بالے مجھے دھتکارا نہیں گیا !۔۔۔ میمونہ احمد

تذلیل اور دھتکار بڑی بر ی چیز ہے استاد انسان کے انسان ختم کر جاتی ہے۔ بالے نے استاد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ کیسے بالے ؟ دیکھو نا استاد اوپر والے نے تو سارے انسانوں کو برابر ہی بنایا ہے لیکن یہ انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو جب اپنے سے کم تر سمجھتا ہے اور خود کو برتری کے درجے پر رکھتا ہے نا تو استاد جن کی یہ تذلیل کرتے ہیں اور جنھیں یہ دھتکارتے ہیں تو وہ اندر سے مر جاتے ہیں۔ اور مرے ہوئے انسان زندگی کے کارخانوں میں کیسے اپنا حق اد ا کرسکتے ہیں۔ لیکن اُستاد یہ دھتکار ان کی سوچوں پر ہتھوڑے کا کام دیتی ہے۔ جو ایسی ضرب لگاتی ہے کہ تکلیف روح تک پہنچ جاتی ہے۔۔
اوئے بالے تجھے بڑا تجربہ ہے تذلیل اور دھتکار کا۔۔۔ ؟ استاد نے حیرانی والی نظروں سے بالے کو دیکھا۔۔ !
استاد اب تو ایسے تو نہ دیکھ بہت چھوٹا سا آیا تھا تیرے اس ہوٹل پر کام کرنے جب اماں نے کہا تھا میرے پتر کو اچھے سے کام سکھا دینا اور ہفتے کے ہفتے پیسہ دے دینا۔۔ ! برتن مانجے ہیں میں نے تیرے اس ہوٹل پر ان کو کالے سے سفید نکالا ہے تو تجربہ تو تیرے اس ہو ٹل نے دیا ہے۔۔ یہ سارا معاشرہ تو آتا ہے تیری دوکان پر جو کبھی تذلیل اور دھتکار آنکھوں میں لے کے آتے ہیں۔۔۔ !
اُستا د کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔ کہ یہ معاشرے کے نام نہاد با عزت لوگ ہمارے پیشوں کی عزت کرسکتے اور ان کی آنکھوں میں مان ہوتا عزت ہوتی۔ تذلیل اور دھتکار کی جگہ۔۔
بعض اوقات تجربے ایسی بات کہلواتے ہیں کہ تعلیم صرف مسکرا کر رہ جاتی ہے شفیق حسین عرف شیقہ جو کافی دیر سے ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔۔۔ بول پڑا ! یار بالا تو نے بات بڑی کی ہے لیکن بڑی بات ہضم نہیں ہوتی ہے۔ ہم تو چھوٹے لو گ ہیں روز کی روز کماتے ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے ان با عزت لوگوں کی آنکھوں میں مان دیکھنے کی۔۔۔ ! یار شیقہ جب ضرور ت نہیں ہے مان کی تو دھتکار بھی کیوں تذلیل کیوں ؟ بالے تو محسوس نہ کیا کر ان کی سوچ کی پرورش نہیں ہو سکی وہ ابھی سوچنے کی طرف مائل نہیں ہے۔۔ جب کبھی ان کی سوچ کی پرورش ہونے لگے گی نا تو مان اور عز ت خودبخود ان کی آنکھوں میں آ جائے گا ہمارے لیے۔۔۔ !!!!(اس کا مطلب انتظار کرنا ہے۔ آہ!)
اوئے بس کر جاؤ تم دونوں اُستاد جو کافی دیر سے ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔۔ تمھارے معاشرے کے جو یہ لوگ ہیں نا بڑے بے یقین ہے۔۔ یقین کی دولت نہیں ہے ان کے پاس یہ جو بھی کرتے ہیں بغیر یقین کے کرتے ہیں۔ لیکن ایک چیز بڑے یقین سے کرتے ہیں اور وہ ان کے زندہ رہنے کی سوچ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں وہ ہمیشہ اس دنیا میں رہنے والے ہیں حالانکہ روز کوئی نہ کوئی خالی ہاتھ لوٹ جاتا ہے اس دنیا سے۔۔۔
شیقہ چائے کی چسکیاں لے رہا تھا اور سو چ رہا تھا کہ حسینہ بائی نے بھی ایک دن ایک بات کہی تھی تمھارا معاشرہ اگر میری سوچ کی عز ت کرئے تو کیا کمال نہ ہو جائے وہ میرے جسم کو ہوس والی نظروں سے دیکھنے کے بجائے میری سوچ کی عزت کرئے مجھے بھی عورت سے پہلے ایک انسان سمجھے اور سوچنے کے حوالوں سے جانے تو کتنا اچھا ہو جائے۔۔۔ ! بالے اور حسینہ بائی کی سو چ کتنی ملتی ہے۔۔۔
یا پھر تذلیل اور دھتکار کا اثر ہے۔۔۔ جس کا رنگ ایک جیسا ہے۔۔۔ مارتا ہوا۔۔۔۔ !
اوئے شیقہ کیا سوچتے ہو !!!!؟
یار میں حسینہ بائی کے بارے میں سو چ رہا تھا ۔۔۔ میں نے تو اس سے ایک مدت تک محبت کی تھی یار پتہ نہیں کہاں گئی۔۔۔ ؟
یار شیقہ ایک بات بتا کیا اس کے نہ ہونے سے تیری محبت ختم ہو گئی ہے۔۔۔ ؟ نہیں ایسا نہیں ہے میری محبت تھی یا ر کوئی وقتی احساس نہیں تھا۔۔۔ دل چاہتا ہے اس مکھڑے کو دیکھنے کے لیے۔۔ جس کو دیکھنے کے لیے خدا سے بارہا میں دعا مانگتا تھا۔۔۔
مر ہی نہ جا وں یار میں ایک مرتبہ تو اس ایک صورت کو دیکھ لوں۔۔۔ !
اوہ مستانے ! تو پریشان نا ہو مل جائے گی تجھے۔۔۔ کسی نہ کسی راستے پر۔۔۔
خدا کرے
٭…………٭

حسینہ بائی اکو اپنے آبائی گاؤں رہتے ہوئے تقریباً تین سال ہو گئے تھے۔۔ حویلی میں بہت سارے کمرے تھے ایک کنواں بھی تھا جو آج تک قائم ہے بہت ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہے اس کا یہی وجہ ہے کہ دادا ابا کی بھر پور فرمائش پر اس کو آج تک ٹوٹنے نہیں دیا گیا اور ہر سال تایا ا با اس کی مرمت کرواتے ہیں۔۔ !

اوپر والی منزل پر تایا ابا کا خاندان رہتا تھا اور نیچے اس کے ابا اور ان کا خاندان رہتا تھا۔۔ ایک بھر پور خاندان تھا۔ شام ہوتے ہی سارے حویلی پہنچ جاتے , درختوں پر پرندوں کا شور ہوتا اور نیچے حویلی کے مکینوں کا۔۔۔
رونق عروج پر ہوتی ہے۔۔۔ کبھی چائے کا دور چلتا تو کبھی مونگ پھلیاں کھا ئی جا رہی ہیں۔۔ کبھی لڈو کھیلی جا رہی تو کبھی کر کٹ۔۔ لیکن حسینہ بائی اپنے زرد چہرہ لیے کنویں ایک کونے پر بیٹھی تھی۔۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا کہ اس کے ارد گر کیا ہو رہا ہے۔۔۔ چاند بھی آسمان پر نمودار ہو گیا تھا اپنی من مانیاں کرتا وہ آسمان کی تنہائی کا شراکت دار بن گیا تھا!
اس کی ماں نے اس سے پو چھا تھا بتا ؤ تم شفیق سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی۔۔ ؟ اچھا لڑکا ہے خوش رکھے گا تمھیں۔۔۔
اماں مجھے سوچنے تو دو مجھ میں رشتوں کا بوجھ اُٹھانے کی سکت ہے یا نہیں۔۔ آج سے تین سال پہلے جب وہ لاہور میں تھی تو اس نے اماں کو یہ جواب دیا تھا۔۔۔۔ لیکن آج شائد اس کے زرد چہرے میں ایک اور رنگ شامل ہوا تھا۔۔
یقین کا رنگ۔۔ فیصلے کا رنگ۔۔۔ جس نے اسے اُٹھنے پر مجبور کر دیا۔۔ وہ اماں کے کمرے میں گئی۔ اماں لیٹی ہوئی تھی۔۔ حسینہ بائی آپ آئیے۔ آئیے۔۔۔ !
اماں اس کے چہرے کو پڑھ چکی تھی۔۔ کیا بات ہے حسینہ بائی ؟ اماں عورت محبت نہیں کرتی ہے ! محبت عورت کی سچائی نہیں ہے۔۔۔
ممتا اس کی سچائی ہے۔۔ ! ممتا اس کا رنگ ہے۔۔ سچا اور کھرا رنگ۔۔ جس میں سب کچھ سما جاتا ہے۔۔ اس کی ممتا کو محبت کا نام دے دینا تو اس کے ساتھ نا انصافی ہے۔۔ ! کیا آپ کو نہیں لگتا۔۔ ؟
حسینہ بائی آپ مشکل گفتگو کر رہی ہیں سیدھے بتائیے آپ کیا کہنا چاہتی ہیں۔۔ ؟
میں شفیق سے شادی کے لیے تیار ہوں۔۔۔ !!!!
٭……٭

مجھے مان دیا گیا ہے عزت دی گئی ہے۔۔
بالے مجھے دھتکارا نہیں گیا۔۔۔
مجھے مارا نہیں گیا۔۔۔ !
شیقہ اونچی اونچی آواز میں بالے اور استاد کو خبر دے رہا تھا۔۔۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے