشتہا کو انگیز کیا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کے بوٹی اٹھائی اور منہ میں ڈال کر اسے کچلنے لگا۔
لڑکی نے کہنی سے اسے ٹہوکا مارا اور کسمسی آواز میں بولی ’’ہم باہمن ہیں پریتو! ہم ماس نہیں کھاتے۔ کل جگت بے جی نے تھالی پرے سرکائی اور آلو کی بھجیا کو تڑکا لگا کے باہر کا دروازہ چوپٹ کھول دیا۔ جہاں سے پہلا مہاجر خاندان اندر داخل ہوا۔ یہ غلام محمد روہتکی عرف گاما تھا۔ اس نے کھدر کا مٹی مٹی تہبند اور پرچونسی کا اٹنگا کرتا پہن رکھا تھا۔
اور سر پہ کالے رنگ کا لوہے کا ٹرنک اٹھا رکھا تھا۔ جو زمین پہ دھرنے سے بجا تو اندازہ ہوا کہ اندر بالکل خالی ہے۔ اس کے پیچھے عین اس کے قدموں پہ چلتی بیگماں تھی۔ جس کے پہلو میں تن کے دو جوڑے گٹھڑی کی صورت بندھے لٹک رہے تھے۔ اور اس کی آنکھوں میں ڈھیلے بن میں وحشت زدہ ہرنی کی طرح ناچ رہے تھے۔ ان کے عین نیچے ناک کے متوازی اندر کو دھنستے گوشت نے دو کھائیاں سی بنا دی تھیں۔ جن میں آنسو یوں رواں تھے۔ جیسے راج بہاسے پانی نکل نکل کر مو گے میں رواں ہو جاتا ہے۔
اس نے محمد حسین اور فاطمہ کو دیکھا۔ پھر پریتو اور اس کی پنج سالہ آپا پہ نظر کی۔ جو آلو کی بھجیا میں لقمے بنا بنا کر بھائی کے منہ میں رکھ رہی تھی۔ اور چیخ مار کے گٹھڑی ٹرنک پہ دے ماری۔ خالی ٹرنک پھٹے ڈھول کی طرح بج اٹھا۔
بیگماں چیل کی طرح جھپٹی اور دونوں بچوں کے گرد بازوؤں کا حلقہ بنا کے انھیں گود میں بھر لیا۔ محلے ٹولی کے لوگ مہاجرین کی آمد کا سُن کر صحن میں جمع ہو رہے تھے۔ وہ اپنے تئیں انصار کی رسم اخوت نبھاتے کچھ نہ کچھ گھروں سے اٹھاتے آئے تھے۔
کسی نے تھالی میں گڑ کی بھیلی دھری تھی، کوئی اچار کی چار پھانکیں تندوری روٹی سمیت لایا، کسی نے مکئی کے بھنے بھٹے اور کوئی رسیلے گنوں کی مٹیاں۔
بے جی نے ’’جی آیا ںنوں‘‘ کہہ کے چادر زمین پر بچھا دی، لانے والے سوغاتیں وہاں رکھنے لگے۔
میاں جی نے سب کو مخاطب کر کے کہا ’’اللہ خیر رکھے! تو مہاجر بھائیوں کا آنا جانا اب لگا رہے گا۔ یہ نہ ہو کہ شروع کا جوش بعد میں بالکل ٹھنڈا پڑ جائے۔ ہتھ ہولا رکھو بھائیو! پانچ دس بندوں کا رزق تو میرے گھر سے نکل ہی آئے گا۔‘‘
’’سنا ہے بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ ٹرینوں کی ٹرینیں کٹی پڑی ہیں۔‘‘ الہ دین نے حصّے کے منہنال میاں جی طرف پھیر کے کہا۔
’’اللہ سب کا مالک ہے۔ جو ڈالتا ہے، وہ سہارتا بھی ہے۔‘‘
’’پر جی! بدلہ تو شرع شریعت میں بھی ہے۔ پھر ہمارے ہاتھ کیوں بندھے ہوئے ہیں۔ ہندو سکھ تو ابھی ادھر بھی بہت ہیں۔‘‘ وزیر علی نے کسی ممکنہ خیال کے پیش نظر کہا ’’چل اوئے! انھوں نے کلمہ پڑھا ہے۔ اپنی ہی بہنوں کے سالو! لال رنگنے کی بات کرتے ہو بے غیرت۔‘‘
الہ دین ڈپٹ کے بولا تو وزیر علی بڑ بڑ کرتا چپ ہو گیا۔
ہوا ہے، ہوا ہے، ایسا بھی ہوا ہے۔ بدلہ لینے والوں نے بھی اپنی پوری ہمت مار لی ہے۔ شیدا بتا نہیں رہا تھا۔ ڈنگہ بازار لوٹا گیا۔ سکھ، کھتری سب نکل گئے۔ ایک آدھا مارا بھی گیا۔ گھروں میں بھی لوٹ مار ہوتی رہی۔ اسی لوٹ مار کے مال کو بیگماں نے کسی گمشدہ متاع کی طرح سینے سے لگا رکھا تھا اور غلام محمد شیرے پہ گرتی مکھیوں کی طرح بڑھتے ہجوم کے بیچوں بیچ بیٹھا تاسف سے سر ہلا ہلا کے بتا رہا تھا۔
بڑا جُلم ہوا ہے جی! بیگماں بھرے بجار، میں ترکاری سبزی خریدتی پھر رہی تھی۔ جب مُشکی گھوڑی والا نیزہ لہراتا ٹاپو ٹاپ بیچ بازار سے گجرا۔ اس نے بتایا بَلوہ ہو گیا۔ آگ لگ گئی، مسلمانوں کے محلے بھانبھڑ بن گئے ہیں۔
حاضرین کے کان کھڑے ہو گئے۔ مکھیاں بھنبھنانے لگیں۔ بھن بھن چہ مگوئیوں میں بدلی اور اونچی اواز میں تبصرے شروع ہو گئے۔
مُشکی گھوڑے والا؟
جن تھا یا چھلاوا!
ہر جگہ بلوے کی، ہلّہ بولے جانے کی خبریں ہر شخص کی زبان پہ اس کا قصہ۔ یہ ضرور کوئی شیطان کا چیلا تھا جو افواہیں اڑا کر افراتفری پیدا کرنا چاہتا تھا۔ میاں جی نے کہا۔
’’افواہ کہاں جی!‘‘ گاما بولا۔ ’’سچ تھا، سب سچ تھا۔ بیگماں گرتی پڑتی روتی پیٹتی گھر پہنچی۔ تو گھر کی جگہ راکھ کا ڈھیر تھا اور بچوں کی وہاں جلی ہوئی ہڈیاں بھی نہ تھیں۔
تب سے … گامے نے تہبند کی ڈب لمبی کھینچ کے آنکھیں پونچھیں۔ اور انگلی سے بیگماں کی طرف اشارہ کر کے بولا ’’تب سے یہ جھلی بنی ہوئی ہے۔ ہر بچے پہ اپنے بچوں کا گمان کرتی ہے۔‘‘
مجمع میں ٹھنڈی سانسیں حبسیلی ہوا کی طرح سرسرائیں اور ہاتھ دیدہ و نادیدہ آنسوؤں کو صاف کرنے کے لیے چہروں کا طواف کرنے لگے۔
ادھر ہندوؤں کے محلے پہ راتوں رات جھاڑو پھر گئی۔ فجر کی نماز میں نو مسلموں کی گنتی کی گئی تو آدھے سے زیادہ غائب تھے۔ دن چڑھے عورتیں کھتری بازار سے دال، سبزی اور چھوٹی موٹی روزینہ ضرورت کی لینے گئیں۔ تو کئی گھروں کے دروازے کھلے پڑے تھے۔ اور اندر خالی ڈھنڈار کمرے بھائیں بھائیں کر رہے تھے۔
دوپہر تک خبر سارے گاؤں میں پھیل گئی۔ کہ کھتری ہم سے ہاتھ کر گئے ہیں۔
دو چار بڈھوں، ایک آدھ غریب غربا گھرانوں کے سوا سب نکل لیے تھے۔
اجی انھیں بھی نکال باہر کریں۔ بلکہ یہیں شمشان گھاٹ بناتے ہیں۔ وید جی کو لہو کا اشنان کرواتے ہیں۔
شیدے، وزیرے اور موجو جیسے جوشیلے نوجوان تو ڈنڈے اٹھا کر تیار ہو گئے۔
’’کیوں بے بس نہتے لوگوں کا اجاڑ مانگتے ہو۔‘‘ میاں جی نے انھیں کہا۔
سہ پہر ڈھلے مہاجروں کے دوسرے قافلے کی آمد نے ہوا کا رخ اس طور بدلا کہ سب لٹے پٹے بے خانماں لوگوں کو انھیں بے آباد گھروں میں لا کے بٹھایا گیا اور انصار ہتھ پنکھیوں سے غم سے نڈھال لہو نچڑتی آنکھوں اور اجڑے پجڑے بدنوں کو ہوا دیتے کوئی چھوٹا موٹا تسلی دلاسہ ہاتھ میں تھماتے کف افسوس ملتے رہے۔
اگر پہلے سے اندازہ ہوتا کہ ہندو ہمارے ساتھ دھوکہ کرنے جا رہے ہیں۔ تو سامان سمیت بیچ کھیت کے دھر لیتے۔ وزیرا منہ سے کف اُڑاتا بار بار بازو اوپر چڑھاتا تھا۔ وہ اپنی رگوں میں ابلتی توانائی کے یوں ضائع ہونے پہ سخت بد دل تھا اور کئی مرتبہ ٹوکا ہاتھوں میں تول کے دیکھ چکا تھا۔
بنیا مر کے بھی ساہو کار ہی رہتا ہے۔ مجال ہے جو ایک تنکا بھی چھوڑ کے گئے ہوں۔ دہائی خدا کی یہ بھی کوئی انصاف ہے۔ ہمارے بھائی اپنی آدھی سانسیں بھی ادھر چھوڑ آئیں اور … اس کی بات بیچ میں ہی رہ گئی اور لوگوں کی توجہ ایک مرتبہ پھر ہٹ کر اس جانب ہو گئی جہاں دروازے سے روتی پیٹتی خاتون، نڈھال مرد اور دوچار لڑکوں کے سہارے اندر داخل ہو رہی تھی۔
سب کی متاسف نظریں اُن پر جم گئیں۔ موجُو بھاگ کر سلور کے کٹورے میں دودھ لے آیا۔
دارے نے پانی کی بالٹی آگے کھسکائی، سرور روٹیوں کی چنگیر کھسکا لایا۔
کہانی وہی گزشتہ سے پیوستہ تھی۔ خاتون کے بچے جلے تو نہیں تھے، بلوائیوں کے ہاتھوں نیزے کی انیّوں پہ بھی نہ چڑھے تھے۔ وہ اس کے ہاتھوں سے کھینچے گئے تھے۔
میری بیٹی… اس کی ہچکی بندھ گئی… میری جوان عذرا وہ یکدم رک کے بین کرنے لگی۔ انھوں نے اسے میرے ہاتھوں سے، اپنے بھائیوں کے بازوؤں کے درمیان سے کھینچ لیا اور ہمیں نہر پار دھکیل دیا۔
لڑکے آبدیدہ ہو کے ماں کو سنبھالنے لگے۔
بیگماں نے دلدوز چیخ ماری۔ اور دونوں برہمن بچوں کو مرغی کی طرح پروں میں سمیٹ لیا۔
کسی نے ہاتھ پکڑ کر انھیں دھکیلنا چاہا۔ نکالو ان سنپولیوں کو، سانپ کے بچے کو سو سال تک دوھ پلاؤ گے، پھر بھی وہ اپنا نہ بنے گا۔
نہیں، نہیں! بیگماں کا استخوانی وجود التجا بن گیا۔ بچے خوفزدہ ہو کر اس کے گلے کا ہار ہونے لگے۔
گاماں، بیگماں اور لوگوں کے درمیان کود پڑا۔ رہنے دو نمانی کو… جھلی تو پہلے ہی ہوئی پڑی ہے۔ اب کیا جان سے بھی جائے۔
لڑکے جزبز ہو کے پیچھے ہٹے۔ مگر بیگماں کی سسکیاں اس وقت اور تیز ہو گئیں جب شام ڈھلنے لگی اور دو فوجی ٹرک دھرم شالہ سے باہر آ کے رکنے لگے۔ نیچے اترتے فوجی سب مسلمان تھے، ضلع کچہری میں ہندو برادری کی درخواست پہنچی ہے۔ انھیں یہاں حبس بے جا میں رکھا گیا ہے۔ شکر کریں، مسلمان ملٹری آئی ہے، ہندو سپاہی آتے تو ہو سکتا کوئی چھوٹا موٹا فساد ہو جاتا۔
آہستہ روی سے رینگتا ٹرک میاں جی کی ڈیوڑھی پہ پہنچا تو پچھلے حصے میں ننگے فرش پر بیٹھے جٹا دھاری لبھو رام نے دونوں ہاتھ ماتھے پہ رکھ کے سپاہی سے کہا۔
ادھر ہمارے دو بچے ہیں سرکار۔ ایک لڑکا اور لڑکی دونوں برہمن زادے ہیں۔
ٹھیک پانچ منٹ بعد جب ملٹری کے جوان دونوں بچوں کو بازیاب کرا کے ٹرک میں سوار کروا رہے تھے۔ تو بیگماں بے پتوار ڈولتی کشتی کی طرح دروازے سے باہر لپکی۔ اس کا بایاں بازو گامے کے ہاتھ میں تھا اور بکھرے بالوں والے سر سے گرتی چادر پیچھے جھاڑو پھیر رہی تھی۔ جب وہ چلتے ٹرک کے پیچھے دوڑی تو چادر اس کے ہوا میں لہراتے بازوؤں سے جھٹکا کھا کر نیچے جا گری اور اس کی ناک کے متوازی اندر کو دھنسے گوشت میں کھائیوں کی طرح گہرے گڑھوں میں آنسویوں بہنے لگے۔ جیسے نالے سے پانی نکل نکل کے مو گے میں رواں ہو جاتا ہے۔
٭٭٭