مظفر حنفی ایک باکمال شاعر ہیں۔۔۔ سلطانہ مہر

مغرب کے ایک ادیب کا قول ہے کہ کوئی بھی قوم معاشی اعتبار سے جتنی کمزور اور زوال آمادہ ہوتی ہے۔ اس کا ادب تخیلی اور جذباتی اعتبار سے اتنا ہی جاندار اور تیز رو ہوتا ہے۔اردو زبان کی تاریخ کا دلچسپ واقعہ بھی یہی ہے کہ وہ ادب کے میدان میں شاعری کا لبادہ پہن کر آئی اور ہماری شاعری میں جذبات و خیالات کچھ زیادہ ہی در آئے۔ (نثار احمد فاروقی)
اس اظہار میں سچائی ہے۔ میں نے اب سے تقریباً بارہ چودہ برس پہلے اپنی کتاب گفتنی یا سخنور کے لئے جب مظفر حنفی صاحب کے صاحب زادہ پرویز مظفر صاحب کو ایک سوالنامہ بھیجا تو پرویز نے مجھے ان کا ایک تفصیلی انٹرویو بھیجا کیونکہ لاس اینجلس امریکہ میں جہاں میں اپنے بیٹے ریحان سعید کے ساتھ مقیم تھی وہاں دور پرے ایک لائبریری تھی جہاں اردو کی کتابیں برائے نام تھیں۔ڈاؤن ٹاؤن کی لائبریری میں میرے لئے جانا ممکن نہ تھا۔ میں دہلی تو دو تین بار گئی تھی لیکن مظفر حنفی صاحب سے ملاقات نہ کر سکی کیونکہ دہلی میں میرا قیام مختصر تھا۔پھر بھی میری دوست محترمہ انور نزہت ( افسانہ نگار) نے مجھے کئی ادیبوں اور شعراء سے ملوایا مگر جانے کیوں مظفر حنفی صاحب سے میں نہ مل سکی۔ اب اس بات کو بھی پندرہ برس سے اوپر ہو گئے۔ اس لئے مکمل طور پر یاد نہیں مگر اللہ کا کرم تھا کہ میں نے ان کے صاحب زادے پرویز مظفر کے خلوص کی وجہ سے ان کا تعارف حاصل کر لیا اور ان کے لئے جو سوالات بھیجے تھے ان جوابات پر مشتمل تذکرہ لکھ دیا ورنہ ضروری تھا کہ شاعر کی زندگی کے خارجی واقعات کے ساتھ اس کی تحریروں تخلیقات اور کلام کی مدد سے کسی بھی ادیب یا شاعر کی شخصیت اور تخلیقی ذہن کی تشکیل کرنے والے عوامل کی مدد سے ان کی تخلیقات کا عمومی جائزہ اور تجزیاتی مطالعہ مددگار ثابت ہوتا۔ پھر بھی پرویز مظفر کے تعاون کی وجہ سے میری معلومات میں کافی اضافہ ہوا۔ پرویز نے مجھے مظفر حنفی صاحب کی دو کتابیں بھجوائیں۔ شعری مجموعہ’’ یا اخی‘‘ مطبوعہ ۱۹۹۴؁ء اور سفر نامہ ’’ چل چنبیلی باغ میں ‘‘ مطبوعہ ۱۹۹۸؁ء۔ اپنے ابو کے ادبی کام سے پرویز کی یہ محبت میرے دل کی شریانوں میں اتر گئی۔

________________________________________________
’’پرویز سے مل کر لگتا ہے کہ حنفی صاحب سے مل رہے ہیں۔‘‘
________________________________________________

کچھ عرصہ قبل پرویز نے مجھے مظفر حنفی صاحب کی دو شعری کلیات ’’ کمان‘‘ جلد اول اور شعری کلیات جلد دوم ’’تیزاب میں تیرتے پھول‘‘ عنایت کی۔ ان دونوں کتب کی ترتیب و تدوین پرویز کے بھائی فیروز مظفر نے کی ہے جو دہلی میں مقیم ہیں۔ ان دونوں کتابوں میں جناب آل احمد سرور، گوپی چند نارنگ،پروفیسر جناب فرمان فتح پوری، پروفیسر جناب شمیم حنفی اور جناب شمس الرحمان فاروقی نے کتاب کے حوالے سے جو مضامین لکھے ہیں یہ مقالات ان دونوں کتابوں میں شامل ہیں۔ ان کتابوں کو پڑھ کر ان کے سرورق اور طباعت کو دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ مظفر حنفی صاحب اپنی ’’ سوانح حیات‘‘ ضرور لکھیں کہ ان کی شاعری ایسے پھول بھی عطا کرے گی جو قارئین کی نئی راہوں کو نہ صرف معطر کریں گے بلکہ انہیں نئے شعور اور ولولوں کی دولت سے بھی نوازیں گے۔
ٍ میں نے کہیں پڑھا تھا ’’آدمی آدمی انتر۔ کوئی ہیرا کوئی کنکر‘‘ اس مثل کی روشنی میں مظفر حنفی صاحب اپنی ادبی خدمات کی وجہ سے اردو ادب کا ہیرا ہیں۔ انہوں نے نثر بھی لکھی لیکن ۱۹۶۰؁ء کے بعد انہوں نے نثر سے توجہ ہٹا لی اور شاعری سے لو لگا لی۔ ابتدا میں شاد عارفی سے رہنمائی حاصل کی۔ ان کے دو اولین مجموعے’’ تیکھی غزلیں ‘‘ اور ’’ صریر نامہ‘‘ کے ساتھ طویل نظم ’’ عکس ریز‘‘ پر شاد عارفی صاحب کا رنگ نظر آئے گا۔یہ ۱۹۶۸؁ء سے ۱۹۷۳؁ء کا زمانہ ہے۔اس کے بعد ان کے اپنے ذاتی اسلوب میں ان کی منظومات کا مجموعہ ’’پانی کی زبان‘‘ ہے جس میں اکہتر غزلیں اور بہتر نظمیں شامل ہیں اسے ۱۹۶۷؁ء میں جریدہ ’’ شب خون‘‘ الہ آباد نے اپنے اشاعت گھر سے شائع کیا۔ جدید شاعری کے یہ اولین صحیفے تھے جو ہندوستان سے شائع ہوئے تھے۔ قاضی سلیم کی نظموں کا مجموعہ ’’ نجات سے پہلے‘‘ بھی جدید شاعری میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

________________________________________________
’’مظفر حنفی کی کتابیں اردو ادب کا خزانہ ہیں ‘‘
________________________________________________

۱۹۶۸؁ء میں ہی لکھنؤ سے شائع ہونے والے اہم جریدے ’’ کتاب‘‘ نے اپنے اشاعتی ادارے سے ا ن کی طویل نظم ’’ عکس ریز‘‘ شائع کی۔ مظفر حنفی لکھتے ہیں کہ یہ وہی زمانہ تھا جب اس وقت کے ابھرتے ہوئے نقاد جناب شمس الرحمان فاروقی نے انہیں لکھا تھا کہ مظفر حنفی صاحب پاک و ہند میں اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ شائع ہونے والے شاعر ہیں۔ چنانچہ ۱۹۶۹؁ء میں فاروقی صاحب نے اپنے ادارے ’’ شب خون کتاب گھر‘‘ الہ آباد سے حنفی صاحب کا مجموعہ کلام ’’ طلسم حرف‘‘ بغرض اشاعت طلب کر لیا مگر کچھ مصروفیات کی وجہ سے یہ مجموعہ ۱۹۸۰؁ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں ۱۹۸ غزلیں پنتیس نظمیں اور تنیتیس رباعیات شامل ہیں۔ اس کے بعد مظفر حنفی کے شائع ہونے والے کلام کے مجموعے یہ ہیں۔
۱۔ دیپک راگ ۱۹۷۴۔۔۹۵غزلیں اور ۲۲ رباعیاں
۲۔یم بہ یم ۱۹۷۹ بہتر غزلیں۔ ناشر انجمن ترقی اردو نئی دہلی
۳۔کھل جا سم سم ۱۹۸۱ ۹۲ غزلیں۔مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی
۴۔ پردہ سخن ۱۹۸۶ ایک سو غزلیں مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی
۵۔یا اخی ۱۹۹۶ ایک سو پچاسی غزلیں موڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی
۶۔ہاتھ اوپر کئے سن درج نہیں دوسو بیس غزلوں کا مجموعہ موڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی
۷۔آگ مصروف ہے ۲۰۰۴ غزلوں نظموں اور رباعیوں کا مجموعہ ۔ اس میں ۵۹ نئی غزلیں شامل ہیں
۸۔کھیل کھیل میں ۲۰۰۵ بچوں کے لئے نظمیں ۱۹۴۹ سے مسلسل لکھتے رہے۔ یہ مجموعہ ۸۹ نظموں پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ بے شمار نظمیں غزلیں غیر مطبوعہ ہیں۔ان کتب کے بعد دو کتابیں ’’ کمان‘‘ اور تیزاب میں تیرتے پھول‘‘ مجھے حنفی صاحب کے صاحب زادے پرویز مظفر صاحب نے دیں۔ پرویز برمنگھم برطانیہ میں رہتے ہیں اور میرے عزیز بہت عزیز بچے ہیں۔ ان کی بیگم نسرین پرویز اور بیٹی مدیحہ دو ایسے خلوص و محبت کے زندہ جاوید مجسمے ہیں کہ ان سے ملو تو زندگی کی کچھ تلخیاں مٹھاس میں بدل جاتی اور میں امریکہ میں بسنے والے اپنے بچوں کی دوری کا دکھ بھول جاتی ہوں۔
میں نے اس مضمون میں ایک گزارش بھی کی ہے کہ مظفر حنفی صاحب اپنی’’ سوانح حیات‘‘ بھی لکھیں ،کیونکہ ان کی شعر ی کلیات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہت پُر اثر لکھنے کے بھی ماہر ہیں۔ یہی نہیں وہ کولکتہ یونیورسٹی میں علامہ اقبال چیئر کے پروفیسر بھی رہے ہیں۔کیا خوب ان کے لیکچرز ہوں گے اور ان انداز تخاطب۔سبحان اللہ۔
گو میں نے انہیں نہیں سنالیکن میں نے محترم پروفیسر مجتبیٰ حسین،ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کو متعدد بار سنا ہے۔ پھر مظفر حنفی صاحب کا کلام خود بول رہا ہے۔ میں چند اشعار یہاں درج کرنا چاہوں گی تاکہ آپ بھی ان کے کلام کا حظ اٹھا سکیں۔ ملاحظہ ہو:
؎ جب اٹھایا کاتب تقدیر نے دل کا خمیر
ڈال دی کعبے کی مٹی میں صنم خانے کی خاک
؎ ہر شخص کی فطرت ہوتی ہے ہر موقع پر ہر منزل میں
جس راہ پہ کانٹے بکھرے تھے وہ مجھے محبوب رہی
؎ جدھر ساغر اٹھا دیں خود بخود لبریز ہو جائے
مظفرؔ تو ہماری تنگ دستی دیکھتا کیا ہے
؎ پہلے ان ہاتھوں کو روکو جو زنداں تعمیر کریں گے
ویسے ان دیواروں میں کیا دم ہے جب جی چاہے ڈھا دو
؎ مر ے انکسارِ مزاج کو نہ حقیر جانئیے بھول کر
ذرا دیکھئے تو اچھال کر اگر ایک مشت غبار ہوں
پروفیسر مظفر حنفی کی شعری کلیات ’’ تیزاب میں تیرتے پھول‘‘سے یہ چند اشعار حاصل مطالعہ ہیں :
؎ سفر کیا تھا سہاروں سے حوصلہ پا کر
پھر ایک مرحلہ آیا سہارے توڑنے کا
؎ ان تناور درختوں سے قطع نظر جن کو آندھی نے الٹا دیا خاک پر
میری مٹی کو دیکھو جو پامال تھی حوصلے کی بدولت کہاں اڑ گئی
؎ ذرہ ہوں اوقات میں رہ کر اتنا تو کہہ سکتا ہوں
تم چڑھتا سورج ہو چڑھتے سورج ہی تو ڈھلتے ہیں
چھوٹی بحر میں یہ اشعار کتنے دل پذیر ہیں۔
؎ یہ شہرت کی مسند یہ عظمت کا تاج
مظفرؔ یہ علت نہیں پالتے
؎ آسمانوں نے زمیں چومی ہے
سینکڑوں بار ہمارے آگے
؎ ڈوبنے کا اشارہ کنارے سے ہو
تجھ کو موجِ بلا ہم نہیں جانتے
؎ بکھری ہوئی تھی گردِ تمنا چہار سو
ڈالی جو سر سری سی نظر کائنات پر
میرے شریک حیات جاوید اختر چودھری صاحب بھی جناب مظفر حنفی کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ ’’کمان‘‘ حنفی صاحب کی شعری کلیات کی پہلی جلد ہے۔ اور’’ تیزاب میں تیرتے پھول‘‘ دوسری جلد ہے جسے حنفی صاحب کے صاحبزادے فیروز حنفی نے مرتب کیا ہے۔ اس کتاب کے سر ورق کے اندر محترم آل احمد سرور اور پشت کے اندر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی آرأ شامل ہیں۔ کتاب سفید کاغذ پر مصوری کے اوراق کے انداز میں طبع کی گئی ہے۔اور میری رائے میں یہ کتابیں جسے پڑھنا نصیب ہو جائیں وہ اردو زبان و ادب کا بلاشبہ ایک معتبر اور با ذوق قاری ہو گا۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے