نئی ماں ۔۔۔ دیوی ناگرانی

ایک ہی رات میں وہ ماں بن گئی۔ سوتیلی ہی صحیح، پر وارث تو ہوئی وہ دو بیٹیوں کی۔ یہ وردان اسے وراثت میں ملا۔ ممتا کیسے مکمل ہوتی ہے، بچے کی کلکاریاں کیا ہوتی ہیں، چھاتی سے دودھ کی دھاریں کس طرح چھلکتی ہیں، کچھ بھی جانے بنا وہ ماں بن گئی۔ اللہ کی طرف سے ایک نعمت!

بڑی بیٹی رچنا اپنی نئی ماں کے جذبات سمجھ پا رہی تھی۔ وہ بھی اس کشمکش کے پاٹوں کے بیچ مشکل کے دور سے گزر رہی تھی۔ کلا، ہاں کلاوتی ہی اس کی نئی ماں کا نام تھا۔ کسا ہوا بدن، گورا رنگ، تیکھے نین نقش، ایک فنکارانہ مورتی کا روپ اور تب و تاب لئے ہوئے وہ اندھیروں میں اجالا بھرنے کی صلاحیت رکھنے والی ایک ادھ کھلی نو خیز لڑکی، جو عمر میں اس سے دو سال چھوٹی اور اس کی بہن گائتری کی عمر سے دو سال بڑی تھی۔

رچنا گھر کی بڑی بیٹی ہونے کے ناطے رشتوں کو جانتی تھی، رشتوں کے بیچ کے رکھ رکھاؤ کو پہچانتی تھی۔ سگی ماں بیمار تھی، علاج کیا گیا، پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔دنیا کے تمام وسائل مہیا کرنے میں پیسہ محض تعاون دیتا ہے، مگر زندگی کی خیرات کہاں دے پاتا ہے؟ اسی پیسے کے زور پر پرانی ماں کی موت کے کچھ عرصے بعد ہی نئی ماں گھر آ گئی۔ باپ نے نئی ماں کو لانے میں جتنی جلدی کی، اپنی بچیوں کے ساتھ رشتہ جوڑ نے میں اتنی ہی دیر لگا دی۔ وہ تکریم جو رشتوں کو جوڑتی ہے، وہی شاید باپ کی زندگی کا حصہ نہیں بن سکی۔ رشتوں کا ٹوٹنا اور جڑنا ایک معمولی چلن سا بن گیا ان کے لئے۔ رشتوں کا نباہ کیسے ہوتا ہے، یہ ان کی فطرت میں شامل ہی نہ تھا۔ تھی تو بس لوک لاج کی پرواہ، بیٹھکوں میں عزت و شان، دکھاوے کی چمک دمک اور ہر وہ وسیلہ جو ان کی نجی خوشیوں میں اضافہ کر سکے۔

"رچنا کبھی کبھی کام میں اپنی نئی ماں کا ہاتھ بٹا دیا کرو، اسے تھوڑا وقت لگے گا سیکھنے میں۔۔۔  اور تم۔۔۔۔ ’باپ کا حکم تھا پیار سے خالی، اپنے پن سے خالی۔ وہ ایک حکم نامہ تھا، ایک فرمان جو نہ جانے کس روایت کے تحت وہ خاندان کے ارکان پر تھوپتے رہے، ہمیشہ کی طرح۔۔۔  جیسے وہ نئی ماں کے پہلے سگی ماں کو بھی بطور حکم دیا کرتے تھے۔

"آپ اپنی نئی بیوی کی بات کر رہے ہیں؟” رچنا نے کرارے طنز کے ساتھ وار کیا۔ ماحول میں وہ جتنی بھی تبدیلیاں دیکھتی، اتنی ہی اس کی باغی سوچ ردِ عمل کے طور پر پیش کرتی۔

"ہاں تمہاری نئی ماں کی ہی بات کر رہا ہوں۔ اچھا ہو گا جو تم اس نئے اور پرانے رشتے کی مہین دیوار توڑ کر اسے ‘ماں’ کہہ کر مخاطب کرو۔” پتا نے اپنے گرم تیور ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

"پر میں اسے نہ ماں مانتی ہوں، اور نہ اسے ماں کہہ کر پکار سکتی ہوں۔ وہ تو عمر میں بھی مجھ سے دو سال چھوٹی ہے۔ کھونٹے سے باندھ کر آپ نے اس کے ساتھ ایک رشتہ جوڑ لیا، بس ایک نام دے دیا۔  جانے کس مفاد کی وجہ سے۔۔۔!”

"رچنا، اپنی سوچ کو بھٹکنے نہ دو۔۔۔ ۔” باپ نے غیر واضح الفاظ میں مخالفت کی.

"رشتہ جوڑنا ایک بات ہے، اسے نبھانا ایک اور بات۔۔۔  اور اس کی تکمیل کرنے کے لئے آپ کو اپنے بچوں کا تعاون لینا پڑے، یہ نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی آداب کے لحاظ سے صحیح۔” کہہ کر رچنا بے رخی سے چلنے کو ہوئی۔

” رکو … تم اپنی نئی ماں کو ماں نہیں مانتی، کیا یہی کہنا چاہتی ہو تم.”

"نہیں، کہنا تو نہیں چاہتی، پر کہے بنا رہ بھی نہیں سکتی۔ آپ مجھے یہ احساس دلانے کی کوشش نہ کریں کہ جو رشتے آپ مجھ پر تھوپیں گے، وہ مجھے یا گائتری کو قبول ہوں گے؟ مجھے اچھے برے کی پہچان ہے، بھلے برے میں فرق سمجھتی ہوں۔ اس گھر کی بیٹی کی عمر سے چھوٹی عمر والی کسی اور گھر کی بیٹی کو آپ بیاہ کر لائے ہے اور اب آپ مجھے اس بات کے لئے کسی تناؤ سے بھریے حالات میں نہ ڈالیں تو بہتر ہو گا۔ اس نو بیاہتا لڑکی کا اپنی سوچ پر پورا حق ہونا چاہئیے، میں اس کے دائرے میں اپنی سوچ سے دخل نہیں دینا چاہتی”

پختہ فکر کی مالکن رچنا ابھی تک اس سچ کو قبول نہیں کر پا رہی تھی۔ پیار اور مجبوری، انصاف اور نا انصافی کا ہر صفحہ اپنی کہانی کہہ رہا تھا۔ عورت اپنی قربانی کا ثبوت کب تک دیتی رہے گی؟ کیا اس کی مرضی مردوں کی من مانیوں کی ڈگر پر سر پھوڑ کر رہ جائے گی؟ کیا اس کی چاہت مردانہ اقتدار کی دلدل میں دھنستی رہے گی؟

ماں کی موت نے رچنا کے من کو گہری چوٹ پہنچائی تھی اور تھوڑے ہی وقت میں باپ کا نئی ماں کو لے آنا ایک اور وار رہا۔ چوٹ درد کا احساس دے جاتی ہے اور یہی احساس وقت سے پہلے بہت کچھ سکھا بھی دیتا ہے۔  پیار، نفرت، جلن، پیار، ممتا۔ یہیں ہر چہرہ بے نقاب سا ہو جاتا ہے۔ سمجھوتے کے نام پر رشتے ننگے ہو جاتے ہیں۔ یہی باغی سوچ رچنا کے بھیتر بگولہ بن کر رواں ہو رہی تھی۔ اب تسلی دل کو کہاں ڈھارس بندھا پاتی ہے؟ ایک حل کی جانچ – پڑتال یادوں میں ادھوری ہی رہتی ہے تو دوسرا واقعہ پورا ہو جاتا ایک واقعہ کے پیچھے ایک اور واقعہ اس رفتار سے سامنے آتا ہے کہ حل ادھورے کے ادھورے مشکلوں کے اندھیرے میں کھو جاتے ہیں۔ ایک کانڈ کے پیچھے ایک اور کانڈ اس رفتار سے سامنے آتے ہیں کہ حل ادھورے کے ادھورے سمادھانوں کے اندھیرے میں کھو جاتے ہیں۔

"آپ کی چائے لائی ہوں” شائستہ سلجھا ہوا لہجہ سنا۔ سوچ سے پیدا ہوئی من کی کڑواہٹ، گرم چائے کی بھاپ کی طرح رفو چکر ہو گئی۔ دیکھا، کلا چائے پاس والی تپائی پر رکھ کر جانے کو مڑی۔

"سنو” اور آگے رچنا کچھ کہہ نہ پائی۔

"جی” یہ کلا کی آواز تھی، جو اپنی اندرونی کشمکش میں الجھی ہوئی تھی کہ وہ رچنا کو کیسے مخاطب کرے؟ کیسے بات کرے؟ کیسے اسے یقین دلائے کہ وہ اس کی اور گائتری کی ذہنی حالت سے واقف ہے، دل میں آنے والے خیالات کی الجھن جانتی ہے، ان کا دکھ درد بانٹ سکتی ہے، ان کی امیدوں پر پوری اترنے میں کامیاب نہ ہو پائے۔

٭٭

 

کلا کا بچپن گزرنے پر، جوانی بغیر آہٹ آئی اور موسمے – بہار آنے کے پہلے خزاں ساتھ ہو لی۔

"بیٹی اب تو سکول نہ جایا کر، گھر کا کام کاج سیکھ لے”

"پڑھنا بھی تو کام آئے گا کہ نہیں ماں؟ گھر کا کام تو عورت کو تا عمر کرنا ہوتا ہے اور ہر لڑکی جب عورت بنتی ہے تو وہ آسانی سے ہی اسے اپنی ضرورتوں کے مطابق سیکھ لیتی ہے۔”۔  کہہ کر کلا نے کتابیں اٹھائیں اور چھت پر پڑھنے کے لئے قدم آگے بڑھایا۔

"اری سن، ان سنا نہ کیا کر! تیرے بابو جی کہیں بات چیت چلا رہے ہیں۔ اچھے گھر کا آدمی ہے۔”

” آدمی …!” اور کلا کی خاموشی میں بے شمار سوالات نے دم توڑ دیا. اس کی خاموش سوالیہ پلکیں ماں کے طرف اٹھیں۔

"۔۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔  ”

"ارے ہاں، وہ سیٹھ دیال رائے جس کی بیوی دو ماہ پہلے گزر گئی، وہی! اتنا بڑا کاروبار، بڑی حویلی، دو بیٹیاں ہیں پر گھر کا وارث نہیں ہے۔ کوئی تو ہو جو اس سارے پھیلاؤ کی باگ ڈور سنبھال لے۔ ایسے ہی تو نہیں بیتے گا یہ تہس نہس زندگی؟ اگر تیری بات وہاں پکی ہو جائے، تو پھر تیرے وارے نیارے ہو جائیں گے اور ہم بھی سکھ کی سانس لے پائیں گے۔ تیرے پیچھے دو بہنیں اور بھی تو ہیں۔ مجھے وشواس ہے یہ رشتہ ان کے لئے بھی جنت کا دروازہ کھول دے گا۔” کہہ کر ماں نے دونوں ہاتھ جوڑ کر بھگوان سے نہ جانے من ی من میں کون سی منت مانگی۔

چھت کی جانب جاتی سیڑھی پر پاؤں دھرا ہی نہ تھا، کہ ٹھٹھک کر رک گئی کلا، کلاوتی کملا پرساد۔  یہی نام اس کے سکول کے داخلے کے وقت رجسٹر میں درج ہوا تھا۔ یادوں کی دیواریں شیشوں کی طرح ہوتی ہیں، مہین، باریک، نازک۔ وہ یادیں کبھی بنا چوٹ کے چور چور ہونے کی طبیعت رکھتی ہیں، بے آواز ہی بھربھرا کر رہ جاتی ہیں۔ ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کلا سوچتی رہی۔ نام کی پہچان کیا صرف نے والی ماں ہوتی ہے، جو بچوں پر اپنا سب کچھ تو لٹاتی ہے، پر اپنا نام تک نہیں دے پاتی، ان کی پہچان نہیں بن سکتی؟ یہ کیسا خیال ہے، کیسی ریت ہے کہ مرد، صرف مرد ہی ہر لڑکی کی پہچان کا باعث ہو ۔۔۔  کبھی پتا، کبھی بھائی، کبھی بیٹا اور کبھی شوہر بن کر۔

"ماں کیا عورت کی پہچان کا کوئی وجود نہیں ہے؟”

کہنا چاہ کر بھی کلا کہہ نہ پائی۔ سیڑھی پر پاؤں دھرتے ہی سوچا ہر عورت کو اپنی پہچان بنانے کا، خود کی زندگی سجانے سنوارنے کا پورا اختیار ہونا چاہئیے۔ کیا مردانہ سماج میں عورت اپنی کوئی پہچان نہیں رکھ سکتی؟ کسی کی زندگی کا فیصلہ کوئی اور لے، یہ تو صحیح نہیں، بھلے ہی وہ ماں باپ ہوں۔ عورت کی تکمیل ماں ہونے میں ہے اور وہ اس کا پیدائشی حق ہے۔ یہ ممتا ہی تو اسے اپنی پہچان اور اپنے وجود کی تکمیل کا احساس دیتی ہے۔ اپنی فیصلہ کن سوچ پر اور جذبات پر اس کا پورا اختیار ہونا چاہئے۔ کلا اپنے ارد گرد سوچ کے دھاگوں سے اپنے مستقبل کے سپنوں کو بُنتی رہی کہ اس سوچ کو کچلتی اس کے باپ کی آواز اس کے کانوں میں گرم، پگھلا ہوا سیسہ انڈیل گئی۔۔۔ !

"ارے بھاگیوان سنتی ہو۔ کل شام کلا کا رشتہ سیٹھ دیال رائے جی کے ساتھ طے ہو گا۔ وہ شگن لے کر پانچ بجے آئیں گے۔ دیکھنا آؤ بھگت میں کوئی کمی کسر نہ رہے۔” کہتے ہوئے کملا پرساد ایک فیصلہ کن حکم دیتے ہوئے دھوتی کا پلو سنبھالتے ہوئے اپنے کمرے  کی جانب بڑھتے گئے اور کلا کے بڑھتے قدم آگے جانے کی بجائے نہ جانے وقت کی کتنی سیڑھیاں پیچھے کی طرف لانگھ آئے۔

کچھ ٹوٹ کر بکھرا۔ وہ کیا تھا یہ نہیں جانا۔ جو کچھ بھی ہوا وہ نہ جانا پہچانا احساس تھا، نہ اپنا! دل اپنے بھیتر کے خالی پن میں ڈوبتا چلا گیا اور تیرگی کے سائے پل پل گہرے ہوتے رہے۔ زندگی کی رونقیں پل میں بے مزا ہو گئیں۔ خواہشوں کی آہٹیں بجھے چراغوں کی طرح سہم گئیں، دل پر دستک دینا بھول گئی۔ پھول کھلنے کے پہلے مرجھانے لگے، ان سنی رہ گئی راگ کی بانسری، ان چھوئی رہ گئی پھول کی پنکھڑیاں۔ ہواؤں نے سانس لینا بند کر دیا، بس جیسے ہلچل ٹھہر گئی ہو۔ خاموش درد کی سسکیاں کون سنتا؟ ان رشتوں کے بازار میں لینے دینے کے سلسلوں میں پس جاتی ہے بیٹیاں، ان کا تمام وجود، ان کی زندگی کی پہچان ایک تنازعے پر آ کر ٹھہر جاتی ہے۔

٭٭

 

"آپ بھی اپنی چائے یہیں لے آئیں، ساتھ میں پئیں گے!”

یہ رچنا کی کومل آواز تھی۔ کلاوتی کو احساس ہوا جیسے نا سمجھی کی مہین دیوار بھربھرا کر ڈھے گئی۔ عورت کے دل نے شدت سے محسوس کیا کہ جب رشتے جڑ جاتے ہیں تو چاہ کر بھی انہیں توڑا نہیں جاتا، بس نبھانے کی روایتیں اپنانی پڑتی ہے۔ ویسے بھی  عورت کی لڑائی اس کے اپنے آس پاس کے حالت کے جال میں پھنسی رہتی ہے، جس سے وہ آزادی پانا چاہتی ہے۔ حالات کے سبھی چیلینجوں کو قبول کرنا شاید اپنا مقدر سمجھ بیٹھی ہے۔

کلا کو لگا جیسے وہ گھٹن کے چکر ویوہ سے آزاد ہو گئی ہو۔ من کی کشمکش کی قید سے نکل کر آزاد ماحول میں آ گئی اور آزادی کا دروازہ اسے آغوش میں لینے کو بے چین تھا۔ پل بھر میں وہ ‘نئی’ نہ رہ کر پرانی ہو گئی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے