کرنیل اشفاق حسین کے ساتھ ایک شام ۔۔۔ ڈاکٹر سلیم خان

ایک غیر روایتی جرنیل ( س) کرنل اشفاق حسین خان کے ساتھ ایک روایت شکن شام

 

 

               ڈاکٹرسلیم خان

 

 

پاکستان ایسو سی ایشن دبئی کی جانب سے منعقدہ  ایک تقریب میں مجھےسبک دوش کرنل اشفاق حسین کو ’’مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ کی امتیازی شان کے ساتھ قلمی جہاد فرماتے ہوئے دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی  اور پھر یہ بھی ہوا کہ ’’نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ‘‘ کی مصداق انہوں نے وہاں موجود  تمام سامعین کا دل جیت لیا۔فوج کو لوگ باگ کانٹوں کی سیج  اور صحافت کو پھولوں کا ہار  سمجھتےہیں اس لئے  اکثر آرزو مند فوجی حضرات تلوار کو پھینک کر قلم  (یا آج کل ٹی وی کے پردے پر مائک)کو سنبھالنے  کیلئے اس قدر بے چین ہوتے ہیں کہ جیسے ہی وظیفہ کے مستحق قرار پاتے ہیں  قبل از وقت سبکدوش ہو کر صحافت کی چکا چوند دنیا میں قدم رنجا  فرما لیتے ہیں ۔

اس کے برعکس  چونکہ کرنل اشفاق حسین کرنل صاحب ایک روایت شکن انسان ہیں  اس لئے نصف صدی قبل ذرائع ابلاغ میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے کے بعد وہ صحافت کی چمک دمک  کو خیرباد کہہ کر فوج میں داخل ہو گئے اور  بنجر و سنگلاخ عسکری زمین پر ظرافت کے رنگ برنگے خوشبودار پھول  کھلا نے  میں مصروف ہو گئے۔ بارہ سال قبل مجبوراً فوجی وردی کو اتار پھینکنے کے بعد بھی سبکدوشکرنل صاحب گلشنِ ادب کو گلِ گلزار کرنے کے کارِ خیر میں لگے ہوئے ہیں ۔  الحمد اللہ یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے اور ہم جیسے قارئین کی دعا ہے اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔غالب نے کہا تھا ؎

سو پشت سے ہے پیشۂ   آباء سپہ گری               کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے

غالب اس دور کا شاعر تھا جب غلامی کی بس آمد آمد تھی لیکن منیر نیازی کے زمانے تک جس کا خود انہوں نے اعتراف اس طرح  کیا ہے کہ ’’نسلوں کا فاصلہ ہے میرے ان کے درمیاں ‘‘ امت غلامی میں طاق ہو چکی تھی۔ گردشِ زمانہ کے نشیب و فراز نے ’جو تھا ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا ‘ کی مصداق ہماری کایا پلٹ کے کر رکھ دی۔ من حیث القوم ہم تلوار کے بجائے قلم پر  قناعت کر بیٹھ گئے اور اسی کو اپنے لئے باعثِ فخر و سعادت سمجھنے لگے۔  ایسے میں  منیر نیازی کو کہنا پڑا  ؎

سو پشت سے تھا پیشۂ  آباء سپہ گری

کچھ شاعری ذریعۂ عزت ہوئی مجھے

مندرجہ بالا دونوں اشعار میں معمولی سی تبدیلی سے معنیٰ اور مفہوم میں زمین آسمان کا فرق واقع ہو جاتا ہے اوراس کی وجہ نفسیاتی ہے۔فوج پیشے کا نہیں  ایک مخصوص طرزِ فکر و عمل کا نام ہے۔ غالب چونکہ فوجی ذہنیت کے حامل تھے اس لئے شاعری بھی کرنے کا فیصلہ کیا تو اپنا تخلص غالب رکھا حالانکہ  فتح و غلبہ کا تعلق شاعری سے نہیں جنگ و جدال سے ہے۔ شاعری تو منیر نیازی جیسے  عاجز و نیاز مند لوگوں کا شعار ہوتا ہے جو بڑی انکساری کے ساتھ اعتراف کرتے ہیں کہ   ؎

زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا

دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

اس لئے میری تو رائے یہ ہے کہ سپہ گری کی نفسیا ت سے  نہ ہی کوئی غیر فوجی کماحقہٗ واقف ہو سکتا ہے اور نہ اس  کی معرفت ہی کروا سکتا۔ اس کام  کیلئے تو عقل و خرد کا حامل فوجی درکار ہوتا ہے جو بقول کرنل اشفاق حسین اپنی تربیت کے دوران نہ صرف زخمی بلکہ شہید بھی قرار دیا جا چکا ہو۔کرنل صاحب نے فوجی تربیت کے دوران جعلی زخمیوں اور شہیدوں  کی دو نہایت عمدہ مثالیں پیش کیں ۔ انہوں نے بتایا فوج میں تربیت کے دوران فوجی دستوں کو مختلف فرضی صورتحال سے گزارہ جاتا ہے مثلاً کسی ایسے درہّ کو پار کرنا جس پر دشمن تعینات ہو۔زیر تربیت دستہ جس احتیاط کے ساتھ اس میں سے گزرتا ہے اس کی بنیاد پر ممتحن فیصلہ کر دیتا ہے کہ اس میں سے کتنے فوجی مارے گئے اور کون کون  زخمی ہوا۔ ایک فوجی ٹرک اسی طرح کی تربیت سے لوٹتے ہوئے خراب ہو گیا۔ گاؤں والوں کو مدد کیلئے بلایا گیا تو انہوں نے دیکھا ٹرک کے اندر کئی فوجی موجود ہیں لیکن نیچے اتر نہیں رہے لوگوں کے استفسار  پر انہیں بتلایا گیا کہ یہ سب زخمی ہیں حالانکہ سب کے سب بھلے چنگے تھے۔

ایک اور دفعہ  ان سے کسی افسر دوست نے شکایت کی کہ مجھے اس پل کے پار جا کر چائے پینی ہے لیکن یہ چوکیدارسپاہی ہے کہ  جانے نہیں دیتا۔ کہتا ہے کہ یہ پل تباہ ہو چکا ہے حالانکہ وہ صحیح سلامت ہے۔ کرنل صاحب نے کہا اس احمق کے بجائے اس کے افسر سے بات کرو۔ دوست نے بتایا میں نے افسر سے بات کی تو اس نے جواب دیا کہ وہ شہید ہو چکا ہے۔ اب اس طرح کے تجربات و مشاہدات سے کوئی شہری بھلا کیوں کر بہرہ ور ہو سکتا ہے؟اس لئے کرنل صاحب کی  تحریر و تقریر عسکری آداب و اطوار اور تہذیب و تمدن کو جاننے کا نہایت معتبر اور دلچسپ وسیلہ  ہے۔ اس کی بنیاد قیاس و گمان کے بجائے حقائق پر رکھی گئی ہے۔کرنل صاحب کا انداز بیان اس قدر ظریفانہ ہے کہ ان کی معیت میں سامع یا قاری فرط و مسرت کے عالم میں علم و عرفان کے بیش بہا موتی سمیٹتا چلا جاتا ہے اور بوریت  اس کے قریب نہیں  پھٹکتی۔

فوج اپنی تلوار کے زور سے  زمینوں پر قابض ہوتی ہے لیکن فنکار اپنے قلم کی مدد سےدلوں کو مسخر کرتا ہے اور اس کا بہترین نمونہ کرنل اشفاق حسین کی ذاتِ گرامی ہے۔ ویسے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فوجیوں کو بہادری کے جوہر دکھلانے کیلئے اپنی سرحدسے نکل کر دشمن کی سرحدوں میں داخل ہونا پڑتا ہے لیکن کرنل صاحب نے دوستوں کی سر زمین دبئی میں آ کر بت شکن محمود غزنوی کی طرح امارات کی ایک ایک ادبی روایت کو چن چن کر توڑا۔ میں تو اس شخص کی تلاش میں سر گرداں ہوں جس نے کرنل صاحب کو ہماری ان ساری روایتی کمزوریوں  سےواقف کرایا۔

آہنی زنجیروں کو توڑنا بہت آسان ہو تا ہے لیکن ذہنی شکنجوں سے آزادی حاصل کرنا نہایت مشکل۔اس لئے کہ لوہے کا قفل ہرکس و ناکس  کو نظر آ جاتا ہے مگر دل پر پڑے ہوئے تالے دوسروں کو تو کجا خود اپنے آپ کو بھی دکھلائی  نہیں دیتے۔ مجھے یہ اعتراف کرتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ کرنل صاحب نے اپنی شگفتہ ضرب کاری سے اس معرکہ کو بخوبی سر کیا۔ عسکری ادب میں جنٹلمین کے حیثیت سے  پہچانے جانے والے اس روایت شکن جرنیل  نے اپنی مبارک مہم کی بسم اللہ وقت کی پابندی سے کی۔عصرِ حاضر کی ایک بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ پابندیٔ وقت کے ساتھ پانچ وقت  نماز قائم کرنے والی  امت کو بھی  وقت کا پابند بنانے کیلئے فوجی ڈنڈے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

متحدہ عرب امارات کی روایت کا یہ جز و لاینفک ہے کہ اگر کوئی ادبینشست بعد مغرب شروع کرنا ہو تو عصر بعد کا اعلان کیا جائے اسی لئے جب مجھے بتایا گیا کہ پروگرام ساڑھے سات بجے ہے تو میں سمجھ گیا کہ یہ ساڑھے آٹھ بجے ہو گا۔  حسب عادت  جب میں ۹ بجے پہنچا تو لوگ نمازِ عشاء سے فارغ ہو کر اجتماع گاہ میں جمع ہو رہے تھے لیکن مجھے حیرت کا جھٹکا اس وقت لگا جب پتہ چلا کہ یہ دوسری نشست ہے اور عشاء سے قبل ایک نشست ہو چکی ہے جس میں میرے چہیتے مزاح نگار کبیر خان صاحب اپنی تحریر سنا کر فارغ ہو چکے ہیں اور دیگر کئی اکابر اپنا خراجِ عقیدت پیش کر چکے ہیں ۔ کرنل صاحب کی تقریر کے دوران مژدہ کھلا کہ مبادا  یہ فوجی تربیت کا اثر ہو۔ اگر  ایک فوجی کے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقریب میں بھی  وقت کی پابندی نہ ہو سکے تو بھلا آئی ایس پی آر ٹریننگ کا کیا فائدہ ؟

ہمارے یہاں منتظمینِ  کرام تقریب کے آغاز میں ہونے والی تاخیر کا ٹھیکرہ سامعین کے سر پھوڑتے ہیں اور یہ کہہ کر بری الذّمہ ہو جاتے ہیں کہ  اگر شرکاء وقت پر نہ آئیں تو پروگرام وقت پر کیوں کر شروع کیا جائے۔لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سامعین تو کجا  صاحب اعزاز اور منتظمین   تک  وقت پر نہیں آتے۔ دبئی میں غالباً کورٹ مارشل کا خوف سب کو وقت پر لے آیا۔ میں نے اپنا غم غلط کرنے کیلئے سوچا کبیر خان صاحب اپنے ہی آدمی ہیں ۔ ان سے مضمون لے کر پڑھ لوں گا لیکن اس سے پہلے کہ میں جھولی پھیلاتا سامعین میں سے ایک نوجوان نمودار ہوا اور کبیر خان صاحب سے ان کا مضمون لے اڑا۔میں اپنی دوسری شکست پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور اپنے آپ کو بہلانے کیلئے سوچنے لگا  کسی مضمون  کو پڑھنے اور سننے میں وہی فرق ہے جو کھونٹے پر ٹنگی ایک بے جان وردی اور وردی پوش فوجی میں ہے۔ چھوڑو اس نوجوان کو ویسے بھی کوئی مزہ نہیں آئیگا لیکن ایسا کرتے ہوئے  میں بھول گیا کہ جس لطف کی محرومی کا میں ماتم کر رہا  ہوں وہ نوجوان تو اس سے بہرہ مندہو چکا ہے اور اسے دوبالا کرنے کے اہتمام میں بھی مجھ پر سبقت لے گیا ہے۔

امارات کی ادبی دنیا کا سب سے بڑا بت شاعری ہے۔ یہاں پر ادبی تقریب مشاعرہ کے ہم معنیٰ ہو کر رہ گئی ہے۔جب بھی نثری نشست پر گفتگو ہوتی ہے  تو  کہہ دیا جاتا ہے نثر میں کسی کودلچسپی نہیں ہے ایسی نشست میں کوئی نہیں آئیگا  وغیرہ وغیرہ۔میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ آخراس حصار سے کیونکر آزاد ی نصیب ہو  لیکن اب پتہ چلا کہ اس کیلئے کسی کرنل کی ضرورت ہوتی ہے جس کا قلم تلوار سے تیز ہو۔ کرنل اشفاق حسین کے اعزاز میں منعقد ہونے والی نثری نشست اس کی زندہ مثال ہےجس میں نہ صرف  شرکاء کی تعداد و دلچسپی قابلِ رشک تھی بلکہ نظم و ضبط کے حوالے سے بھی یہ نہایت پر وقار اور یادگار محفل تھی۔ حاضرین کے ذوق و شوق نے ان تمام دلائل کی ہوا نکال دی جو نثری نشستوں کے خلاف پیش ہوتی تھیں ۔ کرنل صاحب کے اس احسان عظیم کیلئے شعراء حضرات نہ سہی لیکن جناب کبیر خان اور مجھ جیسے نہ جانے کتنے نثر نگار ان کے ممنون و مشکور ہیں ۔کرنل صاحب کے اس چمتکار نے ایک اور خلش دور کر دی  کہ آخر  فوجیوں کا ادب میں کیا کام ؟ یہ نہایت خوش کن انکشاف تھا کہ دنیائے ادب میں بہت سارے ایسے کام ہیں جنہیں کوئی غیر فوجی نہیں کرسکتا۔ ان کو انجام دینے کیلئے وردی پوش سپاہیوں کو قلم تھام کر مارشل لاء نافذ کرنا پڑتا ہے۔

اردو دنیا میں ایک مایوس کن غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی کہ کتاب سے ہمارا رابطہ ٹوٹ  گیا ہے لیکن اس بت کو توڑنے کیلئے  کرنل اشفاق حسین کی کتاب جنٹلمین بسم اللہ کے ۲۵ ایڈیشن اور دیگر کتابوں کے مزید ۴۰ ایڈیشنس کی اشاعت کافی ہے۔ گوں ناگوں وجوہات کی بناء پریہ ممکن ہے کہ کتابوں سے ہمارا اپنا رابطہ ٹوٹ گیا ہو لیکن آج بھی ایسے طلباء موجود ہیں جو امتحان کے زمانے میں اپنی درسی کتابوں کے اندر کرنل صاحب کی کتاب چھپا کر پڑھتے ہیں اور اپنی اس حرکت کا جواز بھی ان کے پاس موجود ہے۔ قصہ یوں ہے کہ کرنل اشفاق حسین صاحب کو کسی طالب علم کا خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ  امتحان کا زمانہ ہے اور اس دوران وہ اپنی درسی کتاب کے اندر ان کی کتاب چھپا کر پڑھتا ہے۔ کرنل صاحب نے اسے لکھا کہ برخوردار اپنے آپ پراور مجھ پر رحم کرو۔ امتحان کے بعد میری کتابیں  پڑھ لینا۔ اس  طالب علم نے جواب دیا۔ میں تو آپ کو عقلمند آدمی سمجھتا تھا لیکن افسوس کہ آپ بھی میرے والد کی طرح بے وقوف نکلے۔ آپ کو اتنا بھی  نہیں پتہ کہ اس زمانے میں درسی کتابیں پڑھ پڑھ کر ہم لو گ کس قدر بور ہو جاتے ہیں اس لئے درمیان میں آپ کی کتاب پڑھنی پڑتی ہے۔ جس مصنف کا قاری اس قدر ذہین و فطین ہو اس کی ذہانت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔

دوسروں کی ہنسی اڑانا نہایت سہل ہوتا ہے لیکن اپنے آپ پر ہنسنا اوردوسروں کوہنسانا بڑا مشکل کام ہے۔ جو لوگ دبئی کی نشست میں موجودتھے  ان کو اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ  کرنل صاحب کیلئے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کرنل صاحب نے فوجی زندگی کے جو واقعات سنائےان میں   کمال اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ تھا، خود نمائی کے بجائے اپنے آپ کاتمسخراوردیگر افراد کی  تعریف و توصیف  کا پہلو اجاگر ہوتا تھا مثلاً ایک افسرکا نووارد اشتیاق حسین سے یہ سننے کے بعد بھی کہ اسے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے محض دلجوئی کی خاطر کہہ دینا کہ  اس کے بغیر تربیت رکی ہوئی اسلئے وہ تاخیر نہ کرے اور اس بہلوائے   پر کرنل صاحب کا یقین کر لینا۔ اس کے علاوہ نفیساتی تفتیش کے دوران اپنے ناکام ہو جانے کا برملا اعتراف اور اس کے باوجود منتخب ہو جانے کا ذکر۔سچ تو یہ ہے جن پاکیزہ نفوس  کے اندر عجز و انکسار پایا جاتا ہے رب کریم کی جانب سے ان کے تکریم  و احترام کا اہتمام کر دیا جاتا ہے  اور جس پر العزیز و الرحمٰن  مہربان ہو جائے اس کیلئے قبولیت عام  لکھ دی جاتی ہے۔ اس کا ثبوت گلگت کا وہ  طالب علم ہے جس نے کہا تھا کرنل صاحب میں آپ پر جان نثار کرسکتا ہوں  لیکن فی الحال آپ کو دینے کیلئے میرے پاس صرف یہ معمولی سا قلم ہے۔

عصر حاضر کی نفسا نفسی کے عالم میں  ہنسنے ہنسانے سے مشکل کام دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنا  اور سامعین  و قارئین کو اس غم میں شریک کر لینے کا فن ہے۔کرنل صاحب نے اپنے خطاب کے اختتام پر میجر شبیر شریف شہید کا ذکر کیا  اور ان کی زندہ دلی کے ایسے واقعات سنائے جو ’فاتح سبونہ‘ میں پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن جب انہوں نے میجر شبیر کی شہادت کا واقعہ نہایت دلسوز انداز میں بیان کیا تو ہال میں موجود کوئی ایک دل ایسا نہیں تھا جس نے میجر کی ماں کا درد  محسوس نہ کیا ہو اور کوئی ایک آنکھ ایسی نہ تھی جو نمناک نہ ہوئی ہو۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ عقیدت و محبت کے بادل دبے پاؤں کہاں سے وارد ہوئے اور کیونکر برسنے لگے۔ کرنل صاحب نے محترمہ مریم جمیلہ کی کتاب کا ترجمہ کر کے ایک با شعور مصلح کی ذمہ داری ادا کی ہے۔ موصوفہ نیویارک کے یہودی گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں اور مشرف بہ اسلام ہو کر امریکہ سے لاہور آبسی تھیں ۔ امید ہے کرنل صاحب کا یہ ثوابِ جاریہ روزِ قیامت ان کیلئے عظیم اثاثہ قرار پائے گا۔

دبئی کی اعزازی تقریب میں بعد از خطاب  سوال و جواب کا موقع تھا اور اس دوران وہ راز افشاء ہو گیا کہ جس نے کرنل اشفاق حسین کو اس قدر عظیم مصنف بنا دیا ہے کہ نہ وہ لکھنے سے تھکتے ہیں اور نہ قاری پڑھنے سے تھکتا ہے۔ مختلف پیچیدہ اور مایوس کن سوالات کے نہایت سہل اور امید افزاء  جوابات اس حقیقت کی دلیل تھے کہ یہ خدا داد وصف جسے حاصل ہو جائے وہ خود بھی خوش رہنے کا سراغ پا لیتا ہے اوردوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کر لینا اس کیلئے آسان ہو جاتا ہے۔  یہ بھی ایک  دلچسپ حقیقت ہے خوشیوں کو جس قدر تقسیم کیا جائے  ان میں  اسی قدر  اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

کرنل صاحب کو رب کائنات نے نہ صرف منفی روایات کو مسمار کرنے کے فن سے نوازہ ہے  بلکہ مثبت  روایات کو قائم کرنے کی صفتِ عالیہ سے بھی آراستہ فرمایا ہے۔ عصر حاضر کے بازار میں برانڈیڈ شہ ویسے بھی مہنگی بکتی ہے۔ کرنل صاحب نے جنٹلمین کو اپنا ٹریڈ مارک یعنی امتیازی نشان بنا یا اور اب تو یہ عالم ہے کہ اگر کوئی اور بھی جنٹلمین ماشاء اللہ  نام کی کتاب لکھ مارے تو لوگ اسے کرنل اشفاق حسین کی تصنیف سمجھ کر پڑھنے لگیں گے لیکن بہت جلد انہیں پتہ چل جائیگا کہ یہ اصلی نہیں بلکہ نقلی جنٹلمین ہے۔ کرنل صاحب کی جنٹلمین استغفرا للہ  جن لوگوں نے پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ   جو جعلی ہو وہ جنٹلمین نہیں  ہو سکتا  بقول شاعر  ؎

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے فوج میں جنٹلمین پیدا

سمع خراشی معاف یہ  علامہ اقبال کا نہیں میرا اپنا شعر ہے۔ اگر منیر نیازی جیسا صاحبِ ثروت شاعر غالب کے شعر پر ہاتھ مار سکتا ہے تو مجھ جیسے حقیر فقیر انسان کے گنجینۂ اقبال سے ایک آدھ شعر اچک لینے پر کسے اعتراض ہو سکتا ہے ؟ یہ کرنل اشفاق حسین صاحب کا اعجاز ہے کہ ان پر زیر تحریر مضمون نے مجھ جیسے خشک ماحولیاتی ڈاکٹر کو فائر کر کے شاعر بنا دیا۔ میں اس عنایت کیلئے  کرنل صاحب کا پیشگی  شکریہ ادا کرتا ہوں  کہ انہوں نے میرے اس  نوزائیدہ نحیف و لاغر  شعر کو اپنی داد سے نواز کر میری حوصلہ افزائی کی   اور دعا کرتا ہوں کہ کرنل صاحب ہماری ملاقات مزید اللہ والے جنٹلمین حضرات سے کرواتے رہیں تاکہ ہماری کڑوی کسیلیزندگی میں ہنسی کے فوارے چھوٹیں اور ماحول خوشگوار سے خوشگوار تر ہوتا رہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے