غزلیں ۔۔ صابرہ امین

ہم کو تکیہ تھا استخارے پر

یعنی زندہ تھے اک اشارے پر

 

زندگی لے چلی جہاں ہم کو

ہم بہے آس ہی کے دھارے پر

 

ہم بجھے، دل بجھا، امید بجھی

بخت کے ڈوبتے ستارے پر

 

دل دیا اس کو درد کے بدلے

ہم کو ہے ناز اس خسارے پر

 

وہ طلب گار ہیں ہمارے اب

آنکھ حیراں ہے اس نظارے پر

 

ہیں کہاں اب جو دوست کہتے تھے

جان دے دیں گے اک اشارے پر

 

اذن پرواز دے کے ظالم نے

کاٹ ڈالے ہیں سب ہمارے پر

 

اپنی منزل تھی سامنے لیکن

ہم بھی ڈوبے تو بس کنارے پر

 

اس نے ہنس کر کلی مسل ڈالی

جان دی ہم نے استعارے پر

٭٭

 

 

 

 

عشق میں اب وہ حال ہے میرا

زندہ رہنا وبال ہے میرا

 

جو بھی ہے آپ کی عنایت ہے

یہ دگرگوں جو حال ہے میرا

 

میری رسوائیاں ہیں ساتھ مرے

یہی جی کا وبال ہے میرا

 

ڈوب جانا مرا زوال سہی

پھر ابھرنا کمال ہے میرا

 

مجھ سے سب پوچھتے ہیں ’’کیا غم ہے؟‘‘

یہی خود سے سوال ہے میرا

 

چشمِ حیراں مری ہوئی پرنم

آئنہ جو نڈھال ہے میرا

 

گر کے پاتال میں جو زندہ ہوں

منتہائے کمال ہے میرا

٭٭

 

 

 

 

ہے جزا یا کوئی سزا ہے عشق

کچھ سمجھ میں نہ آیا، کیا ہے عشق

 

چارہ جوئی کہاں سے ہو ممکن

دردِ پیہم ہے، لا دوا ہے عشق

 

سب اسیرِ وفا یہ جانتے ہیں

عمر بھر قید کی سزا ہے عشق

 

ذرہ ذرہ ہے عشق کا داعی

ہے خدا یا خدا نما ہے عشق

 

کب صلہ مانگتا ہے عشقِ جنوں

بے وفاؤں سے بھی وفا ہے عشق

 

دنیا ہاری ہے عشق کے آگے

یہ حقیقت ہے لا فنا ہے عشق

 

بہتا آنسو ہے یا سسکتی آہ

ایک روٹھی ہوئی ادا ہے عشق

 

جان دیتے ہیں عشق میں عاشق

جَبْر سے بھی کبھی جھکا ہے عشق

 

دل اجڑتا ہے بس محبت میں

ایسا لگتا ہے بد دعا ہے عشق

 

وقتِ رخصت کہا یہ عاشق نے

ہے اگر کچھ تو ابتلا ہے عشق

 

عشق نے سب مزے چکھائے ہمیں

کون کہتا ہے بے مزا ہے عشق

 

ایک تم ہی نہیں ہو دنیا میں

کیوں تمہیں رب سے مانگتا ہے عشق

 

ہم ہیں برباد عشق میں ان کے

ہم سے ہی پوچھتے کیا ہے عشق

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے