اردو املا کے معیار کی ضرورت –اعجاز عبید

اردو املا کے معیار کی ضرورت

اعجاز عبید

 

اب جب کہ اردو کمپیوٹر کی دنیا میں قدم رکھ چکی ہے اور اس کے فروغ کے نۓ دریچے وا ہو چکے ہیں تو اب ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم کمپیوٹر پر اردو ٹائپ کرنے والوں کی خاطر خواہ رہنمائی کریں اور املا کے کمپیوٹر کے مطابق اصول وضع کریں۔ یہاں میرا اشارہ اردو تحریر ہی کی طرف ہے جو کہ واقعی اردو زبان کے طور پر ہی ہر آپریٹنگ سسٹم پہچان سکتا ہے ، ان پیج قسم کے مخصوص سافٹ وئر کے مخصوص فانٹ میں لکھی ہوئی تحریر نہیں جسے آپ پڑھنے کے لۓ وہی سافٹ وئیر استعمال کریں ورنہ آپ کو اسی سافٹ وئر کے ذریعے ہر صفحے کی ایک تصویر پیش کر دی جاۓ جسے آپ محض پڑھ سکیں ، اور کچھ کام اس سے نہ لے سکیں۔ مزید تفصیل میں "کمپیوٹر اور انٹر نیٹ پر اردو ” کے تحت پچھلے شمارے میں دے چکا ہوں۔

کچھ دن سے میں کئی اردو تحریروں کا مطالعہ کرنے پر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارا مقصد محض یہ ہوتا ہے کہ ہمارا لکھا یا ٹائپ کیا ہوا یا چھپا ہوا لوگ پڑھ سکیں اور سمجھ سکیں۔ لیکن اگر بات املا کی پرکھ کرنے والا سافٹ وئر (سپیل چیکر) بنانے کی ہو تو پھر یہ پروگرام عقل مند قاری کی طرح نہیں پڑھ سکے گا۔ اور بظاہر صحیح نظر آنے والے الفاظ یا الفاظ کے مرکب کو بھی وہ غلط ظاہر کرے گا۔ اعراب کی بات اس وقت نہیں کر رہا ہوں۔ ایسے پروگرام کی لغت میں ہر ممکن لفظ کی صورت میں شامل کرنا ہو گا۔ مثال کے طور پر پچھلے جملے کا ہی لفظ لیں۔ اسے آپ ‘مُرکب’ لکھیں ، یا ‘مرکّب’ یا ‘مُرکّب’ یا محض ‘مرکب’۔ہر صورت صحیح ہے اور لغت میں ہر ممکن صورت دینے کی ضرورت ہو گی۔ لیکن "آ رہا ہے ” تین الفاظ کا مجموعہ ہے۔ ان کے درمیان میں آپ وقفہ (سپیس) نہ بھی دیں تو یہ "آ رہا ہے ” بھی صحیح پڑھنے میں آۓ گا اور کنھیں دو الفاظ کے بیچ وقفہ دیں (‘آ رہا ہے ‘ یا ‘آ رہا ہے ‘) تو اس صورت میں بھی۔ لیکن درست تو یہی ہے کہ یہ تین الگ الگ الفاظ ہیں اور سپیل چیکر انھیں تین الفاظ کے طور پر تو پہچان لے گا لیکن بغیر وقفہ کے ‘آ رہا’ یا ‘رہا ہے ‘ یا ‘آ رہا ہے ‘ کو ایک ہی لفظ مانے گا تو یہ اس کی لغت میں نہیں ہو گا اور یہ املا کی غلطی دکھاۓ گا۔

سپیل چیکر کے علاوہ یہ مشکل تلاش میں اور بھی زیادہ ہو گی، چاہے وہ انٹر نیٹ پر گوگل پر سررچ ہو یا آپ کے ورڈ ڈاکیومینٹ میں تلاش میں۔ اگر آپ مکمل فائل میں کسی محترمہ کو محترم سمجھ کر مذکر کا صیغہ لکھ گۓ ہیں اور "آۓ ہیں ” کو "آئی ہیں ” میں بدلنا چاہ رہے ہیں تو آپ فائنڈ اینڈ رپلیس میں بغیر وقفہ کے "آّۓہیں ” لکھ دیں گے اور فائل میں "آۓ (وقفہ) ہیں ” ٹائپ کیاہوا ہے تو وہ تبدیل ہونے سے رہ جاۓ گا۔

انٹرنیٹ پر آپ گوگل میں آپ کو غالب کی اس غزل کی تلاش ہے جس میں ہے "آۓ ہے بے کسیِ عشق پہ رونا غالب’۔ اب آپ اس مصرعے کو گوگل کی تلاش پر لگائیں تو یہ اسی وقت وہ غزل ڈھونڈھ سکے گا جب کہ یہ مصرعہ بالکل اسی طرح لکھا ہو گا ورنہ نہیں۔ اگر انٹرنیٹ پر موجود غزل میں ٹائپ بھی اسی طرح کیا گیا ہے کہ "آۓ ہے ” کے درمیان میں وقفہ نہیں ہے اور آپ تلاش میں وقفے کے ساتھ لکھ رہے ہیں تب بھی آپ کو صحیح غزل نہیں مل سکے گی۔ یہی صورت "بے کسیِ” میں بھی آۓ گی۔ اسے "بیکسیِ”، "بے کسیِ (بلا وقفہ)” ، "بیکسئِ” اور "بے کسئِ (معہ وقفہ)”، بے کسئِ (بلا وقفہ)” اور ان سب ممکنات کے علاوہ بغیر اضافت کے بھی لکھ کر تلاش کیا جا سکتا ہے لیکن صحیح نتائج اسی وقت برامد ہوں گے جب کہ ویب سائٹ میں اسی طرح لکھا ہو گا جیسا آپ لکھ کر تلاش کر رہے ہیں۔ اس لۓ میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ایسے اصول بنانا ضروری ہے جس سے ہر قسم کی تلاش صحیح ثابت ہو سکے۔ املا کے ان اصولوں کا معیار مقرر کرنے کی اب ضرورت بڑھتی جا رہی ہے اس لۓ کہ اب اردو تحریر (یونی کوڈ) میں بہت سی ویب سائٹس اپنا مواد دینے لگی ہیں۔

اس قسم کے اور بھی مسائل ذیل میں پیش کر رہا ہوں۔

1۔ اکثر حضرات ٹائپ کرتے وقت دو الفاظ کے درمیان وقفہ اس وقت ضروری نہیں سمجھتے ہیں جب کہ حروف کے الحاق کا مسئلہ نہ ہو۔  الف اور واؤ پر ختم ہونے والے الفاظ کے بعد اگر آپ وقفہ نہ بھی دیں تو بظاہر کوئی فرق محسوس نہیں ہو گاجیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے لیکن اضافت اور درمیان میں "و” والے مرکبات کا معاملہ مختلف ہے۔ مثلاً گل و نغمہ میں گل اور و کے درمیان وقفہ ضروری ہے (ورنہ یہ گلو لکھنے میں آئے گا) تو یہاں وقفہ دیا جاۓ گا، لیکن ‘و’ اور نغمہ کے بیچ میں وقفے کی ایسی ضرورت پیش نہیں آتی اور لوگ اسے بلا وقفے کے لکھ دیتے ہیں۔ یعنی گل۔ وقفہ۔ ونغمہ۔ اس طرح آپ اردو میں ایک نیا لفظ ایجاد کر دیتے ہیں ‘ونغمہ’۔ ان پیج کی فائلوں کو کنورٹ کرتے وقت مجھے نون غنہ کا بھی ایسا ہی تجربہ ہوا۔ ان پیج میں نون غنہ کے بعد وقفہ نہ بھی دیا جاۓ تو املا صحیح ہوتی ہے۔ لیکن اگر میں ‘یہاں وقفہ’ نہ دوں تو؟ یہاں میں نے یہاں اور وقفہ کے درمیان وقفہ نہیں دیا ہے۔

2۔ یہی حال اضافت کاہے۔ آب ‘دردِدل’ میں ‘دردِ’ اور ‘دل’ کے بیچ میں وقفہ دیں تو یہ ایک لفظ ‘دردِدل’ گننا ہو گا۔ اور ‘درد’ اور ‘دل’ لغت میں ہونے پر بھی آپ کا سپیل چیکر غلطی ظاہر کرے گا۔ اور اگر وقفہ دیا جاۓ تو یہ دو الفاظ شمار ہوں گے۔ ‘دردِ’ اور ‘دل’۔ لغت میں اس طرح ‘درد’ اور ‘دردِ’ دونوں الفاظ دینے ہوں گے۔ یا پھر دردِدل، دردِمحبت، دردِجگر سارے الفاظ کو لغت میں شامل کرنا ہو گا۔

3۔ ‘ۂ’ کی حالت تو بے حد خراب ہے۔ ‘نالۂ دل’ کی جو شکلیں مجھے دیکھنے کو ملی ہیں وہ یہ ہیں : دونوں الفاظ کے درمیان وقفہ یا عدم وقفہ سے قطعِ نظر

نالۂدل

نالۂدل

نالۂ دل

نالہ دل

میں صرف تیسری صورت صحیح سمجھتا ہوں۔ اور اوپر ہمزہ کی جو صورت ہے (مثال نمبر دو میں یہاں )، وہ اردو میں مستعمل نہیں۔ مصری قرآن کی املا میں ہے ، محض الف کے اوپر ہمزہ اردو میں استعمال ہوتی ہے جس کے لۓ پہلے سے ہی ایک کیریکٹر موجود ہے ، یعنی’ أ‘۔  ‘ۂ’ یا’ ‘ کے بارے میں یہ بھی کہ یہ کیریکٹرس ہر فانٹ میں نہیں ہیں۔

4۔  یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کچھ لوگ ‘ؤ’ کو ‘ؤ’ لکھ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ ان پیج سے یونی کوڈ میں تبدیل کرنے پر ایسا ہو جاتا ہو، لیکن میں اسے غلط سمجھتا ہوں۔

5۔ اس کے علاوہ ‘ۓ’ کی بجاۓ محض ‘ے ‘ کا استعمال بھی دیکھنے میں آیا ہے۔جیسے ‘ موۓ آتش دیدہ ہے ‘ کی جگہ ‘ موے آتش دیدہ ہے ‘۔ غالب کے ہی پرانے دواوین میں یہ املا ضرور ہے لیکن یہ آج مستعمل نہیں۔

6۔ کچھ الفاظ ملا کر لکھے جانے والے ہیں۔ اکثر قدیم املا کے مطابق، مثلاً ‘سخت جانیہاے ‘ لکھا جاتا ہے اسی طرح ‘بیدلی’ وغیرہ الفاظ بھی ملا کر لکھے جاتے ہیں ، محض وقفہ ہٹایا جاۓ تو یہ بی دلی بن جاتا ہے۔ اسی طرح’لینگے ‘ یا ‘کیونکر’ ملا کر لکھا جاتا ہے۔ان کو بھی میں الگ الگ دو الفاظ قابلِ ترجیح سمجھتا ہوں۔ یعنی ‘لیں گے ‘ اور ‘کیوں کر’

7۔ اکثر ‘ۓ’ کی بجاۓ محض ‘ے ‘ بھی دیکھا گیا ہے ، جیسے  ‘سخت جانی ہاے ‘۔ اسے بھی ہاۓ لکھنا چاہۓ۔

8۔ ایک اور یہ بھی پتہ چلا کہ کچھ لوگ ‘ؤ’ کو ‘ؤ’ لکھ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ ان پیج سے یونی کوڈ میں تبدیل کرنے پر ایسا ہو جاتا ہو، لیکن میں نے شعر و سخن، مانسہرا (رسالے ) کی ان پیج فائل میں بھی ایسا ہی ٹائپ کیا دیکھا ہے۔ میں اسے غلط سمجھتا ہوں۔

9۔ لام اور الف (لا) کا معاملہ اعراب کے ساتھ مشکل نظر آتا ہے۔ آپ "جلاّد” لکھنا پسند کریں گے یا "جلّاد” ؟ پہلی صورت میں یہاں شدّہ (تشدید) الف کے بعد لگائی گئی ہے اور دوسری صورت میں "لام” کے بعد۔ میں پہلی سورت درست سمجھتا ہوں اس لۓ کہ "لا” اردو کا ایک حرف ہی مانا جاتا ہے۔

10۔ ان کے علاوہ مزید الفاظ کا معیار مقرر کرنے کی ضرورت ہے جیسے :

"لیے ” یا "لۓ” یا لئیے ” (میرا ووٹ "لۓ” کے لۓ)

"آئۓ”، "آئیے "، "آیئے "۔(میری راۓ میں دوسری صورت)

"آئینہ”، آیینہ”، آئنہ” (میرے خیال میں نثر میں "آئینہ”، مگر شاعری میں بحر کی ضرورت کے مطابق۔ جیسے غالب کا مصرعہ”ہوائے سیرِگل، آئینۂ بے مہرئِ قاتل ” میں "آئینہ” درست ہے جب کہ ” پیشِ نظر ہے آئنہ دائم نقاب میں ” میں "آئنہ”۔

11۔فتحتاً یعنی دو زبر کا استعمال عجیب مضحکہ خیز ہے ، کچھ حضرات دو زبر لگاتے ہی نہیں اور ‘فوراً’ کو ‘فورا’ لکھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ اور کو میں نے الف کے بعد تخاطبی نشان استعمال کرتے ہوۓ دیکھا ہے ، یعنی ‘فورا”‘ جو مختلف فانٹ میں مختلف شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے لۓ یونی کوڈ میں الگ سے حرف ہے اور ہر کی بورڈ میں موجود۔ درست صورت ‘فوراً’ ہے۔

صلاۓ عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لۓ۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے