تکیہ کلام: چاہیے ۔۔۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا

 

اِس حیات و کائنات کے دشتِ بلا پر مارچ 2020ء سے کورونا وائرس (Coronavirus: COVID-19) کا آسیب منڈلانے لگا۔ معمولات زندگی کی کایا پلٹ گئی ہے۔ بڑے بڑے طاقت ور ممالک سے بھی امداد کی التجا کی جا رہی ہے۔ اپنے خالق کو نہ پہچاننے والے بھی یاس و ہراس کے عالم میں ’ہل من ناصر ینصرنا‘ کی صدا لگا رہے ہیں۔ فطرت کی سخت تعزیروں سے غافل رہنے والے اپنی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور اپنے مظالم پر نادم ہیں اور یہی کہتے ہیں وقت کے ہر فرعون، نمرود اور ہٹلر کو تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ وہ جہاں گرد جن کے پاؤں میں چکر تھا خود مسلط کردہ قرنطینہ کے باعث اپنے گھروں ہی میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ ہم نوالہ و ہم پیالہ رفیق جو یک جان دو قالب تھے اب سماجی فاصلوں کی تلوار لٹکنے کے باعث دُور ہی سے دیکھ کر اپنی راہ لیتے ہیں۔ اب تو وصل کی دم توڑتی تمنا سے غرقاب غم، حواس باختہ اور زار و قطار روتے ہوئے عشاق کے دِل سے یہی آواز نکلتی ہے:
دیکھنا بھی تو اُنھیں دُور سے دیکھا کرنا
شیوۂ طِب نہیں کورونا کے ستم سہنا
تکیہ کلام کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ روح اور قلب کی داخلی کیفیات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ تکلم کے سلسلے بھی کورونا کے باعث مکمل طور پر بدل گئے ہیں۔ گفتگو کسی بھی موضوع پر ہو دھیان ہمہ وقت کورونا کی طرف ہی رہتا ہے۔ اپنے دونوں ہاتھوں پر دستانے چڑھائے، چہرے پر ماسک سجائے اور اس طرح کے معمولات زندگی سے اُکتائے ہوئے احباب جب چھے فٹ کے فاصلے سے کوئی بات کرتے ہیں تو لفظ ’چاہیے‘ ان کا تکیہ کلام بن جاتا ہے۔ ہر طرف چاہیے ہی چاہیے کی صدا سنائی دیتی ہے۔ وادیِ خیال میں مستانہ وار گھومنے کے عادی رومان پرور عشاق کو تو بہرِ ملاقات کوئی بہانہ چاہیے۔ جب سے موبائل فون اور برقی ڈاک کا چلن عام ہوا ہے، قاصد اور نامہ بر کی چھٹی ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود دل کے مقتل میں خون ہو جانے والی حسرتوں کا شمار کرنے والے حسابِ خوں بہا کرنے والوں کو اپنی تمنا سے با خبر رکھنے کے لیے کہتے ہیں:
چاہیے پیغام بر دونوں طرف
لطف کیا جب دُو بہ دُو ہونے لگی
پچیس اپریل دو ہزار بیس کو ماہ، صیام کا پہلا روزہ تھا ایک کمرشل بنک کے باہر ٹھگوں کے گروہ کے سرخیل بہرام ٹھگ کی اولاد اور عیاری کی شطرنج کے مہروں قفسو اور مصبو کو دیکھا۔ ہزاروں سادہ لوح لوگوں کے زر و مال پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد یہاں اپنے ہاتھ کی صفائی دکھانے کی غرض سے یہاں پہنچنے والی ان عیار طوائفوں نے نہایت ڈھٹائی سے ہرزہ سرائی کی۔ رقاصہ مصبو نے غراتے ہوئے کہا:
’’اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے، لاک ڈاؤن اُٹھا لینا چاہیے۔ سماجی زندگی پر عائد پابندیوں کے خلاف آواز اُٹھانی چاہیے۔ ریستوران، عشرت کدے، تھیٹر، سرکس، تیراکی کے تالاب، قحبہ خانے، چنڈو خانے اور شادی گھروں کی رونق بحال ہونی چاہیے۔‘‘
اپنے میلے کچیلے دانت پیستے ہوئے قفسو نے کفن پھاڑ کر کہا ’’یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم لوگ جو فنون لطیفہ سے وابستہ ہیں، موسیقی اور رقص کی محفلیں کیوں نہیں سجا سکتے۔ ہمارے پرستاروں کو ہمیں ملنے سے روکنا نہیں چاہیے۔ ہمارے نقصان کا ازالہ ہونا چاہیے۔ مقتدر حلقوں کی طرف سے کورونا کے باعث رقص اور موسیقی کی محفلوں پر جو پابندی عائد کی گئی ہے اُسے فوراً اُٹھا لینا چاہیے۔ ہر سازندے، رقاصہ اور مغنیہ کو فی الفور مناسب امداد ملنی چاہیے۔‘‘
پاس ہی کھڑے بنک کے حفاظتی عملے کے ایک مسلح محافظ نے جب یہ لاف زنی سنی تو بولا: ’’آپ کو اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے۔ اب سب کو خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ سب لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ طویل عرصے کی تھکن لمحوں میں کب اُترتی ہے؟ سب لوگوں کو غور کرنا چاہیے کہ تسلسل کے ساتھ کچھ بچانا چاہیے۔‘‘
’’آپ کو بھی اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔‘‘ نیم عریاں لباس میں ملبوس ایک ادھڑ عمر کی ایک وضیع دارحسینہ مس بی بنو نے پان چباتے ہوئے کہا ’’اے ٹی ایم میں ہم جیسی خواتین کو سب سے پہلے جانے کی اجازت ملنی چاہیے۔ کمرشل بنکوں کو ضعیفوں کا بھی کچھ خیال رکھنا چاہیے۔‘‘
’’سب کمرشل لوگوں کو ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘ ایک بوڑھے پنشنر نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اپنی کتابِ زیست کو تھاما اور بوسیدہ صفحات کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا ’’مقتدر حلقوں کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنا چاہیے اور پنشن میں اضافہ کرنا چاہیے۔‘‘
مصبو نے بال جھٹک کر کہا ’’بنک کو ہم جیسے لوگوں کے لیے ٹھنڈے پانی کا انتظام کرنا چاہیے۔‘‘
’’اگر چہرے پر نحوست، بے برکتی، بے توفیقی، بے غیرتی اور بے ضمیری کی سیاہی پھیل جائے تو تکیہ کلام تو خوب صورت ہونا چاہیے۔‘‘ ایک نوجوان گلو گیر لہجے میں بولا ’’چھاج تو بولے مگر اپنے سیکڑوں چھید دیکھنے کے بعد چھلنی کو تو چُپ رہنا چاہیے۔ کالا دھن کمانے والوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ ماہ صیام میں پینے کا ٹھنڈا پانی فراہم نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘
’’تم جیسے مذہب سے دُور لوگوں کو اس مقدس مہینے کا احترام کرنا چاہیے۔‘‘ یہ بات سُن کر کچھ دُور کھڑے ایک صوفی نے مصبو کی طرف دیکھا اور تلملاتے ہوئے کہا ’’تم سب کو اپنے گھر میں قیام کرنا چاہیے۔ فیشن شو میں جانے اور بنک مصروفیات کے لیے گھر سے نکلنے کے فرق کو سمجھنا چاہیے۔‘‘
اِسی دوران میں اچانک بنک کا لِنک ڈاؤن ہو گیا اور اے ٹی ایم سے رقوم کی وصولی کا سلسلہ کچھ دیر کے لیے تعطل کا شکار ہو گیا۔ صبح سے انتظار کر کے تھک جانے والے ایک ضعیف شخص نے آہ بھر کر کہا:
’’وعدہ خلافوں اور اضافوں کے اس دور میں صرف پنشن ہی اپنی جگہ پر مستقل طور پر ٹھہر گئی ہے، اسے بھی بڑھانا چاہیے۔ پنشن کی فراہمی پر مامور عملے کو اس امر پر توجہ دینی چاہیے کہ ضعیف پنشنرز کو گھروں میں پنشن ملنی چاہیے۔ ہر کام کا سلیقہ ہونا چاہیے اس طرح خامی کو بھی خوبی میں بدلنا چاہیے۔ جب میں آئینہ دیکھتا ہوں تو ندائے غیب سنائی دیتی ہے کہ جس طرح تُو ابھی تک سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پورے کر رہا ہے ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘
اس موقع پر وہاں موجود ایک ایسے شاعر سے کلام کی فرمائش کی گئی جو سدا ہجر و فراق کی بھٹی میں جھلستا رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی تاکید بھی کر دی کہ وہ اپنے رُلا دینے والے کلام کے بجائے کسی مزاح نگار کا ایسا شگفتہ کلام سنائے جس سے محفل وجد میں آنی چاہیے۔ اس شاعر نے انور مسعود کے یہ اشعار سنائے:

’’مرد ہونی چاہیے، خاتون ہونا چاہیے
اب گریمر کا یہی قانون ہونا چاہیے

نرسری کا داخلہ بھی سرسری مت جانیے
آپ کے بچے کو افلاطون ہونا چاہیے

رات کو بچے پڑھائی کی اذیت سے بچے
اُن کو ٹی وی کا بہت ممنون ہونا چاہیے

دوستو انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے
فیل ہونے کو بھی اِک مضمون ہونا چاہیے

صرف محنت کیا ہے انورؔ کامیابی کے لیے
کوئی اُوپر سے بھی ٹیلی فون ہونا چاہیے

’’ہم نے یہ کلام توجہ سے سنا اس گل افشانی گفتار کے بعد مجھے بھی موقع ملنا چاہیے کہ میں بھی اپنا پسندیدہ کلام سناؤں‘‘ چھے فٹ کے فاصلے پر کھڑی ایک بڑھیا نے روتے ہوئے کہا ’’مجھ جیسے چاہے جانے کی تمنا رکھنے والوں کہ صرف آپ کی توجہ چاہیے۔ جن لوگوں کے کاروبار عالمی وبا کورونا کے باعث بند ہیں انھیں اِمداد مِل رہی ہے مگر قحبہ خانوں، چنڈو خانوں اور عشرت کدوں کی ویرانی اور ان سے وابستہ لوگوں کی بے سر و سامانی کا کسی کو سرے سے خیال ہی نہیں۔ فلاحی اداروں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ آپ سب کو یہ شاعری سن کر اپنا احتساب کرنا چاہیے۔‘‘
’’ہمیں اور کیا چا ہیے؟ وقت گزارنے کے لیے کوئی نہ کوئی مصروفیت تو ہونی چاہیے۔‘‘ ایک دل گرفتہ نوجوان بولا ’’یہ سلسلہ چلتا رہنا چاہیے تا کہ ہم مشین کے چلنے تک انتظار کی صعوبت سہہ کر بیزار نہ ہو جائیں۔ عجز و انکسار کا پیکر بن کر سر جھکا کر چلنے والوں کو زرافوں کے اس دور میں گردن میں سریا لگا کر اکڑ کر چلنے والوں کو دیکھنا چاہیے۔‘‘
بڑھیا نے عفونت زدہ بوسیدہ آنچل سے اپنی پر نم آ نکھی صاف کیں اور اپنے قحبہ خانے سے رُوٹھ کر چلی جانے والی ادھم بائی اور لال کنور کے خانوادے سے تعلق رکھنے والی طوائف مس بی جمالو کو قہر بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا:
’’محسن کش بروٹس کو دیکھ کر ہر سیزر اسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر جنگ کسی پیمان شکن عزیز سے ہو تو سیزر کو بلا تامل اپنی ہار کو تسلیم کر لینا چاہیے۔‘‘ بڑھیانے پروین شاکر کے یہ اشعار سنائے:

کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہیے
پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہیے

نشتر بہ دست شہر سے چارہ گری کی لو
اے زخمِ بے کسی تجھے بھر جانا چاہیے

ہر بار ایڑیوں پہ گِرا ہے مِرا لہو
مقتل میں اَب بہ طرزِ دِگر جانا چاہیے

کیا چل سکیں گے جِن کا فقط مسئلہ یہ ہے
جانے سے پہلے رختِ سفر جانا چاہیے

سارا جوار بھاٹا مِرے دِل میں ہے مگر
اِلزام یہ بھی چاند کے سر جانا چاہیے

جب بھی گئے عذابِ درو بام تھا وہی
آخر کو کتنی دیر سے گھر جانا چاہیے

تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے

ایک طرف سے آواز آئی ’’ہماری آہ و فغاں اور فاقہ مستی کو رنگ لانے کے لیے ایک طویل عرصہ چاہیے۔ ہمیں فراعنہ سے راحتوں اور مسرتوں کی بھیک نہیں چاہیے، محبت اور موت کے راز بھی عجیب ہیں ایک کو دِل چاہیے جب کہ دوسری کو دِل کی دھڑکن چاہیے۔‘‘ کچھ فاصلے پر سرکس کا مسخرا متفنی ایاز کھڑا بغلیں جھانک رہا تھا۔ اس موزی و مکار جیب تراش کو دیکھتے ہی ایک شخص نے کہا:
’’یہ تو شہر کا بدنام ٹھگ، لٹیرا، رہزن اور اُجرتی بد معاش ہے۔ اِس اُچکے کو یہاں سے بھگانا چاہیے۔ آستین میں چھپ کر وار کرنے والا یہ افعی تو کورونا سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک ہے۔ یہ ایسا بھیڑیا ہے جس نے بھیڑ کا لباس پہن رکھا ہے، اس درندے کا حقیقی چہرہ سب کے سامنے لانا چاہیے۔ نخلِ وجود کی بے ثبات جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے دیمک کو کچلنا چاہیے۔ اس مادر زاد منافق کو یہاں سے بہت دُور چلا جانا چاہئے‘‘
ایاز نے جب محفل کا بدلتا ہوا رنگ دیکھا اور حاضرین کے تیور دیکھے تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ اس کے جی میں آئی کہ اُسے بھی قسمت آزمانے کا موقع ملنا چاہیے۔ ایاز نے قفسو اور مصبو کو بے ضمیری کے سارے داؤ پیچ سکھا دئیے تھے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اس موقع پر کوئی مناسب حربہ آزمانا چاہیے۔ اُس نے لُنڈے بازار سے خریدا ہوا وہ جامہ پہن رکھا تھا جو واسکوڈے گاما کی نشانی تھا۔ اس نے اپنے بوسیدہ اور متعفن سوٹ کی جیبیں ٹٹولیں اور کاغذ کا ایک پرزہ نکال کر ہوا میں لہراتے ہوئے ہنہناتے ہوئے اپنی خار افشانیِ گفتار کے سلسلے کا آغاز کیا:
’’اس وقت سب بلائیں تمام ہو چکی ہیں اور ہم سب کو مرگِ نا گہانی کا انتظار کرنا چاہیے۔ مجھے بھگانے کے بجائے سب کو مِل کر کورونا وائرس کو اس دنیا سے بھگانا چاہیے۔‘‘ اب مجھے بھی اپنی پسند کی شاعری سنانے کا موقع ملنا چاہیے۔‘‘
اس مسخرے نے مجید امجد کی یہ غزل پڑھی۔
ہر وقت فکر مرگ غریبانہ چاہیے
صحت کا ایک پہلو مریضانہ چاہیے

دنیائے بے طریق میں جس سمت بھی چلو
رستے میں اِک سلام رفیقانہ چاہیے

آنکھوں میں اُمڈی روح کی نزدیکیوں کے ساتھ
ایسا بھی ایک دُور کا یارانہ چاہیے

کیا پستیوں کی ذلتیں کیا عظمتوں کے فوز
اپنے لیے عذاب جداگانہ چاہیے

روشن ترائیوں سے اُترتی ہوا میں آج
دو چار گام لغزش مستانہ چاہیے

امجدؔ اِن اَشک بار زمانوں کے واسطے
اِک ساعت بہار کا نذرانہ چاہیے

ایک تاجر بھی وہاں موجود تھا اسے یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ کورونا کی وبا پھیلنے کی وجہ ہر قسم کی پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے کے باعث تجارت کی غرض سے بڑے شہروں میں جانے سے قاصر ہے۔ اس نے کاروبار میں شدید مندے کے رجحان پر گہرے رنج و غم اور تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا:
’’کاروبار میں خسارے کا نیش اب ہم سے گوارا نہیں ہو سکتا، ہمارے دِلِ شکستہ کا حال بھی دیکھا چاہیے۔ اب تو ملک بھر میں ہر قسم کی ٹرانسپورٹ کو کھول دینا چاہیے۔ مِل مالکوں، تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کو لاک ڈاؤن سے جو بھاری نقصان ہوا ہے اس کی ہر صورت میں تلافی ہونی چاہیے۔ ان سب متاثرین کو فوری مالی امداد ملنی چاہیے۔ ہمارے قریۂ جاں کو وائرس کی وبا اور کورونا کے لاک ڈاؤن کی تمازت سے بچانا چاہیے۔ جو درد ہم نے کلیجے سے لگا رکھے ہیں ان کے لیے ہر چارہ گر کو مرہم بہ دست آنا چاہیے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں انسانی ہمدردی کے جذبات سے سرشار لوگ اب کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے اچھے لوگ مِل جائیں تو ہمیں چاہیے کہ اُن کے لیے دیدہ و دِل فرش راہ کر دیں۔ دنیا داری سے ہٹ کر اُن کی قدر کرنی چاہیے۔‘‘
میں اپنی اِس تاثراتی تحریر کو سمیٹنے کی فکر میں تھا کہ مرزا اسد اللہ خان غالب یاد آ گئے جنھوں نے کہا تھا:

چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھِر کیا چاہیے

صحبت رِنداں سے واجب ہے حذر
جائے مے اپنے کو کھینچا چاہیے

چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دِل
بارے اَب اِس سے بھی سمجھا چاہیے

چاک مت کر جیب بے ایام گُل
کُچھ اُدھر کا بھی اِشارہ چاہیے

دوستی کا پردہ ہے بیگانگی
منھ چھُپانا ہم سے چھوڑا چاہیے

دشمنی نے میری کھویا غیر کو
کِس قدر دشمن ہے دیکھا چاہیے

اپنی رسوائی میں کیا چلتی ہے سعی
یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے

منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید
نا اُمیدی اُس کی دیکھا چاہیے

غافل ان مہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے

چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسدؔ
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے

ابھی کئی ضروری باتیں باقی تھیں کہ اے ٹی ایم کے ٹھیک ہونے کی خبر ملی اور یوں ملاقاتیں ادھوری رہ گئیں۔ مس بی جمالو نے لپک کر اے ٹی ایم کا دروازہ کھولا اور اندر گھس گئی۔ اگلے ہی لمحے وہ باہر نکلی تو کھسیانی بلی کے مانند کھمبا نوچ رہی تھی اور غراتے ہوئے نائکہ قفسی سے کہا:
’’کورونا کوائرس کی وبا کے دنوں میں ہمیں پوری تیاری کے ساتھ گھر سے باہر نکلنا چاہیے۔ بنک آتے وقت اے ٹی ایم کارڈ کی موجودگی کی خوب جانچ پڑتال کر لینی چاہیے تھی۔ تمھیں چاہیے تھا کہ مجھے اے ٹی ایم کارڈ ساتھ لے جانے کی یاد دلاتیں آج میرے تھیلے سے اے ٹی ایم کارڈ ہی نہیں نکلا۔ آئندہ مجھے کبھی غافل اور غیر ذمہ دار ساتھیوں پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
قفسو نے جب مس بی جمالو کی کڑوی کسیلی باتیں سنیں تو وہ چکرا گئی اور پریشانی کے عالم میں وہاں موجود حاضرین سے مخاطب ہوئی:
’’اب ہمیں واپس اپنے ڈیرے پر پہنچنے کے بارے میں سوچنا چاہیے کیونکہ واپسی کا کرایہ بھی ہمارے پاس نہیں۔ آپ لوگوں کو دِل کھول کر ہماری مدد کرنی چا ہیے تم سب جانتے ہو کورونا کی اس وبا میں کرائے کے بغیر سر پر محض خیال یار کی چادر اوڑھ لینے سے کڑی دھوپ کا سفر پیدل نہیں کٹ سکتا۔‘‘
’’سب لوگوں کو بہت احتیاط کرنی چاہیے، یہ دونوں طوائفیں ایڈز اور کورونا وائرس سے متاثر ہیں اور موہنی وال کے قرنطینہ سے بھاگ نکلی ہیں۔‘‘ محکمہ صحت کے عملے کے ایک رکن نے کہا ’’انھیں چاہیے تھا کہ سیدھی اپنے گھر پہنچتیں مگر یہ صبح سے یہاں رو پوش ہیں۔ ہمیں چا ہیے تھا کہ حفاظتی انتظامات کر لیتے مگر جلدی میں ایسا نہ ہو سکا۔ تم دونوں کو چاہیے کہ سامنے کھڑی ایمبولنس میں خود جا کر بیٹھ جاؤ۔‘‘
یہ حکم سنتے ہی دونوں طوائفیں ایمبولنس کی طرف چلی گئیں۔ مس بی جمالو نے کہا: ’’ایڈز کے جان لیوا مرض کے بعد اب کورونا کا عذاب۔ اس طرح کی زندگی گزارنے کے بجائے ہمیں اب مر جانا چاہیے۔‘‘
قفسو نے آہ بھری اور مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے گلو گیر لہجے میں کہنے لگی: ’’یہ بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ اب ہمارا اِس دنیا سے بے نیلِ مرام جانا ٹھہر گیا ہے۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ ہمارے اعمال کی شامت کورونا کی صورت میں ہم پر مسلط ہو گئی ہے۔‘‘
ایمبولنس کے ڈرائیور نے اپنا منھ اور ناک لپیٹ کر کہا:
’’سب لوگوں کو کثرت سے استغفار کا وِرد کرنا چاہیے۔‘‘
ایمبولنس فراٹے بھرتی ہوئی موہنی وال میں واقع قرنطینہ مرکز کی طرف بڑھ رہی تھی۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے