نکاح خواں ۔۔۔ مومنہ ادریس

نکاح خواں اور خیر خواہ میرے نزدیک کبھی مترادف نہیں ہو سکتے۔ اس کے پیچھے کوئی ذاتی دشمنی نہیں بلکہ میرے مشاہدات ہیں اور میں مشاہدات کے بغیر کوئی بات کرنے کی قائل نہیں ہوں۔ یہ بات لکھتے لکھتے ایک اور بات ذہن میں آئی کہ جس طرح یہ یقینی بات ہے قیامت آنی  ہی آنی ہے، اسی طرح یہ بات بھی اتنی ہی سچی ہے کہ نکاح کروانے والے مولوی کو کبھی بھوکا نہیں مرنا ہے۔ کیونکہ لفظ ہی اس قدر پرکشش اور مقناطیسی طاقت رکھتا ہے کہ ہر عمر کا انسان کھنچا چلا آتا ہے بعض تو تین مرتبہ بھی گریز نہیں کرتے۔

کبھی کبھی غور کرتی ہوں کہ اگر کوئی نکاح خواں اپنے پیشے کا اشتہار دے تو کیسا ہو۔ کیا وہ یہ لکھے کہ ’’کنواری لڑکیاں /لڑکے شادی شدہ کروا لو‘‘ یا  ’’رنڈوا پن دور کروا لو‘‘ یا بیوہ عورتوں کے بارے میں کہیں گے ’’بیوائیں کلی کروا لیں‘‘ اس کے لیے تو کسی نکاح خواہ کا ذہن ہی پڑھنا ہو گا۔  میرے لیے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے۔

نکاح خواں کے لہجے کی اپنائیت اور حرکت دیکھ کر میرے ذہن میں ایک ہی محاورہ آتا ہے کہ اپنا مار کر چھاؤں میں پھینکتا ہے، مگر نکاح خواں انسان کو ایسی موت مارتا ہے جو کافی حد تک خود کشی کے زمرے میں آتی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ بعض کمزور دل لوگ خود کشی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اس لیے وہ اپنی موت کے لیے ایک بندہ ہائیر کرتے ہیں جسے نکاح خواں کہتے ہیں۔

بعض نکاح خواہ خاصے بے شرم بھی ثابت ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے ایک نکاح میں شریک ہو کر ہوا۔ دولہا نے نکاح پڑھنے کے بعد نکاح خواں کی جیب میں کچھ رکھا۔  یقیناً وہ رقم ہی تھی۔ نکاح خواں نے فوراً جیب کو ہاتھ لگایا۔ دولہا کو لگا  کہ شاید وہ رقم واپس کرنے لگا ہے، وہ کہنے  لگا ’’رکھ لیں، رکھ لیں۔‘‘  دو تین بار یہ سلسلہ جاری رہا، آخر میں نکاح خواں چیخ کر بولا  ’’میں گننے لگا ہوں پورے ہیں یا نہیں۔‘‘

نکاح خواں کا حلیہ بھی نکاح والے دن عجیب ہو جاتا ہے۔ سفید سوٹ، آنکھوں میں رگڑ کر لگایا گیا سرمہ، ہاتھ میں اپنے تمغوں کا پلندہ، یعنی رجسٹر اور اس میں مظلوموں کے ناموں کا  اندراج کرنے کے لیے قلم۔ وہ پلندہ دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے کراماً کاتبین انسانی شکل میں نمودار ہو گئے ہوں۔ کنوارے حضرات بھی پرٹوکول ایسے دیتے ہیں جیسی ان کی سانسوں کا دار و مدار نکاح خواں پر ہو۔

اکثر نکاح خواں ندیدے بھی ہوتے ہیں۔ ایک بار ایک شادی میں ایک نکاح خواں مجھے اس طرح گھورنے لگے کہ مجھے کوفت ہونے لگی۔ کچھ دیر گھورنے کے بعد قریب آ کر بولے ’’تمہارا نکاح بھی ہم ہی پڑھیں گے۔‘‘ میں نے بھی حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے فوراً جواب دیا کہ نکاح خواں بھی کنوارا بندہ بعد میں دیکھتے ہیں اور منہ میں پانی پہلے لاتے ہیں۔ پھر بعد میں میں نے شکر ادا کیا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم سے تو ہم ہی نکاح پڑھوائیں گے۔

ایک بار تو مجھے ایک نکاح خواں کی شادی میں شرکت کا موقع بھی ملا۔  جس ترسے ہوئے کو بالآخر دلہن مل ہی گئی تھی اس کا نکاح اس کے دوست نکاح خواں نے پڑھایا ۔ اور جب نکاح کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے گئے تو سب شادی شدہ لوگوں نے بس اتنا ہی کہا کہ ’’اگر آج اونٹ پہاڑ کے نیچے آ ہی گیا ہے تو پھنسے بغیر نہ نکلے‘‘ اور ایک آواز میں آمین کی صدا میں نے پہلی بار سنی۔

اکثر نکاح خواں حضرات موقع دیکھ کر خطبہ دیتے ہیں۔ متوسط درجے کے گھرانے میں جائیں گے تو نکاح کی برکات بیان کریں گے۔ مگر جونہی معلوم ہوا کہ پارٹی اونچی ہے اور لڑکے کے پہلے بھی گل کھل چکے ہیں تو پھر بیان بھی اسی طرح کے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر نہ بن سکے تو اللہ نے طلاق کا راستہ بتایا ہے اور ساتھ ہی طلاق کی نیکیاں گنانے لگتے ہیں۔

قصہ مختصر، آپ سوچ رہے ہوں گے میں نکاح خواں کے پیچھے ہاتھ پاؤں دھو کر بلکہ نہا کر پڑ گئی ہوں۔ یہ کام تو رشتے والے بھی تو کرتے ہیں۔ مگر میں کہنا چاہوں گی وہ آغاز کرتے ہیں اور نکاح خواں پختہ مہر لگاتا ہے جس سے دو خوشحال لوگ ماضی کی یاد میں محو ہو جاتے ہیں۔

٭٭٭

5 thoughts on “نکاح خواں ۔۔۔ مومنہ ادریس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے