کتے کی زبان ۔۔۔ نصرت ظہیر

تو بات کتے کی زبان کی چل رہی تھی۔ اُس زبان کی نہیں، جسے کتا اکثر منھ سے باہر لٹکائے رکھتا ہے اور یوں لگتا ہے، جیسے ہوا میں موجود رطوبتِ نسبتی Relative Humidity ناپنے کی کوشش کر رہا ہو۔ ذکر اس زبان کا تھا، جس میں وہ دوسروں کا کہا، سنتا سمجھتا اور اپنی بات کہتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ دنیا کے سارے کتے ایک ہی زبان میں ہم کلام ہوتے ہیں اور شکل و صورت اور رنگ و نسل کے زبردست فرق کے باوجود ایک ہی زبان میں بولتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ امریکہ کا کتا انگریزی میں ٹِٹ بِٹ کر رہا ہو، چین کا کتا چینی زبان میں چیاؤں میاؤں کرتا ہو اور عرب کا کتا عربی میں رطب اللسان ہو۔ ہر ملک اور ہر صوبے کے کتے ایک ہی زبان میں بھونکتے ہیں۔ یہ شرف صرف حضرتِ انسان کو حاصل ہے کہ ہر دس کوس چلنے کے بعد ان کی زبان بدل جاتی ہے۔

لیکن تعریف کی بات یہ ہے کہ کتا آپس کی زبان ایک ہونے کے باوجود دوسروں کی زبانیں بڑی آسانی سے سیکھ لیتا ہے۔ تمل بولنے والا کوئی شخص اپنا کتا کسی پنجابی کو بیچ دے تو شروع میں چند روز ضرور وہ پنجابی زبان سے حیران اور پریشان نظر آئے گا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ مالک کے ٹھیٹھ پنجابی لہجے سے ڈر کر بھونکنے بھی لگے، لیکن آپ دیکھیں گے کہ چند ہفتوں میں ہی وہ سلیس اور با محاورہ پنجابی میں دسترس حاصل کر لے گا اور شستہ پنجابی میں احکامات کی تعمیل شروع کر دے گا۔ لسانی امور میں کتوں کو بالعموم صلح کل کا قائل اور پابند دیکھا گیا ہے۔ زبان کے اختلاف پر آپ انہیں کبھی کسی سے لڑتے نہیں پائیں گے۔ یہ وصف صرف انسانوں میں ہے کہ مذہب، علاقہ، رنگ، نسل اور ذات پر ہی نہیں، زبان کے فرق پر بھی ایک دوسرے کو بھنبھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔

دنیا کو اضافیت کا عظیم سائنسی نظریہ دینے والے سائنس داں آئنسٹائن سے خاموش فلموں کے عظیم ترین اداکار چارلی چپلن کی پہلی ملاقات ہوئی تو آئنسٹائن نے چپلن کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ”آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ساری دنیا میں آپ کی شہرت ہے اور ہر شخص آپ کی زبان سمجھتا ہے۔” چارلی چپلن نے اس پر کہا: ”شکریہ جناب! مگر آپ اس معاملے میں مجھ سے بھی بڑھ کر ہیں کہ ساری دنیا میں مشہور ہیں اور کوئی آپ کی زبان نہیں سمجھتا!”

چارلی چپلن کی طرح کتا بھی زبان میں کم اور ترسیل میں زیادہ یقین رکھتا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ وہ اپنے دلی جذبات و خیالات کے اظہار کے لئے منھ سے کم اور اپنی دُم سے زیادہ کام لیتا ہے۔ محبوب کی آنکھیں اس کی دلی کیفیات کی غماز ہوتی ہیں، چنانچہ شاعروں نے محبوب کی آنکھوں پر لا تعداد شعر کہے ہیں اور ان میں جھیل، تالاب اور سمندر ہی نہیں، بلکہ بہت سے سر بستہ راز، گمنام جزیرے، انجان خواب، اجنبی سائے، نیند، پیاس، شراب، پیالے، کٹورے اور دوسرے کئی برتن خود بھی دیکھے ہیں اور اپنے سامعین و قارئین کو بھی دیکھنے کی پر زور سفارش و تلقین کی ہے۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ

‘محبت میں زباں چپ ہو تو آنکھیں بات کرتی ہیں’

یعنی جو دل میں ہے وہ آنکھوں سے ظاہر ہو جاتا ہے، لیکن اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک بات شاعر نے یوں کہی ہے کہ:

لب کچھ بھی کہیں اس سے حقیقت نہیں کھلتی

انسان کے سچ جھوٹ کی پہچان ہیں آنکھیں

کتا بھی بے چارہ اپنی آنکھوں سے یہی سب کام لینے کی کافی کوشش کرتا ہے، لیکن اس کی ناک کی طوالت بیچ میں آ جاتی ہے۔ چنانچہ یہ سب کام اسے دُم سے لینے پڑتے ہیں، جو اس کے خیالات کی ترسیل کو اس کی زبان کے مقابلے میں کہیں زیادہ صفائی کے ساتھ انجام دیتی ہے، بلکہ کئی بار تو وہ سب بھی کہہ دیتی ہے جسے کتا کہنا نہیں چاہتا اور بے چارہ بزبانِ اقبال دُم سے بس شکوہ ہی کر کے رہ جاتا ہے کہ بے وقوف، نا معقول:

تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو ہی فاش کر دیا

میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں

کتے کی طرح محبوب کی بھی دُم ہوا کرتی تو شاعروں کو وہ تمام شعر دُم کی تعریف میں کہنے پڑتے، جو انہوں نے آنکھوں پر کہے ہیں۔ البتہ دُم پر انہیں سمندر، تالاب، جزیرے اور جملہ برتن و آلات وغیرہ کو جمانے، ٹکانے یا لٹکانے میں خاصی دقت پیش آتی، جو انہوں نے محبوب کی آنکھوں میں بڑی آسانی سے بھر دئیے ہیں۔ فلمی گانوں کے بول بھی کچھ یوں ہوا کرتے کہ:

چلو دُم دار چلو چاند کے پار چلو …

دُم سے ملا کے دُم پیار کیجئے، کوئی سہانا اقرار کیجئے …

چرا لیا ہے تم نے جو دُم کو، نظر نہیں چرانا صنم…

کتے کو وفا داری کی بھی سب سے بڑی علامت مانا جاتا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ کتا ہمیشہ دوسروں کے ساتھ ہی وفا داری نبھاتا ہے، جہاں تک اپنی ذات اور نسل کا تعلق ہے تو وہ اپنی اولاد اور ان کی والدہ تک کا وفا دار نہیں ہوتا۔ وہ بے چارے تکلیف میں بھوکوں مرتے ہیں اور یہ کم بخت یہاں وہاں منھ مارتا پھرتا ہے۔ پھر والدہ ماجدہ کی آبرو اور نیت بھی کسی ایک جگہ ٹک کر نہیں رہتی، جدھر جی میں آیا دل بہلانے پہنچ جاتی ہے۔

لیکن انسان کے ساتھ کتے کی وفا داری خود انسان کو بھی حیران کر دیتی ہے۔ دونوں کی دوستی، وفا داری اور ہمدردی کی ایسی ایسی محیّر العقول و دل دوز داستانوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں کہ پڑھیں اور سنیں تو آنکھیں بھر آئیں۔ خود راقم کا بھی ایک ایسے شریف النفس کتے سے واسطہ پڑ چکا ہے کہ آج بھی اس کی یاد آتی ہے تو دل کو دکھا جاتی ہے، لیکن وہ قصہ پھر کبھی۔ اس وقت تو یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اس قدر دیرینہ و نزدیکی مفاہمت و دوستی کے باوجود کتا بے چارہ آج تک انسان کے لئے ایک گالی بنا ہوا ہے۔ ایک طرف وہ وفا داری کا نمونہ ہے تو دوسری طرف ذلت کی علامت بھی ہے۔ کوئی انسان کسی کتے سے کتنی بھی محبت کیوں نہ رکھتا ہو، اس کی کتنی ہی ناز برداری کیوں نہ کرتا ہو، ذرا آپ اسے ”کتے کا بچہ” کہہ کر دیکھئے۔ وہ آپ کا سر توڑ دے گا۔ یہاں تک کہ یہ بات آپ اسے پیار سے بھی کہیں، یا کتے کا بچہ کہنے کی بجائے کسی قدر مہذب اندازمیں، کتے کی اولاد، کتے کا بیٹا یا کتے کا فرزند، بلکہ کتے کا فرزندِ ارجمند ہی کیوں نہ کہہ دیں، تب بھی اس کا ردّ عمل تقریباً یہی ہو گا۔

پتہ نہیں خود کتا بھی انسان کو اپنے لئے گالی سمجھتا ہے یا نہیں۔ یہ راز جاننے کے لئے ایک دن میں نے ایک پڑوسی کے کتے کا دل ٹٹولنے کی کوشش کی تھی، میں نے اس کے قریب جا کر کہا: ”ابے او کتے کی اولاد!”

سنتے ہی وہ دم ہلانے لگا، جس سے ظاہر ہو گیا کہ کم از کم اپنی نسل پر اسے کوئی اعتراض یا شک وشبہ نہیں ہے۔ اب انسان کے بارے میں اس کی رائے جاننا تھی۔ چنانچہ دم ہلا کر نزدیک آتے ہوئے کتے سے اس بار میں نے کہا: ”ابے او انسان کے بچے!”

اُس نے بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھا لیا!

٭٭٭

 

One thought on “کتے کی زبان ۔۔۔ نصرت ظہیر

  • پر لطف پر مزاح انداز میں اصلاحی کالم لکھنے والے نصرت ظہیر اب ہمارے درمیان بھلے ہی نہ ہوں پر انکی یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی
    ہمارے برابر والے مکان میں گزارے آخری ایام کی یادیں خاص طور پر یاد آئیں گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے