بارہا سوچ کے بھی دیکھا سنبھل کر دیکھا
نہ ہوا پر نَہُوا مسئلہ حل کر دیکھا
میرؔ صاحب کی شریعت پہ عمل کر دیکھا
شہر آشوب کو پھر ہم نے غزل کر دیکھا
مصرعۂ تر کسی صورت نہ غزل میں آیا
رُوٹھ کر چاہا منا لیجے، مچل کر دیکھا
قتل و غارت گری تقدیر نہ تھی شہرِ حزیں
ہَوسِ نسل کُشی تُو نے نہ ٹَل کر دیکھا
عصبیت ناس ترا،آگ بھڑکتی ہی رہی
لاکھ نفرت کو محبت سے بدل کر دیکھا
چشمِ پُر آب تری اشک شوئی کون کرے!
آئینہ رُو ہوئی یا عکس میں ڈھل کر دیکھا
زندگی بھر کسی سائے کی طرح وہم رہا
تُو نے ہم زاد مرے ساتھ نہ چل کر دیکھا
سچ بیانی سے مجھے خواب کی تعبیر ملی
کھُل گئی آنکھ مگر ہاتھ نہ مَل کر دیکھا
نام ور کوئی ہوا، کام کسی کا نکلا
ہاشمیؔ تُو نے کیوں اعصاب کو شل کر دیکھا
٭٭٭
وہ مل گیا تھا ہمیں اک سفر پہ چلتے ہُوئے
بِلا اِرادَہ کسی رِہگُزَر پہ چلتے ہوئے
عجیب طور کی بخشی ہے رب نے بینائی
اُتَر گئے کئی منظَر نظر پہ چلتے ہوئے
عجیب ہجر تھا ہجرت نژاد لوگوں کا
نگاہ ڈلی گئی بام و دَر پہ چلتے ہُوئے
پھر اُس کے بعد کوئی راستا نہ منزِل تھی
رہا گیا نہ کسی اِک ڈگر پہ چلتے ہُوئے
کسی کی یاد میں چھَلکے ضرور بہہ نہ سکے
وہ اشک جمتے گئے چشمِ تَر پہ چلتے ہوئے
کسی خزانے پہ پھَن اپنا چھوڑ آیا کیا!
جو سانپ رینگتا دیکھا شجر پہ چلتے ہُوئے
٭٭٭