کچھ اپنے بارے میں۔۔۔ ارمان نجمی

اپنے بارے میں کچھ بھی لکھنا میرے لئے ایک مشکل کام ہے۔

میں ادب کا ایک طالب علم ہوں، پڑھتا رہتا ہوں سیکھتا رہتا ہوں، بھولتا رہتا ہوں اور یاد بلکہ مکرر یاد کرتا رہتا ہوں۔ لفظوں کی کائنات سے بساط بھر رشتہ جوڑنے کی کوشش میں کیا پایا اور کیا کیا کھویا اس کا حساب لگانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ ایک تعلیم یافتہ خوشحال گھرانے میں میری آنکھ کھلی۔

نام ٖ ڈاکٹر ایس حسن۔ تخلص ارمان رکھا۔ والد صاحب کا نام نجم الحسن تھا اسی مناسبت سے نجمی لکھنا شروع کیا۔ ڈاکٹری کے پیشے سے منسلک ہوا تو اپنی ادبی شناخت الگ سے قایم کرنے کا خیال آیا۔ تعلیم بی اس سی۔ ام بی بی اس۔ ام اس (پٹنہ)۔ پیشے کے لحاظ سے سرجن۔ ایک میڈیکل کالج میں سرجری کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ برطانیہ کے ایک اسپتال سے بھی منسلک رہا۔ سعودی عرب کے جنوبی منطقہ صدر مقام جیزان میں خدمات انجام دیں۔ ان دنوں اپنا ایک اسپتال بنوانے کی تگ و دو میں ہوں۔ کام ہوتا نہیں ہے اور میں وقت سے پیچھے پڑتا جا رہا ہوں۔

ادب و شاعری سے واسطہ ہوش آنے کے بعد ہی پڑ گیا۔ بچپن میں اردو فارسی کی تعلیم حسب روایت گھر پر ہی حاصل کی۔ مسدس حالی کم عمری میں ہی تقریباً ازبر ہو گیا تھا۔ اخلاق محسنی، اخلاق جلالی اور انتخاب از شاہنامہ کے ساتھ ساتھ قصص الانبیا آمنہ کا لال اور سیدہ کا لال گھر پر ہی ختم کی۔ اس کے بعد ہی انگریزی کی فرسٹ بک پڑھی، پھر کلرنڈن ریڈر کی جلد اول و دوئم۔

اسکول میں داخلہ بعد میں ہوا لیکن گھر پر زبان کی تعلیم کا سلسلہ نہیں ٹوٹا۔ فارسی میں مفتاح الترجمہ اور مفتاح القواعد کا سبق ملتا رہا اور ذہن نشیں ہوتا رہا۔ گھر میں مدینہ بجنور نامی اخبار آتا تھا اور غنچہ بجنور نامی رسالہ میری آپا کے لئے جاری تھا۔ ان میں کہانیاں دلچسپی کے ساتھ پڑھتا رہا۔ ایک اور روزانہ اخبار انجام لاہور بھی ابا کے مطب میں آتا تھا اور کبھی کبھی زمیندار لاہور بھی۔

ادب سے میرا رشتہ جسم و جان کا ہے۔ ابا جان کے دادا ابا مولوی لطافت حسین عربی فارسی کے جید عالم تھے، شاعری نہیں کرتے تھے لیکن یک بیک ان کے ذہن کی کایا کلپ ہو گئی اور انھوں نے حضرت وارث علی کی شان میں ایک قصیدہ لکھ بھیجا۔ اس کے بعد وہ ان کی شان میں کلام لکھتے رہے۔ طلبی ہو نے کے بعد سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہے۔ ان کا مجموعۂِ کلام تلاطم عشق کے نام سے میرے دادا ابا ڈاکٹر جعفر حسن جو ان دنوں پٹنہ میڈیکل کالج میں فورنسک میڈیسن کے پروفیسر تھے، نے 1923ء میں پٹنہ کے کھڈگ ویلاس پریس سے شائع کروایا۔ اس میں حمد و نعت منقبت کے ساتھ غزلیں بھی ہیں جو سب کی سب فارسی زبان میں ہیں۔ میرے ابا کے نانا جان حکیم نظیر حسن کو بھی عربی فارسی پر عبور حاصل تھا۔ ان کا ایک مطبوعہ رسالہ جو مثنوی مناظرہ نفس کلی بہ نفس جزوی میرے پاس موجود ہے۔ ان کا بہت سا کلام ضائع ہو گیا۔ میرے دادا ابا کبھی کبھی ہم لوگوں کو فی البدیہ اردو کی نظمیں لکھاتے تھے، افسوس کہ وہ سب کچھ تلف ہو گیا۔ صرف ذہن میں چند مصرعے یا اشعار گونجتے ہیں۔

شاعری میرے لیے روحانی غذا ہے۔ ادب کی تمام اصناف کا مطالعہ میرے لئے ضروری رہا ہے اور اب میری عادت میں شامل ہو گیا ہے۔ بغیر مطالعہ کے میں زندہ رہنے کا تصور ہی نہیں کر سکتا، ادب اور اپنے پیشے کے مطالعہ سے بھی سیکھتا رہتا ہوں۔ شاعری سے رشتہ ہمیشہ ہی قائم رہا۔ شعر کہنا کب شروع کیا یہ تو یاد نہیں لیکن بچپن سے ہی مصرعے موزوں ہونے لگے تھے، جو ایک طرح سے بے اختیاری کا عمل تھا۔ اور یہی بے اختیاری مجھ سے اب تک شعر کہلواتی رہتی ہے۔

ہوش و حواس بیدار ہوتے ہی ملک کی تقسیم کے المیہ سے دو چار ہوا۔ اس کے پہلے کچھ دنوں میں فسادات کے منحوس سائے میری یادوں پر ہنوز منڈلاتے رہتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں آس پاس کے دیہی علاقو ں سے میرے گھر اور محلہ میں کئی ایسے لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ آ کر رہنے لگے جو اپنی جان اور عزت آبرو بچانے کی خاطر اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ ہم عمر لڑکوں سے میری دوستی بھی ہو گئی تھی، لیکن بعد میں وہ دوسرے دیاروں میں جا بسے۔ ان کی صورتیں اور نام آج تک میری یادوں میں محفوظ ہیں۔ ان دنوں کی ان کی بے بسی اور عدم تحفظ کا احساس ہنوز مجھے نہیں بھولا ہے۔ لیکن ایک اور دکھ میری راہ تک رہا تھا، وہ تھا عزیز و اقارب کی ایک خا صی تعداد کا سرحدوں کے پار نئے ملک کا سفر اختیار کرنا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ گھر آنگن خالی ہو گئے جہاں محبتوں کے چراغ روشن تھے۔ زندگی کے منظر نامے کو تیزی سے بدلتے ہوئے میں نے دیکھا۔ محبتوں اور رشتوں کو فاصلوں کی نذر ہوتے ہوئے میں نے دیکھا۔ لوگ اس طرح دور ہو گئے جیسے ان کا وجود ایک وہم تھا۔ اس کا اثر میرے دل و دماغ پر جس طرح ہوا اس نے میرے سوچنے سمجھنے کے انداز کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ ایک اداسی اس طرح میرے اندر بسیرا کئے ہوئے ہے جس کو لفظوں میں بیان کرنا بہت ہی مشکل ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں تو میں بہت چھوٹا تھا لیکن اس کی غارت گری اور پچاس لاکھ انسانوں کی موت کا اثر میرے دل و دماغ پر اس وقت پڑا جب مجھے اس کے بالواسطہ نتائج بھگتنے پڑے۔ گرچہ یہ جنگ بیشتر یوروپ میں لڑی گئی لیکن اس کے اثرات جاپان پر ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری بموں کی بے مثال اور دور رس تبا ہی کے بعد بھی تابکاری کی پیدا شدہ بیماریوں کی شکل میں ظاہر ہوتے رہے۔

میری شاعری اگر میرے عہد کی نوحہ گری ہے تو اس میں میرا کیا قصور۔ میں بربادی، غارتگری، ناجائز فوج کشی، اور خود مختار ملکوں کی مسلسل تاراجگی کا عینی شاہد ہوں۔ ایک اور طرح کی غارت گری جسے لسانی غارت گری کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا وہ ہے جمہوریت کے نام پر ہماری تہذیبی و ثقافتی اقدار کی بیخ کنی۔ میرے گھر کے بچے اپنے اسکولوں میں سب کچھ پڑھ سکتے ہیں لیکن نہیں پڑھ سکتے ہیں تو اپنی مادری زبان اردو۔ یہی نہیں انہیں سنسکرت پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔۔ آپ اچھے پبلک اسکولوں میں جا کر دیکھ لیجئے آپ پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی۔ ان میں زیادہ تر ‘سی بی اس ای’ نصاب رائج ہے۔ ویسے اب سینیئر کیمبرج (آئی سی اس ای) کے نصاب والے اسکولوں خاص کر مشن اسکولوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ اور بات بات میں سیکولرزم اور جمہوریت کا ڈھول بجایا جاتا ہے۔ اور سچ کہوں تو میرا اعتماد ہی ان اداروں سے اٹھ گیا ہے۔ اور ہم بھی ہاتھ پہ ہاتھ دئے بیٹھے ہیں اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینے سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔

میں کسی ازم میں یقین نہیں رکھتا ہوں نہ ان سے وابستہ ہوں۔ ترقی پسندی نے ادب کو جو کچھ دیا اس کا بھی قائل ہوں اور جدیدیت کے رجحان سے بھی میرے ذہن کو کشادگی ملی ہے اور چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے انداز میں تبدیلی آئی ہے۔ جراحی یعنی سرجری کے پیشے سے منسلک ہونے کے باعث مجھے انسانی دکھوں کو قریب سے دیکھنے اور ان کے مداوا کا موقع ملا ہے۔ میری گنہ گار آنکھوں نے فرشتوں کی بھی زیارت کی ہے اور شیطان کو بھی خود کو بے نقاب کرتے ہو ئے دیکھا ہے۔

کسی نے کہا ہے کہ میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں۔ میں اس میں تحریف کرتے ہو ئے اتنا کہوں گا کہ میں لکھتا ہوں اسی لئے میں ہوں۔ میں نے غزلیں بھی لکھی ہیں، نظمیں بھی، رباعیات اور دوہے بھی۔ ادھر میرے مضامین اور تبصرے بھی شائع ہو رہے ہیں۔ میں ادب میں ایک اعلیٰ معیار کا طالب ہوں خود سے بھی اور دوسروں سے بھی۔

میری مطبوعات

مردہ خوشیوں کی تلاش مجموعہ نظم و غزل مطبوعہ 1984

بیاض شب و روز (وزیر آغا کی نو عدد نظمیہ کتابوں کا تفصیلی مطالعہ) مطبوعہ کاغذی پیرہن لاہور

راستے کی بات (مجموعہ غزلیات) تخلیق کار پبلشرس دلی کے زیر اہتمام شائع ہو گیا ہے

افتادگی کے بعد (نظموں کا مجموعہ زیر ترتیب)

نمایاں (غزلوں کا مجموعہ زیر ترتیب)

لفظوں کی کائنات (مضامین کا مجموعہ زیر ترتیب)

ادھر میں نے اپنی نظموں کے انگریزی ترجمے کئے ہیں جو میوز انڈیا (muse india) میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ کناڈا سے ہندوستانی شاعروں کی انگریزی نظموں کے ایک انتخاب میں میری چار نظمیں بھی شامل ہیں۔

میری پرورش و پرداخت اردو فارسی محاورے کے ذریعہ عمل میں آئی ہے لیکن انگریزی زبان نے مجھ پر کئی دریچے کھولے ہیں۔ اس کے ذریعے قدیم جیسے مصری، یونانی، رومی و چینی تہذیبوں تک رسائی حاصل ہو سکی ہے، ان کے طرز فکر اور طرز اظہار سے پہچان ہو سکی ہے، اور میں نے ان کی تواریخ اور اساطیر سے بھی رشتہ جوڑا ہے۔ اس کے علاوہ مجھے خود ہندوستان جنت نشان کے ما ضی جو ایک نہیں ہے بلکہ اس میں کئی ماضیوں کی موجودگی سے بھی خود کو دریافت کیا ہے۔ کہ ہندوستان صرف ایک ہی نہیں بلکہ کئی زبانوں اور ثقافتوں کا گہوارہ رہا ہے۔ اس کی ثقافت بہت متنوع اور رنگا رنگ رہی ہے۔ لیکن پھر بھی اپنی روشن خیالی اور وسعت نگاہی کے باوجود اپنے تہذیبی مظاہر سے میرا جو والہانہ رشتہ ہے وہ کسی دوسری تہذیب سے استوار ہو ہی نہیں سکتا کہ یگانگت کی حس (sense of belonging ) سب تہذیبوں کے لئے ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔

دوسرے ملک و علاقے ہمیشہ میرے لئے کشش کا باعث رہے ہیں۔ ہر سفر ایک مہم جوئی کا آغاز ہے جو شاعر و ادیب کو دوسرے لوگوں بالخصوص لکھنے والوں کی جائے بود و باش ہی نہیں بلکہ ان کے رہن سہن طور طریقے اور سوچنے کے انداز کو دریافت کرنے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔ ایک نئی تہذیب سے آشنائی کئی طرح کے روابط کے نقطۂ آغاز کی حیثیت رکھتی ہے کہ اس طرح انسانوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ بین الثقافتی اور بین التہذیبی تعامل کی راہیں بھی ہموار ہو تی ہیں۔ ہماری ایک بہت بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم لوگ بغیر جانے بوجھے، بغیر جانچے پرکھے دوسروں کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں جو بسا اوقات غلط ثابت ہوتی ہے۔ شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔ دیکھ اور پرکھ کر جو علم حاصل ہوتا ہے وہ درست ہو تا ہے یا اس میں غلطی کا امکان کم رہتا ہے۔ میں نے سفر و سیاحت کے دوران جو کچھ دیکھا ہے انہیں ابھی لکھا نہیں ہے صرف روزنامچو ں اور یادداشتوں کی حد تک محفوظ کر رکھا ہے، لیکن یہ ضرور کہنا چا ہو ں گا کہ خوبیاں اور خامیاں ہر جگہ ہیں،ہر جگہ انسان ہی بستے ہیں جو خطا و نسیان کے پتلے ہیں۔

 

https://www.taemeernews.com/2014/02/short-biography-of-Arman-Najmi.html

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے