نظمیں ۔۔۔ ستیہ پال آنند

وِش کنیا

وِش کنیاـ بمعنی زہریلی لڑکی (وش یا ـ بِس ـ بمعنی   زہر ۔۔۔کنیا بمعنی لڑکی)۔۔قدیم ہندو لوک کہانیوں اور کلاسیکی ہندو ادب میں اس روایت کا ذکر ملتا ہے  کہ راجا کے حکم سے زہریلی خوراک سے پرورش کی ہوئی خوبصورت لڑکیوں کو سیاسی مقاصد کے لیے یعنی حریف راجاؤں، سپہ سالاروں کو موت کی نیند سلا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کا ایک بوسہ بھی سم قاتل تھا۔

 

کس جٹا دھاری سادھو  سے سیکھا

اور کب؟ ۔۔اب  یہ بات یاد نہیں

’’ناگ ودیا‘‘ کا گیان، سانپوں کو

بس میں کرنے کا فن ۔۔ہمارا تھا

ـناگ سوامیـ تھے۔۔زہر کو تریاق

میں بدلنے  کا  علم  رکھتے  تھے

ڈر سے نیوڑھائے اپنی ناگ پھنی

سانپ ہم سے پناہ  مانگتے تھے

’’ناگ ودیا‘‘ کا سارا گیان لیے

ہم کمال ہنر کے مالک تھے

لیکن اک دن عجیب بات ہوئی

ایک وِش کنیا پیار سے  آ کر

یوں گلے لگ گئی کہ سارا گیان

وِش کو امرت  میں، زہر کو تریاق

میں بدلنے کا علم، سب منتر

بھول بیٹھے کہ اس کے ہونٹوں کا

زہر آب ِ حیات تھا، اور ہم

لاکھ جنموں کی پیاس رکھتے تھے

٭٭٭

 

 

 

اندھا گونگا اور بہرا مر رہا ہوں

 

نطق بے آواز تھا

پگھلا ہوا سیسہ مرے کانوں کو بہرا کر چکا تھا

صرف میری کور آنکھیں ہی تھیں

جو گونگی زباں میں بولتی تھیں

جب بھی میں بے نور آنکھوں کو اٹھا کر بات کرتا

مورتی سنتی، مگر خاموش رہتی

مورتی مندر میں استھاپت نہیں تھی ۔۔۔۔

اس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے گھڑا تھا

اور پھر اِکلویّہ٭ کی مانند اپنے سامنے رکھ کر

میں اس سے بات کرتا تھا، جھگڑتا،  یا کبھی روتا، کبھی ہنستا

کبھی درویش سا  میں

اس کے چاروں سمت اک پاؤں گھماؤ میں پھنسا کر ناچتا تھا!

خود کُشی کی شام میں نے مورتی سے

صاف لفظوں میں کہا، ’’ معبود میرے!

میرا یہ حرکی تصوّر ہے کہ میں خود فہم بھی ہوں

اور رکھتا ہوں میں اپنی ذات کے اندر چھُپا کر

اپنی افزائش کا سامان

اپنے ہونے  یا نہ ہونے کا جوازِ مستقل بھی

مرد ِ خود آگاہ ہوں

میری یہی تکمیل ہے، میں جانتا ہوں

اندھا، گونگا اور بہرا مر رہا ہوں

خود کشی سے پہلے یہ خواہش ہے میری

اب مرے اگلے جنم، جتنے بھی باقی رہ گئے ہوں

نیچ جاتی میں ہوں تو  آوا گون سے چھوٹ جاؤں!

٭٭

٭پرانے وقتوں میں شودر (اچھوت) کے کان میں اگر بھولے سے بھی وید منتر کی آواز پڑ جائے تو اس کی سزا یہ تھی کہ اس کے کانوں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جائے اور اگر وہ وید منتر کا جاپ کرے تو اس کی زبان کاٹ دی جائے۔ یہ کہانی شودر جاتی کے بھگت سمتاننؔ کی ہے جو تیسری صدی (ق۔م) میں اجّین کا باسی تھا۔ وہ جنم سے نا بینا تھا لیکن مندر کے پیچھے چھپ کر وید منتروں کا پاٹھ سنتا تھا اور دہراتا تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے