انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی طرح ہوتی ہیں کچھ کی ہلکی شفاف پانیوں جیسی اور کچھ کی گہری، کثیف اور سیاہی سے بھری ہوئی – کبھی کوئی دلدار لمحہ ایسا بھی ہوتا ہے جب ان میں سے کوئی پاس آ کر بیٹھ جاتی ہے اور کہتی ہے مجھے لکھو اور صفحہ قرطاس پر بکھر جاتی ہے لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے اکثر تو جگنو بن جاتی ہیں اور ان کے پیچھے بھاگتے بھاگتے بچپن سے بڑھاپے کی سرحدوں پر جا نکلو پھر بھی کہانی ہاتھ نہیں آتی –
آج بھی کہانی کی تلاش میں وہ دیر تک خیالوں کی وادیوں میں بھٹکتی میں رہی -پھر تھک کر قلم رکھ دیا اور بستر پر دراز ہو گئی – نیند سے بوجھل آنکھوں میں یکایک کسی کا نورانی سراپا لہرایا – ایک نحیف سی آواز کی باز گشت سنائی دی ” بیٹی کیا آج بیر اور امرود نہیں لو گی ”
اس کے منہ سے نکلا بڑے میاں ۔۔۔۔۔ کہاں ہیں آپ
اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا
کمرے میں ملگجا اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔۔۔۔۔اور پنکھے کی گھر گھر کے سوا مکمل خاموشی تھی ۔۔۔۔
آواز پھر آئی — کہاں ڈھونڈ رہی ہو — میں تو یہاں ہوں ۔۔۔۔
اس نے غور کیا آواز اس کے اندر سے آ رہی تھی
ہاں اندر کی آنکھ کھولو ۔۔۔ پھر دیکھ سکو گی مجھے ۔۔۔
اس نے ان کی ہدایت پر آنکھیں موند لیں ۔۔۔۔۔۔۔ دریچہ کھلا ہوا تھا، سامنے چبوترے پر بڑے میاں بیٹھے تھے، گوری چٹی رنگت، گھر کے دھلے ہوئے لیکن صاف ستھرے سفید کرتے پاجامے پہنے، ان کا سراپا بتا رہا تھا ضرور کسی اچھے گھر سے تعلق رکھتے ہیں اس نے مڑ کر دریچے کی طرف دیکھا وہ خود ایک چھوٹی سی بچی کی صورت میں کھڑی تھی دو پونیاں باندھے گلابی فراک اور چوڑی دار پائجامہ پہنے امی نے بڑے شوق سے سیا تھا پچھلی عید پر جب اس کی بسمہ اللہ ہوئی تھی ۔وہ انہیں پر تجسس نظروں سے تک رہی تھی جو
ایک چھوٹے سے تسلے میں اس کی پسند کے نمک مسالہ لگے بیر اور امرود سجائے اسے اپنی طرف بلا رہے تھے –
آؤ بیٹی دیکھو تمہارے لئے ہی لایا ہوں یہ کھٹے میٹھے بیر نہیں – اس نے پونیاں جھلاتے ہوئے نفی میں گردن ہلائی
امی منع کرتی ہیں اجنبی سے بات نہ کرو
میں اجنبی کہاں ہوں
اسے ان کی سچائی پر یقین آ گیا مگر قدم آگے نہ بڑھے
اسے پتا ہی نہ چلا کب باجی پیچھے آن کھڑی ہوئی تھیں
انہوں نے نوٹ اس کے ہاتھ میں تھمایا اور بڑے میاں کو ہدایات دینے لگیں
بابا جی جلدی سے دو پڑیاں بنا کر اسے کے ہاتھ میں پکڑا دیں یہ لو یہ کم مسالہ والی تمہارے لئے ہے
اس دن کے بعد سے باجی اور لبہ بڑے میاں کے بیرو امرود کی مستقل خریدار بن گئیں –
مگر امی سے چھپ کر یہ خریداری ہوتی اس کے لئے پوری راز داری برتی جاتی ورنہ امی کو پتا چل جاتا تو یہ چاٹ مصالحے کے مزے اسی وقت بند ہو جانے تھے –
بڑے میاں کو سمجھا دیا گیا تھا کہ وہ ہمیشہ پچھلے دروازے کی طرف ہی سے آیا کریں آواز بالکل نہ لگائیں وہ خود ہی انہیں دیکھ لیا کریں گی اور یوں وہ باجی کے لئے تار برقی کا کام کرنے لگی –
رفتہ رفتہ بڑے بھیا بھی ان کے خریداروں میں شامل ہو گئے -گرمیوں کی آمد آمد تھی، بیرو امرود کا موسم جا چکا تھا۔
اب بڑے میاں شکر قند لانے لگے –
باجی کو تو خان بابا کی بھوبل میں بھنی ہوئی شکر قند پسند تھی یوں ان کا ایک گاہک کم ہو گیا لیکن ان کی جگہ بڑے بھیا نے لے لی تھی اسے اب ان کے لئے زیادہ فکر نہ کرنا پڑتی کیونکہ بھیا ان سے اچھے وقتوں کے دلچسپ قصے سنا کرتے اور ساتھ میں اپنے ہاتھ سے چائے بھی بنا کر پلاتے –
بڑے میاں کبھی کبھی قصے سناتے ہوئے اپنے ماضی میں کھو جاتے تو بہت اداس ہو جاتے اور اپنے اس حال کو پہنچنے پر آنسو بہاتے ۔ وہ بتاتے تقسیم سے پہلے بہت اچھا گھر تھا ان کا گھر کیا پوری حویلی تھی نوکر چاکر، زمینیں جس پر خوب کھیتی باڑی ہوتی، اکلوتے ہونے کی وجہ سے اماں ابا ان پر واری صدقے ہوتے اسی چاؤ میں نہ پڑھائی پوری کی اور نہ ہی کوئی ہنر سیکھا، اماں کہا کرتیں ہم نے کون سے اپنے لاڈلے بیٹے سے نوکری کرانی ہے ۔ مگر وقت کب کسی کا ہوا ہے جب لٹ پٹ کر پاکستان آئے تو کوئی کلیم داخل نہ کر سکے ان کے کئی جاننے والے جھوٹے کلیم جمع کرا کے بڑے بڑے گھروں کے مالک بن گئے، انہوں نے جب واپس جا کر کاغذات لانے کا سوچا تو بارڈر ہی بند ہو چکا تھا – سو بس ایسے ہی رہ گئے بے گھر و بے اماں دور پرے کے ایک بھانجے نے اپنے گھر کے برآمدے میں جگہ دے رکھی تھی سو مصیبت کے دن کاٹ رہے تھے یہی نہیں ایک بیٹی تھی جسے چیچک نے کھا لیا، بیوی بھی اس کے غم میں اللہ کو پیاری ہو گئی، وہ جب اپنی بیٹی کا ذکر کرتے تو لبہ کو دیکھتے جاتے کبھی روتے روتے مسکرا دیتے کہتے انہیں لبہ کی صورت میں اپنی صغریٰ نظر آتی ہے –
لبہ اور باجی کے لئے یہ لمحات بہت ہی تکلیف دہ ہوا کرتے ۔ جنھیں سن کر وہ اکثر اپنی خیالی دنیا میں کھو جاتی – اکثر سوچا کرتی – کاش ابا زندہ ہوتے اور انہیں دادا کی جائیداد میں سے اتنا حصہ مل جاتا کہ بڑا سا گھر بنا لیتے ایک کمرہ تو بڑے میاں کو ہی دے دیتے – انہیں کہیں جانے اور سبزی منڈی سے اس عمر میں پھل خرید کر لانے اور گلی گلی بیچنے کی تکلیف بھی نہ اٹھانا پڑتی – ابھی وہ خوابوں کے شیش محل میں آخری اینٹ لگانے ہی کو ہوتی کہ امی کی زور دار آواز سے وہ چکنا چور ہو جاتا –
لبہ پانی کی مشین بند کر دو کتنا پانی ابل ابل کر بہہ گیا ہے کسی دن ٹنکی ٹوٹ کر گر جائے گی –
———–
دن پر لگا کر اڑے جا رہے تھے اب وہ ساتویں جماعت میں آ گئی تھی باجی نے بی اے کر لیا تھا اور مزے سے گھر کے کام سیکھ رہی تھیں – بھیا بھی انجینیرنگ کے آخری سال میں تھے – بڑے میاں سے ان کی دوستی کم نہ ہوئی تھی کہ اچانک انہوں نے گلی میں آنا چھوڑ دیا – سب ان کی موجودگی کے عادی ہو چکے تھے ایسے ایک دم سے غائب ہو جانے پر خیال آیا آج تک کسی نے ان کے گھر کا پتا پوچھا نہ کسی دوست کا کوئی نمبر لیا –
بڑے میاں کہاں غائب ہو گئے کیسے ان کی خیر خبر لیں بھیا نے گلی کے دو چار لوگوں سے ذکر بھی کیا مگر ان کے لئے تو ایسے چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچنے والوں کا ہونا نہ ہونا برابر تھا – لبہ کی بے چینی اور فکر اسے کھائے جا رہی تھی مگر وہ کسی کے باپ تھے نہ نانا کوئی رشتہ داری تو تھی نہیں پھر کیوں کر ان کے لئے ایسے پریشان ہوا جائے – امی سے تو ویسے بھی اتنی ہم آہنگی نہ تھی کہ اپنے دکھ سکھ سنایا کرتی تھوڑے دن رو دھو کر اپنی اسکول کی مصروفیات میں مگن ہو گئی – کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ بڑے میاں واپس آ گئے مگر ایسے کہ ان کی ٹانگ پلاسٹر میں جکڑی ہوئی تھی اور وہ بیساکھیوں کے سہارے سامنے والوں کے چبوترے پر بیٹھے تھے بھیا اور لبہ دونوں بھاگ کر ان کے پاس پہنچے ۔ بھیا تو ان کے گلے ہی لگ گئے -وہ بے تاب ہو گئی – کہاں تھے آپ ایسے تھوڑی جاتے ہیں نہ اتا نہ پتا —
بیٹا بس سے اترتے ہوئے گر گیا — اتنی تیز چلاتے ہیں میرے لئے کون رکتا ہے ۔۔۔ وہ تو شکر کرو کہ تھوڑی دور گرا ورنہ پہیہ میرے اوپر سے ہی گزر جاتا
وہ یہ کہتے ہوئے کھڑکی کی طرف بھی دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ میں سمجھ گئی ۔۔۔ باجی کو دیکھنا چاہتے ہوں گے ۔۔۔ مگر باجی کو اب ان کی پرواہ کہاں ۔۔۔ اب تو ہر وقت وہ تھیں اور ان کے منگیتر کے ٹیلی فون ۔۔۔۔ بڑے بھیا نے مڑ کر دیکھا لبہ ابھی تک وہیں کھڑی تھی ۔۔۔ مگر ان کے کہنے سے پہلے ہی وہ اندر کو بھاگ گئی ۔۔۔شام ہوئی تو بھیا نے بتایا وہ ایک ٹیوشن کے پیسے بڑے میاں کو دے دیا کریں گے جب تک ان کی ٹانگ ٹھیک نہیں ہو جاتی ۔۔۔۔ لبہ سوچ رہی تھی ۔۔۔۔۔ بھیا بھی عجیب ہیں ۔۔۔۔ امی سے لڑتے ہیں کہ انہیں انجیئرنگ کیوں پڑھوا رہی ہیں ان کی تو کوئی زندگی ہی نہ رہی ۔۔۔ ٹیوشن پڑھا کر خرچہ پورا کرتے ہیں اور بڑے میاں کے لئے اتنا دل بڑا کر لیا — بڑے میاں بھی جانے کس مٹی کے بنے تھے کچھ ہی دنوں میں لاٹھی کے سہارے چلتے ہوئے پھر سے تسلے میں امرود اور بیر لانے لگے-
مگر اب وہ ان سے چیزیں خریدنے کو بھاگ کر گلی میں نہیں جاتی تھی – وہ بھی سمجھ گیے تھے – خود ہی اس کے کمرے کی کھڑکی پر دستک دے کر چاٹ کی پڑیا رکھ جاتے — ایک دن باجی نے دیکھا اس کی میز پر ایسی پڑیوں کا ڈھیر لگا تھا — تنک کر بولیں تم نے کھانی نہیں ہوتیں یہ الا بلا تو بڑے میاں کو منع کر دو، پیسے پھینکنے کا بہت شوق ہے نا ۔۔۔۔ اس نے حیرت سے باجی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں چھپا طنز دیکھ کر وہ تھوڑا جز بز ہوئیں پھر سر کو ایک طرف جھٹک کر آگے بڑھ گئیں —
————-
بہت سا وقت گزر چکا تھا – امی ریٹائر ہو کر اب گھر میں ہی رہا کرتیں، باجی کی شادی ہو گئی تھی اور بھیا بھی سعودی عرب نکل گئے تھے – بڑے میاں نے گلی میں آنا چھوڑ دیا تھا، کوئی ان سے بیر و امرود خریدتا جو نہ تھا، پیکٹوں کے چپس اور رنگ برنگے اشتہاروں نے ان کی سادہ سی دکان داری ختم کر کے رکھ دی تھی ۔۔۔۔ اس نے بھی صبر کر لیا کہ اتنے بزرگ ہو گئے تھے ان کی بھنویں تک سفید ہو چکی تھیں کوئی تو ہو گا جو ان کا خیال رکھتا ہو گا ۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے اب دنیا میں ہی نہ ہوں ۔۔۔۔۔ اپنے ظالم خیال پر اسے خود ہی رونا آ گیا ۔۔۔۔۔۔ پھر ۔۔۔ ادھر ادھر کے کاموں میں اسے ان کی یاد آنا بھی کم ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔اب وہ بی بی اے میں آ گئی تھی ۔۔۔ بھیا پرائیوٹ کالج کی فیس بھیج دیا کرتے ۔۔۔۔۔ وہ اب بھی شیش محل کے خواب دیکھا کرتی مگر اس میں بڑے میاں کا کوئی تذکرہ نہ ہوتا نہ ان کے لئے کوئی کمرہ مختص کیا جاتا بلکہ ایک انجان شہزادے کا انتظار ہوتا جو کسی شاندار کار میں بٹھا کر اسے اپنے محل میں لے جاتا ۔۔۔۔۔ یہ خواب وہ اکثر دن میں بھی دیکھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔ آج کالج سے واپسی پر سڑک پار کرنے کے لئے فلائی اوور پر چڑھی تو بھی اس کی نظریں پل کے نیچے سے گزرنے والی چمچماتی کاروں میں بیٹھے کسی شہزادے کو تلاش کر رہی تھیں کہ ایک دم جھٹکا سا لگا، ٹریفک کے ہجوم کے پرلی طرف اس کی نظر پڑی تو نگاہیں جیسے وہیں اٹک کر رہ گئیں ۔۔، اس نے ٹھٹک کر پل کی ریلنگ کا سہارا لیا ورنہ پیچھے سے آنے والے کسی راہگیر سے ٹکرا جاتی – سڑک کے کنارے رو مال بچھائے بڑے میاں بیٹھے تھے ۔ ان کا سر جھکا ہوا تھا لیکن وہ تو انہیں ہزاروں میں بھی پہچان سکتی تھی، ۔۔۔ ان کے کپڑے مٹی اور گرد سے اٹ کر اپنی سفیدی کھو چکے تھے، وہ پہلے سے کہیں زیادہ منحنی اور نحیف و نزار دکھائی دے رہے تھے ۔۔۔۔۔ آس پاس سے گزرتے ہوئے لوگ ان کی موجودگی کا احساس کئے بغیر کبھی کوئی سکہ ان کی طرف اچھال کر آگے بڑھ جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭