زندگی سے چند دنوں کی فُرصت زبردستی چھین کر لینی پڑی ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں کتنی دنیائیں میری اس چھوٹی سی دنیا میں جمع ہوتی رہی تھیں ان کی دریافت دوستوں کا حق ہے اور میرا فرض اور شاید انہی بھول بھلیوں میں کہیں میں خود کو بھی کھوجنے کے قابل ہو سکوں۔
"تیلی بھر آگ”؟ نسیم نے انکساری سے کام لیا ورنہ اس کتاب میں اتنی آگ ہے کہ کئی زمینیں اور زمانے جلا کر راکھ کر دے اور پھر اپنے حساب سے از سرِ نو انہیں تعمیر کرے محبت کا وہ جادو بھی اس کتاب میں بند ہے۔
"تیلی بھر آگ” سے پہلے ادھر ادھر کی چند نظمیں یونہی چلتے پھرتے دیکھیں۔ ایک احساس ہوا کہ بہت سے نظم نگار یا شاعر کسی ایک زمانے کی نذر ہو جاتے ہیں اور انہیں اس کا ادراک بھی نہیں ہوتا۔ میں پہلے بھی کہیں لکھ چکی ہوں زمانے کے ساتھ شاعری کا رنگ بدلتا ہے (کلاسیک البتہ اس اصول سے مستثنی ہیں) لیکن اکثر شعراء اپنے اولین زمانوں میں ایک خاص سطح پر پہنچ کر وہاں سے ایک انچ سرکنے کو تیار نہیں ہوتے وہ لکھتے تو ہیں لیکن زمانہ حال سے آنکھیں بند کیے۔ نسیم سید کی نظمیں زمانہ حال کیا اس سے بھی آگے نکلتی نظر آتی ہیں۔ اُن کی نظر کی پہنچ دور تک ہے اور احساس جیسے مقناطیس کی طرح ادھر ادھر کے درد دبوچ کر اندر موجود گداز پر تازہ تہیں چڑھاتا رہتا ہے۔ نسیم شدید جذبوں کی شاعرہ ہیں۔ ذرا سی ناانصافی بھی ان کے دل میں تیر کی طرح ترازو ہو جاتی ہے اور جہاں وحشت و بربریت کی حد ہی نہ رہی ہو۔ ان کے روز و شب کیسے گزرتے ہوں گے؟۔ نسیم سید کو ہم محض تانیثیت کے دائرے میں بند نہیں کر سکتے ۔ حالانکہ اول اول کی نظم "جہیز میں کتاب تھی” اور "تیلی بھر آگ” میں شامل نظم "میں سو بار اس کا وظیفہ کروں” صرف یہ دو نظمیں ہی انہیں تانیثی ادب کی قطار میں سب سے آگے کھڑا کرنے کے لیے کافی ہیں:
"جہیز میں کتاب تھی
کتاب میں فرائض و حقوق_ زوجیت کے سب اصول تھے
نکتہ نکتہ بات تھی
بات تھی کہ اوٹنی کی پشت پر بھی حکم ہو
تو بس رضا و رغبت ہی میں
بیبیوں کی بخشش و نجات ہے
نہ میرا کوئی ذکر تھا
نہ میری کوئی بات تھی”
(نظم: جہیز میں کتاب تھی)
۔۔۔۔
"اور گھر اس کو دے
اس کے موجودہ گھر سے بڑا
جو گھر والے تھے ان سے بہتر عطا ہوں اسے اپنے گھر والے
اور اس سے بہتر عطا کر
اسے ایسی زوجہ جو بہتر ہو زوجہ سے اس کی
جو بہتر ہو زوجہ سے اس کی؟؟
میں سو بار اس کا وظیفہ کروں؟
خدایا!! تجھے تو خبر ہے
کہ چہرے کی ان جھریوں میں سبیکا کے
کن بیس سالوں کا ملبہ ہے
اور کیسے کیسے
عذابوں کے دکھ دفن ہیں
اس کے ملبہ میں”
(نظم: میں سو بار اس کا وظیفہ کروں)
سو میں یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ تانیثی ادب میں نسیم سید کا کام بہت اہم ہے لیکن میں انہیں ہر انسان ہر طبقے کی شاعرہ کہوں گی میں انہیں ہیومنسٹ کہنا زیادہ پسند کروں گی۔ بلکہ شاید اس سے بھی آگے اُن کا کینوس بہت وسیع ہے ۔ نظمیں ختم ہوتے ہوتے مجھے لگا جیسے وہ ایک اونچی چوٹی پر کھڑی ہیں اور اپنے چار جانب پھیلی پوری دنیا پر سہولت سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ دکھ دھرتی کے جس بھی کونے سے پھوٹے جھولی پھیلائے شکایت لگانے ان کے در پر خود آ جاتا ہے۔ جیسے جب یہ سو کر اٹھتی ہوں گی تو فریادیوں کی ایک لمبی قطار کا سامنا رہتا ہو گا۔۔ شاعر کے پاس دینے کو حرفوں کی تسلی سے زیادہ کیا ہو گا لیکن کہتے ہیں لفظ میں بڑی طاقت ہے یہ مرہم بھی ہے اور تلوار بھی تو ایک طرح ان کے لفظ پسے ہوؤں، کچلے ہوؤں کے لیے تسلی کا کام کرتے ہیں تو دوجی طرف اونچی کرسیوں پر بیٹھنے والوں کی روح تک جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ اگر نسیم سید چار چھ اور ہوتیں اور ہمارا معاشرہ بطور خاص بےحسی کے اعلی درجے پر فائز نہ ہوتا تو یہ نظمیں بہت سوں کو انصاف دلا جاتیں۔ اب وہ "تو پھر نجس دراوڑی” کے اچھوت لوگوں کے آنسو پونچھنے کی بات ہو یا "واشنگٹن کی کالی دیوار” کے نیچے بنیادوں میں مزدوروں کو گارے کیچڑ کے جیسے گاڑنے کی تکلیف، وہ "شربتی اور گلابی۔ گلابو” کو مونا لیزا کے مقابل کھڑا کر کے دولت مند طبقہ پر طنز ہو یا کمسن جنت کے لیے اُن کے کٹے ہوئے دل نکلی ہوئی ہُوک ہو نسیم سید کہیں نہ جھکتی ہیں نہ رکتی ہیں وہ سانس لیے بغیر، تھکے بغیر اپنی آواز بلند کرتی ہیں:
"اب بھی مجھ کو یاد ہے
وہ بوریا نشیں
مری کلاس کے
جو خود بھی
اک پھٹے ہوئے ٹاٹ ہی
کی حیثیت کے تھے
انہیں یہ حکم تھا
کہ یہ نجس سماعتیں ،گناہگار جسم
دینیات کی کلاس سے
نکل کے فاصلے سے اس طرح
کھڑے رہیں
کہ روح میں گھل رہا تلاوتوں کا لحن
ان کے کان میں نہ جا سکے”
(نظم: تو پھر نجس دراوڑی؟)
۔۔۔۔۔
"اپنی فیروز بختی پہ نازاں
سیہ پوش دیوار پر
آبِ زر سے لکھے نام
پڑھتے ہوئے
میری آنکھیں پھسلتی ہوئی
نیہہ پر جا گریں
الغِیاث! الاَماں!۔
ایک بستی کے جسموں کا گارا
سیہ ماتمی مرمروں کے تلے
اس کی بنیاد کا رزق تھے
(نظم: واشنگٹن کی کالی دیوار)
۔۔۔
"تو پھر ۔ مونا لیزا؟
۔۔۔
۔۔
اگر ایک دن اپنی تصویر سے زندہ ہو کے نکل آئے
اور چھوٹی بی بی کا اُترن پہن لے
یہ جھاڑن مرا اور گلابی کا ہاتھوں میں تھامے
تو کیا پھر کسی کو نظر آئے گی؟
(نظم: شربتی اور گلابی۔ گلابو)
نسیم سید ایک طرف ان سب زندہ کرداروں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں جو اپنے ساتھ ہوتے ظلم و ستم کو دیکھتے ہیں مگر اپنی آواز کہیں نہیں پہنچا پاتے۔ دوسری طرف وہ ان آوازوں کو اپنی آواز بنانے کے اپنے اس مشن کی راہ میں حامل صاحب اختیار لوگوں کو چیلنج کرتی ہیں:
"سب تمہارے بس میں ہے
ہم جانتے ہیں ،مانتے ہیں
سب تمہارے بس میں ہے
لیکن۔۔۔
ہماری سوچ پر تالا لگاتے اور
اپنی چابیوں کے بھاری گچھے میں
یہ چابی ڈال کے
مٹھی دبا لیتے
کہیں تہہ میں سمندر کی اچھال آ تے
تمہارے بس میں یہ کب ہے؟؟”
(نظم: تمہارے بس میں یہ کب ہے)
اور صاحب اختیار و اقتدار ایک طرف، خدا کو مخاطب کرنے سے بھی کہاں چُوکتی ہیں:
"خدا گر وہ ہے
جو تم کہہ رہے ہو
ہے
تو پھر اس کو
دعاؤں کے قبول و رد کی فرصت ہی کہا ں ہو گی؟
وہ۔۔۔۔۔۔
انسانوں کے مقتل میں
دو زانو ہچکیوں سے رو رہا ہو گا
وہ۔۔۔۔۔
ملبے میں دبی معصوم چیخیں
انگلیوں سے کھودتا ہو گا
وہ۔۔۔۔۔۔۔۔
لاشیں ڈھو رہا ہو گا
(نظم: خدا گر وہ ہے)
نسیم سید کے ہاں موضوعات کی کمی ہے نہ خیال کی رَو کہیں ٹوٹتی ہے۔ "سرمدی آگ تھی” میں وہ تخلیق کے عمل کو ایسی باریکی سے بیان کرتی ہیں کہ نظم کے اختتام پر یوں لگتا ہے جیسے کسی نے اچانک نیند سے جگا دیا ہو۔
نسیم کے ہاں محبت کا جذبہ بھی بےحد بھرپور ہے۔ البتہ اس کی سطح بہت بلند ہے یہ جسم اور روح کو ملا کر جنم لینے والی محبت ہے جس تک کسی کسی کی رسائی ہی ممکن ہو پاتی ہے:
"لیکن۔۔۔
ایسا ہوتا پے
سارے جنتر منتر
ریت رواجوں کے
سب تاکیدیں
بس منہ تکتے رہ جاتے ہیں
اور
روحوں کے
تانے بانے
دھڑکن دھڑکن
ایسی بنت بناتے ہیں
دو سانسوں کو جوڑ کے
کوئی ایسی گرہ
لگاتے ہیں
وہ رشتہ بن جاتے ہیں”
(نظم: لیکن ایسا ہوتا ہے)
کتاب کیا ہے ونڈر لینڈ ہے جذبات و احساسات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔ ہمارے ارد گرد بکھری زندگی کے دھڑکتے ٹکڑے ہیں۔ یہ نسیم ہی کی نہیں ہم سب کی کتاب بھی ہے اور اُن کی بھی جو ورق ورق آنسوؤں کے ساتھ رقم ہیں۔ ایسے جذبے رکھنے والا دل سلامت رہے اور ایسی نظمیں لکھنے والی شاعرہ کو مجھ ایسے کتنوں کی عمر لگ جائے۔۔
٭٭٭