غزلیں ۔۔۔ سعید خان

 

خواب لکھنا کبھی خواہشوں کے نگیں چھان کر دیکھنا

آگیا عشق میں ہم کو تپتی زمیں چھان کر دیکھنا

 

اب کے سوچا ہے دل کی ہتھیلی کہیں اور کھولیں گے ہم

تیرے کوچے میں خاکِ مقدّر نہیں چھان کر دیکھنا

 

ماورائے سفر کا لکیروں کے جنگل سے کیا واسطہ

عشق والوں نے کیا راہِ دنیا و دیں چھان کر دیکھنا

 

الغرض ہر نفس تارِ بازار سے منسلک ہے یہاں

کارخانے ہیں سب، کیا مکان و مکیں چھان کر دیکھنا

 

مدّتوں سے شکستہ سہی کیمیا اور وفا سے مُکرتی نہیں

معجزے دیکھنے ہوں تو میری زمیں چھان کر دیکھنا

 

چل مرے قیس تُو شہرِ خوش رنگ میں خود کو رسوا نہ کر

کچھ ضروری نہیں ہر سرابِ حسیں چھان کر دیکھنا

 

راکھ ہو کر سعیدؔ آخرش میرا سینہ منوّر ہوا

رنگ لایا مرا ریگ زارِ یقیں چھان کر دیکھنا

٭٭٭

 

 

 

کوئی پیغام بسم اللہ، کوئی تحریر بسم اللہ

ادھر سینہ کشادہ ہے چلاؤ تیر بسم اللہ

 

فصیلِ درد سے آگے نئی تہذیب لازم ہے

ہمیں بھی توڑ کر پھر سے کرو تعمیر بسم اللہ

 

کسی نے تو خدائے وقت کا دشمن ٹھہرنا تھا

ہمارے سر کو آئی ہے اگر شمشیر بسم اللہ

 

کلامِ عشق سے ہو تو کوئی تحریک دل میں ہو

سخن اندازیِ مرزا و سوزِ میر بسم اللہ

 

محبت کے جواں سارس ہمالے کو نکلتے ہیں

مسافت چاہتی ہے پھر کوئی تدبیر بسم اللہ

 

کوئی دم ہجر کا اب تیری قربت سے نہیں خالی

کہ ہر روزن میں رہتی ہے تری تصویر بسم اللہ

 

اگر سرکار کو اپنے پرستاروں سے فرصت ہو

ہمیں بھی کھینچنی ہے اک بھلی تصویر بسم اللہ

 

جہاں قاتل کا جی بھر جائے بے صرفہ تماشے سے

نہیں بسمل کی جانب سے کوئی تاخیر بسم اللہ

 

سعیدؔ اس قہر میں کس کو یہاں انصاف ملتا ہے

تجھے ضد ہے تو پھر جا کر ہلا زنجیر بسم اللہ

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے