انتخاب پروفیسر اویس احمد دوراںؔ (مرحوم)

 

اک بے وفا کے نام

 

تیرے بھی دل میں ہوک سی اٹھے خدا کرے

تو بھی ہماری یاد میں تڑپے خدا کرے

مجروح ہو بلا سے ترے حسن کا غرور

پر تجھ کو چشمِ شوق نہ دیکھے خدا کرے

کھو جائیں تیرے حسن کی رعنائیاں تمام

تیری ادا کسی کو نہ بھائے خدا کرے

میری ہی طرح کشتیِ دل ہو تری تباہ

طوفان اتنے زور کا اُٹھے خدا کرے

راہوں کے پیچ و خم میں رہے تا حیات گم

منزل ترے قریب نہ آئے خدا کرے

ظلمت ہو تو ہو اور تری رہ گزار ہو

دنیا میں تیری صبح نہ پھوٹے خدا کرے

تجھ پر نشاط و عیش کی راتیں حرام ہوں

مر جائیں تیرے ساز کے نغمے خدا کرے

آئیں نہ تیرے باغ میں جھونکے نسیم کے

تیرا گلِ شباب نہ مہکے خدا کرے

ہر لمحہ تیری روح کو اک بے کلی سی ہو

اور بے کلی میں نیند نہ آئے خدا کرے

ہو تیرے دل میں میری خلش، میری آرزو

میرے بغیر چین نہ آئے خدا کرے

تو جا رہی ہے بزمِ طرب میں تو خیر جا

پر تیرا جی وہاں بھی نہ بہلے خدا کرے

المختصر ہوں جتنے ستم تجھ پہ ٹوٹ جائیں

لیکن یہ ربطِ زیست نہ ٹوٹے خدا کرے

جو کچھ میں کہہ گیا ہوں جنوں میں وہ سب غلط

تجھ پر کوئی بھی آنچ نہ آئے خدا کرے

تو ہے متاعِ قلب و نظر بے وفا سہی

ہے روشنیِ داغِ جگر بے وفا سہی

٭٭٭

 

 

 

ایڈن گارڈن

 

یہ ایڈن گارڈن ہمدم نگاہ و دل کی جنت ہے

یہاں حوا کی رنگیں بیٹیاں ہر شام آتی ہیں

جواں مردوں کو اپنی جاذبیت سے لبھاتی ہیں

دلوں کو شرمگیں نظروں سے پیہم گدگداتی ہیں

 

سہاگن ہے تو اُس کی مانگ میں جھومر چمکتا ہے

کنواری ہے تو اُس کے جسم سے خوشبو نکلتی ہے

گلابی مدھ بھری آنکھوں سے اک مستی ابلتی ہے

وہ مستی جو دلوں کے ساغرِ رنگیں میں ڈھلتی ہے

 

حسیں جوڑے میں کوئی پھول گوندھے کوئی لٹ کھولے

فضائے ساحلِ ہگلی میں رنگ و نور بھرتی ہے

بھرے مجمع میں اپنے حسن کا اعلان کرتی ہے

تماشا دیکھنے والوں کی روحوں میں اترتی ہے

 

سنہری بالیاں شوخی سے رخساروں کو تکتی ہیں

کھنکتی چوڑیاں گیتوں کی میٹھی دھُن سناتی ہیں

جبیں پر ننھی ننھی کہکشائیں مسکراتی ہیں

حنائی انگلیاں لہرا کے ساجن کو بلاتی ہیں

 

یہ بنگالی حسیناؤں کی جلوہ گاہ ہے ہمدم

یہاں پیر و جواں آ کر متاعِ دل لٹاتے ہیں

جنوں انگیز لَے میں نرم و شیریں گیت گاتے ہیں

نگاہوں میں نگاہیں ڈالتے ہیں مسکراتے ہیں

 

ٹھہر اے جذبۂ بیتاب اسی رنگین دنیا میں

لبوں کی سرخ مے سے دل کے خالی جام کو بھر لیں

شمیمِ زلف سے بے ربط سانسیں عنبریں کر لیں

جوانی کے بہار آگیں گلستاں میں قدم دھر لیں

٭٭٭

 

 

حکایت دوراںؔ

 

مطبوعہ: رفتار نو، دربھنگہ1959

 

دبلا پتلا نازک دوراںؔ

شیشہ جیسا نازک دوراںؔ

غم کی کالی رات کا مارا

اپنے ہی جذبات کا مارا

آٹھوں پہر یوں کھویا کھویا

جیسے گہری سوچ میں ڈوبا

کم ہنسنا عادت میں داخل

خاموشی فطرت میں داخل

شمع کی صورت بزم میں جلنا

گاہ بھڑکنا گاہ پگھلنا

ماتھے پر ہر وقت شکن سی

چہرہ پر آزردہ تھکن سی

چہرہ سے محرومی ظاہر

معصومی مظلومی ظاہر

آنکھیں ہر دم امڈی امڈی

پلکیں ہر دم بھیگی بھیگی

کرب آنکھوں میں درد آنکھوں میں

راہ وفا کی گرد آنکھوں میں

سہما سہما شام بلا سے

روٹھا روٹھا اپنے خدا سے

عقل و خرد سے جی کو چرائے

پاگل پن سے باز نہ آئے

جانے دل میں کس کی لگن ہے

روح میں کس کانٹے کی چبھن ہے

یہ ہے اپنا دوراںؔ یارو

الجھا سلجھا دوراںؔ یارو

لیکن یارو یہی مسافر

راہ وفا کا دکھی مسافر

شانوں پر اک بوجھ کو لادے

راہ طلب میں آگے آگے

دل میں اک مضبوط ارادہ

نظروں میں اک روشن جادہ

غم کی لمبی رات پہ بھاری

ظلم کا اور ظلمت کا شکاری

انسانی تہذیب کا قائل

دنیا کی تعمیر پہ مائل

سعی پیہم اس کی تمنا

جگمگ جگمگ اس کا رستہ

اس کی ساری فکر پریشاں

انسانی تنظیم کی خواہاں

نظمیں اس کی جان مقاصد

روح تمدن شان مقاصد

صبح پہ شیدا شام پہ عاشق

اپنے وطن کے نام پہ عاشق

باتیں ریب و ریا سے خالی

ہر نقش کردار مثالی

پیار انساں کا دل میں چھپائے

درد جہاں سینہ میں بسائے

دوراںؔ ہے یا روح دوراںؔ

گریاں گریاں خنداں خنداں

اس کی دنیا اپنی دنیا

اس دنیا میں ساری دنیا

٭٭٭

 

 

تہ خنجر

 

اقلیت کہیں کی ہو تہ خنجر ہی رہتی ہے

ہلاکت خیز ہاتھوں کے ہزاروں جبر سہتی ہے

خس و خاشاک کی مانند سیل غم میں بہتی ہے

نہ کوئی خواب آنکھوں میں نہ دل میں آسرا کوئی

نہ جوئے خوں سے بچنے کا نظر میں راستہ کوئی

نہ مستقبل کی آوازیں نہ منزل کی صدا کوئی

خود اپنی ہی فضا میں خوف کا احساس ہر لمحہ

عدم محفوظیت کا دور تک غم ناک سناٹا

سہانی ہو کے بھی بے رونق و بے کیف سی دنیا

حقارت کی نظر نفرت کی چنگاری تعاقب میں

مصیبت آگے آگے ذلت و خواری تعاقب میں

جدھر جائے وہیں طوفان بے زاری تعاقب میں

زباں معتوب تہذیب و ثقافت دار کی زد میں

گھر آنگن عزت و ناموس کل تلوار کی زد میں

لبوں کی مسکراہٹ آتشیں یلغار کی زد میں

اقلیت جہاں بھی ہے یہی اس کا مقدر ہے

یہ زخمی بے اماں مخلوق ہر سو زیر خنجر ہے

بتا اے دل یہ غم کی رات ہے یا روز محشر ہے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے