اختر انصاری دہلوی: جینے کی جد و جہد میں جی سے گزر گئے ۔۔۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا

گردِشِ مدام اور پیہم شکستِ دِل کے نتیجے میں حساس تخلیق کار اضطراب اور اضمحلال کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب اُس کی کوئی اُمید بر نہ آئے اور نہ ہی اصلاح احوال کی کوئی صورت دکھائی دے تو زندگی ایک کرب، اذیت اور عقوبت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اختر انصاری دہلوی کی شاعری میں پائی جانے والی یہی کیفیت اس کے دِل پر اُترنے والے سب موسموں کا احوال پیش کرتی ہے۔ موزوں ترین الفاظ کے انتخاب اور ان کے بر محل استعمال کا جو قرینہ اختر انصاری دہلوی کے اسلوب میں جلوہ گر ہے وہ ان کی انفرادیت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ ان کی شاعری میں جدت اور تنوع کی مظہر خیال آفرینی اور معنی آفرینی کے سوتے لفظیات ہی سے پھُوٹتے ہیں۔ اختر انصاری دہلوی جیسے با کمال ادیب کے اشہب قلم کی جولانیاں اور اسلوب کی حشر سامانیوں کی تاثیر حد اِدراک سے بھی کہیں آگے ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جہاں تک کلام میں حزن و یاس کا تعلق ہے اختر انصاری دہلوی کے اسلوب پر فانی بدایونی (شوکت علی خان: 1879-1961) کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ بات اس لیے حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ اختر انصاری دہلوی نے ہوائے جور و ستم میں نرغۂ اعدا میں بھی حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں رکھنے پر اصرار کیا ہے۔ سمے کے سم کے ثمر نے ایسا گُل کھِلایا کہ اِس حساس تخلیق کار کا غنچۂ دِل اِس انداز سے کھِلا کہ یہ کھِلتے ہی مُرجھا گیا۔ ہوا کی سرسراہٹ، موسموں کے تغیر و تبدل اور گُل ہائے رنگ رنگ سے رازِ مسرت کی جستجو کرنے والے اس فطرت نگار اور متحمل مزاج ادیب نے عیش کی راتوں، برساتوں اور خواب کی باتوں کو برشگال کی سوغاتوں سے تعبیر کیا۔ اسے معلوم ہے کہ قزاقِ یاس و ہراس نہایت سفاکی کے ساتھ اُمیدوں کی متاع بے بہا کو لُوٹ لیتا ہے۔ اگرچہ شدت احساس نے اُسے جیتے جی مار ڈالا اس کے باوجود وہ کاسۂ گدائی تھامے عمر رفتہ سے زندہ اور توانا جذبات کی بھیگ مانگنے میں کوئی تامل نہیں کرتا۔ اختر انصاری دہلوی اپنی گم گشتہ تمنا سے بھی والہانہ محبت کرتا ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس کی زندگی بہاروں کے سوگ میں بیت گئی مگر کنج تنہائی کو گوشۂ عافیت قرار دینے والے اس مستغنی کو یاسیت پسند کہنا مناسب نہیں۔

 

محبت کرنے والوں کے بہار افروز سینوں میں

رہا کرتی ہے شادابی خزاں کے بھی مہینوں میں

 

ہوائے تُند ہے، گِرداب ہے، پُر شور دھَارا ہے

لیے جاتے ہیں ذوقِ عافیت سی شے سفینوں میں

 

میں بتاؤں کیا ہے یہ شاعری، یہ نوائے دِل، یہ سرودِ جاں

کبھی درد لفظوں میں ڈھل گیا، کبھی ٹِیس لے میں سما گئی

 

اب تو خاموش ہیں، لیکن انھی آنکھوں نے کبھی

ایسے طوفان اُٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

 

ایک تصویر محبت ہے جوانی گویا

جس میں رنگوں کے عوض خونِ جگر بھرتے ہیں

 

عِشرتِ رفتہ نے جا کر نہ ہمیں یاد کیا

عِشرتِ رفتہ کو ہم یاد کیا کرتے ہیں

 

آسماں سے کبھی دیکھی نہ گئی اپنی خوشی

اب یہ حالت ہے کہ ہم ہنستے ہوئے ڈرتے ہیں

 

جو پُوچھتا ہے کوئی دِل کی حسرتوں کا حال

تو منھ سے ’’ہائے‘‘ نکلتی ہے، بات کے بدلے

 

کیا یاد کر کے عشرتِ رفتہ کو روئیے

اِک لہر تھی کہ ناچتی گاتی نکل گئی

 

یادش بخیر! عہدِ محبت کی شاعری

اِک آہ تھی کہ گِیت کے سانچے میں ڈھل گئی

 

حریت فکر و عمل کے مجاہد کی حیثیت سے اختر انصاری دہلوی نے اپنی شاعری کو ضمیر کی للکار اور حریت فکر کی پیکار کی شکل عطا کرد ی تھی۔ ایک صابر و شاکر ادیب کی حیثیت سے اختر انصاری دہلوی نے ایک شان استغنا کے ساتھ زندگی بسر کی۔ جمالیاتی سوز و سرور کو اپنا مطمح نظر بنانے والے اس ادیب نے اپنی زندگی میں کبھی دو عملی اور منافقت سے کام نہ لیا۔ خوابوں کی صورت گری اور حسن و جمال کی مرقع نگاری میں انھوں نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔ محبت اور نفرت کے درمیان وہ کسی مصلحت کے قائل نہ تھے۔ سادیت پسندوں سے وہ سدا ناخوش و بیزار رہتے تھے۔ عملی زندگی میں انا کا بوجھ ہی ان کا زادِ سفر رہا۔ آستین کے سانپ، سانپ تلے کے بچھو اور بروٹس قماش کے محسن کش موقع پرستوں سے اُنھیں شدید نفرت تھی۔ پس نوآبادیاتی دور میں عادی دروغ گو مفاد پرست طبقے نے حسد اور ٹھگی کو وتیرہ بنا لیا۔ ان سفہا اور اجلاف و ارذال نے ایذا رسانی کو مشغلہ بنا لیا۔ ان حالات میں الم نصیب جگر فگار مظلوم کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی کی توقع رکھیں۔ عملی زندگی میں وہ کئی کینہ پرورحاسدوں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کا نشانہ بنے مگر انھیں ہمیشہ کے لیے نظروں سے گرا دیا اور کبھی ان کا نام لینا بھی گوارا نہ کیا۔ اہلِ جور کی پیہم سختیوں اور نا انصافیوں نے زندگی بھر انھیں یاس و ہراس میں مبتلا رکھا۔ وہ جبر کے ہر انداز کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دِل آزاری کرنے والے سادیت پسندوں سے اُن کی نفرت بڑھتی چلی گئی۔ پروفیسر ظہیر احمد صدیقی نے ان کی شخصیت کے اسی پہلو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اطہر پرویز کے حوالے سے لکھا ہے:

’’کسی ترقی کے سلسلے میں پروفیسر عمر الدین نے ان کی مخالفت کی تھی جس کی وجہ سے ان کو ترقی نہ مِل سکی۔ جب عمر الدین صاحب کا انتقال ہوا اور دریافت کیا کہ کیا آپ اُن کے جنازے میں شریک ہوں گے؟ کہنے لگے ’’جناب! آپ نے کسی مقتول کو اپنے قاتل کے جنازے کو کاندھا دیتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔‘‘ (3)

پروفیسر اختر انصاری دہلوی کے بارے میں اپنے اس مضمون کے لیے مآخذ کے حصول کے سلسلے میں مجھے مشاہیر ادب سے بھی رابطہ کرنا پڑا۔ وھیٹی، اونٹاریو، کینیڈا میں مقیم عالمی شہرت کے حامل ممتاز بھارتی ادیب طارق غازی کی طرف سے منگل دس نومبر 2020 کو صبح چار بج کر چھپن منٹ پر یہ ای۔ میل موصول ہوئی جس سے مندرجہ بالا بات غلط ثابت ہوئی ہے۔ اس ای۔ میل کے ساتھ اُن کی تصنیف ’’تذکار الانصار‘‘ میں شامل اختر انصاری کے بارے اُن کا مضمون بھی منسلک ہے۔ اپنی اس ای۔ میل میں محترم طارق غازی صاحب نے لکھا ہے:

’’پروفیسر اختر انصاری دہلوی پر ایک سوانحیہ میں نے اپنی کتاب (تذکار الانصار) میں لکھا ہے جس کی نقل یہاں پیش ہے۔ جہاں تک ان کے ساتھ پروفیسر محمد عمر الدین مرحوم کے کسی اختلاف کا تعلق ہے تو اِس سے قطع نظر، یہ بیان محلِ نظر ہے کہ اختر انصاری نے پروفیسر عمر الدین کے جنازہ میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ عمر الدین صاحب علی گڑھ میں فلسفہ کے پروفیسر تھے، جس سال (جولائی 1959ء میں) میں وہاں پہنچا وہ ایس ایس ہال کے پروووسٹ بھی تھے۔ میں اِسی ہال کے ہوسٹل ایس ایم ایسٹ میں رہتا تھا۔ مسلم یونیورسٹی سے ریٹائر ہونے کے بعد پروفیسر عمر الدین پاکستان چلے گئے اور وہیں (غالباً لاہور میں) اُن کا انتقال ہوا تھا۔ پروفیسر اختر انصاری کا انتقال علی گڑھ میں ہوا۔ اس صغری کبری سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پروفیسر عمر الدین کے انتقال کے وقت یہ دونوں ممتاز علمی بزرگ ایک دوسرے سے جسمانی طور پر بہت دُور تھے اور پروفیسر عمر الدین کے جنازہ میں پروفیسر اختر انصاری کی شرکت خارج از امکان تھی۔‘‘ (4)

تصورات کی زلفوں کا پیچ و خم، رعنائیِ خیال اور رباب زیست کے تاروں کا زیر و بم عنقا ہو جانے کے بعد حصول مسرت کو سرابوں میں بھٹکنے پر محمول کرنے والے جادو نگار تخلیق کار اختر انصاری دہلوی نے زمانے کے چلن دیکھ کر اسے خراباتی کہنا شروع کر دیا تھا۔ رفعتِ چرخ کے اسرار سے آگاہ یہ ادیب بھی رام ریاض، ساغر صدیقی اور خادم مگھیانوی کی طرح موہوم شادابیوں کو سینے سے لگائے غموں سے نباہ کرتا رہا اور کبھی حرفِ شکایت لب پر نہ لایا۔ پیہم شکست دِل کے بعد بھی تکلم کے سلسلوں میں وہ رنج و الم سے بھی لطف اُٹھانے کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کر لیتا تھا۔ گردشِ حالات نے اُسے افسردگی کے ماحول کا اسیر بنا دیا مگر اِس قناعت پسند ادیب نے ایک شان استغنا کے ساتھ بعض اوقات گرداب کی لہروں سے چُہل کرنے جیسے شغل بے معنی کو بھی راحت کے حصول کا ایک وسیلہ سمجھا۔ مراعات یافتہ استحصالی عناصر کی رودادِ عشرت سُن کر رشک کرنا بعض حریص لوگوں کا وتیرہ بن جاتا ہے مگر اختر انصاری دہلوی نے کھُلی آنکھوں سے اس تصورِ پر کیف کا خواب دیکھنے والوں پر گرفت کی اور اُنھیں حقائق سے آنکھیں چار کرنے پر مائل کیا۔ عملی زندگی میں کچھ لوگ بلند مناصب پر پہنچ جاتے ہیں مگر ان کے قناعت پسند دیرینہ ساتھی ان سے مفادات حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔ نوآبادیاتی دور میں زمانہ طالب علمی میں پروفیسر عبدالستار چاولہ اور حاجی محمد اکرم کے جالندھر میں جنرل ضیا الحق اور ان کے خاندان سے قریبی تعلقات تھے۔ پس نو آبادیاتی دور میں پرانے ربط و تعلق سے وابستہ سب حقیقتیں خیال و خواب ہو گئیں۔ اختر انصاری کے ہم جماعت ساتھیوں میں فخر الدین علی احمد اور نور الدین احمد جیسی مقتدر ہستیاں شامل تھیں در کسریٰ پر صدا کرنا اُن کے مسلک کے خلاف تھا اس لیے وہ اپنی دنیا میں مگن رہے۔ اپنے دِلِ پُر خوں سے بہنے والے آنسوؤں کا خیال کرتے ہوئے بھی بزمِ طرب کی تلاش رجائیت کا منفرد انداز ہے۔

سر مستیوں میں رُوح جوانی کُچل گئی

یعنی بہار سوزِ بہاراں سے جل گئی

اختر انصاری دہلوی کو یہی شکوہ تھا کہ کاتب تقدیر نے ان کے کاسۂ مقدر میں ڈالے گئے درد و کرب اور مصائب و آلام قارون کے خزانے کے مانند ہیں۔ جان گسل تنہائیوں اور سکوتِ مرگ میں بھی ظلمت شب کے پردے ہٹا کر وہ انجمن خیال سجا کر اپنے دِل کا خلا بھرنے اور سکون قلب تلاش کرنے کا کوئی بہانہ تلاش کر لیتے تھے۔ لطفِ زیست کے محض چند لمحوں کی تلاش میں نکلنے والا یہ درویش فقیری میں بھی امیری کے انداز اپنا تا ہے۔ تنہائی کے عالم میں شبِ مَہ کے منتشر جلووں کو دیکھ کر حسن و جمال کی تلاش کا خیال رُخ، حسینۂ فطرت کے چہرے سے نقاب اُٹھانے کا انوکھا خیال ہے۔ ان کی عادات و اطوار، میل جول اور رہن سہن کے انداز دیکھ کر ان کے معیار اور ذوق سلیم کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ بے ہنگم واقعات اور بد وضع لوگوں کے بارے میں کوئی بات سنناگوارا نہیں کرتے تھے۔ ان کے معمولات اور حلقۂ یاراں کے مشاغل کے بارے میں بھارت میں مقیم عالمی شہرت کے حامل ادیب، نقاد، محقق اور ماہر تعلیم پروفیسر شہپر رسول نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’اچھا لباس، اچھے لوگ اور اچھی صورتیں اُن کو پسند تھیں۔ ایک مرتبہ علی گڑھ ہی کے ریستراں میں راقم الحروف کے ساتھ ڈنر کا پروگرام طے پایا۔ معینہ وقت پر میں اور مرحوم ریستراں پہنچے۔ اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں اور صرف اِس بنیاد پر کہ وہاں موجود اشخاص یا افراد کے لباس اور شکلیں ان کو پسند نہیں آئی تھیں ڈنر ہی منسوخ کر دیا۔۔ ۔۔ ۔ اور یہ فرماتے ہوئے کہ ’’یہاں کی فضا تکدر سے پُر ہے، ہم تو گلیمر کی تلاش میں یہاں آئے تھے‘‘ واپس گھر روانہ ہو گئے۔‘‘ (5)

دِلِ فسردہ میں کچھ سوز و ساز باقی ہے

وہ آگ بجھ گئی لیکن گداز باقی ہے

تقدیروں کے بننے اور بگڑنے اور خزاں کے سیکڑوں خوں رُلانے والے مناظر دیکھنے کے بعد زخم خوردہ اختر انصاری دہلوی نے ہر قسم کا شکوہ اور شکایت چھوڑ کر اپنے دِلِ شوریدہ کو تھام کر صبر کو شعار بنا لیا جو اُن کی مضبوط اور مستحکم شخصیت کی دلیل ہے۔ اُن کے دِل غم گداز میں کرب پیہم کروٹیں بدلتا رہا مگر محبت کے ستم سہہ کر بغیر آنسوؤں کے رونے والے اس ادیب نے اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا۔ اُن کے اسلوب میں جلوہ گر اُن کی نکتہ سنجیوں کو دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ وہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ چلنے کی صلاحیت سے متمتع تھے۔ گردش ایام کے باوجود اپنے مرکز قائم رہنے کا یہ منفرد انداز انھیں ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ وہ ایک ایسے مرقع ساز تھے جو حسین الفاظ کے رنگوں سے روح، قلب اور ذہن و ذکاوت کی مرقع نگاری پر قادر تھے۔ روح کے زخم سے نا آشنا چارہ گری سے گریز کرنے والے غم گساروں پر وہ یہ بات واضح کر دیتے ہیں کہ گردشِ ماہ و سال کو دیکھ کر وہ اندمال کی مساعی کے نتائج سے نا اُمید نہیں۔ ضعیفی کے عالم میں محبت اور جوانی کے تذکرے اُنھیں اِس لیے پسند نہ تھے کہ جہانِ دِل کی ویرانی اور سوختہ سامانی کی لرزہ خیز کیفیت دیکھنے کے بعد اِس کا نئے سرے سے بسنا بعید از قیاس ہے۔ اپنے سب احباب سے اخلاق اور اخلاص سے پیش آنا اُن کا شیوہ تھا۔ انھوں نے معاشرتی زندگی میں پائے جانے والے تضادات، بے ہنگم ارتعاشات اور نا انصافیوں کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر انھوں نے سماجی زندگی میں راہ پا جانے والے مناقشات کے خلاف کھُل کر لکھا۔ اپنے ذاتی مسائل کے باوجود انھوں نے ہوائے جورو ستم میں بھی مشعل وفا کو فروزاں رکھنے پر اصرار کیا۔ معاشرتی زندگی کی اصلاح، رویّوں کو اعتدال میں لانے اور اذہان کی تطہیر و تنویر کی خاطر اُنھوں نے طنز کو اپنے اسلوب میں جگہ دی۔ معاشرے اور سماج پر طنز کرتے وقت وہ اپنی ذات کو بھی نظر انداز نہیں کرتے تھے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے کا المیہ یہ ہے کہ چور محل میں جنم لینے والے چور دروازے سے گھُس کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر سانحہ کیا ہو گا کہ انگوٹھا چھاپ بھی اپنی جہالت کا انعام بٹورنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ادبی انجمنوں کے بڑے انعام بھی موقع پرست اپنے مکر کی چالوں سے اُڑا لے جاتے ہیں جب کہ با صلاحیت ادیب اپنی سادگی اور انا کی وجہ سے مات کھا جاتے ہیں۔ اختر انصاری کو اس بات کا قلق تھا کہ موجودہ زمانے میں معاشرتی بے حسی کے باعث اہلِ کمال کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے، چڑھتے سورج کی پرستش کرنے والے اور ایک چہرے پر کئی چہرے سجا کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے والے پینترے بازوں کی قلا بازیوں کو وہ شامِ الم سے تعبیر کرتے تھے جسے صبح کہنا حقائق کی تنسیخ اور صداقتوں کی تکذیب تھا۔ اپنے اس موقف پر وہ زندگی بھر ڈٹے رہے گوشہ نشینی اختیار کر لی مگر پامال راہوں پر چلتے ہوئے کسی کی تقلید نہ کی۔ کرگس زادوں نے اس شاہین صفت ادیب پر کئی وار کیے مگر اس نے زندگی بھر نیام حرف اور شمشیر دِل کو سنبھال کر اپنا دفاع کیا۔ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کی تقسیم کے سلسلے میں ہونے والی نا انصافی پر اختر انصاری کے ملال کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر ظہیر احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ اختر انصاری کا خیال تھا کہ یہ ایوارڈ اکثر نا اہل لوگوں کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اہلِ کمال کے ساتھ کی جانے والی نا انصافیوں کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر ظہیر احمد صدیقی نے لکھا ہے:

’’میں نے اپنے ایک مضمون میں عہدِ حاضر کے چند ممتاز شاعروں کے نام لکھے تھے۔ اختر صاحب نے مضمون کے حاشیہ پر لکھ دیا:

’’یہ سب تیسرے درجے کے شاعر ہوئے ہیں۔ بد بخت اختر انصاری تو اِن مینڈکوں کی صف میں بھی شامل نہیں ہے۔‘‘ (6)

اُن کی خوش لباسی وضع داری اور مہمان نوازی کی ہر طرف دھُوم تھی۔ پروفیسر شہپر رسول نے اختر انصاری کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے:

’’مکمل انسان اس طرح کہ تکمیل انسانیت مرحوم پر فخر کر سکتی تھی، نہایت انکسار پسند، خوش مزاج، سادہ طبیعت، نرم گو اور اَدب کے دُوسرے لوگوں سے قطعی جُدا۔ ہر اچھی بُری سے دُور اپنے کام سے کام کرنے والے آدمی۔۔ ۔) (7)

٭٭

 

مآخذ

(1) خلیق انجم (مرتب) : اختر انصاری: شخص اور شاعر، انجمن ترقی اردو، ہند، نئی دہلی، سال اشاعت، 1990ء صفحہ 10۔

(2) پروفیسر شہپر رسول: ’’اختر انصاری۔ آئینے سے عکس تک‘‘ مضمون مشمولہ ’’اختر انصاری: شخص اور شاعر‘‘ مرتبہ خلیق انجم، انجمن ترقی اردو، ہند، نئی دہلی، سال اشاعت، 1990ء صفحہ 50۔

(3) پروفیسر ظہیر احمد صدیقی: ’’خدا کی دین ہے سرمایہ غم فرہاد‘‘ مضمون مشمولہ ’’اختر انصاری: شخص اور شاعر‘‘ مرتبہ خلیق انجم، انجمن ترقی اردو، ہند، نئی دہلی، سال اشاعت، 1990ء صفحہ 28۔

(4) طارق غازی: وھیٹی، اونٹاریو، کینیڈا میں مقیم عالمی شہرت کے حامل ممتاز بھارتی ادیب طارق غازی کی طرف سے منگل دس نومبر 2020 کو صبح چار بج کر چھپن منٹ پر یہ ای۔ میل موصول ہوئی۔

(5) پروفیسر شہپر رسول: ’’اختر انصاری۔ آئینے سے عکس تک‘‘ مضمون مشمولہ ’’اختر انصاری: شخص اور شاعر‘‘ مرتبہ خلیق انجم، انجمن ترقی اردو، ہند، نئی دہلی، سال اشاعت، 1990ء صفحہ 48۔

(6) پروفیسر ظہیر احمد صدیقی: ’’خدا کی دین ہے سرمایہ غم فرہاد‘‘ مضمون مشمولہ ’’اختر انصاری: شخص اور شاعر‘‘ مرتبہ خلیق انجم، انجمن ترقی اردو، ہند، نئی دہلی، سال اشاعت، 1990ء صفحہ 28۔

(7) پروفیسر شہپر رسول: ’’اختر انصاری۔ آئینے سے عکس تک‘‘ مضمون مشمولہ ’’اختر انصاری: شخص اور شاعر‘‘ مرتبہ خلیق انجم، انجمن ترقی اردو، ہند، نئی دہلی، سال اشاعت، 1990ء صفحہ 53۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے