طرحی اور ہم طرح غزلیں ۔۔۔ اعجاز عبید

 

طرحی اور ہم طرح غزلیں

 

               اعجاز عبید

 

ایک زمانہ تھا  کہ سبھی مشاعرے طرحی ہوا کرتے تھے۔ ایک مصرعۂ طرح دیا جاتا تھا، اور سارے شعراء اس پر طبع آزمائی کرتے تھے۔ ویسے عام طور پر شعوری کوشش کرتے ہوئے کسی دی ہوئی طرح پر ہی غزل کہی جائے، تو یہ شاعری ’آورد‘ کی شاعری کہی جائے گی۔  لیکن جب شاعر ہی جینوئن ہو، تو ۔۔ یہی ہوتا ہے کہ آسمانِ سخن سے اڑتا ہوا کوئی پرندہ اچانک ذہنِ شاعر کی منڈیر پر بیٹھتا ہے، اور شعوری طور پر بکھرے ہوئے دانے چگنے لگتا ہے۔ آج کل ’طرحی‘ مشاعروں کا رواج تو نہیں اگرچہ ’کتاب چہرہ‘ کے کئی گروہ ہر ہفتہ اس قسم کا آن لائن مشاعرہ برپا کرتے ہیں ۔ اس کا بھی ایک نمونہ اس گوشے میں شامل ہے۔

یہ تو ہوا ’طرحی‘ غزل کا معاملہ۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ  کئی شعراء مل کر ایک ہی وقت میں اجتماعی طور پر ایک ہی طرح پر غزلیں نہیں کہتے تو اسے ’ہم طرح‘ غزلیں کہا جاتا ہے۔ یعنی کسی مشہور غزل کی زمین میں کسی اور شاعر کو کسی بھی وقت غزل کہنے کا خیال آئے۔ اسی طرح کبھی انجانے میں مختلف شعراء ایک ہی زمین میں غزلیں کہہ جاتے ہیں ۔

اس قسم کی کچھ غزلوں  کو اس گوشے میں شامل کیا جا رہا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے