رباعیاں ۔۔۔ ابراہیم اشکؔ

نظر میں ہوں تو منظر بھی نظر آتا ہے

جوہر ہو تو گوہر بھی نظر آتا ہے

ہو اشک اگر دیکھنے والا کوئی

کوزہ میں سمندر بھی نظر آتا ہے

 

ہر ایک ورق پر ہیں نرالے گوہر

گنجینۂ معنی ہے ادب کا دفتر

دراصل ہیں تسکین دل و جاں کا سبب

اے اشک مرے واسطے یہ فکر و ہنر

 

 

 

ہندو نہ مسلمان بنی ہے اردو

سچ ہے کہ ہیرے کی کنی ہے اردو

اے اشک ہیں الفاظ میں سب لعل و گہر

اس دیش کی مٹی میں چھنی ہے اردو

 

قاتل کو مسیحا جو بنا دیتے ہیں

انصاف کو سولی پر چڑھا دیتے ہیں

قوموں کی تباہی میں وہی ہیں شامل

اے اشک جو نفرت کو ہوا دیتے ہیں

 

پھولوں کی ہے برسات زبان اردو

ہیں جیسے طلسمات بیان اردو

عظمت کے ہیں مینار یہ اردو والے

کیا خوب ہے اے اشک جہان اردو

 

انداز نظر اس کا نرالا دیکھا

دنیا میں نہیں اس کا حوالا دیکھا

غربت میں پلا تھا ہمیشہ لیکن

شاہوں کے مقابل اسے اعلا دیکھا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے