سیفی فریدآبادی اور قرآنی تلمیحات – قصیدہ درنعت شہ کونینﷺ کا مطالعہ ۔۔۔ عامر صدیقی

پسِ مردن بنائے جائیں گے ساغر مری گلِ کے

لبِ جاں بخش کے بوسے ملیں گے خاک میں ملِ کے ۱

 

علامہ سید مکرم علی شاہ نقوی سیفی فریدآبادی کا فقط یہ شعر ہی اردو ادب میں انہیں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے

***********

 

                   حیاتِ علامہ سید مکرم علی شاہ نقوی سیفی فریدآبادی

 

علامہ سید مکرم علی شاہ نقوی سیفی فریدآبادی کی ولادت بسعادت نومبر 1894ء بمقام فریدآباد ضلع گڑ گاواں مشرقی پنجاب میں ہوئی۔  آپ کے والد حکیم سید امتیاز علی چشتی صابری المتخلص سیماب متھراوی اپنے دور کے مشہور بزرگ اور شاعر تھے۔  آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ دیوبند فریدآباد میں پائی۔  بعد ازاں مدرسہ قادریہ بدایوں پھر پنجاب یونیورسٹی اور علیگڑھ یونیورسٹی سے مختلف ڈگریاں حاصل کیں۔  شعر گوئی میں آپ کو ابتداً  شرفِ تلمذ اپنے والد سے رہا جو رسا رامپوری کے شاگرد تھے، بعد ازاں آپ خود بھی ان کے دامن سے وابستہ ہو گئے۔  عمر بھر پیشہ وکالت رہا۔  آپ حضرت سید درویش احمد معروف بہ موتی میاں کے اجازت یافتہ خلیفہ تھے۔  1947ء میں پاکستان تشریف لائے اور مختلف شہروں میں قیام رہا۔  1984ء آپ کی رحلت کا سال ہے۔  اپنا مجموعہ شاعری بنام ” ارمغانِ سیفی ” یادگار چھوڑا ہے۔  ۲

 

                    صنعت تلمیح کی تعریف

"کلام میں کوئی ایسا لفظ نظم کیا جائے کہ جس سے کسی شخص یا واقعہ کی طرف اشارہ ملے اور اس لفظ کی ادائیگی سے وہ شخص یا واقعہ یاد آ جائے تو وہ شعر صنعت تلمیح میں ہو گا ” ۳

 

                   کلام علامہ سیفی اور صنعتِ تلمیح

 

آپ کا کلام جا بجا صنعتِ تلمیح سے مزین نظر آتا ہے اور چوں کے آپ ایک عالم دین اور صوفی با صفا تھے اور قرآن و حدیث کا علم بدرجہ اولیٰ رکھتے تھے۔  یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام میں جا بجا صنعت تلمیح کے جواہر پارے ملتے ہیں اور کیونکہ ہمارا موضوع فقط وہ تلمیحات ہیں جن کا تعلق قرآن حکیم سے ہے۔  سو ہم فقط اسی پر اکتفا کریں گے اور آپ کے کلام میں سے بھی فقط ” قصیدہ در نعت شہ کونین صلی اللہ علیہ و سلم ۴ ” کا انتخاب کریں گے۔  ورنہ آپ کے کلام سے ایسے کئی سو حوالے نکالے جا سکتے ہیں اور جو ایک مستقل تصنیف کی شکل لے سکتے ہیں۔

 

                   تخریج کلام

 

سُبْحٰن الّذِیْٓ اسْریٰ بِعبْدِہ ٖ پیکرِ اطہر

المْ نشْرحْ لک صدْرک ثبوتِ ذاتِ نورانی

 

سُبْحٰن الّذِیْٓ اسْریٰ بِعبْدِہٖ لیْلاً مِّن الْمسْجِدِ الْحرامِ اِلی الْمسْجِدِ الْاقْصی الّذِیْ بٰرکْنا حوْلہٗ لِنُرِیہٗ مِنْ ایٰتِناط اِنّہٗ ھُو السّمِیْعُ الْبصِیْرُ ۵

 

ترجمہ:  ہر عیب سے پاکی ہے اسے جو لے گیا اپنے (مقدس) بندے کو رات کے تھوڑے سے حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک(ن) جس کے ارد گرد ہم نے بہت برکتیں فرمائیں تاکہ ہم (اپنے) اس (مقدس بندے) کو اپنی نشانیوں میں سے دکھائیں _ بیشک وہی سننے والا دیکھنے والا ہے ۶

 

المْ نشْرحْ لک صدْرک ۷

 

ترجمہ:  اے (محبوب) کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا (مبارک) سینہ (علم و حکمت اور نور معرفت کے لئے) کشادہ نہ فرمایا۔

 

نفی معرکہ ہے رحمۃ للعالمین تم ہو

شکست گردش شمس و قمر معراج جسمانی

 

ومآ ارْسلْنٰک اِلّا رحْمۃً لِّلْعٰلمِیْن ۸

 

ترجمہ: اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو اے (محبوب) مگر رحمت سارے جہانوں کے لئے

 

دیار کائنات کن میں شمس بازغہ تم ہو

شبستان الوہیت میں شمع نور سبحانی

 

اِنّما قوْلُنا لِشیْئٍ اِذآ اردْنٰہُ انْ نّقُوْل لہٗ کُنْ فیکُوْن ۹

 

ترجمہ:  جس چیز کا ہم ارادہ کریں اس سے ہمارا فرمانا یہی ہوتا ہے کہ ہم اس سے کہیں کہ ہو جا رو وہ فوراً ہو جاتی ہے۔

 

فلمّا را الشّمْس بازِغۃً قال ھٰذا ربِّیْ ھٰذآ اکْبرُ ۔ فلمّآ افلتْ قال یٰقوْمِ اِنِّیْ برِیْٓئٌ   مِّمّا تُشْرِکُوْن ۱۰

 

ترجمہ:  پھر جب سورج کو جگمگاتا دیکھا۔  کہنے لگے یہ میرا رب ہے؟ (یہ ان سب سے) بڑا ہے۔  پھر جب وہ (بھی) چھپ گیا تو کہا اے میرے مخاطبین میں بیزار ہوں ان چیزوں سے جنہیں تم (اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہو۔

 

زیں بوس حقیقت، آسمان عزت والتین

کمال عظمت ھذا البلد، محبوبِ سبحانی

 

والتِّیْنِ والزّیْتُوْن ۱۱

 

ترجمہ: قسم انجیر کی اور زیتون کی

لآ اُقْسِمُ بھِٰذا الْبلدِ ۱۲

 

ترجمہ: میں قسم فرماتا ہوں اس شہر کی

 

تمھارا امتیاز قربِ قوسین و ادنیٰ

عقول و عقلِ کل بن گیا ہے چشمِ حیرانی

 

فکان قاب قوْسیْنِ اوْادْنیٰ ۱۳

 

ترجمہ: تو محمد (اپنے رب) سے دو کمانوں کی مقدار (نزدیک) ہوئے بلکہ اس سے (بھی) زیادہ نزدیک

 

تمھاری تاب ما زاغ البصر نے کر دیا ثابت

کہ وہ ذاتِ مقّدس ہے تمھاری جانی پہچانی

 

ما زاغ الْبصرُ وما طغیٰ ۱۴

 

ترجمہ: نہ ایک طرف مائل ہوئی نظر اور نہ حد سے بڑھی

 

نا وحیٰ کی مئے صافی تھی، ما اوحیٰ کے ساغر میں

عجوبہ میزبانی تھی، عجب اندازِ مہمانی

 

نا وحیٰ اور ما اوحیٰ کی ندرت کوئی کیا جانے

کراما کاتبین تک ہیں شہیدِ تیغِ نادانی

 

اِنْ ھُو اِلّا وحْیٌ   یُّوْحیٰ ۱۵

ترجمہ:  نہیں ہوتا ان کا فرمانا مگر وحی جو (ان کی طرف) کی جاتی ہے

 

فاوْحٰٓی اِلیٰ عبْدِہٖ مآ اوْحیٰ ۱۶

 

ترجمہ:  تو وحی فرمائی اپنے عہدِ مقّدس کو جو وحی فرمائی

 

تمہارے ذکر کی عظمت ہے زہدِ شیخ سے افضل

کی اس پر آیہْ فلْیفْرحُوْا ہے نصِّ قرآنی

 

قُلْ بِفضْلِ اللّٰہِ وبِرحْمتِہٖ فبِذٰلِک فلْیفْرحُوْاط ھُو خیْرٌ   مِّمّا یجْمعُوْن ۱۷

 

ترجمہ:  فرما دیجئے (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے تو اس پر مسلمانوں کو خوش ہونا چاہئے وہ اس سے بہتر جسے وہ جمع کرتے ہیں

 

رباب کسرِ نفسی  نغمہ سنج ما عرضناک

علیمِ مایکون و واقفِ تجوید، ما کانی

 

المْ تر انّ اللّٰہ یعْلمُ ما فِی السّمٰوٰتِ وما فِی الْارْضِط ما یکُوْنُ مِنْ نجْویٰ ثلٰثۃٍ اِلّا ھُو رابِعھُمْ ولا خمْسۃٍ اِلّا ھُو سادِسھُمْ ولآ ادْنیٰ مِنْ ذٰلِک ولآ اکْثر اِلّا ھُو معھمْ ایْن ما کانُوْا۔ ثُمّ یُنبِّئھُمْ بِما عمِلُوْا یوْم الْقِیٰمۃِ۔ اِنّ اللّٰہ بِکُلِّ شیْئٍ علِیْمٌ   ۱۸

 

ترجمہ:  (اے سننے والے) کیا تو نے نہ جانا کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں _ نہیں ہوئی تین کی سرگوشی مگر وہ (اللہ) ان کا چوتھا (ان کے ساتھ) ہے اور نہ پانچ کی مگر وہ ان کا چھٹا (ان کے ساتھ) ہے اور نہ اس سے کم کی اور نہ اس سے زیادہ کی مگر وہ ان کے ساتھ ہے وہ جہاں کہیں ہوں پھر وہ قیامت کے دن انہیں بتائے گا جو کچھ انہوں نے کیا بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے

 

تمھارا قول محکم، استنادِ عصمتِ مریم

صعود ابنِ مریم، اشتہادِ نصِ قرآنی

 

وّقوْلھِمْ اِنّاقتلْنا الْمسِیْح عِیْسی ابْن مرْیم رسُوْل اللّٰہِج وما قتلُوْہُ وما صلبُوْہُ ولٰکِنْ شُبِّہ لھمْط واِنّ الّذِیْن اخْتلفُوْا فِیْہِ لفِیْ شکٍّ مِّنْہُط ما لھمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلّا اتِّباع الظّنِّج وما قتلُوْہُ یقِیْنًا۔ ۱۹

 

ترجمہ:  اور ان کے اس قول کی وجہ سے (بھی) کہ ہم نے قتل کر دیا مسیح عیسیٰ ابنِ مریم رسول اللہ کو حالانکہ نہیں قتل کیا انہوں نے ان کو اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا لیکن ان کے لئے (کسی کو عیسیٰ کا) ہم شکل بنا دیا گیا اور بیشک جن لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیا وہ ان کی طرف سے ضرور شک میں ہیں اور انہیں ان کا کچھ علم نہیں مگر یہ کہ وہ محض گمان کی پیروی کرتے ہیں اور انہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا

 

نسیمِ چشمہ کوثر شفیع عرصہ محشر

ندیم داور وسر رشتہ دار عدل یزدانی

 

اِنّا اعْطیْنٰک الْکوْثر ۰ ۲

 

ترجمہ:  اے حبیب بیشک ہم نے آپ کو خیرِ کثیر عطا فرمائی

 

فلِذٰلِک فادْعُ۔ واسْتقِمْ کمآ اُمِرْت۔ ولا تتّبِعْ اھوآئ ھُمْ ۔ وقُلْ اٰمنْتُ بِمآ انْزل اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ۔ واُمِرْتُ لِاعْدِل بیْنکُمْ ۔ اللّٰہُ ربُّنا وربُّکُمْ۔  لنآ اعْمالُنا ولکُمْ اعْمالُکُمْ ۔ لاحُجّۃ بیْننا وبیْنکُمْ۔  اللّٰہُ یجْمعُ بیْننا۔ واِلیْہِ الْمصِیْر ۲۱

 

ترجمہ:  تو اسی (قرآن) کے لئے آپ بلائیں اور جیسا آپ کو حکم ہوا ثابت قدم رہیں اور ان کی خواہشوں کی اتباع نہ کریں اور فرما دیں جو کتاب اللہ نے نازل فرمائی میں اس پر ایمان لایا اور مجھے حکم ہوا کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں اللہ ہی ہمارا رب اور تمھارا رب ہے ہمارے لئے ہمارے عمل ہیں اور تمھارے لئے تمھارے عمل – ہمارے تمھارے درمیان جھگڑا نہیں اللہ ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے

 

تمھارے ذکر کی عظمت کو اوجِ ثریّا کیا جانے

عقول و عقلِ کْل کو اعترافِ عجز و نادانی

 

ورفعْنا لک ذِکْرک ۲۲

 

ترجمہ:  اور ہم نے آپ کے لئے آپ کا ذکر بلند کر دیا

 

وہاں بھی چشمِ بینا میں تھی شانِ ماطغی قائم

مثکتِ باحرہ تھی جس جگہ جلوے کی طغیانی

 

ما زاغ الْبصرُ وما طغیٰ ۲۳

 

ترجمہ:  نہ ایک طرف مائل ہوئی نظر اور نہ حد سے بڑھی

پسند خاطرِ اقدس جبین انکساری ہے

میں اب سمجھا کہ مٹی سے ہے کیوں تخلیق انسانی

 

ھُو الّذِیْ خلقکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمّ قضٰٓی اجلاً۔ واجلٌ  مُّسمًّی عِنْدہٗ ثُمّ انْتُمْ تمْترُوْن ۲۴

 

ترجمہ:  (اللہ) وہی ہے جس نے تمھیں مٹی سے بنایا پھر موت کی مدت مقرر فرما دی اور (قیامت کا) معین وقت اللہ ہی کے نزدیک ہے پھر تم شک کرتے ہو

 

تمھیں عن شہود و شاہد کون و مکاں ٹھہرے

تمھیں تحریکِ نبضِ کائنات بزم انسانی

 

یایّھُا النّبِیُّ اِنّآ ارْسلْنٰک شاھِدًا وّمُبشِّرًا وّنذِیْرًا ۲۵

 

ترجمہ:  اے نبی بیشک ہم نے آپ کو مشاہدہ کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا اور (عذاب سے) ڈرانے والا بنا کر بھیجا

 

اِنّآ ارْسلْنٰک شاھِدًا وّمُبشِّرًا وّنذِیْرًا ۲۶

 

ترجمہ:  بیشک ہم نے آپ کو مشاہدہ کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا اور (عذاب سے) ڈرانے والا بنا کر بھیجا

ہجوم انبیاء میں سب فرشتوں کو بتائی تھی

تمھاری منزلت در پردہ میثاقِ ربّانی

 

واِذْ اخذ اللّٰہُ مِیْثاق النّبِیّٖن لمآ اٰتیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وّحِکْمۃٍ ثُمّ جآئکُمْ رسُوْلٌ   مُّصدِّقٌ   لِّما معکُمْ لتُؤْمِنُنّ بِہٖ ولتنْصُرُنّہٗ۔ قال ئ اقْررْتُمْ واخذْتُمْ علیٰ ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ۔ قالُوْٓا اقْررْنا۔ قال فاشْھدُوْا وانا معکُمْ مِّن الشّٰھِدِیْن ۲۷

 

ترجمہ:  اور (اے محبوب یاد کیجئے) جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا کہ جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر آئے تمھارے پاس (عظمت والا) رسول تصدیق کرنے والا اس چیز کی جو تمھارے ساتھ ہو تو ضرور ضرور تم اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔  فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری عہد قبول کیا؟ سب نے کہا ہم نے اقرار کیا فرمایا گواہ رہنا اور میں خود تمھارے ساتھ گواہوں میں ہوں

 

 

 حوالہ جات و حواشی

 

۱ اسی غزل کے چند دیگر اشعار

 

وہ جانے موج طوفاں تھی کہ تھے آثار ساحل کے

بس اتنا یاد ہے رویا تھا مجھ سے ناخدا مل کے

 

ہمارا راہبر رستہ وہیں سے بھول جاتا ہے

جہاں کچھ کارواں نزدیک ہو جاتا ہے منزل کے

 

بگڑ کر توڑ ڈالے۔  آئینہ خانے کے آئینے

پسند آئے نہ اس کو طنطنے مدمقابل کے

 

نہ وہ ہم ہیں نہ وہ محفل نہ وہ ارباب محفل ہیں

کہاں سے لائیں سیفی آج وہ انداز محفل کے

 

بحوالہ سیفی فریدآبادی ، علامہ ” ارمغان سیفی "۹۸۴ ۱ء صفحہ ۱۷۱-۱۷۲

 

۲ ماخوذ ” حیات علامہ سیفی فریدآبادی ” مشمولہ ” ارمغان سیفی ” ، ۱۹۸۴ء ، صفحہ ۵ ۶ تا۳ ۷

۳ خورشید خاور امروہوی ، ڈاکٹر ” مقدمہ الکلام عروض و قافیہ ” ، ۱۹۸۹ء ، صفحہ ۸۸ ۴

۴ "قصیدہ در نعت شہ کونین صلی اللہ علیہ و سلم” ۲ ۶ اشعار پر مشتمل یہ قصیدہ رفعت تخیل شکوہ الفاظ اور قرآن و حدیث سے استدال کا ایک بہترین نمونہ ہے

۵ سورہ اسراء آیت ۱

۶ اردو ترجمہ کے لئے علامہ سید احمد سعید کاظمی کے ترجمہ القران ” البیان ” کا انتخاب کیا گیا ہے

۷ سورہ نشرح آیت ۱

۸ سورہ انبیاء آیت ۱۰۷

۹ سورہ نحل آیت ۴۰

۱۰ سورہ انعام آیت ۷۸

۱۱ سورہ التین آیت ۱

۱۲ سورہ البلد آیت ۱

۱۳ سورہ نجم آیت ۹

۱۴ سورہ نجم آیت ۱۷

۱۵ سورہ نجم آیت ۴

۱۶ سورہ نجم آیت ۱۰

۱۷ سورہ یونس آیت ۵۸

۱۸ سورہ مجادلہ آیت ۷

۱۹ سورہ النسا آیت ۱۵۷

۰ ۲ سورہ الکوثر آیت ۱

۲۱ سورہ الشوریٰ آیت ۱۵

۲۲ سورہ النشرح آیت ۴

۲۳ سورہ النجم ۱۷

۲۴ سورہ انعام آیت ۲

۲۵ سورہ احزاب آیت ۴۵

۲۶ سورہ فتح آیت ۸

۲۷ سورہ آل عمران آیت ۸۱

٭٭٭

One thought on “سیفی فریدآبادی اور قرآنی تلمیحات – قصیدہ درنعت شہ کونینﷺ کا مطالعہ ۔۔۔ عامر صدیقی

  • پس مردن بنائے جائینگے ساغر میرے گل کے
    لب جاں بخش کے بوسے ملینگے خاک میں مل کے

    اس شعر کی تشریح مطلوب ہے
    کیا مطلب ہے اس شعر کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے