غزلیں ۔۔۔ جاناں ملک

 

بس اک دھوکا رہ جاتا ہے

بندہ تنہا رہ جاتا ہے

 

دیکھے دیکھے منظر میں بھی

کچھ ان دیکھا رہ جاتا ہے

 

نیند مکمل کرتے کرتے

خواب ادھورا رہ جاتا ہے

 

شام ڈھلے اِس پیڑ پہ تنہا

ایک پرندہ رہ جاتا ہے

 

پیڑ اگر کٹ بھی جائے تو

پیڑ کا سایا رہ جاتا ہے

 

اک لمحے کی تہہ میں رکھا

ایک زمانہ رہ جاتا ہے

 

تم تو کیا کیا گِنوا دیتے ہو

ہم سے کیا کیا رہ جاتا ہے

 

ہجرت کرنے والو دیکھو

پیچھے ملبہ رہ جاتا ہے

 

لوگ تو پار اتر جاتے ہیں

دیکھتا دریا رہ جاتا ہے

 

بادل دیکھ کے چل دیتے ہیں

صحرا پیاسا رہ جاتا ہے

 

آخری بس کا ایک مسافر

شب بھر بیٹھا رہ جاتا ہے

 

کب پڑتا ہے اس کا پاؤں

دیکھتا رستہ رہ جاتا ہے

 

بات کچھ اور نکل آتی ہے

سب کچھ سوچا رہ جاتا ہے

 

جاناں اک تصویر نہ ہو تو

کمرہ سُونا رہ جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

دہر  میں شورشِ برپا کا پتہ چلتا ہے

ریت اڑتی ہے تو صحرا کا پتہ چلتا ہے

 

پھر کسی اور زمانے میں چلی جاتی ہوں

پھر کسی اور ہی دنیا کا پتہ چلتا ہے

 

کچی مٹی کے اک آنگن میں کہیں کھوئے ہوئے

اپنے بچپن کا نہ گڑیا کا پتہ چلتا ہے

 

اپنے لہجوں سے بھی اجداد کی ملتی ہے خبر

اپنی مٹی سے بھی آباء کا پتہ چلتا ہے

 

مانجھیو! کس کو کناروں کی خبر رہتی ہے

کشتیو! کیا یہاں  دریا کا پتہ چلتا ہے

 

اپنی رسوائی پہ معمور تو خود میں بھی ہوں

ایک اک چشمِ تماشا کا پتہ چلتا ہے

 

چلتے چلتے کہیں اک عمر کی پسپائی کے بعد

دل کی بے سود تمنا کا پتہ چلتا ہے

 

دیر تک تیرتی رہتی ہے نگاہوں میں یہ دھند

پھر کسی نقشِ کفِ پا کا پتہ چلتا ہے

 

خوں پہ چلتی ہوئی خلقت کی خبر ملتی ہے

اپنے بکھرے ہوئے اعضاء کا پتہ چلتا ہے

 

جنگ ہے جس کا ہدف بھی نہیں جاناں معلوم

اس میں اپنوں کا نہ اعداء کا پتہ چلتا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے