غزل ۔۔۔ اقبال رضوی شارب

 

 

 

مرے وجود میں شامل جو سرکشی ہے میاں

انا کی شکل میں ظاہر وہ ہو رہی ہے میاں

 

کشیدگی سے بھری یہ جو زندگی ہے میاں

کسی کے لطف سے اسمیں شگفتگی ہے میاں

 

ہر ایک بات پہ ردِّ عمل نہیں اچھا

ذرا سا صبر کہ دنیا تو سرپھری ہے میاں

 

وصال اور بڑھا دیتا ہے تڑپ میری

کہ آب سے جو بڑھے یہ وہ تشنگی ہے میاں

 

سنوارتے رہو محنت سے اس کی نوک پلک

یہ کچھ دنوں کی میسّر جو زندگی ہے میاں

 

تو جس کو بھول گیا کاروبار دنیا میں

دعا اسی کی تجھے اب بھی لگ رہی ہے میاں

 

خدا نے ناز کیا تھا جس ابن آدم پر

تو زیر تیغ جو ساجد ہے یہ وہی ہے میاں

 

قدیم ہو کے بھی لگتا ہے کل کی بات ہے یہ

عجیب قسم کی اس غم میں تازگی ہے میاں

 

بہت سرور میں ڈوبا ہوں اس لئے شارب

کہ لطف مجھ پہ یہ ان کا کبھی کبھی ہے میاں

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے