غزلیں ۔۔۔ ناہید وِرک

کیسی خوشبو کی تمنا سے بھرا چاہتا ہے

دل جو موجود و میسّر کے سِوا چاہتا ہے

 

ایک ترتیب سے دن رات رکھے تھے جس میں

وہ سفر بن ترے آغاز ہُوا چاہتا ہے

 

دل کی تقصیر اگر ہے تو فقط اتنی ہے

کہ بہ یک وقت سکوت اور صدا چاہتا ہے

 

وقت رُکتا بھی نہیں اور گزرتا بھی نہیں

کیسا نقصان پہ نقصان ہُوا چاہتا ہے

 

صبر کر، حوصلہ رکھ، ہاتھ نہ دستک سے کھینچ

ساتواں در ابھی رحمت کا کھُلا چاہتا ہے

 

کیسی آواز ہے جو حافِظے میں گونجتی ہے

کیسا احساس ہے جو مجھ میں بسا چاہتا ہے

 

دست بردار بھی ہو جاتے ہیں خواہش سے تیری

جانِ ناہیدؔ، بتا اور تُو کیا چاہتا ہے

٭٭

 

 

 

 

یہ کیسا اشارہ دکھایا گیا تھا

ہمیں خواب میں کیوں مِلایا گیا تھا

 

اگر مشورہ کرتے تو رائے دیتے

ہمیں فیصلہ ہی سُنایا گیا تھا

 

کہاں چھوٹنے والا تھا ساتھ اپنا

عجب ہاتھ کر کے چُھڑایا گیا تھا

 

کہیں تو سبھی خواب نوچے گئے تھے

طلب کو کہیں تو سُلایا گیا تھا

 

کوئی اور کیسے تجھے راس آئے

ہمارے لیے تُو بنایا گیا تھا

 

ترے بعد کا گِریہ کم کیسے ہو گا

ہمیں تُو مسیحا بتایا گیا تھا

 

ترے نام کے درد پر صبر کیسا

اسی پر تو سب رنج اُٹھایا گیا تھا

 

جو اک نظم تیرے لیے میں نے لکّھی

اُسے آئینے میں سُنایا گیا تھا

 

اور اب آئینہ ساتھ روتا ہے میرے

کبھی اس کو آنسو دکھایا گیا تھا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے