اس ذات کریم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) نے اپنی 23 سالہ جد و جہد کے طویل دور میں ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ اے میری قوم کے لوگو تم متحد ہو جاؤ کیونکہ اتحاد ہی قوت ہے۔ یا یہ کہ اے میری قوم کے لوگو تم ٹولیوں، ٹکڑیوں اور قبیلوں میں بٹے رہنے کے بجائے اپنے اندر جذباتی ہم آہنگی پیدا کرو، قومیت کا شعور بیدار کرو اور ایک مضبوط قوم بن کر دنیا کی متمدن و ترقی یافتہ قوموں (ایران و روم) کی صف میں شامل ہو جاؤ۔ … بلکہ جو کچھ کہا وہ صرف یہ تھا … کہ تم سب آدم کی اولاد ہو۔
مولانا محمد فیاض قاسمی
ہندستانی مسلمانوں کے مابین اتحاد کیسے ممکن ہے
ماہنامہ دار العلوم، دیوبند، جولائی 2010، ص 33
محمد طارق غازی
لفظ کو نعرہ بنا دو تو اکثر وہ کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ اتحاد، ترقی، جذباتی ہم آہنگی، قومیت، سب بہت با معنی الفاظ تھے اور اپنی اصل میں اب بھی عزت مند الفاظ ہیں۔ مگر گزشتہ چند عشروں، بلکہ لگ بھگ ایک صدی سے یہ لفظ نہیں رہے، بے مغز لوگوں کی زبانوں پر مہمل نعرے بن گئے جن کا کوئی مطلب نہیں ہوتا اور نہ ان سے کوئی مطلب مراد ہوتا ہے۔ بس عام لوگوں کو باندھے رکھنے کے لئے ان کھونٹوں کا سہارا لیا جاتا رہتا ہے۔
سادہ لوح لوگ ڈھول کے پول پر ناچنے لگیں تو حیرت کی جا نہیں۔ مگر جب بڑے پڑھے لکھے لوگ بھی ان آوازوں پر تھرکنے لگیں تو قیامت کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔
دنیوی اعتبار سے دیکھا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بھی ایک قوم تھی اور وہ ان کی اپنی ہی قوم تھی۔ ان کے سامنے بھی ترقی، سیاسی قوت، عالمی سیادت، معاشی سرداری کی مثالیں موجود تھیں اور ان کے تماشے وہ اپنی کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے۔ انؐ جیسے منفرد ذہین شخص کے لئے اس صورت حال کا ویسا تجزیہ کرنا چنداں مشکل نہ تھا جیسا عام دانشور، مفکر، مصلح کرتے رہتے ہیں۔ مگر اللہ کے فرستادہ نبیؑ اور دنیوی عقل و تجربہ تک محدود دانشور، مفکر اور مصلح میں یہی فرق ہے . اور یہ فرق ان کے الفاظ اور اعلانات میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ نبیؑ کے پیش نظر ہنگامی مفادات نہیں، انسانیت کی دائمی فلاح کا منصوبہ ہوتا ہے۔ وہ نعروں کے بجائے زندگی کے حقائق پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔
قومی اتحاد، جذباتی ہم آہنگی، قومیت کے شعور کی بیداری وغیرہ سطحی مطالبات ہیں جن کے پیچھے نہ تو روحانی عقل ہوتی ہے اور نہ تاریخی شعور۔ یہ نعرے ہنگامی نوعیت کے عمرانی شعور کا نتیجہ ہو سکتے ہیں جو کسی بگڑی ہوئی حالت کو سنبھالنے کے لئے سیاسی لیڈر یا سماجی مصلح قسم کے لوگ لگاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس قسم کے سیاسی لیڈر یا سماجی مصلح نہیں تھے البتہ ان کی پشت پر ایک خاص نوع کی معاشرتی تاریخ تھی اور اس تاریخ کا کامل شعور تھا۔ یہ تاریخی شعور قرآن حکیم نے پیدا کیا تھا اور اس کی اہمیت پر ’ملت ابراہیم‘ کے عنوان سے بار بار توجہ دلائی جا رہی تھی۔ اس تاریخی شعور کی تفسیر خود رسولؐ اللہ کی زبان مبارک سے بھی بار بار بیان ہو رہی تھی۔
ملت ابراہیم اصل میں توحید اساس معاشرہ اور تہذیب و ثقافت کا نام تھا۔ دوسرے الفاظ میں انسانی اتحاد کا رمز قبائلی، قومی، جغرافیائی، نسلی جذباتی قومیت یا ہم آہنگی اور معاشرتی شعور نہیں تھا بلکہ ایک اللہ کی حکم برداری کے راستے سے انسانوں کو ایک مقصد عطا کرنا اور اس مقصد کے لئے ایک عالم انسانیت کے قیام تصور تھا۔ اس بات کو بہت، بہت ہی سادہ زبان میں عرض کیا جائے تو حاصل کلام یہ کہ اتحاد کسی بھی نوعیت کا ہو، ہنگامی اور وقتی ہو یا دائمی اور دور رس ہو، اس کی پہلی شرط نعرہ نہیں مقصد ہوتی ہے۔ میں نے اس بات کو اکثر اس طرح بیان کیا ہے کہ آپ دہلی سے آٹوا کا سفر کرنے والے ہیں اور آپ کا ایک دوست دہلی سے ٹوکیو جانے والا ہے، تو آپ دونوں کے درمیان اتحاد نہیں ہو سکتا کیونکہ دونوں کا مقصدِ سفر اور منزل مقصود مختلف ہے۔ البتہ جو لوگ ایک ہی طیارہ سے ٹوکیو جا رہے ہیں اور جو لوگ ایک ہی کے جہاز سے آٹوا آ رہے ہیں ان کے درمیان، اگر مشترکہ خواہش اور ہم آہنگ مقصد ہو، تو اتحاد قائم ہو سکتا ہے۔
قرآنی شعور کی اساس پر رسولؐ اللہ نے اس معاملہ میں ملت ابراہیم سے ایک مرحلہ اور آگے آ کر ساری دنیا کے انسانوں کو ایک بھولا ہوا نکتہ یاد دلایا: تم سب تو آدم کی اولاد ہو!
یعنی اتحاد کے معاملہ کو اور بھی سہل کر دیا، کہ ملت ابراہیم بجائے خود بنی آدم کا اتحاد کا ایک قابل عمل نمونہ تھی۔
معاشرتی سطح پر خالی خولی اتحاد سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ اتحاد کسی بھی نوعیت کا ہو، بے شمار نئی ذمہ داریوں کا بوجھ افراد کے کاندھوں پر رکھ دیتا ہے۔ اتحاد معاشرہ بناتا ہے اور معاشرہ فرائض اور حقوق کے تعین کا نام ہے۔ جب تک مشترکہ مقصد حیات کے ماتحت ان فرائض اور حقوق کی ادائیگی اور حفاظت ہوتی رہے گی، اتحاد برقرار رہے گا اور معاشرہ کی تہذیب و ترقی کی ضمانت ہو گا۔ مگر جب فرائض کے مقابلہ میں حقوق پر اصرار ہونے لگے گا تو معاشرہ میں فساد رونما ہو گا اور فرائض و حقوق دونوں کو نظر انداز کرنے والے گروہ ابھر کر آئیں گے اور اپنے معاشرہ میں اسی طرح لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر کے تباہی پھیلا دیں گے جس کی مثال درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ کر اسی شاخ کو آری سے کاٹنے والے فرد کے عمل سے دی جاتی ہے۔ یہ انحطاط، زوال اور بربادی کی سمت پہلا قدم ہوتا ہے۔ اگرچہ ساری قوم کا اتحاد لوٹ کھسوٹ پر ہو جاتا ہے۔
یہ نکتہ ذہن میں تازہ ہو جائے تو دانشوروں کے مسائل اور مدبروں کی مشکلیں بھی حل ہو جاتی ہیں۔ عام آدمی کے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتحاد کے نعروں کے باوجود انسانی گروہوں میں اتحاد کا فقدان کیوں نظر آتا ہے؟ امن کی چیخ پکار کے ساتھ جنگوں کی وحشت اور دہشت روز بروز کیوں بڑھ رہی ہے؟ معاشی خوشحالی کے وعدوں اور دعووں کے ساتھ دنیا میں غربت، نکبت اور افلاس میں روز افزوں اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے؟
ایک زمانہ میں برصغیر جنوبی ایشیا کے عوام و خواص کا مقصد حیات قومی آزادی تھا تو سارا برصغیر اس پر متحد ہو گیا۔ آزادی کی ہیئت کے معاملہ میں اختلاف رائے ایک فطری اور صحت مند عمل تھا لیکن مقصد ایک ہی تھا تو مسلمان شیخ الہند محمود الحسن، ہندو راجہ مہندر پرتاپ، پارسی داد بھائی نورو جی، اہنسا وادی گاندھی، نفرتوں کا نقیب ساورکر، کرچھا بردوش عنایت اللہ مشرقی، مسلم شناخت کے لئے فکر مند لیاقت علی خاں اور ہندتوا کا وکیل بال گنگا دھر تلک سب اس معاملہ میں ایک رائے تھے ان میں سے کسی کا عزم مکمل آزادی کے لئے تھا، کسی کے لئے داخلی خودمختاری اور سوراج سب کچھ تھا، کسی کے لئے انگریز کی سرپرستی ضروری تھی، کسی اور کے لئے انگریز کی منصفی ناقابل اعتماد تھی۔ مگر سب چاہتے تھے کہ ملک پر اس ملک کے باشندوں کا فکر حکومت کرے۔ معاشرتی اصطلاح میں اسی کو اتحاد کہا جاتا ہے۔ پھر دیکھا کہ جونہی آزادی حاصل ہوئی، یہ ساری مختلف قوتیں تتر بتر ہو گئیں اور اس خطۂ ارض میں فکر و عمل کا اتحاد مفقود ہو گیا۔ پھر بھی کچھ اہل فکر و عمل اس کشتی کو شیطانی سیاست کی طوفانی موجوں میں سنبھال کر لئے جا رہے ہیں، اگرچہ یہ اتحاد بہت مختصر اور منحنی ہے۔
ایک جملہ میں بات کریں تو اتحاد مقصد سے پیدا ہوتا ہے۔ مقصد جس قدر بڑا اور سچا اور دیر پاہو گا، اتحاد بھی اتنا ہی مضبوط ہو گا، مقصد جتنا بودا یا اس کی عمر جتنی کم ہو گی اتحاد بھی اتنی ہی جلد ختم ہو جائے گا۔
باقی رہے جذباتی ہم آہنگی اور قومیت کا شعور وغیرہ تو یہ اس متذکرہ اتحاد کے نتائج ہوتے ہیں، خود مقصد نہیں ہو سکتے۔ عملی دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا، وہ زیادہ سے زیادہ شاعری ہوتے ہیں کہ بات کو خوبصورت بنانے کے لئے ان فقروں کا سہارا لے لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولؐ اللہ نے کھوکھلے نعرے دینے کے بجائے انسانیت کو ایک عظیم، ابدی اور دائمی مقصد دیا۔ جن معاشرتی گروہوں نے اسے اپنا مقصد حیات بنایا انہوں نے اس دنیا کو شعور و فکر اور علم و عمل کی جنت بنا دیا تھا، جنہوں نے اس سے صرفِ نظر کیا ان کے معاشروں کا حال سب کی نظروں کے سامنے ہے۔
٭٭٭