غزلیں ۔۔۔ عاطف ملک

 

 

جس دل میں صبر، ضبط، اطاعت، وفا نہیں

وہ گھر ہے جو مکین کے لائق بنا نہیں

 

ایسا مرض نہیں کوئی جس کی شفا نہیں

درماں ہی وجہِ درد اگر ہو دوا نہیں

 

کہنے کو آدمی سے بڑے آدمی بہت

سوچو تو آدمی سے کوئی بھی بڑا نہیں

 

کس نے کہا کہ عشق ہے ہر درد کی دوا

آبِ بقا یہ ہو تو ہو آبِ شفا نہیں

 

مانا کہ مجھ میں بھی نہیں باقی رہا وہ شوق

اے ہم نشین تو بھی تو اب دلربا نہیں

 

پہلو تہی، درشتی، رقیبوں سے التفات

ہے کیا ستم جو آپ نے ہم پر کیا نہیں

 

دونوں جہاں میں ساتھ نبھانے کی بات تھی

اور اس پہ بھی جواب ملا برملا نہیں

 

بلبل ہو، گل ہو، شمع ہو، جگنو ہو، یا ہو چاند

ایسا نہیں ہے کوئی جو تجھ پر فدا نہیں

 

وہ دل ہے کیسا دل کہ نہیں جس میں سوزِ عشق

وہ آنکھ کیا ہے دید کا در جس پہ وا نہیں

 

گرچہ بہت طویل ہے شب انتظار کی

پر ناامیدی شیوۂ اہل وفا نہیں

 

پوچھا ہے اس نے چاند کو تکتے ہو کس لےا

کیا اس میں خاص بات ہے اور مجھ میں کیا نہیں

 

عاطفؔ تو اس کی بات سے افسردہ دل نہ ہو

وہ تند خُو ضرور ہے دل کا برا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

طبیعت میں عجب اک سرخوشی ہے

توقع ہر کسی سے اٹھ گئی ہے

 

کہاں امید اب دل میں رہی ہے!

جو اک دیوار تھی، وہ گر چکی ہے

 

مری مرضی بھلا کس دم چلی ہے

سو جو تیری خوشی، میری خوشی ہے

 

بہار آئی تھی، آ کر جا چکی ہے

کوئی ٹہنی کہیں اب بھی ہری ہے

 

خزاں ہے، آندھیاں خنجر بہ کف ہیں

مقابل ایک ننھی سی کلی ہے

 

تمہاری یاد کا جگنو ملا ہے

مرے ظلمت کدے میں روشنی ہے

 

پلٹنا اب مرا ممکن نہ ہوگا

مجھے شاید محبت ہو گئی ہے

 

وہی میں اور میری عرضِ مطلب

وہی وہ اور ان کی بے ر‌‍ُ خی ہے

 

تری مرضی تھی گر ترکِ تعلق

تو پھر آنکھوں میں یہ کیسی نمی ہے

 

سحر کے حسن کے گن گانے والے

کسی سے پوچھ تو، کیسے ہوئی ہے

 

ذرا دیکھ ان اسیرانِ ہوس کو

کہ جن کی کُل کمائی خاک ہی ہے

 

نہ جس سے نفع ہو خلقِ خدا کو

بھلا وہ زندگی بھی زندگی ہے

 

خدائے عشق، عاطفؔ پر کرم کر

یہ کہتا تھا محبت بت گری ہے

٭٭٭

 

One thought on “غزلیں ۔۔۔ عاطف ملک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے