غزل ۔۔۔ جلیل حیدر لاشاری

منظر اُس شخص نے کس رُخ سے دِکھا رکھا تھا؟
جس نے قاتل کو بھی مقتول بنا رکھا تھا

نارسائی نے ترے دام بڑھا رکھے تھے
ورنہ کیا ایسا ترے پاس بھلا رکھا تھا؟

ہر زمانے میں اجالوں کے خریداروں نے
کس مہارت سے اندھیروں کو بچھا رکھا تھا

ایک دم شور تھما ہے تو کھُلا ہے سب پر
کس قدر بوجھ سماعت نے اُٹھا رکھا تھا

ڈھونڈنے میں بھی وہی شخص تھا سب سے آگے
خود ہی سامان کہیں جس نے چھپا رکھا تھا
٭٭٭

مَیں کہ خود سے بھی جدا ہونے لگا
کیا کسی لب سے ادا ہونے لگا؟

ریت سوکھی ہی نہیں صحراؤں کی
تو ابھی سے ہی گھٹا ہونے لگا؟

خامشی کے بے تحاشا شور سے
شہر سارا بے صدا ہونے لگا

منصفوں کا فیصلہ آنے کو تھا
پھر کسی کا رابطہ ہونے لگا

وقت نے ڈھائے ہیں چہروں پر ستم
آئینوں سے تُو خفا ہونے لگا؟
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے