میں لڑکی نہیں ہوں کیا؟ ۔۔۔ امیتابھ ورما

 

رسم الخط کی تبدیلی، اور ترجمہ: اعجاز عبید

 

شام ہولے سے اپنا پلو سمیٹ رخصت ہو چکی تھی۔ رات کو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے میں دیر تھی۔ سریکھا اپنے کمرے میں تھی، دوسی منزل پر۔ چھوٹا سا ایک کمرہ۔ تین طرف بکھرا دیواروں دروازوں کا مایا جال۔  ایک طرف ایک جھروکا۔ یہی اس کی من پسند جگہ تھی۔ اس کا بستر اسی جھروکے سے سٹ کر لگا تھا۔ کھڑکی کا پردہ ہوا کے جھونکوں میں اٹھلاتا، پردے میں ٹنکی ننھی ننھی گھنٹیاں  ٹنٹن بجیںو۔ بستر سے سریکھا کو آسمان میں ٹمٹماتے تارے اور ان سے اٹھکیلیاں کرتا چاند دکھائی دیتا۔

پاس ہی رکھے ریڈیو پر ایک گیت بج رہا تھا۔ سریکھا آنکھیں میچ کر گیت سننے لگی۔ اچانک اس میٹھے سر کو کرخت آواز نے ڈس لیا۔ شور میں گیت کا وجود گم ہو گیا۔ شور، جو کئی آوازوں کے ملن سے بنا تھا۔ لوہے کے لوہے سے ٹکرانے کی آواز۔ شیشہ چھنچھنا کر ٹوٹنے اور کرچ کرچ بکھرنے کی آواز۔ سڑک کے پتھر دل سینے پر فولاد کے گھسٹنے کی آواز۔ اور پھر، کوئی آواز نہیں – سناٹا! دل دہلا دینے والا سناٹا! سریکھا گھبرائی۔ اٹھی۔ کھڑکی سے نیچے سڑک کی طرف جھانکا۔

سڑک پر جگنو ہی جگنو بکھرے تھے۔ اسے وشواس نہ ہوا۔ دھیان سے دیکھا۔ وہ کانچ کے ٹکڑے تھے جن پر لیمپ پوسٹ کی روشنی چمک رہی تھی۔ ایک طرف ایک سکوٹر ڈھلکا پڑا تھا۔ دوسری طرف پڑا تھا ایک جسم۔ بس، ایک جسم۔ زندہ یا مردہ، معلوم نہیں۔ سریکھا تھوڑی دیر تاکیا رہی۔ شاید کوئی سڑک سے گزرے۔ شاید وہ جسم ہلے۔ مگر نہیں۔ نہ کوئی سڑک سے گزرا،  نہ سڑک پر پڑے لا وارث جسم میں کوئی حرکت ہوئی۔

سریکھا کو احساس ہوا – یہ ایک سڑک کا حادثہ تھا۔ ایک ایسا حادثہ جس میں زخمی کرنے والا شخص سنسان راستے کا فائدہ اٹھا کر فرار ہو گیا تھا۔ سریکھا لپک کر نیچے اتری۔ بھائی گھر نہیں لوٹا تھا۔ ماں بابوجی کو بتایا۔ اس سے پہلے کہ ماں بابوجی ٹھیک سے سمجھ پاتے، سریکھا سڑک پر تھی۔ بابوجی بھی لپکتے ہوئے آئے۔ وہ زخمی کو پلٹنے کی کوشش کرنے ہی والے تھے کہ سریکھا نے وارننگ دی – ’’نہیں ! نہ اسے ہلائیے، نہ اٹھائیے۔ گردن یا پیٹھ میں چوٹ ہو سکتی ہے، بابوجی! ’’

غنیمت تھی کہ اجنبی نے ہیلمیٹ پہنا ہوا تھا۔ وہ بے ہوش  تھا۔ سریکھا پھر بولی، ’’بابوجی، پلیز! ٹارچ رب العالمین۔۔ ۔ ’’ آدھے راستے آئی ماں پلٹ کر واپس گئیں اور ٹارچ لے آئیں۔ سریکھا نے اجنبی کے منھ میں دو انگلیاں ڈال کر منھ کے اندر  جمع چیزیں نکالیں۔  ایک عدد پورا دانت، دانت کا آدھا ٹکڑا، اور خون کا تھوک۔ اجنبی کے گالوں سے خون بہہ رہا تھا۔

سریکھا پھر بولی، ’’ایک جگ پانی! سیولان! ’’

تھوڑی دیر بعد اجنبی سریکھا کے ڈرائنگ روم میں تھا۔ مشکل سے بول پا رہا تھا، پر ٹھیک تھا۔ کچھ اشاروں سے، کچھ ڈائری کی مدد سے، اور کچھ بول کر اس نے بتایا کہ اس کا نام اکشت ہے، وہ پی ایچ ڈی کا طالب علم ہے، اور ہوسٹل میں رہتا ہے۔ سریکھا کا بھائی، ونیہ، اکشت کو ہوسٹل چھوڑ آیا۔

مڈل کلاس کے امن پسند خاندان کے لئے یہ واقعہ ٹی وی سیریئل سے زیادہ اہم تھا۔ اس رات سونے تک اسی وقوعے کی گفتگو ہوتی رہی۔ اور ہوتا رہا بکھان سریکھا کی سمجھداری کا۔ جیسے وہ ایم اے کی طالبہ نہ ہو کر ایم بی بی ایس کی طالبہ ہو، یا فلورینس نائٹ انگیل ہو! سریکھا بستر پر لیٹی تو ضرور، پر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ پاس تھے خیال، زندگی کے بے سرے پن کے۔ زندگی جیسے مالا ہو منکوں کی۔ منکوں کی کشش پر تو سب ریجھتے ہں ، پر ڈور کی کمزوری کی اور کسی کا دھیان نہیں جاتا۔

اس حادثے کو دو دن بیت گئے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ بچے، تو سڑک پر سکوٹر گھسٹنے کے داغ۔ سریکھا نے ونیہ سے پوچھا، ’’اس لڑکے کو دیکھا تھا جس کا ایکسڈینٹ ہو گیا تھا؟ ’’

’’ہاں ! کیا ہوا اسے ؟ ’’ ونیہ الٹا پوچھ بیٹھا۔

’’ارے، میں یہ پوچھ رہی ہوں کہ پھر جا کر دیکھا تھا اسے ہوسٹل میں ؟ ’’

’’پاگل ہو کیا؟ اس کے دوست ووست ہوں گے، وارڈن شارڈن ہوں گے – دیکھ ہی لیں گے۔ ہم نے پہلے ہی ضرورت سے زیادہ کر دیا ہے اس کے لئے۔ ’’ ونیہ لاپرواہی سے کالر ٹھیک کرتا ہوا بولا۔

بابوجی، ماں، دونوں سن رہے تھے۔ سریکھا کی بات انہیں ٹھیک لگی۔ ونیہ کو جانا پڑا اکشت کو دیکھنے۔ واپس آیا تو بولا، ’’ماں ! اس کا گال تو فٹ بال کی طرح پھول گیا ہے۔ بخار بھی ہے۔ ’’

’’دوا دارو چل رہی ہے یا نہیں ؟ ’’ ماں نے پوچھا۔

’’دوا تو چل رہی ہے، دارو کے بارے میں پتہ نہیں ! ’’ ونیہ شرارت سے بولا۔ پھر سریکھا کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتا ہوا بولا، ’’ہم سب کا شکریہ ادا کر رہا تھا۔ خاص طور پر دیدی کا۔ ’’

سریکھا کو تھوڑا غصہ آیا، پر چپ رہی۔ ماں کو سبزیاں کاٹتی چھوڑ وہ اوپر چلی گئی، اپنے کمرے میں۔ ونیہ باہر نکل گیا دوستوں میں۔ سریکھا کافی دیر بعد نیچے اتری، جب ماں نے کھانا کھانے کے لئے آواز دی۔ چپ چاپ کھانا کھایا، ایک آدھ ضروری بات کی، اور چلی گئی واپس اپنی پناہ گاہ، اپنے کمرے میں۔

گم صم رہنا نہ جانے کب سے سریکھا کی عادت بن چکی  تھی۔ بابوجی، ماں، ونیہ،  سب اس بات سے واقف تھے۔ کب، کون سی بات سریکھا کے جی کو چھو جائے گی، کہنا مشکل تھا۔ ایک بار اداس ہو جائے تو پورا دن، اور کبھی کبھی تو کئی دن لگ جاتے تھے اسے نارمل ہونے میں۔ اس کے مزاج کی گتھیاں سلجھانے میں سب پست ہو جاتے، ہار جاتے۔ سچ پوچھئے، تو اب سب نے یہ کوشش ہی چھوڑ دی تھی۔ تنہائی ہی ہمدرد تھی، ہم راز تھی سریکھا کی۔ باقی ساتھی جیسے کوئی تھا ہی نہیں۔

ایک صبح سریکھا نہا کر کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔ نیچے نظر گئی، تو دیکھا، کوئی اوپر کی طرف ہی تاک رہا ہے۔ ایک پھولا، کالا گال، ایک گورا پچکا گال لئے اکشت اسے دیکھ رہا تھا۔

سریکھا کو دیکھ کر اکشت نے ہاتھ ہلایا۔ شاید کچھ زیادہ ہی زور سے، کیونکہ منھ بگاڑ کر دائیں ہاتھ کو بائیں سے فوراً تھام لیا اکشت نے۔ اس نے کچھ ایسا منھ بنایا، کہ سریکھا کو ہنسی آ گئی۔ سیڑھیاں اترتے وقت بھی اس کے ہونٹوں پر ہنسی کھل رہی تھی۔ اکشت ڈرائنگ روم میں آ چکا تھا۔ بابوجی اور ونیہ بھی وہیں تھے۔

سریکھا نے چھوٹتے ہی پوچھا، ’’کہئے ! کیسے ہیں ؟ ’’

’’بس، آپ کی مہربانی سے بچ گیا اس دن، ورنہ ۔۔۔۔ ۔ ’’ اکشت احسان مندی کے جذبے کے ساتھ بولا۔

’’ایسی کوئی خاص چوٹ تو نہیں لگی تھی آپ کو۔ بس، منھ پر ایک کھڑکی کھل گئی۔ ’’ سریکھا نے شرارت سے کہا۔

’’ایک دروازہ بھی! ’’ اکشت کے نہلے پر دہلا جڑتے ہی سب ہنس پڑے۔

تھوڑی دیر بعد اکشت چلا گیا۔

سریکھا نے چہکتے ہوئے کہا، ’’ماں، دیکھا؟ اکشت کتنا ٹھیک ہو گیا ہے ! ’’

ماں خوش تھیں۔ بابوجی بھی۔ پر، سریکھا کو ونیہ کی آنکھ میں ایک عجیب سا احساس دکھائی دیا۔ ایک ایسا جذبہ جو پہلے کبھی نہیں نظر آیا تھا۔

شام کو اکشت کا فون آیا۔ اگلی شام کو بھی۔ فون رکھنے کے بعد ماں کی نگاہیں سوالیہ سی لگیں سریکھا کو۔ بنا کسی احساس کے تھے تو صرف بابوجی۔ وہ تھوڑا سٹپٹائی۔ تھوڑا غصہ بھی آیا۔ نہ جانے کس پر۔ ہر کوئی اپنی جگہ ٹھیک تھا۔ ہر عمل اور رد عمل مدلل تھا۔ پر اسے نہ جانے کیوں کٹ گھرے میں کھڑا کر جاتا تھا۔ حال یہ ہو گیا، کہ اکشت کا نام آتے ہی سریکھا کے چہرے کا رنگ بدل جاتا۔

ایک دن سریکھا نے بڑی دیر تک بات کی فون پر۔ ماں نے سننے کی، ہاؤ بھاؤ بھانپنے کی کوشش کی۔ سریکھا کبھی خوش ہوتی، کھلکھلاتی، اور کبھی سنجیدہ ہو جاتی۔ کبھی دیر تک چپ رہتی، مانو ڈیڈ رسیور تھامے ہو۔ ماں کی سمجھ میں کچھ نہ آیا، تو وہ واپس جٹ گئیں اپنے معمول میں۔  تھوڑی دیر بعد سریکھا اتر کر آئی، باہر جانے کو تیار۔ ماں چونکیں، ’’کہاں جا رہی ہو سری؟ ’’

’’اکشت کے پاس۔ ’’ سریکھا نے چھوٹا سا جواب دیا۔

’’اکشت کے پاس؟ کوئی خاص بات ہے کیا؟ ’’

’’ہاں ! ’’

جواب اتنا مختصر تھا کہ کہ ماں ساہے  گئیں۔ کچھ اندیشہ سا ہوا انہیں۔ لیکن بول صرف اتنا بھر سکیں، ’’جلدی آ جانا، بیٹا۔ ’’

سریکھا نے، پتہ نہیں، سنا بھی یا نہیں۔ ماں کو سینے میں درد سا محسوس ہوا۔ سریکھا کو گئے پانچ منٹ بھی نہ ہوئے تھے کہ وہ گھڑی دیکھنے لگیں۔ بار بار۔ حساب جوڑتیں، سریکھا کو گئے کتنی دیر ہوئی ۔ تھوڑی دیر بعد ونیہ بھی آ گیا۔ ویسے تو اسے گھر کے کام کاج سے کوئی سروکار نہ تھا، پر آج ماں سے پوچھ بیٹھا، ’’ماں ! سب ٹھیک تو ہے ؟ ’’

ماں بیچاری کیا کہتیں ! دل ہی دل میں سوچنے لگیں، ’’لڑکی اتنی بڑی ہو گئی۔ ان کی سمجھ میں تو کچھ آتا نہیں۔ اتنا کہا کہ اچھا لڑکا دیکھ کر شادی طے کر دی جائے، پر کہاں ؟ اب نہ جانے کہاں گئی ہے ! کچھ کر نہ بیٹھے۔ اگر کر لے گی، تو کیا منھ دکھاؤں گی سب کو؟ پھول جیسی بچی، اتنے پیار میں پلی، اور اب ۔۔۔۔ ۔ ’’ ماں روہانسی ہو گئیں۔

کھانے کا وقت گزر گیا تھا۔ ونیہ کھانا کھا چکا تھا، بابوجی کھانا کھا رہے تھے۔ ماں کبھی پتیلوں کو دیکھتیں، کبھی گھڑی کو۔ باپ بیٹے دونوں کو ہی بتایا تھا کہ سریکھا کتاب خریدنے گئی ہے، شاید دیر سے لوٹے۔ پر کب تک یہ راز چھپاتیں کہ سریکھا اکشت کے پاس گئی ہے باہر جانے کے کپڑے پہن کر، شاید کبھی نہ لوٹنے کے لئے !

قدموں کی آہٹ سے ماں کی مصروفیت ٹوٹی۔ ہڑبڑا کر اٹھیں۔ بابوجی کے ہاتھ میں نوالہ دھرا رہ گیا۔ دروازے سے اندر آنے والا پہلا قدم اکشت کا تھا۔ اس کے پیچھے تھی سریکھا۔

اکشت کے نمسکار کا ٹھیک سے جواب نہیں دے پائے ماں بابوجی۔ سریکھا  شرماتے ہوئے بولی، ’’اکشت آشیرواد مانگنے آئے ہیں۔ ’’

’’کس بات کا؟ ’’ ماں نے نارمل ہونے کی ناکام کوشش کے ساتھ پوچھا۔

’’شادی کا! ’’

’’شادی؟ ’’ بابوجی، ماں چونک گئے۔ ونیہ بھی بغل کے کمرے سے آ گیا، پاجامے بنیان میں۔

’’ہاں، شادی! ’’

’’پر، تم ۔۔۔ ۔ ’’ ماں بابوجی کے اوپر جیسے کوئی بم پھٹ پڑا تھا۔

’’ماں ! اکشت کا یہاں کوئی ہے نہیں۔ اس حادثے کے بعد سے ہمیں ہی اپنا سمجھنے لگے۔ تو بس، شادی کا آشیرواد لینے ہمارے ہی گھر آ گئے۔ ’’

ماں بابوجی سکتے میں تھے۔ خاموش رہے۔ اکشت بھی مضطرب سا تھا۔ سریکھا نے ہی بات آگے بڑھائی، ’’ماں، بہو کو تو بلائیے! کب تک باہر کھڑی رہے گی بیچاری؟ ’’

’’ہاں، ہاں ۔۔۔  ’’ ماں تپاک سے باہر نکلیں، جہاں شرم سے دوہری ایک لڑکی کھڑی تھی۔

ماحول ایسے بدل گیا، جیسے آخری گیند پر چھکا مار کر ہارا میچ جیت لیا گیا ہو! کافی دیر تک ٹھہاکے، کھلکھلاہٹ گونجتی رہی۔ پھر لڑکی بولی، ’’سریکھا جی، آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں ! آپ نے رات کے وقت ایک ایسے شخص کی مدد کی جو آپ کے لئے اجنبی تھا۔ اگر وقت پر مدد نہ ملتی، تو شاید یہ وقوعہ ایک حادثے میں بدل جاتا۔ بعد میں بھی آپ نے اکشت کا خیال رکھا، صرف انسانیت کے ناطے۔ جذباتی ہونے کی وجہ سے۔ آپ کے اور اکشت کے  ساتھ کا کچھ دوسرا مطلب بھی نکل سکتا تھا۔ شاید آپ کچھ الجھنوں سے بھی گزری ہوں، پر۔۔۔۔۔ ۔ ’’

’’یہ سب آپ کو کیسے معلوم؟ ’’ سریکھا نے معصومیت سے پوچھا۔

’’میں لڑکی نہیں ہوں کیا؟ ’’ وہ مسکرائی۔ بابوجی اور اکشت بھی۔ ماں کی آنکھوں میں بادل گھمڑ رہے تھے۔ سریکھا ونیہ کی آنکھوں میں نہ دیکھ پائی۔

اس کی آنکھیں نیچی جو تھیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے