فضیل جعفری: صبح تک ہم رات کا زادِ سفر ہو جائیں گے ۔۔۔ غلام ابن سلطان

گھر بھر حواس باختہ، غرقابِ غم نڈھال

آنگن سے جیسے موت کا لشکر گزر گیا

 

فضیل جعفری:  پیدائش: ۲۲۔ جولائی ۱۹۳۶، وفات:  ۳۰۔ اپریل ۲۰۱۸

 

اردو زبان کو جدید آہنگ سے آشنا کرنے والے منفرد اور ممتاز نقاد، قادر الکلام شاعر اور ذہین محقق فضیل جعفری نے ممبئی میں داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔ ادب اور صحافت کے شعبوں میں مہاراشٹر سٹیٹ اردو ایوارڈ حاصل کرنے والے اس جری نقاد کی رحلت سے بزم ادب برسوں سوگوار رہے گی۔ فضیل جعفری کا آبائی وطن قصبہ مہگاؤں ضلع الہ آباد (اتر پردیش، بھارت) تھا۔ فضیل جعفری کا تعلق ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا۔ ان کی والدہ اپنے عہد کی نامور معلمہ اورسماجی کارکن تھیں جنھوں نے اپنے وطن میں تعلیم نسواں کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ فضیل جعفری نے اردو اور عربی زبان کی ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے نور اللہ روڈ الہ آباد پر واقع مشہور تعلیمی ادارے دولت حسین انڈین مسلم ہائی سکول سے امتیازی نمبر حاصل کر کے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد فضیل جعفری نے اینگلو بنگالی کالج الہ آباد سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔  سال 1887 میں روشنی کے سفر کا آغاز کرنے والی الہ آباد یونیورسٹی سے انھوں نے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔  انگریزی زبان و ادب میں ایم۔ اے کے لیے فضیل جعفری نے بھارت کے ممتاز قانون دان ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے نام پر سال 1958 میں قائم ہونے والی پبلک سیکٹر کی جامعہ ’’مرہٹواڑہ یونیورسٹی اورنگ آباد‘‘ میں داخلہ لیا اور امتیازی نمبر حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ کچھ عرصہ مہاراشٹر ایجوکیشنل سروس سے وابستہ رہے، اورنگ آباد میں دس برس تدریسی خدمات انجام دیں۔  اس کے بعد وہ سال 1970 میں برہانی کالج آف کامرس ممبئی میں انگریزی زبان و ادب کی تدریس پر مامور ہوئے۔ اردو صحافت میں ہر قسم کی مصلحت اندیشی کو مسترد کرتے ہوئے حق گوئی و بے باکی کو شعار بنانے والے اس زیرک، فعال، جری، بے باک اور مستعد صحافی کو ممبئی سے شائع ہونے اخبار ’’روزنامہ انقلاب‘‘ کی ادارت کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ ہفت روزہ بلٹنز (اردو) اور انگریزی مجلہ کے مدیر کی حیثیت سے انھوں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ صحافت کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ جبر کے ماحول میں جب طائرانِ خوش نوا بھی پیہم منقار زیرِ پر رہنے کے باعث اپنے آشیانوں میں دم توڑ دیتے ہیں، حریت فکر کے مجاہدوں نے حریت ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی۔ لفظ کی حرمت کو ہمیشہ مقدم سمجھنے والے اس ادیب نے زندگی بھر حریت فکر کا علم بلند رکھا۔ گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں اردو زبان کے گنتی کے جن ممتاز ادیبوں نے کورانہ تقلید کی پامال راہوں سے بچتے ہوئے شدید نوعیت کے ہنگامہ خیز انحرافی روّیوں کے معجز نما اثر سے فکری جمود کا خاتمہ کیا اور افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھا ان میں بشیر سیفی، رحیم بخش شاہین، ارشاد گرامی، محمد فیروز شاہ، وارث علوی، اطہر ناسک، حاجی حافظ محمد حیات، باقر مہدی، انعام الحق کوثر، صابر کلوروی، نثار احمد قریشی، حسرت کاس گنجوی اور فضیل جعفری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔  اپنے عہد کے ان نابغۂ روزگار ادیبوں کا حد درجہ تیکھا لب و لہجہ، تحریر کا کھردراپن، اظہار بیان میں تُندی و تیزی، بے لاگ تجزیاتی اندازاور بے باکانہ پرایۂ اظہار تاریخ ادب کا اہم واقعہ سمجھا جاتا ہے۔

سیاہ شب سے نبرد آزما ہوئے تو سہی

چراغ ایک ہی دو تھے مگر جلے تو سہی

دراز دستیِ اہل وفا کا شکر کرو

ثمر بہ دوش درختوں کے سر جھکے تو سہی

عالمی ادبیات بالخصوص اردو، انگریزی اور ایشیائی زبانوں کے ادب کا انھوں نے وسیع مطالعہ کیا تھا۔  عالمی کلاسیک پر ان کے تجزیاتی مضامین ان کی وسعت نظر کے مظہر تھے۔ فضیل جعفری کا شمار تنقید کی آزاد اور خود مختار اقلیم کے نڈر اور ہفت اختر فرمانرواؤں میں ہوتا ہے۔ اپنی تنقیدی اور تجزیاتی تحریروں میں اپنے منفرد اسلوب کو رو بہ عمل لاتے ہوئے فضیل جعفری نے پتھروں سے بھی اپنی حق گوئی کا لوہا منوایا۔  عالمی کلاسیک اور لسانیات پر گہری نظر رکھنے والے اس جری تخلیق کار نے تخلیق فن کے لمحوں میں زندگی بھر حق گوئی اور بے باکی کو زادِ راہ بنایا۔  یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ قحط الرجال کے موجودہ دور میں گلشن ادب میں لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں کے باعث تمام ادبی منظرنامہ گہنا گیا ہے۔ فضیل جعفری کے تنقیدی تیشۂ حرف کی زد میں آنے والوں میں رفتگاں کے نقال، بے بصر قدامت پرست، فاتر العقل چربہ ساز، بے مغز سارق اور بے حس کفن دُزد شامل ہیں۔ فضیل جعفری کو اس بات کا قلق تھا کہ ادبی تحریکوں میں جذباتیت کے بڑھتے ہوئے رجحان نے زندگی کے تلخ حقائق کو سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔  ترقی پسند ادیبوں نے جس غیر محتاط انداز میں اشتراکیت اور اس کے پیروکاروں کے گُن گائے اس پر فضیل جعفری نے بر ملا اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ روس اور جرمنی کے آمروں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والے اردو تخلیق کاروں کے اسلوب کو احساسِ زیاں سے بیگانہ طرزِ تغافل پر محمول کرتے ہوئے فضیل جعفری نے قارئین میں مثبت شعور و آگہی پیدا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ فضیل جعفری نے جن ترقی پسند ادیبوں کی اشتراکیت پسندی کو ہدف تنقید بنایا ان میں کیفی اعظمی، جانثار اختر، علی سردار جعفری، مجروح سلطان پوری، مخدوم محی الدین اور فیض احمد فیضؔ  شامل ہیں۔  فضیل جعفری کو سال ۲۰۰۵ میں علمی و ادبی خدمات بالخصوص اردو تحقیق، تنقید اور شاعری کے شعبوں میں قابل قدر خدمات انجام دینے کی بنا پر فخر الدین علی احمد غالب ایوارڈ (Rs.25000) سے نوازا گیا۔

شب خون کتاب گھر الہ آباد کے زیر اہتمام سال 1974 میں شائع ہونے والی اپنی تصنیف ’چٹان اور پانی ‘ میں فضیل جعفری نے جن اہم موضوعات پر اشہب قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں ان میں ترقی پسند تحریک اور شاعری، نئی شاعری اور جدے دیت، نئی نظم کی زبان اور نئی غزل کا مزاج گہری معنویت کے حامل ہیں۔ ایک رجائیت پسند ادیب کی حیثیت سے فضیل جعفری نے سرِ صحن خیال دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے پر اصرار کیا اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرتے ہوئے اس جانب متوجہ کیا کہ زندگی ہر مر حلہ پر اسی طرح ساتھ نبھاتی ہے جس طرح ستی ساوتری نے اپنے شوہر کے ساتھ پیمان وفا استوار رکھا اور شوہر کی آنکھیں مُند جانے کے بعد بھی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خوابوں کو حقیقت میں بدل دیا۔ گلزار ہست و بُود میں پیہم بجنے والا زندگی کا ساز، طائران خوش نوا کی آواز، رزق کی تلاش میں طیور کی پرواز، جلوۂ آفتاب و مہتاب، روشن مستقبل کے خواب، زخمِ دِل کی تب و تاب، خلوص، درد مندی، ایثار، خارِ مغیلاں سے اٹے بے سہارا راستوں کا عذاب، بے ہنگم خواہشات کا زہر اور محرومیوں کا پیچ و تاب، عالم شباب میں، ریگ زاروں میں شعلۂ گناہ کی شدت و حدت کی تب و تاب، اجسام کے کھلتے ہوئے گلاب، مہ جبیں حسیناؤں کے گیسوؤں کی نرم و گداز خنک چھاؤں کی تمنائے بے تاب، آہوں کے ابر اور اشکوں کی برسات کے بعد بہار کے سحاب، دِن کے شانے پر بیٹھی ہوئی رات کے اضطراب، وفا کے گوہرِ نایاب اور ہوس کے اسیر ذاتی مفادات کے مدار میں گھومنے والے فرضی معاشقوں کے سراب زندگی کے سب ابو اب کی گرہ کشائی پر قادر ہیں۔ فضیل جعفری نے زندگی بھر انا اور خود داری کا بھرم قائم رکھا اور ہوس جاہ و منصب، مصلحت اندیشی، موقع پرستی اور کذب و افترا کی سنگلاخ چٹانوں میں مدفون خزانوں کی طرف کبھی للچائی نگاہ سے نہ دیکھا۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں حالات کی اس ستم ظریفی کو کیا نام دیا جائے کہ جامۂ ابو جہل میں ملبوس وہ ابلہ جو ساحل پر چھولے اور دہی بڑے بیچا کرتے تھے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی جہالت کا انعام ہتھیا کر بڑے بڑے مناصب پر غاصبانہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔  عقابوں کے نشیمن میں زاغ و زغن کا گھُس جانا وقت کا ایک ایسا سانحہ ہے جو اہلِ درد کو خون کے آنسو رُلاتا ہے۔ اس لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ کو دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ فضیل جعفری نے نرغۂ غنیم قسمت سے محروم انسانیت کے مصائب و آلام کے بارے میں کھُل کر لکھا ہے۔ جبر واستحصال کے پاٹوں میں پسنے والے الم نصیبوں کی آہوں کے بگولے یادوں کے آسیب بن کر حساس تخلیق کار کو خون کے آنسو رُلاتے ہیں۔ کوچہ گرد دشت تنہائی سرِ گرداب پیہم پکارتے چلے جاتے ہیں مگر سدا ان کی آہ و فغاں صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔  فضیل جعفری نے معاشرتی زندگی کے تضادات اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کو شدت سے محسوس کیا اور اپنی شاعری میں اہلِ دِل کے جذبات کی موثر ترجمانی کی ہے۔  کُوڑے کے ہر عفونت زدہ ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے ایسے خارش زدہ سگان راہ جو سدا شہرت کے قدموں میں پڑے دُم ہلاتے رہتے ہیں وہ معاشرے کا ناسور ہیں۔ وعدہ معافوں کے اس دور میں ہر سُو شعبدہ بازی کے دفتر کھلے ہیں۔ طوفان حوادث میں جس انداز میں کاغذ کی ناؤ چلائی جا رہی ہے اور موہوم امیدوں کے بے آب و گیاہ صحراؤں میں کاغذ کے گھوڑے سر پٹ دوڑائے جا رہے ہیں اس سراب کو دیکھ کر اہلِ درد سر پِیٹ لیتے ہیں۔  فضیل جعفری نے حریت ضمیر سے جینے کی تلقین کرتے ہوئے زندگی میں قناعت اور استغنا کو زداِ راہ بنانے پر اصرار کیا۔

فضیل جعفری کی تصانیف:

۱۔  چٹان اور پانی (تنقید) سالِ اشاعت ۱۹۷۴

۲۔ رنگِ شکستہ (شاعری) سالِ اشاعت ۱۹۸۰

۳۔ کمان اور زخم (جدید اردو تنقید) سالِ اشاعت ۱۹۸۶

۴۔ صحرا میں لفظ (تنقید) سالِ اشاعت ۱۹۹۴

۵۔ افسوس حاصل کا (شاعری) سالِ اشاعت ۲۰۰۹

عالمی ادبیات کے مزاج کے نباض کی حیثیت سے فضیل جعفری نے واضح کیا کہ فرانس سے نمو پانے والی ادبی تحریکوں ساختیات، پسِ ساختیات، ترقی پسند ی، علامتیت، جدے دیت، مابعد جدے دیت، ڈاڈا ازم، رئیلزم اورسر رئیلزم نے یورپ کی سماجی، معاشرتی، تہذیبی، ثقافتی اور نفسیاتی اقدار پر دُور رس اثرات مرتب کیے۔ کچھ عرصہ بعد یورپ سے آنے والی ان تحریکوں کی باز گشت ایشیائی ممالک میں بھی سنی گئی۔  فضیل جعفری کے تجزیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک مابعد جدے دیت کی سرمایہ دارانہ تحریک کا تعلق ہے مغرب میں اب اس کا وجود ہر چند کہیں کے ہے نہیں ہے۔  اردو میں ما بعد جدے دیت کو محض تھیوری کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے اور عملی تنقید سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اردو ادب میں تانیثیت کے فروغ کو فضیل جعفری نے ایک نیک شگون سے تعبیر کیا۔ مختلف نوعیت کی نظموں میں پائے جانے والے روایتی نوعیت کے فرق کو فضیل جعفری نے قصۂ پارینہ قرار دیا اور اس امر پر اصرار کیا کہ ہر وہ تخلیقی تحریر جو شعری آہنگ سے متمتع ہو اُسے نظم ہی سمجھنا چاہیے۔ ان کا خیال تھا کہ اردو میں نثری نظم کو قارئین کی طرف سے تا حال خاطر خواہ پذیرائی نہیں مِل سکی۔ ان کی رائے تھی کہ اردو زبان کے ایسے سہل طلب اہلِ قلم جنھیں قدرتِ کاملہ کی طرف سے اعلا درجے کی تخلیقی صلاحیتیں ودیعت نہیں کی گئیں وہ شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے لیے کسی مختصر راستے کی تلاش میں ہمہ وقت سرگرداں رہتے ہیں۔  ان کا خیال تھا کہ آزاد غزل، ہائیکو، دوہا، تروبنی، اور ثلاثی ایسی بیساکھیاں ہیں جن کے استعمال سے اکثر بونے اپنے تئیں باون گزا ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ فضیل جعفری کی شاعری زندگی کے متعدد واقعات، ذاتی مشاہدات و تجربات کے چشم دید گواہ کے بیان کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ زندگی کی حقیقی معنویت کی مظہر یہ شاعری راحت و مسرت، سعیِ پیہم، ولولۂ تازہ اور امن و عافیت کی نقیب ہے۔ صداقتوں کی راہوں پر چلنے والے آبلہ پا مسافروں کے لیے یہ ایک ایسی آتشِ پنہاں ہے جس کے دھندلکے تمام تر تمازت کے با وجود بالآخر نقطۂ انجماد کی خنکی سے آشنا کرتے ہیں۔ اس شاعری کا عمیق مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس شاعری میں تخیل کی جولانی ایسے طائر کی بلند پروازی سے مشابہ ہے جو کسی جکڑ بندی کو خاطر میں نہیں لاتا اور سرحدِ ادراک سے بھی کہیں آگے نکل جاتا ہے اور دنیا یہ منظر دیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہے۔

منتخب اشعار:

آخر چراغِ دردِ محبت بُجھا دیا

سر سے کِسی نے یاد کا پتھر گِرا دیا

 

اِک خوف سا درختوں پہ طاری تھا رات بھر

پتے لرز رہے تھے ہوا کے بغیر بھی

احساسِ جُرم جان کا دُشمن ہے جعفریؔ

ہے جِسم تار تار سزا کے بغیر بھی

آٹھوں پہر لہو میں نہایا کرے کوئی

یوں بھی نہ اپنے درد کو دریا کرے کوئی

چہرے، مکان، راہ کے پتھر بدل گئے

جھپکی جو آنکھ شہر کے منظر بدل گئے

دِلوں کے آئینے دھُندلے پڑے ہیں

بہت کم لوگ خود کو جانتے ہیں

کوئی منزل آخری منزل نہیں ہوتی فضیلؔ

زندگی بھی ہے مثال موجِ دریا رہرو

لفظوں کا سائبان بنا لینے دیجیے

سایوں کو طاقِ دِل میں سجا لینے دیجیے

دشتِ تنہائی میں جینے کا سلیقہ سیکھیے

یہ شکستہ بام و در بھی ہم نوا ہو جائیں گے

کِس درد سے روشن ہے سیاہ خانۂ ہستی

سورج نظر آتا ہے ہمیں رات گئے بھی

اپنی کتاب ’’کمان اور زخم‘‘ میں فضیل جعفری نے جدید دور کے تنقیدی روّیوں اور معائر کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اردو تنقید کی حالت زار پر فضیل جعفری نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعدد حقائق سے پردہ اُٹھایا ہے۔ اردو تنقید کی فکری بے مائے گی کے بارے فضیل جعفری کے خیالات قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اردو تنقید کا المیہ یہ رہا ہے کہ معاشرتی، نفسیاتی اور مکتبی نقادوں نے اسے بڑی بے دردی سے تختۂ مشق بنا رکھا ہے۔ کلیم الدین احمد اور وارث علوی نے تنقید کے نام پر لکھے جانے والے اس صریح جھوٹ اور ذہن کی لُوٹ کے خلاف پُر زور صدائے احتجاج بلند کر کے چربہ ساز، سارق اور کفن دِزد عناصر کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔  مکتبی اور اس نوعیت کی دوسری تنقید میں وہی لوگ وقت، محنت اور جی کا زیاں کرتے ہیں جو تنقید کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔  تنقید کے نام پر بے سروپا مضامین اور مہمل تجزیے لکھ کران جعل ساز نقادوں نے ادب کی لُٹیا ہی ڈبو دی ہے۔ دُور کی کوڑی لانے کے خبط میں مبتلا مکتبی نقادوں کی بے بصری اور کور مغزی نے تنقیدی ادب کو کوڑی کوڑی کا محتاج بنا دیا ہے۔ اردو ادب میں مکتبی نقاد کی شناخت کے سلسلے میں اکثر غیر محتاط انداز اپنا یا جاتا ہے۔ اردو تنقید کے عام قارئین ہر اس نقاد کو مکتبی نقاد کہہ دیتے ہیں جس کی تحریریں، تبصرے اور تجزیاتی مطالعے الم ناک بے خبری، ہولناک سطحیت، خوف ناک بے بصری، خطر ناک کور مغزی، شرم ناک سرقہ، افسوس ناک چربہ اور اندوہناک نقالی کی مظہر ہوں۔ ایسے لوگوں کی تحریریں چونکہ ان مکتبی نقادوں کی ذاتی پسند اور نا پسند کے مدار میں گھُومتی ہیں اس لیے سنگِ ملامت ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ قارئین اپنی رنجش، نا راضی اور بیزاری کے اظہار کے لیے انھیں مکتبی نقاد کہہ کر اپنے لیے تزکیہ نفس کی صورت تلاش کر لیتے ہیں۔ فضیل جعفری نے سندی تحقیق (جس میں ایم۔ اے، ایم۔ فل، پی ایچ۔ ڈی اور ڈی لٹ شامل ہیں) کے مقالات کو مکتبی تنقید کی مثال قرار دیا ہے۔ اس نوعیت کی تنقید کی تہی دامنی کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں نئے علمی و ادبی موضوعات کو کسی صورت میں زیرِ بحث نہیں لایا جاتا بل کہ پہلے سے دستیاب مواد اور معلومات کو نئے سرے سے مرتب کر کے پیش کر دیا جاتا ہے۔ ندرت، تنوع، تحقیقی ریاضت، تنقیدی بصیرت اور علمی ثروت سے عاری اس قسم کی بے وقعت تنقید پامال راہوں پر بگٹٹ دوڑتے رہنے کی لرزہ خیز مثال ہے۔  مکتبی نقادوں کا ایک ٹولہ ایسا بھی ہے جو نصابی ضروریات کے تحت تکنیک کی آڑ میں اصناف شاعری مثلاً نظم، قصیدہ، غزل، رباعی، شہر آشوب،، مثنوی، واسوخت اور ہجو وغیرہ کو تختۂ مشق بناتا ہے۔  خود نمائی کے خبط میں مبتلا مکتبی نقادوں کی تعلّی اور لاف زنی بعض اوقات انھیں تاریخ، فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کی دشت نوردی پر مائل کرتی ہے۔ ان کے دل میں احساس برتری کا خناس سما جاتا ہے اور یہ تمنا انھیں کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتی۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ تہذیب و ثقافت کے ساز پر وہ اپنی دھُن میں مگن رہتے ہوئے اپنی اپنی ڈفلی اور اپنے اپنے راگ سے قارئین کو ایسے سبز باغ دکھائیں کہ وہ کہیں خوابِ غفلت سے جاگ نہ اُٹھیں۔

اپنے تنقیدی مضامین میں فضیل جعفری نے عہدِ جدید کے تہذیبی بحران کے متعلق قارئین میں مثبت شعور و آ گہی پروان چڑھانے کی سعی کی ہے۔ نو آبادیاتی دور میں بر صغیر میں ایک نیا طرزِ احساس نمو پاتا رہا۔ اس عہد کے تخلیق کاروں کے اسلوب میں جلوہ گر احساساتی اور استعاراتی پیکر جس دل کش اندا زمیں قاری کو متوجہ کرتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اردو شاعری کے دبستانوں کے بارے میں فضیل جعفری نے اپنی بے لاگ رائے دیتے ہوئے اس امر کی صراحت کی ہے کہ تاریخ ادب کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ تخلیق فن کے دبستانوں کے قیام میں محض دوسرے درجے کے شاعر ہی دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ نابغۂ روزگار تخلیق کار ہمیشہ دبستانوں سے بے نیاز رہے ہیں۔ میر تقی میرؔ ، مرزا اسداللہ خان غالبؔ اور علامہ محمد اقبال کا کوئی دبستان نہیں۔ معاصر ادیبوں فیض احمد فیضؔ ، اختر الایمان، میراجی (محمد ثنا اللہ ڈار)، معین احسن جذبی، جانثار اختر، قاضی سلیم، باقر مہدی، وزیر آغا اور بانیؔ کے اسلوب پر فضیل جعفری کے تنقیدی مضامین گہرے مطالعہ اور تنقیدی بصیرت کے مظہر ہیں۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ ہر رنگ میں بہار کے اثبات پر توجہ مرکوز رہنی چاہیے۔  فضیل جعفری نے اردو تنقید کو جو آہنگ عطا کیا اس کے اعجاز سے مدلل مداحی کی روش کو ختم کرنے میں مدد ملی۔ فضیل جعفری کی وفات کے بعد بزم ادب پر غم کے بادل چھا گئے ہیں۔

برس گیا بہ خراباتِ آرزو تیرا غم

قدح قدح تیری یادیں سبو سبو تیرا غم

٭٭٭

One thought on “فضیل جعفری: صبح تک ہم رات کا زادِ سفر ہو جائیں گے ۔۔۔ غلام ابن سلطان

  • فضیل جعفری پہ غلام ابن سلطان کا یہ مضمون مجھے کچھ خاص پسند نہیں آیا۔
    مشکل ترین الفاظ کی ایک سیریز ہے ہر دوسرے تیسرے جملہ میں۔گویا الفاظ کا ایک ایک سیٹ۔ یہ چیز ذہن کو بوجھل کرتی ہے۔
    کئی جگہ الفاظ کی تکرار ہے۔
    دوسرے تنقید نگاروں اور شاعر وغیرہ کو بہت رگیدا ہے۔ ایک آدھ بار ذکر آجائے تو خیر ہے لیکن یہاں بہت بار برے لفظوں میں ذکر ہے جو ناگوار لگتا ہے۔

    ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے