ایک شامِ احتجاج ۔۔۔ عنبرین صلاح الدین

دھوپ بہتی چلی جاتی ہے دریچوں سے پرے

آسماں زرد سے نارنجی ہوا جاتا ہے

سائے گہرے ہوئے جاتے ہیں تری گلیوں میں

اور سب جانتے ہیں آج یہاں

شام چپ چاپ، دبے پاؤں نہیں آئے گی

 

سرمئی شام کے بڑھتے ہوئے سایوں سے نکل آئے ہیں،

کب ہیں یہ آدمی، یہ ڈھلتے ہوئے سائے ہیں،

ساتھ رہتے چلے آئے ہیں بہت مدت سے،

تیری گلیوں میں، مکانوں میں، جھروکوں میں کسی چاپ کے ابہام کے مانند،

یہ ہمسائے ہیں،

تیری غربت سے بساندی ہوئی گلیوں سے نکل آئے ہیں اس سمت، جہاں

اے مرے شہر، تری سب سے بڑی،

سیکڑوں مہنگی عمارات کے سائے میں پڑی،

ریل کی پٹڑی کے اُس پار سے آئی ہوئی خلقت کو حقارت کی نظر سے تکتی،

دونوں اطراف یہ دو رویہ، سڑک ہے موجود!

 

جوق در جوق چلے آئے ہیں

آگ پانی میں لگاتے ہوئے ہاتھوں سے مکمل لاعلم

تیرے پانی سے بنے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ آگ ہیں خود

ذہن سیال ہیں اور سوچ کے خالی دھارے ؛ جن میں کچھ بھر دو، بہا دو کچھ بھی

اے مرے شہر، تری گلیوں سے

کیسے تنکوں کی طرح اڑتے چلے آئے ہیں

 

درد میں ڈوبے مرے شہر، تجھے تھا یہ وہم

یہ ترے واسطے مرہم کوئی لے آئے ہیں

اب اکٹھے جو ہوئے ہیں، تو ذرا غور سے دیکھ

آب سے آگ ہوئے لوگوں کو

زہر رستا ہے یہاں جسموں سے

کوڑھ بہتا ہے یہاں سوچوں میں

جہل بستا ہے دلوں کے اندر

 

کس کی یرقان زدہ سوچ کی بے رس لے پر،

کھوکھلی باتوں پہ، بھٹکاتے ہوئے نعروں پر،

کسی زر دار کی بھڑکائی ہوئی آگ میں جلنے کے لیے آئے ہیں

خود سے اکتائے ہوئے، جینے سے گھبرائے ہوئے،

کس کے کہنے پہ چلے آئے ہیں

آدمی کب ہیں بھلا، ڈھلتے ہوئے سائے ہیں!!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے