عمر بھر موسم بہار رہا : رسا چغتائی….!۔۔۔ احسن سلیم

’’سرسراتے ہوئے لہجے کے ‘‘ ایک تحیر خیز صاحبِ اسلوب شاعر ہیں۔  رسا صاحب کی دھیمی اور ’سرگوشی‘ سے لبریز آواز میں ایک فطری بے نیازی اور سرشاری کے ساتھ رندانہ سرمستی کی بے پناہ قوت جھلکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔  وہ اپنی سادہ اور بے ضرر سی زندگی، بظاہر خوش اسلوبی اور عمدگی سے بسر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔  لیکن جنہوں نے رسا کو سنایا پڑھا ہے شاید جانتے ہوں یا اپنے شعور کی گہرائیوں میں کہیں محسوس کرتے ہوں کہ رسا ایک بے حد پیچیدہ ’شوکت و حشمت‘ کا غیر واضح بوجھ اپنے ناتواں اور منحنی جسم پر اٹھائے ہوئے بے تکان آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔  زندگی کو ۰۸ برس سے جھیل رہے ہیں جبکہ شعری استقلال اور شاعرانہ تسلسل کو ۰۶ واں سال لگ چکا ہے۔  گذشتہ نصف صدی سے ’شہرت‘ رسا کو اور رسا ’تخلیق‘ کو کھینچتے چلے آ رہے ہیں۔  بقول بیدل:

خانۂ حیرت تماشا می کشد

ایں نہنگ تشنہ دریا می کشد

لگتا ہے کہ ظہیر الدین بابر قلعے کی فصیل پر دو مضبوط اور توانا غلاموں کو بغل میں دابے، بے تکان دوڑتا چلا جا رہا ہے۔  تعجب ہے ! نہ بابر کی چال میں لغزش اور نہ رسا کے شعری سانس میں ٹھہراؤ….اُدھر ہندوستان بابر کے قدموں تلے چٹائی کی طرح لپٹتا چلا جاتا ہے …. اور….ا دھر رسا کے قدموں تلے کی دھُول ’شعری جمالیات کے ملبوس‘ میں پھیلتے پھولتے اپنے دامن میں ’کلاسیکی اور روایتی‘ ایوانوں کو لپیٹتے ہوئے، ’جدیدیت‘ کے آسمانوں کو چھو نے لگی ہے …. اُدھر فتح و کامرانی بابر کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے۔  فرغانہ کا شیر وطن سے دوری کے زخم، اکبر آباد یعنی آگرہ کے نشاط انگیز مرہم سے بھرتا ہے …. اِدھر زنجیرِ ہمسائے گی، رسا کے تعاقب میں ’بے گھر اور دربدر‘ ہو جاتی ہے۔  راجستھان کی مٹی سوائی مادھوپور سے اٹھ کر کراچی کے سمندری پانی میں محبت، رفاقت، اور اپنائیت کی مٹھاس گھولتے گھولتے خود گھُل کر رہ جاتی ہے۔  اُدھر خیبر سے راس کماری تک مملکت اور رموزِ حکومت کی بساط بچھا دی جاتی ہے …. اِدھر فنِ شعری کی دیوی رسا کی آغوش میں زبان و بیان کے نئے ذائقوں سے ہمکنار ہوتی ہے …. اُدھر مملکت کی حدود…. اِدھر سخنِ لامحدود! رسا کا دم ٹوٹتا ہے نہ زبان و بیان کی ’ندرت‘ میں لغزش پیدا ہوتی ہے۔  نہ آواز کے دھیمے پن میں ’اطاعتِ وحشت‘ اور نہ انتظار میں ’بے کیفی‘۔  ہر رنگ میں، ہر آہنگ میں سرشاری اور میخواری کی سی مستی! ہر خیال میں تہہ در تہہ وسعت اور ہر ’احساس‘ میں دریا کی سی حرکت و قوت! بابر کی مملکت میں عروج بھی زوال بھی۔  رسا کی مملکتِ شعری میں، عروج ہی عروج ستاروں کو چھوتا ہوا عمودی ارتقا اور زمانوں سے باہر قدم نکالتا ہوا اُفقی پھیلاؤ!

میں جس دل میں مکیں ہوں گھر ہے میرا

محبت بوریا بستر ہے میرا

میری اقلیم، اقلیمِ سخن ہے

مرا فرمان شعرِ تر ہے میرا

عمر کو عروج اور جسم کو زوال ہو تو ہو۔  شعریت میں کہیں زوال نہیں بلکہ ایک ایسا ترفع ہے جس کی مثال نہیں۔  ملاحظہ کریں ارتفاع کی صورتیں اور شعریت کے لازوال حسن کی جادوگری!

کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجئے !

آسماں دیکھتے رہا کیجئے !

چار دیواری¿ عناصر میں !

کودتے پھاندتے رہا کیجئے

اس تحیّر کے کارخانے میں !

انگلیاں کاٹتے رہا کیجئے

کھڑکیاں بے سبب نہیں ہوتیں

تاکتے جھانکتے رہا کیجئے

راستے خواب بھی دکھاتے ہیں

نیند میں جاگتے رہا کیجئے

آئینے بے جہت نہیں ہوتے

عکس پہچانتے رہا کیجئے

٭

 

چاند کس مہ جبیں کا پر تو ہے ؟

رات کس زلف کی حکایت ہے ؟

زندگی کس شجر کا سایہ ہے ؟

موت کس دشت کی مسافت ہے ؟

کاٹتا ہوں پہاڑ سے دن رات!

مسئلہ عشق ہے کہ اُجرت ہے ؟

میر بولے سنو رسا مرزا!

عشق تو آج بھی صداقت ہے !

٭

 

دُور تک اس کے نقش پا دیکھے !

اور کیا تُو نے رہ گزر دیکھا؟

زندگی کے جہاد میں ہم نے !

دھوپ دیکھی نہ دردِ سر دیکھا!

وقت جیسا نہ کوئی صورت گر !

خواب جیسا نہ دیدہ ور دیکھا!

وہ کوئی شام کا ستارا تھا!

یا اُسے ہم نے بام پر دیکھا!

اس خرابے سے جانے والوں نے

کیا نہ جانے رسا اُدھر دیکھا

٭

 

کیسے کیسے خواب دیکھے در بدر کیسے ہوئے ؟

کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے ؟

ان ہواؤں کو ردائے بادباں کیسے ملی؟

یہ ستارے آبنائے چشمِ تر کیسے ہوئے

کیا کہیں وہ زلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھلی؟

ہم طرف دارِ ہوائے رہ گزر کیسے ہوئے ؟

حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر یہ حادثے ؟

اک ذرا سی زندگی میں اس قدر کیسے ہوئے ؟

ایک تھی منزل ہماری ایک تھی راہِ سفر؟

چلتے چلتے تم اُدھر اور ہم اِدھر کیسے ہوئے ؟

٭

 

درِ قفس پہ ہو آئے صبا تو پھر پہروں

بٹھا کے سامنے گُلِ پیرہن کی بات کرو

جہاں سے ٹوٹ گیا سلسلہ خیالوں کا

وہاں سے زلفِ شکن دَر شکن کی بات کرو

 

اُدھر بابر پانی پت کے میدان میں مے کشی سے ہاتھ اٹھاتا ہے اور توبہ کی راہ سے ہندوستان میں فتح کے شادیانے بجاتا ہوا داخل ہوتا ہے۔  ادھر مرزا محتشم علی بیگ ایک بوریہ نشیں صوفی حکیم عارفی سرکار کے ہاتھوں سے شراب پی پی کر بالآخر مے نوشی سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور توبہ کے راستے شاعری کے اس قلعے میں داخل ہو جاتا ہے جس کی دیواروں میں دریچے زیادہ اور روشنی کم دکھائی پڑتی تھی اس طرح جدید غزل کو نئی جمالیات سے بھرپور، ایک ایسا شاعر میسر آ جاتا ہے۔  جو روحانیت سے سرشار اور روشن خیالی سے لبریز ہے۔

جس کے لہجے میں ’سرسراہٹ‘ اور آواز میں ’سرگوشی‘ کی پراسرار قوت ہمہ وقت کارفرما رہتی ہے۔  اپنی مملکت شعری کا نقشہ رسا کس طرح کھینچتے ہیں ملاحظہ فرمائیے:

٭

نہ اب ہم سا کوئی پیاسا ملے گا!

نہ اب ایسا کوئی دریا ملے گا!

مرے پیروں تلے دنیا ملے گی!

ردائے فقر میں مولا ملے گا!

یہاں سورج ملے گا سر جھکائے

یہاں الٹا ہوا کاسہ ملے گا!

پسِ الفاظ آئینے ملیں گے

پسِ آئینہ اک چہرا ملے گا

میرے ہاتھوں کو بوسہ دینے والے

تجھے حرفِ دمِ عیسیٰ ملے گا

مری دہلیز پر ہم زاد میرا

دریچوں میں مرا چہرا ملے گا

یہاں کچھ پیڑ ایسے بھی ملیں گے

جہاں آسیب کا سایہ ملے گا

کہیں دیوار کے رشتے ملیں گے

کہیں دیوار کا جھگڑا ملے گا

اٹھو اب رات کا پچھلا پہر ہے

چلو ایسے میں وہ تنہا ملے گا

رسا اس عشق کے جمہوریے میں

ہر اک درویش، شہزادہ ملے گا

میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس مقام پر قمر جمیل کی وساطت سے روسی ہئیت پسند مفکر شکلووسکی کا خیال درج کرتا چلوں اور اس کی تائید میں رومن جیکب سن کا خیال بھی پیش کروں تاکہ شاعری کے بارے میں ہمارے نظریات میں مزید وسعت پیدا ہو سکے۔  اس کی ضرورت مجھے اس لیے بھی محسوس ہوئی کہ ابھی کل رات ہی میرے چند شاعر دوستوں نے میرے سوالوں کے جواب میں رسا کی شاعری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ رسا کی شاعری میں ’رندانہ سرمستی‘ اور زبان و بیان میں ’ندرت‘ کم اور فطری سلاست زیادہ ہے اس سے ہمیں انکار نہیں ہے لیکن رسا محدود موضوعات اور ’اظہاری یکسانیت‘ کے شکار ہیں۔  بیان میں اور موضوعات میں تنوع نہیں ملتا۔  ان کے یہاں عمودی ترقی نہیں ملتی البتہ اُفقی پھیلاؤ ’یکسانیت‘ کے بوجھ تلے پھیل رہا ہے۔  میری دانست میں میرے دوستوں کے ذہن میں یہ خیال اس لیے پیدا ہوا کہ وہ روایت اور جدیدیت کے فرق سے نا واقف ہیں اور ’فن کو زندگی کا قیدی‘ تصور کرتے ہیں۔  شکلووسکی کے خیال کے مطابق:

’’آرٹ زندگی سے آزاد ہوتا ہے آرٹ میں وہ رنگ نہیں جھلکتا جو شہر کے پرچم میں لہرا رہا ہوتا ہے۔ ‘‘

اس خیال کی تائید رومن جیکب سن کے اس خیال سے بھی ہوتی ہے کہ:

’’ادبی تخلیق کی نمایاں خصوصیت اس کا موضوع نہیں اس کی ’ادبیت‘ ہوتی ہے۔  شاعری کے انگنت موضوع ہو سکتے ہیں۔  لیکن شاعری کی اہم خصوصیت موضوع نہیں اس کی ’ادبیت‘ ہوتی ہے۔ ‘‘

قمر جمیل کے مطابق:

’’روسی ہئیت پسندوں کا یہ بھی خیال تھا کہ شاعری لفظوں سے بنتی ہے۔  موضوعات سے نہیں۔  چونکہ تشبیہ اور استعارے شاعری ہی میں نہیں نثر میں بھی ہو سکتے ہیں۔  اس لیے شاعری میں یہ بات اہم ہے کہ تشبیہوں، استعاروں، علامتوں اور امیجز کا استعمال کس طرح کیا جا رہا ہے۔  ان روسی ہئیت پسندوں کا یہ بھی خیال ہے کہ شاعری میں بحریں، مترنم آوازیں امیج اور آہنگ معانی کے ابلاغ کے لیے نہیں بلکہ صرف اپنی خاطر ہوتے ہیں۔  ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ چیزوں کو ’اجنبی‘ اور ’نامانوس‘ بنا دیں۔  شاعرانہ زبان کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ زبان نہ صرف چیزوں کو ’اجنبی‘ بناتی ہے بلکہ خود بھی ’اجنبی‘ ہوتی ہے۔ ‘‘

مَیں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ شاعری میں رسا چغتائی جس طرح زبان کو استعمال کرتے ہیں اور جو طرزِ بیان اختیار کرتے ہیں وہ آشنا چیزوں کو اجنبی اور اجنبی چہروں کو آشنائی کا لباس پہناتے چلے جاتے ہیں۔  بعض دانشور تو کہتے ہی یہ ہیں کہ رسا سہل ممتنع کا شاعر ہے۔  یعنی زبان اتنی سہل اور فطری پیرائے میں سامنے آتی ہے کہ دماغ بھک سے اڑ جاتا ہے۔  رسا کی ’جمالیاتی حسیت‘ براہ راست دل پر اثر کرتی ہے۔  اس اعتبار سے رسا زبان کی دو طرفوں یا دو جہتوں کو برتتے دکھائی دیتے ہیں۔  ایک طرف یا ایک جہت ’اجنبیت‘ کے خطوط کھینچتی ہے تو دوسری جہت ’آشنائی‘ کا استعاراتی لباس پہنتی نظر آتی ہے۔  زبان کا یہ ’رس‘ رسا کی شاعری کا نہ صرف ’خاص جوہر‘ ہے بلکہ شاعری میں ایک نئی دنیا کی تخلیق کی بنیادیں بھی فراہم کرتا ہے۔  ’اجنبیت اور آشنائیت‘ ….’رمزیت اور ایمائیت‘ سے رسا کی شاعری بھری پڑی ہے۔  میں یہاں مثال کے طور پر ایک غزل کے کچھ اشعار درج کرتا ہوں۔  تفصیل جاننے کے لیے رسا صاحب کی غزلوں کے چار مجموعے پڑھنے پڑیں گے۔  اگر ان مجموعوں کی دستیابی ممکن نہ ہو تو رسا کی نئی کتاب ’تیرے آنے کا انتظار رہا‘ کا مطالعہ ہی کافی رہے گا کیونکہ رسا سے محبت کرنے والے آرٹس کونسل کراچی کے دوستوں نے ہماری سہولت کے لیے چاروں کتابوں کو یکجا کر دیا ہے۔  اب مندرجہ بالا بیان کی روشنی میں ایک غزل کے چند اشعار دیکھئے:

 

رُخ گھٹا کا ہے سمندر کی طرف

اور نظر سب کی مرے گھر کی طرف

چن رہے تھے لوگ خالی سیپیاں

دیکھتے کیا دیدہ¿ تر کی طرف

ایک لڑکا باغ کی دیوار پر

ایک بوڑھا ہاتھ پتھر کی طرف

دو کبوتر رات کے ایوان میں

دو ستارے ایک بستر کی طرف

دیکھتے ہیں کس موسم کے خواب

آئینے رکھ کر سمندر کی طرف

ایک لمحے کا سفر ہے زندگی

اپنے پس منظر سے منظر کی طرف

ان لبوں کو لکھ دیا ہو گا، گلاب!

دھیان ہو گا مصرعۂ تر کی طرف

مہرباں ہو فن کی دیوی تو رسا

چل کے آتی ہے سخنور کی طرف

آپ کو اندازہ ہوا ہو گا کہ رسا کس طرح زبان کو دو جہتوں سے دامِ سخن میں لاتے ہیں اور امیجز کے ذریعے کس طرح چیزوں کو ایک نیا وژن دیتے ہیں۔  استعارے معنوں کی کتنی ’پرت‘ کو اپنے ساتھ لاتے ہیں۔  ان سب کے ساتھ جمالیاتی حس یعنی Poetic Sensibility زبان کے رچاؤ اور فطری بہاؤ کے ہمرکاب جدید سے جدید تر ہوتی چلی جاتی ہے۔

موت بھی کیا عجیب نعمت ہے

عمر ساری گزار کر دیکھا!

 

شاخِ گل بے دست و پا

موجِ گل سیلانی ہے

شکل وہی ہے دریا کی

لہر کوئی انجانی ہے

دریا ہے یا پیراہن؟

عکس ہے یا عریانی ہے

شاخ بدن سے لگتا ہے

مٹی راجستھانی ہے

 

خاک اڑتی ہے اس جہان میں کیا

پھول کھلتے ہیں آسمان میں کیا

عشق ترے خیال میں کیا ہے

زندگی ہے ترے گمان میں کیا

پوچھتا ہے مکاں کا سناٹا

میں ہی رہتا ہوں اس مکان میں کیا

ہم ہیں خود آپ روبرو اپنے

اور ہیں خود ہی درمیان میں کیا

٭

 

کہیں انسان بے چہرا کھڑا ہے !

کہیں بے دست و پا سایا پڑا ہے !

نہ پینے کے لیے آنسو ہیں باقی!

نہ پانی کے لیے کوئی گھڑا ہے

تری یادوں کا یہ مہمان خانہ!

زمانہ ہو گیا ویران پڑا ہے

اچانک جیسے پتھر ہو گیا ہو

رسا کیوں اس طرح گم صم کھڑا ہے

میں رسا چغتائی کی شاعری پر دانشورانہ تبصرہ کرنے والے اپنے ان دوستوں کی نہ دل آزاری کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی ان کی ’روایتی انانیت‘ سے کھیلنا چاہتا ہوں۔  ان دوستوں میں سے ایک نے بڑی والہانہ للک کے ساتھ رسا کا ایک بہت ہی معروف اور مقبولِ عام شعر سنایا:

صرف مانع تھی حیا بندِ قبا کھلنے تلک!

پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا ایسا کھلا!

ایک دوسرے دوست نے زیرِ لب اس طرح سے کہا کہ آواز مجھ تک نہ پہنچے ’’یہ شعر فحش ہے اور اخلاق سوز بھی‘‘! ایسے اشعار سے اخلاقیات پر منفی اثر مرتّب ہوتا ہے۔  میں اپنے دوستوں کی خدمت میں یہاں گوپی چند نارنگ کے معرفت یہ عرض کرتا ہوں کہ:

’’ابوالفرح قدامہ بن جعفر کا یہ کارنامہ معمولی نہیں ہے کہ اس نے حسن کاری کو شعر کے لیے ضروری قرار دے کر شعر کو ’اخلاق‘ کی ’زبردستی‘ سے نجات دلائی اور شاعری کی اپنی حیثیت کو مستحکم کر دیا۔ ‘‘

نارنگ نے اپنی کتاب مشرقی شعریات میں قدامہ کا یہ اقتباس بھی درج کیا ہے جو نارنگ کے بقول ’’خاصا مشہور ہے ‘‘ اور شعری فکر کے اعتبار سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔  قدامہ کہتا ہے کہ:

’’طرز بیان شعر کا اصل جزو ہے۔  مضمون و تخیل کا بجائے خود فاحش ہونا شعر کی خوبی کو زائل نہیں کرتا۔  شاعر ایک بڑھئی ہے۔  لکڑی کی اچھائی برائی اس کے فن پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ ‘‘

نارنگ شاعری میں مبالغے کے حوالے سے قدامہ کا ایک اور قول پیش کرتا ہے جس کی رُو سے وہ مبالغے کو شاعری کے لیے ضروری قرار دیتا ہے قدامہ کا قول ہے:

’’سب سے بہتر شعر سب سے زیادہ جھوٹا ہوتا ہے۔ ‘‘

اس حوالے سے اگر رسا کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو ایک عجیب اور دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے اور انکشاف کا ایک نیا در کھلتا ہے۔  یعنی رسا کا تقریباً تمام ہی کلام ’’کسی بہت بڑے جھوٹ پر پاؤں دھرے کھڑا ہے۔ ‘‘ ان کا شعر ایک طرف کسی بڑی حقیقت کو احاطہ¿ ادراک میں لاتا ہے، ہمارے وجدان کو بلندیوں سے ہمکنار کرتا ہے تو دوسری طرف کسی غیر حقیقی صورتحال کا مظہر بھی ٹھہرتا ہے۔  ماورائی اور تجریدی سچوئشن بار بار جلوہ گر ہوتی ہے۔  ان کے سب سے زیادہ مشہور شعر ہی کو لیجئے:

تیرے آنے کا انتظار رہا

عمر بھر موسم بہار رہا

پہلے مصرعے میں بیان ’صداقت‘ پر مبنی محسوس ہوتا ہے۔  لیکن دوسرے مصرعے میں قطعی غیر حقیقی صورت حال کو بیان میں لایا گیا ہے۔  یعنی بہت بڑا جھوٹ بولا گیا ہے۔  اور یہی جھوٹ اس شعر کا اصلی جزو ہے اور اسی ’اصلیت‘ کے تحت یہ شعر گذشتہ پانچ دہائیوں سے اپنی شہرت اور مقبولیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔  اور اسی حوالے سے مجھے رسا کی شاعری آنے والے زمانوں میں سفر کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اور یہ شعر آئندہ میں بھی اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے کی سکت و قوت رکھتا ہے۔

رہی بات، ’مانع تھی حیا بندِ قبا کھلنے تلک‘ والی یعنی فحش ہے اور اخلاق پر منفی اثر مرتب ہوتا ہے تو مَیں یہاں ایک ایسی بات بتانے جا رہا ہوں جس کی وضاحت کے لیے اچھا خاصہ دفتر درکار ہے مختصراً عرض ہے کہ اچھی شاعری یا اچھے شعر کی ’جمالیات‘ پڑھنے اور سننے والے کے ذہن میں از خود ایک ’اچھوتا اخلاقی نظام‘ یا اس نظام کے کچھ اجزا پیدا کر دیتا ہے جو ’حسن اور خیر‘ کی سلامتی پر نہ صرف مثبت اثرات مرتب کرتا ہے بلکہ خوبصورتی کی ’بقا‘ کی ضمانت بھی مہیا ر دیتا ہے۔  واضح رہے کہ یہ اخلاقی نظام سیاسی، سماجی یا مذہبی حوالے سے جدا وجود میں آتا ہے۔  یہ کسی بھی کلچرل ایکٹویٹی یا تہذیبی سرگرمی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ صرف ’تخلیق‘ کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔  اور تخلیق کسی معروضی واقعیت کو اظہار میں لانے کا نام نہیں ہے۔  تخلیق زبان کے اسٹرکچر کی بدولت معرض اظہار میں آتی ہے۔  اور الفاظ کا برتاؤ، زبان و بیان کا در و بست، یا طرز بیان اس جمالیات کو اچھالتا ہے جو سماعت کے رستے یا بصارت کی راہ سے ہمارے قلب تک رسائی حاصل کرتی ہے۔  اور اندرونی اخلاقی نظام کا حصہ بنتی ہے۔  ہمارے دوستوں کو اخلاق کے بہانے اپنی نا آسودہ خواہشات کی طرف اشارہ نہیں کرنا چاہیے جو ان کی ’نیت‘ کو برہنہ کر کے بیچ چورا ہے میں لا کھڑا کر دے۔  یہ بات اخلاق پر زیادہ منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔  اب ذرا رسا کی بھی سنیے وہ کیا کہتے ہیں۔  یعنی معروضی حالت کو اپنے بیان میں لا کر کس طرح نفسی قوت کو آرٹ میں بدل کر رکھ دیتے ہیں۔  جمالیات جیسی مجرد قوت کو الفاظ میں کس طرح سمو دیتے ہیں۔  کتنے سوالات اٹھاتے ہیں۔  کتنے ہی روایتی مضامین پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔  یا روایتی مضامین میں نیا اور توانا خون شامل کر دیتے ہیں۔

یہ ستارے یہاں کہاں سے آئے

یہ تو دہلیز میرے گھر کی ہے

نیند کیا کیجئے کہ آنکھوں میں

اک نئی جنگ خیر و شر کی ہے

میرے کچے مکان کے اندر

آج تقریب چشم تر کی ہے

ہجر کی شب گزر ہی جائے گی

یہ اُداسی تو عمر بھر کی ہے

اٹھ رہا ہے دھواں مرے گھر سے

آگ دیوار سے اُدھر کی ہے

ہم نے اپنے وجود کی چادر!

تنگ اپنے گمان پر کی ہے

جا رہے ہو کدھر رسا مرزا

دیکھتے ہو ہوا کدھر کی ہے

٭

 

سانس لیتی ہے زندگی کیسے ؟

راہ چلتی ہے رہ گزر کیونکر!

حرف آواز بن گئے کیسے ؟

حرف لکھنا ہوا ہنر کیونکر!

چل رہا ہے سفینہ¿ ہستی!

بادبانِ خیال پر کیونکر!

٭

 

ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں !

میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں !

جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو

میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں !

یہ کوئی اور ہے اسے عکسِ دریا!

میں اپنے عکس کو پہچانتا ہوں !

جنوں کیسا کہاں کا عشق صاحب!

میں اپنے آپ ہی میں مبتلا ہوں !

طرارے بھر رہا ہے وقت یارب!

کہ میں ہی چلتے چلتے رک گیا ہوں !

ابھی یہ بھی کہاں جانا کہ مرزا

میں کیا ہوں کون ہوں کیا کر رہا ہوں

یہ وقت ہے کہ میں کچھ اور باتیں بھی ریکارڈ پر لے آؤں مثلاً یہ کہ ’جدید غزل‘ کی تعریف یا تشریح قمر جمیل اور سلیم احمد کس طرح کیا کرتے تھے ؟ ابھی چند روز قبل خواجہ رضی حیدر، یوسف تنویر، عرفان ستار، سرور جاوید، اور احمد امتیاز سے بھی میری بہت سی باتیں اس حوالے سے ہوتی رہی ہیں۔  لیکن فراست رضوی نے مجھے یاد دلایا کہ قمر جمیل کہا کرتے تھے کہ ہماری جملہ اردو شاعری کے چار بڑے ماخذ ہیں یعنی:

پہلا مآخذ گلستان ہے۔  جس کے زمرے کی تمام لفظیات یا تلازمے اس میں شامل ہیں۔  مثلاً خزاں، بہار، پھول، خوشبو، تتلیاں، بھونرے، پیڑ، پودے، تنکے، آشیانہ، سبزہ، پتے، شاخیں وغیرہ۔

دوسرا مآخذ ہے بزم جس کے زمرے میں تلازماتی الفاظ شامل ہیں جیسے محفل، دوست، عدو، غیر، اپنا، پرایا، چراغ، دیا، روشنی، حیا، وفا، بے وفائی، ادا، کج ادا وغیرہ۔

تیسرا مآخذ میکدہ جس کے زمرے میں لفظ یا تلازمے کچھ اس طرح کے ہیں شراب، مے، میکشی، رند، مے خوار، نشہ، شیخ، برہمن وغیرہ۔

چوتھا مآخذ ہے مقتل جس کے ذیل میں شمشیر، خنجر، سناں، تیر، کماں، نیزے، بھالے، جنگ و جدال، قاتل، مقتول، زخم، مرہم، داد، فریاد وغیرہ وغیرہ

فراست کا کہنا ہے کہ سلیم احمد بھی قریب قریب ایسی ہی باتیں کیا کرتے تھے۔  ان دونوں حضرات یعنی سلیم احمد اور قمر جمیل کا اصرار یہ تھا کہ ہمیں ان ’مآخذات‘ کو ترک کر کے نئی لفظیات کو رائج کرنا چاہیے تب ہی غزل یا نظم میں ’روایتی فرسودگی‘ سے بچا جا سکے گا۔  اور نئی یا جدید غزل کے خدوخال کو واضح کیا جا سکے گا۔  لیکن بعد میں قمر جمیل نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور کہا کہ غزل کی فارم میں ردیف، قافیے اور بحریں اس راہ کی بڑی رکاوٹیں ہیں لہذا شاعری کے روایتی اسٹرکچر کو ہی توڑ دیا جائے۔  ورنہ ہماری شاعری خاص طور پر غزل ’روایت‘ ہی میں دم توڑ دے گی۔  چنانچہ قمر جمیل نے ایک طرف تو غزل کی فارم میں پرانے ’مآخذات‘ سے گریز کرنا شروع کیا اور نئی لفظیات کا نئے ڈھنگ سے استعمال شروع کیا اور دوسری طرف اسٹرکچر کو توڑ کر ’نثری نظم‘ کی داغ بیل ڈالی اور یہ کام ایک ’تحریک‘ کے طور پر تمام تر فکری قوت کے ساتھ سامنے لائے۔

رسا چغتائی قمر جمیل سے جڑے ہوئے شاعر تھے۔  تعلق، دوستی اور یاری کا تھا۔  فطرتاً اور طبعاً بھی وہ کسی نئی دنیا کے متلاشی تھے۔  اس لیے قمر جمیل کی ایما پر رسا نے غزل کی جدیدیت میں بھرپور انہماک، توجہ اور اخلاص کے ساتھ قمر جمیل کے شانہ بشانہ شعری اجتہاد کی راہ اپنائی۔  اس بات کا ثبوت قمر جمیل کا ادبی پرچہ ’دریافت‘ بھی ہے جس میں رسا چغتائی بطور معاون مدیر شریک رہے۔

رسا چغتائی کا کمال یہ ہے کہ غزل میں ’جدید شعری حسیت‘ کو بھرپور انداز میں اس طور پر سمودیا کہ روایت، کلاسیکیت اور جدیدیت ایک ہی مٹی میں گندھ کر تخلیقی فضا میں مہکنے لگی۔  اور ایسا اس لیے ہوا کہ وہ لایعنیت رسا کے بیان میں یا اظہار میں راہ نہیں پا سکی جس نے فرانسیسی شعر و ادب کی روایت کو منہدم کر کے رکھ دیا تھا۔  اور یہ خیال کہ ’’جدیدیت زندگی کی عدم معنویت سے جنم لیتی ہے ‘‘ رسا چغتائی نے اپنی غزل کے حوالے سے ’عدم معنویت‘ کو زندگی کی ’اثباتی معنویت‘ میں تبدیل کر کے اردو غزل کی شاعری میں تخلیقیت‘ کے لیے نئی اور موثر بنیادیں فراہم کر دی ہیں اور اس روش پر بہت سے شاعر چل نکلے ہیں۔

میں اس حوالے سے رسا کے کچھ منتخب اشعار پیش کرنا چاہتا ہوں جن کی موجودگی سے میرے خیال کی تائید بھی ہو گی اور تھوڑی بہت وضاحت بھی۔  واضح رہے کہ شعروں کا یہ انتخاب ہمارے دوست جناب خواجہ رضی حیدر کی تنقیدی بصیرت کا نتیجہ ہیں۔  اور میں نے مضمون کی ابتدا میں ایک جگہ ’شوکت و حشمت کے بوجھ‘ کا ذکر کیا ہے۔  شاید وہ بھی ان اشعار کی تہوں میں دکھائی دے جائے …. مگر میں رسا چغتائی کے منتخب اشعار پیش کرنے سے پہلے ایک آدھ بات اور کرنا ضروری تصور کرتا ہوں۔  ایک تو یہ کہ رسا کی شاعری معنی آفرینی کے بجائے ’کیفیت‘ اور ’تاثریت‘ کو زیادہ بیان میں لاتی ہے۔  یعنی رسا معنوں کے لیے شعر نہیں کہتا بلکہ رسا کا شعر کہنے کا ڈھب اور شعر کی ساخت ایسی ہے کہ اس سے معنی خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔  معنی خیزی کا یہ عمل کیفیت اور تاثر کی بالائی لہر کے نیچے آہستہ آہستہ انگڑائیاں لیتا رہتا ہے۔  رسا کی شاعری کا قاری یا سامع پہلے ’کیفیت‘ اور پھر تاثر کو قبول کرتا ہے۔  اس کے بعد دھیرے دھیرے اس پر معنوں کا موسم کھلتا ہے۔  دوسری بات طبائع یعنی ’طبیعت‘ کے حوالے سے ہے۔  حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش بتاتے ہیں کہ انسان اپنے طبائع میں دو قسم کے ہوتے ہیں ایک اہل وصال اور دوسرے اہل فراق۔  اہل وصال یا اہل قرب وہ ہوتے ہیں کہ جتنا انہیں اپنے محبوب سے قرب کا احساس ہوتا ہے اُتنی ہی ان کی قوت کارکردگی یا کام کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔  اہل قرب محبوب سے دوری کو برداشت نہیں کر سکتے۔  محبوب سے دوری ان کے لیے موت کا سبب بن جاتی ہے۔  یا ان کی صلاحیتوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔  اس کے برعکس اہلِ فراق وہ ہیں جو ’محبوب‘ کے قرب کے متحمل نہیں ہوتے یعنی اہلِ فراق یا اہلِ ہجر کو اگر ’محبوب‘ کا قرب میسر آ جائے تو ان کی قوت کارکردگی یا کام کی صلاحیت مفلوج ہو کر رہ جائے گی اور محبوب کا قرب موت کا سبب بن جائے گا۔  اس کی مثال داتا صاحبؒ، پانی اور مچھلی سے دیتے ہیں۔  مچھلی جب تک دریا یا سمندر میں ہے اور پانی کا قرب اسے حاصل ہے وہ متحرک اور زندہ رہتی ہے جیسے ہی اسے پانی سے باہر نکالا جاتا ہے وہ تڑپ تڑپ کر جان دے دیتی ہے۔  اسی طرح خرگوش کو اگر پانی میں پھینک دیا جائے تو وہ پانی کے وصل سے ہلاکت میں پڑ جائے گا۔  حالانکہ خشکی پر اس کی قوت کارکردگی دیکھنے جیسی ہوتی ہے۔  وہ دو چار جست ہی میں نگاہوں سے اوجھل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔  یہ مثال داتا صاحب نے تصّوف کے حوالے سے دی ہے۔  مقصود یہ ہے کہ اہل ہجر محبوب یعنی باری تعالیٰ کو ہمیشہ ورا الورا ہی محسوس کرتے ہیں۔  وہ فرقت میں تڑپتے ہیں اور زیادہ لگن سے اس کے قرب کے لیے جتن کرتے ہیں۔  اسی لگن اور جتن میں ان کے مراتب بلند سے بلند تر ہوتے جاتے ہیں۔  اہلِ قرب محبوب سے نزدیکی کے احساس کے باعث زیادہ فعال اور متحرک رہتے ہیں۔  اس طرح باری تعالیٰ ان کے مراتب کو بلند کرتے رہتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ رسا چغتائی، طبائع کے اعتبار سے اہلِ فراق میں سے ہیں۔  محبوب سے دوری کا احساس اور اسے پانے کی لگن اب بھی انہیں فعال اور سرگرم رکھتی ہے۔  جبکہ ان کی عمر ۰۸ برس کے لگ بھگ ہے۔  اپنی شاعری کے حوالے سے بھی رسا چغتائی کے اندر یہی خیال سرایت کیے ہوئے ہے کہ:

ہنوز دلی دور است

آئیے اب رسا کے منتخب اشعار دیکھتے ہیں جن میں ’شوکت و حشمت‘ کے بوجھ اور جدید حسیت کی جھلکیاں جا بجا دکھائی دیتی ہیں۔

دور گیا تلوار کے فن کا فن سخن کی بات کریں

آپ مغل ہیں مرزا صاحب جوہر تو دکھلانا ہو گا

 

آن اپنی جگہ مغل زادے

عشق تو ٹوٹ کر کیا ہوتا

 

ہوئے رسا نہ ہوئے مرزا محتشم علی بیگ

وگر نہ ہوتے تجمل حسین خان کی طرح

 

یہ بھی ممکن ہے ادھر کوئی نہ ہو

اور ہو بس آئنہ رکھا ہوا

 

رات درکار تھا سنبھالا مجھے

دیکھتا ہی رہا پیالہ مجھے

 

آدمی کس کمال کا ہو گا

جس نے تصویر سے نکالا مجھے

 

گرمی اس کے ہاتھوں کی

چشمہ ٹھنڈے پانی کا

باہر ایک تماشا ہے

اندر کی حیرانی کا

ساری عمر مشقت کی

خبط کیا سلطانی کا

کام لیا میں حکمت سے

عذر کیا نادانی کا

 

آنے والے وقت کی آواز ہوں

میں نہیں لمحہ کوئی گزرا ہوا

کر رہا ہوں آپ خود اپنا طواف

پھر رہا ہوں گھر میں بولایا ہوا

یہ جو میں نے رسا کو ’سرسراتے ہوئے لہجے ‘ کا شاعر کہا تو اس کی تفہیم کے لیے، یہاں ایک مکالمہ درج کیا جانا بے محل نہ ہو گا…. یہ گفتگو۱۹۷۸ء میں، حیدرآباد(سندھ) کے ایک ریستوراں میں، پاکستان کے تجریدیAbstract آرٹ میں بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور احمد پرویز صاحب اور میرے یعنی احسن سلیم کے درمیان ہوئی۔

میری کچھ نظمیں اور غزلیں سننے کے بعد احمد پرویز نے ایک عجیب ہی ڈھنگ سے سوال کیا۔

’’احسن سلیم کیا تم جانتے ہو کہ شاعری کو دور تک لے جانے والی قوت کونسی ہے اور شاعر کی شہرت کیسے پھیلتی اور بڑھتی ہے ؟‘‘

’’میں سمجھا نہیں پرویز صاحب! دُور تک، سے آپ کی کیا مراد ہے ‘‘

’’علاقائی اعتبار سے بھی اور زمانی لحاظ سے شاعری کو دُور تک لے جانے والی قوت کا نام کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے سوال دہرایا۔

’’میرے خیال میں جس شاعر کے کلام کو کوئی بڑا اور مشہور گلوکار یا گلو کارہ ’سر اور سنگیت‘ کے حوالے سے میڈیا یعنی ریڈیو یا ٹیلی ویژن کے ذریعے اچھال دے۔  اس کی شاعری اور شہرت دور تک پہنچ جائے گی۔ ‘‘

میرا یہ جواب سن کر احمد پرویز مسکرائے اور پھر ایک اور سوال اٹھایا۔

’’اچھا تو بتلاؤ میر کی غزل ان کے زمانے میں کس گویّے نے گائی اور کون سے میڈیا نے ان کے کلام کو عوام تک پہنچایا تھا؟

مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔  دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔  تب احمد پرویز صاحب نے سرگوشی کے سے انداز میں ’سرسراتے ہوئے لہجے ‘ میں کہا۔ ’’سنو احسن سلیم یہ ایک راز کی بات ہے۔  شاعری اور شاعر کی شہرت و مقبولیت کو دور تک لے جانے والی قوت کا نام ہے ’سرگوشی‘…. سرگوشی ایک زبردست میڈیا ہے …. دیکھو! یہ جو عورتیں ایک دوسری کے کانوں میں راز داری کے ساتھ سرگوشیاں کرتی ہیں۔  وہی راز کی بات آناً فاناً گاؤں یا قصبے کے گوشے گوشے میں پہنچ جاتی ہے۔  یہ ہے ’سرگوشی‘ کی قوت!‘

شاعری میں بھی لہجہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔  ’سرسراتے ہوئے لہجے ‘ یا ’سرگوشی‘ کے سے انداز میں جو شعر کہے جاتے ہیں وہ دور تک پھیل جاتے ہیں اور ’ایک کھلے ہوئے راز‘ کی طرح مشہور بھی ہو جاتے ہیں ‘

میں نے حیران ہوتے ہوئے ان سے پوچھا ’’مثلاً کسی شاعر کا نام بتلائیے جو ’سرسراتے ہوئے لہجے ‘ میں ’سرگوشی‘ کے سے انداز میں شعر کہتا ہو؟‘‘

انہوں نے الٹا مجھ سے پوچھا۔ ’’تم تو شاید کسی گاؤں کے رہنے والے ہو؟‘‘

’’جی ہاں ! میں تھر پارکر ضلع کے ایک چھوٹے سے قصبے سمارو کا رہنے والا ہوں۔ ‘‘

’’تو کیا تم نے اپنے قصبے میں ’سرکنڈے ‘ نہیں دیکھے۔ ‘‘

’’بہت دیکھے ہیں ہمارے قصبے کے اطراف میں ہر راستے پر سرکنڈوں کی قطاریں لہراتی رہتی تھیں خصوصاً جوہڑوں کے اطراف سرکنڈے خوب کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ ‘‘

’’کیا ان سرکنڈوں میں ہوا کی ’سرسراہٹ‘ نہیں سنی۔ ‘‘

’’بہت سنی۔ ‘‘

’’ہوا کی سرسراہٹ سے تمہیں کیا محسوس ہوتا تھا؟‘‘

’’اول اول تو خوف سے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔  خیال آتا تھا کہ کہیں سانپ یا اژدھا نہ ہو۔  یا جن، بھوت یا پری نہ ہو! پھر یہ تجسس پیدا ہو جاتا کہ دیکھیں ان سرکنڈوں میں سرسراہٹ کس کی ہے۔  شاید کوئی خوبصورت سی پری ہو یا کوئی چور اچکا ہو یا کچھ اور….آخر آخر حیرت کہ نہ کوئی چور نہ سانپ، اژدھا اور نہ کوئی جن یا پری…. بس ہوا کی نادیدہ چال اور ریشمی لباس کی سی دل موہ لینے والی سرسراہٹ….

وہ مسکرائے اور کہاں ’ہاں ‘ اور اس لمبی سی ہاں میں کتنی ہی کہانیاں بغیر بیانیہ کے سرسراتے ہوئے گزر گئیں۔

’’ہاں میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ ’’سرسراتے ہوئے لہجے ‘‘ میں یا ’’سرگوشی‘‘ کے سے انداز میں شعر کون کہتا ہے۔  ویسے تو ہر شاعر ہی ایک آدھ شعر میں ’سرگوشی‘ کر لیتا ہے …. ہمارے قریب کے شاعروں میں لاہور کے ناصر کاظمی اور کراچی میں رسا چغتائی اس کی بہترین مثال ہیں۔  ناصر کاظمی اداس لہجے کی سرگوشی کا شاعر ہے۔  رسا چغتائی نفسی کیفیتوں، رندانہ سرمستی، رازوں کو زیر نقاب اچھالتی ہوئی ’سرگوشی‘ اور جیتی جاگتی جمالیات کے ساتھ ’سرسراتے ہوئے لہجے ‘ کا ایک جیتا جاگتا، شاعر ہے ‘‘

میں نے کہا ’’جیتے جاگتے سے مراد زندہ اور قائم رہنے والا ؟‘‘

کہنے لگے اوہ یسOh! Yes‘‘

میں نے کہا پرویز صاحب رسا چغتائی کا ایک آدھ شعر سنائیے جس میں ’سرگوشی‘ اور ’سرسراتا ہوا لہجہ‘ سمجھ میں آ جائے۔ ‘‘

کہنے لگے ’’احسن سلیم! ’سرسراتا ہوا لہجہ‘‘ ہوا کی چال سے پیدا ہوتا ہے یا شاعر کے اس اسلوب سے جنم لیتا ہے جو در اصل پراسراریت کے جملہ عناصر کو اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔  اور فطرتاً یا طبعاً یا عادتاً انسان آسیبی تصورات اور پراسریریت میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے۔  اس طرح وہ اپنے ہونے کے کسی دائمی تصور کو، یا جہاں وہ نہیں ہے وہاں بھی اپنے ’سائے ‘ تلاش کرتا ہے۔  اپنے ہونے کے شواہد اور مظاہر بیان کرتا ہے۔  اپنے شعور اور لا شعور کی مدد سے یا پھر شعری زبان کے وسیلے سے ’’اب‘‘ یا ’’تب‘‘ ’’یہاں اور وہاں ‘‘ ہر جگہ خود کو موجود پاتا ہے …. اسی لیے ایسا لہجہ عوامی توجہ اور مقبولیت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ ‘‘

’’لیکن پرویز صاحب یہ تو بتائیے ! ایسا کیوں ہوتا ہے ؟‘‘

’’اس لیے کہ یہ ایک یونیورسل ٹرتھ(Universal Truth) ہے۔ ‘‘

’’کمال ہے ! اس میں یونیورسل ٹرتھ کیا ہے ؟‘‘

وہ بڑبڑانے کے انداز میں بولے ’’تم شاید آفاقی سچائی سے مراد آسمان سے اتری ہوئی کوئی شے لیتے ہو۔  نہیں ایسا نہیں ہے۔  آفاقی سچائی سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسی حقیقت جو تمام نوع انسانی میں پائی جاتی ہو یعنی سب انسانوں میں مشترک ہو۔  خواہ وہ انسان کسی علاقے کسی قوم یا کسی زبان سے تعلق رکھتا ہو۔  مثلاً خوف، اندیشہ، تجسس، وہم، حوصلہ جرات، بزدلی، عقل، دکھ درد، نیکی، بدی، سرکشی، وغیرہ اسی طرح ’سرگوشی‘ اور سرسراہٹ‘ اور پراسراریت سے دلچسپی تمام بنی نوع انسان میں پائی جاتی ہے۔  میں نے انہیں معنوں میں اسے یونیورسل ٹرتھ سے تعبیر کیا ہے۔ ‘‘

میری سمجھ میں کچھ آیا اور کچھ نہیں آیا۔  ’’اچھا کوئی شعر تو سنا دیں جسے آپ ’سرگوشی‘ یا سرسراتے ہوئے لہجے کا سمجھتے ہیں۔ ‘‘

کہا کہ ’’اگلے وقتوں میں ایک میر بھی تھا جس کے ایک شعر میں ’’سرگوشی‘‘ کا لہجہ اپنی تمام تر قوت کے ساتھ آیا ہے۔ ‘‘

’’میرا خیال ہے کہ آپ، لے سانس بھی آہستہ…. بات کاٹ کر کہنے لگے ہاں۔  بس تم رسا کا ایک شعر سن لو اگر رونگٹے کھڑے نہ ہو جائیں تو مجھ سے کہنا!‘‘

میں نے سوچا تھا اس اجنبی شہر میں زندگی چلتے پھرتے گزر جائے گی

یہ مگر کیا خبر تھی تعاقب میں ہے ایک نادیدہ زنجیر ہمسائیگی

…. اور پھر اچانک احمد پرویز صاحب کھڑے ہو گئے۔  جیسے انہیں کچھ یاد آ گیا ہو ’’چلتے ہیں ‘‘ کہتے ہوئے بڑی تیزی سے ریستوراں سے باہر چلے گئے۔  جب تک میں چائے کا بل ادا کرتا وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے یا فضا میں اپنے سائے سمیت کہیں تحلیل ہو گئے اور اپنے عقب میں ایک ’نادیدہ زنجیر ہمسائیگی‘ اور رسا کا سرسراتا ہوا لہجہ چھوڑ گئے !

یہ زنجیر ہمسائیگی سرحد پار سے تعاقب کرتے ہوئے ادھر چلی آئی تھی۔  مہاجرت کا دکھ اس زنجیر سے آج تک بندھا ہوا ہے۔  مستقبل کا کچھ پتہ نہیں ! احمد پرویز سے ہونے والے اس مکالمے کو گذشتہ دنوں میں نے معروف کمرشل آرٹسٹ اور اپنے عزیز دوست یوسف تنویر سے جب بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ شاعری کے حوالے سے ایسی پراسرار بات کوئی مصوّر ہی کر سکتا ہے۔  اور مصوّر بھی وہ جو جدید حسیت کا خود بھی کوئی بڑا نمائندہ ہو۔  اور پھر مجھے مضمون لکھنے کی تحریک دلانے کی نیت سے کہا ’’خانصاحب! رسا چغتائی پر لکھنے کے لیے انٹرویو تو آپ کے پاس موجود ہے ہی مضمون کھینچ ڈالو!‘‘

اور اس طرح یوسف تنویر کی تحریک اور میرے اندر کے وفور نے جو شکل اختیار کی وہ آپ کے احاطۂ نظر میں ہے یا سماعت کے راستے آپ کے وجود کا حصہ بن رہی ہے۔

 

اور اب آخر میں رسا کی ایک چھوٹی سی نظم جس میں رسا صاحب نے خود اپنا نقشہ کھینچا ہے۔  راجستھان کے ایک قصبے سوائی مادھو پور سے جو شخص کراچی آیا تھا۔  اس کے کھو جانے کا دکھ اور اب وہ کہاں ہے اسے تلاش کرنے کی جستجو!

 

نظم

 

سنتے ہیں اس گلی میں

اک شخص منحنی سا

کچھ رنگ گندمی سا

ہونٹوں پہ مسکراہٹ

آنکھوں میں کچھ نمی سی

باتوں میں زندگی سی

کچھ دن سے آ بسا ہے

تم جس کو ڈھونڈتے ہو

یہ شخص وہ نہیں ہے

وہ شخص اب کہاں ہے ؟

میں کہتا ہوں وہ شخص احساس، خیال، زبان اور تجربہ کی ایک نئی جمالیات میں ڈھل گیا ہے۔  وہ پانچ جگہوں پر مل سکتا ہے۔  ان جگہوں کے نام ہیں ریختہ، زنجیر ہمسائے گی، تصنیف، چشمہ ٹھنڈے پانی کا اور تیرے آنے کا انتظار رہا۔

٭٭٭

(بشکریہ ’اجراء کراچی)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے