ابو الکلام قاسمی ۔۔۔ ناصر عباس نیر

کل شام، تاریکی مزید بڑھی۔ علی گڑھ میں غروب آفتاب سے کچھ پہلے، ابو الکلام قاسمی کو بھی بلاوا آ گیا۔ کوہ ندا سے صدائیں تو سدا سے آتی رہی ہیں مگر گزشتہ ڈیڑھ سال سے، موت کے اس پہاڑ سے اتنے نام پکارے گئے ہیں کہ الاماں۔ ابھی مسعود اشعر کی قبر کی مٹی میں اس پانی کی نمی موجود ہے جو ان کی تدفین کے بعد ڈالا گیا تھا، اور اس سے اٹھنے والی مٹی کی خاص مہک، گلاب کی پتیوں کی خوشبو سے آمیز ہو کر قبروں کی ویرانی کو کم کرنے کی سعی میں ہے کہ ایک اور قبر۔ ۔ ۔ ۔  دلیپ کمار کی موت نے تو ایک عالم کو سوگوار کیا ہے۔ ہمارے اعصاب کتنی اموات کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں؟ ہم کتنی تعزیتی تحریریں لکھ سکتے ہیں؟ ہر موت ایک نیا واقعہ ہے، جس طرح ہر شخص اپنی طرز کا ایک وجود ہے۔ اس کی موت کا دکھ کسی دوسرے کی مرگ کے دکھ کی مانند نہیں ہوتا۔ ہم اپنے تعزیتی الفاظ کو رسمی ہونے سے کیسے بچا سکتے ہیں اور ہر نئی موت کے غم کے اظہار کے لیے نئے الفاظ کہاں سے لائیں؟ موت دکھ تو نیا دیتی ہے مگر ہماری زبانوں کو گنگ کر جاتی ہے۔ عجب دھاندلی ہے۔

وہ ایک عرصے سے لبلبے کے کینسر میں مبتلا تھے۔ لہٰذا یہ بری خبر متوقع تھی۔ متوقع بری خبر کا قہر کچھ کم نہیں ہوتا۔ ابو الکلام قاسمی سے کئی ملاقاتیں تھیں۔ مختصر، طویل اور طویل تر۔ 2008 میں جب انھوں نے مجھے اور قاضی عابد کو آٹھ دس دنوں کے لیے علی گڑھ مدعو کیا تو انھیں نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ سب سے اہم چیز، وقت کی پابندی اور نظم و ضبط کا خیال تھا۔ انھیں وقت کی کمی کا نہیں، وقت کے قیمتی ہونے کا احساس تھا۔ ان کے دفتر میں آنے، کام کرنے، گھر جانے اور سیر کرنے کے اوقات مقرر تھے جو کسی حالت میں تبدیل نہیں ہوتے تھے۔ کوئی غیر متوقع مہمان بھی آ جاتا تو وہ مقرر وقت پر اٹھ کر چلے جاتے۔ اس ناگہانی صورت حال سے نمٹنا مہمان کی اپنی ذمہ داری تھی۔ اس طرح وہ اپنے لکھنے پڑھنے کے لیے، یا اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے کے لیے کافی وقت نکال لیا کرتے تھے اور اسے اپنی مرضی سے ترتیب دے لیا کرتے۔ (یہ الگ بات ہے کہ جب ہم اپنے اوقات کو مرتب کر لیتے ہیں تو ان کی قید میں بھی آ جاتے ہیں)۔ ان کی اہلیہ دردانہ قاسمی نے ان کے خاکے میں لکھا ہے کہ گھر میں بھی وہ اسی نظم و ضبط کا خیال رکھتے۔ وہ خلیق، مہذب اور غمگسار تھے۔

وہ ادبی مسائل، شخصیات پر تو مسلسل گفتگو کرتے تھے، مگر جسے عام گپ شپ کہتے ہیں، وہ نہیں۔ وہ کھلی ڈلی، بے تکلف مجلسی زندگی سے زیادہ منظم و مربوط ذہنی دنیا کے آدمی تھے۔ ایسے سب آدمی مشکل ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تنقیدی رائے کا برملا اظہار کرتے۔ کسی مجلس میں یا سمینار میں کوئی بے محل یا ناروا بات کہی جاتی تو اس کا جواب ضرور دیتے۔ ان کے نزدیک ایسے معاملات میں خاموشی یا تو بزدلی کی علامت ہے یا مصلحت کی یا بے حسی و لا تعلقی کی۔ ان کا جواب جچا تلا اور مدلل ہوتا۔

وہ مشرقی شعریات کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، جس کا ایک سبب ان کا مدرسے کا پس منظر تھا۔ مشرقی شعریات میں انھوں نے عربی و فارسی اور اس سے متاثر ہونے و الی اردو تنقید ہی کو شامل کیا۔ ان کا اہم کام، جو ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی ہے، وہ مشرقی تنقیدی تصورات پر ہے۔ پاکستان میں بھی وہ ایک سے زائد بار چھپ چکا ہے۔ حسن عسکری سے ان کی دل چسپی کا سبب بھی مشرقی شعریات سے ان کا لگاؤ اور اس راستے سے مسلمانوں کی ادبی روایت تک رسائی کی آرزو تھی۔ چوں کہ مشرقی تنقید لفظ اساس اور شاعری سے متعلق زیادہ ہے، اس لیے قاسمی صاحب کو شاعری کی شرح و تعبیر اور اس کے اصولوں سے گہری دل چسپی تھی۔ فکشن پر بھی انھوں نے خاصا لکھا، ای ایم فاسٹر کی ناول پر مختصر کتاب کا اردو ترجمہ بھی کیا، لیکن جو استغراق۔۔۔ اور اس کے بغیر تنقید، تنقید نہیں تاثر بن جاتی ہے ۔ ۔  شاعری کے سلسلے میں نظر آتا ہے، وہ کسی اور کے سلسلے میں نہیں۔ نئے مغربی تنقیدی تصورات پر بھی مسلسل لکھتے رہے۔ معاصر تنقیدی رویے، ایک اہم کتاب ہے۔ اس میں انھوں نے مابعد جدید تنقید کے اصولوں پر اہم مقالہ لکھا۔ اسی طرح انھوں نے مولانا محمد حسین آزاد کے مغربی تنقیدی کینن پر انحصار کو پہلی بار تفصیل سے موضوع بنایا۔ اردو میں مابعد نوآبادیاتی تنقید کو قائم کرنے میں اس مقالے کا حصہ ہے۔ وہ رفتہ رفتہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ تنقیدی نظریہ خواہ کسی جگہ کا ہو اور کسی زمانے کا ہو، اس کی آزمائش یہ ہے کہ وہ متن کی درونی کائنات میں اترنے اور اس کے سر بستہ پہلوؤں کی آگاہی، تفہیم اور تعبیر میں کتنی مدد کرتا ہے۔ اس کو انھوں نے اپنے تنقیدی مؤقف کے طور پر پیش کیا۔ کثرت تعبیر بھی ان کی قابل قدر کتاب ہے۔ ہر ذہین نقاد کی مانند، متن میں معنی کی موجودگی کی نوعیت اور اس کی تعبیر ان کا مسئلہ تھا۔

ادبی صحافت سے انھیں ابتدا ہی سے لگاؤ رہا۔ وہ علی گڑھ سے الفاظ شایع کرتے رہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے رسالے اور سرسید کی نشانی تہذیب الاخلاق کے مدیر رہے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد امروز جاری کیا۔ اسے آخر دم تک شایع کرتے رہے۔ اس کے آخری چند شماروں میں انھوں نے اپنی یادداشتیں بھی لکھی ہیں جو ان کی ذہنی نشو و نما اور ان کی بچپن اور جوانی کے عہد کی کہانی سناتی ہیں۔

انھیں بہ طور نقاد دونوں ملکوں میں شہرت اور اعتبار ملے۔ یہ معمولی بات نہیں تھی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے