زینب نے آٹا گوندھ کر رکھا۔ صحن کے ایک کونے میں چار فٹ کی کچی دیواروں کے مختصر احاطے میں بنے مٹی کے چولہے میں اُپلے توڑ کر رکھے۔ ان کے بیچ میں چند سوکھے تنکے رکھ کر آگ لگائی تو اُپلوں میں سے دھُواں اٹھ کر پہلے زینب کی سانسوں میں سمایا اور پھر چولہے کے سامنے بچھی چارپائی پر بیٹھے چار بھوکے بچوں کے لیے امید اور مسرت بن کر پورے گھر میں پھیل گیا۔ زینب نے چولہے پر مٹی کی ہانڈی چڑھائی اور اس میں دال گلنے کے لیے ڈال دی۔ پیڑھی پر بیٹھی زینب نے اپنے گھنے سیاہ بال کھلے چھوڑ رکھے تھے۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں گول کتابی چہرہ سونے جیسی رنگت اور کسا ہوا جسم کسی راہ گیر کی راہ کھوٹی کرنے کے لیے کافی تھا۔ لگتا تھا کہ ایک چوہدرائن سارا دن آرام کرنے کے بعد شام کو کسل مندی دُور کر رہی ہے۔
جبکہ زینب نے پچھلے دو دنوں سے بستر کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ یہ تو اوپر والے کی دین تھی جو جھونپڑے میں بھی لعل پیدا کر سکتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ ایسے کئی لعل گدڑیوں میں گل سڑ جاتے ہیں۔ گرمی اور حبس سے زینب کا لباس اس کے جسم سے چپکا جا رہا تھا۔ اس لباس میں شامل میل اور کیچڑ زینب کو چبھ رہا تھا۔ ساون بھادوں کے اس گرم اور حبس زدہ موسم میں پسینہ سوکھنے میں نہیں آتا تھا۔ حالانکہ کئی دن سے مسلسل مینہ برس رہا تھا۔ ہر طرف جل تھل کا سماں تھا۔ نہروں اور نالوں سے پانی اُبل اُبل کر کھیتوں اور کھلیانوں میں بھر گیا تھا۔ جن کھیتوں میں فصل نہیں تھی وہ تالاب کی طرح نظر آ رہے تھے۔ مکئی اور باجرے کی فصلیں بھی گھٹنے گھٹنے تک پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
زینب کا گھر بھی انہی کھیتوں میں تھا۔ اس کے تنہا اور کچے گھر کے اردگرد بھی پانی ہی پانی تھا۔ ابھی تک تو زینب نے پانی گھر میں گھسنے نہیں دیا تھا۔ اگر سیلاب یوں ہی بڑھتا رہا یا زینب کی ہمت ختم ہو گئی تو یہ پانی کسی بھی لمحے اس اکیلے گھر کی کچی دیواروں میں راستہ بنا سکتا تھا۔ اسی خدشے کے پیش نظر زینب نے گذشتہ دو راتیں جاگ کر گزاری تھیں۔ دن میں بھی وہ گھر کے اردگرد زیادہ سے زیادہ مٹی جمع کر کے پشتہ بنانے کی کوشش کر تی رہی۔ اس کا بڑا بیٹا دس سالہ نور علی بھی اس کا ہاتھ بٹاتا رہا۔ انہوں نے کسی حد تک پانی کو گھر کی دیواروں سے دور کر دیا تھا۔ لیکن کھیتوں میں پانی کی بڑھتی ہوئی سطح زینب کو ہولائے دے رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ کسی بھی وقت پانی کا یہ زور اس کے کچے گھروندے کو گرا کر بہا لے جا سکتا ہے۔
پچھلے دو دن اور دو راتوں سے تقریباً مسلسل بارش لگی ہو رہی تھی۔ یہ بارش دور دور تک ہو رہی تھی۔ اس لیے نالوں میں طغیانی آئی ہوئی تھی۔ دو دن اور دو راتوں سے زینب اس آفت کا تن تنہا مقابلہ کر رہی تھی۔ گھر میں زینب کے علاوہ اس کے چار بچے، ایک گائے اور ایک بکری بھی تھی۔ وہ بھی بے بسی سے زینب کو دیکھتے رہتے تھے۔ سب سے چھوٹا بیٹا شوکت علی صرف ڈیڑھ سال کا تھا۔ آٹھ سالہ نسرین اپنی بھوک کو بھول کر بھائی کو سنبھالنے کی کوشش کرتی رہتی۔
دال بن گئی تو زینب روٹیاں پکانے لگی روٹی پکاتے ہوئے زینب کا دھیان آنے والی رات میں بڑھتے ہوئے سیلاب سے گھر کو بچانے کی ممکنہ تدبیروں پر مرکوز تھا۔ سیلاب کے علاوہ دوسرے کئی گھمبیر مسائل بھی اُسے درپیش تھے۔ گھر میں آٹا نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ اُدھر گاؤں جانے کے راستے زیرِ آب آ چکے تھے۔ راستے ہوتے بھی تو اس کے پاس کچھ نہیں تھا جسے دے کر آٹا خرید سکے۔ برسات کی وجہ سے کافی دنوں سے بھٹے کی مزدوری بھی نہیں ہو پائی تھی۔ خریف کی فصل تیار ہونے میں ابھی کافی وقت تھا۔ یہ تھوڑی سی فصل بھی زینب کو گاؤں کے رحمدل چوہدری کی وجہ سے اُگانے کا موقع مل گیا۔ چوہدری نے ترس کھا کر زینب کو دو ایکڑ زمین بوائی کے لیے دے رکھی تھی۔ زمین کا یہ ٹکڑا اگرچہ کلر زدہ تھا لیکن زینب نے اپنی جفا کشی سے اسے قابل کاشت بنا دیا تھا۔ اس سے بمشکل ہی سہی، بچوں کے پیٹ پالنے کا کچھ سامان میسر آ گیا تھا۔ زمین کے اسی دور افتادہ ٹکڑے پر زینب کا گھر بھی تھا۔ یہ کچا کوٹھا پہلے زمیندار کے کسی مزارعے کا ڈیرہ تھا جس میں وہ جاڑوں کی ٹھنڈ میں بھینسیں باندھا کرتا تھا۔ زینب نے لیپ پوت کر اسے اپنا اور بچوں کا سر چھپانے کا ٹھکانہ بنا لیا تھا۔ یہ کچا کوٹھا اس طرح کے سیلاب اور سردی کی شدید لہر کو روکنے کے لیے کافی نہ تھا۔ جاڑوں میں تو پھر بھی ٹھٹھرتے ٹھٹھرتے رات گزر ہی جاتی تھی لیکن سیلاب کی اس ناگہانی آفت کے آگے بند باندھنا بہت مشکل تھا۔ اور یہ مشکل کام زینب پچھلے تین دنوں اور دو راتوں سے مسلسل تن تنہا سرانجام دے رہی تھیں۔ نزدیکی گاؤں اگرچہ صرف دو میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ لیکن زینب کو امید نہیں تھی کہ کوئی ان کی مدد کو آئے گا۔ ایک تو سیلابی پانی نے راستے تقریباً بند کر دیے تھے دوسرا یہ کہ زینب اور اس کے بچوں کی فکر کرنے والا وہاں کوئی تھا بھی نہیں۔
حالانکہ اسی گاؤں میں زینب کے بچوں کے دو چچا اپنے پکے مکان میں خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے۔ اسی پکے مکان میں زینب بیاہ کر آئی تھی۔ اسی مکان میں سلطان علی نے زینب کو ملکہ بنا کر رکھا۔ اسی میں زینب کے یہ چار بچے پیدا ہوئے اور آج اسی گھر سے زینب کا تعلق ختم کر دیا گیا تھا۔ زینب کی پیدائش ضلع سرگودھا کے اس دورافتادہ گاؤں سے سینکڑوں میل دور بہاولپور کے علاقے میں ہوئی تھی۔ بچپن میں ہی ماں داغ مفارقت دے گئی۔ باپ نے اسے اور اس کی بہن کو غربت کے باوجود نازوں سے پالا۔ لیکن دس سال قبل وہ بھی ٹی بی کا شکار ہو کر چل بسا۔ یہ تو شکر ہے کہ جانے سے قبل اس نے زینب اور اس کی بہن کی شادیاں کر دی تھیں۔ زینب بیاہ کر سرگودھا چلی آئی اور اس کی بہن وہیں ایک غریب کاشت کار کی بیوی بن کر زندگی کے شب و روز بسر کرنے لگی۔ دونوں بہنوں کے پاس وسائل کی کمی تھی۔ اسی وجہ سے ان کی برسوں تک ملاقات نہ ہو پاتی۔
بچوں نے کھانا کھایا ہی تھا کہ بارش پھر شروع ہو گئی۔ اس وقت تک اندھیرا بھی پھیل گیا تھا۔ زینب بچوں کو کمرے کے اندر لے گئی۔ لالٹین جلانے لگی تو یاد آیا کہ تیل تو کل کا ختم ہو چکا ہے۔ ناچار وہ مٹی کا چولہا ہی اندر لے آئی تاکہ اُپلوں کی جلتی آنکھ سے اندر کا اندھیرا کچھ کم ہو سکے۔ گھر کی کچی چھت جگہ جگہ سے ٹپک رہی تھی۔ زینب نے دونوں چارپائیاں اس کونے میں ڈال لیں جہاں چھت کم ٹپکتی تھی۔ بچوں کو لٹا کر اس نے گائے اور بکری کو کچھ سوکھا چارہ ڈالا۔ یہ گائے اور بکری بھی اسی کمرے میں ایک طرف بندھے ہوئے تھے۔
ادھر سے فارغ ہونے کے بعد زینب سے کدال اور بیلچہ اٹھایا۔ باہر نکلنے لگی تو نور علی نے کہا ’’ماں تم دو دنوں سے نہیں سوئی! تم سو جاؤ میں جاگ کر دیکھتا رہوں گا کہ پانی ہمارے گھر میں تو داخل نہیں ہو رہا۔‘‘
اُپلوں کی ہلکی سی مدھم روشنی میں زینب نے اپنے بیٹے کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھا لیکن وہ بولی تو اس کا لہجہ درشت تھا ’’ تم بہن بھائیوں کا خیال رکھو اور انہیں سلانے کی کوشش کرو۔‘‘
’’لیکن ماں …..‘‘ نور علی نے کچھ کہنا چاہا۔
زینب نے اسے ٹوک دیا ’’تم نے سنا نہیں! میں نے کیا کہا ہے! چپ کر کے سو جاؤ۔ مجھے نیند نہیں آ رہی۔ اگر نیند آئی تو میں تھوڑی دیر آرام کر لوں گی۔‘‘ نور علی چپ ہو گیا۔
باقی بچے بھی خاموش تھے۔ اس عمر میں بھی وہ جانتے تھے کہ ماں ان سب کی زندگیاں بچانے کی جنگ میں مصروف ہے۔ زینب نے باہر کا چکر لگا کر دیکھا کہ پانی گھر کی دیواروں سے تو نہیں ٹکرا رہا۔ اس کے بعد وہ مغربی جانب والے کھیت میں داخل ہو گئی۔ اس طرف سے پانی کے بڑھنے کا اندیشہ زیادہ تھا۔ گھٹنوں گھٹنوں پانی میں جا کر وہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی تھی کہ پانی کی سطح میں اضافہ تو نہیں ہو رہا ہے۔ سطح تقریباً اتنی ہی تھی جتنی آج سارا دن رہی۔ وہ اندر آئی تو چھوٹا بیٹا شوکت علی رو رہا تھا۔ ننھی نسرین اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ اتنا چھوٹا تھا کہ اسے ماں کی مصیبتوں کا اندازہ نہیں تھا۔ زینب جب بچے کو دودھ پلا کر سلانے کی کوشش کر رہی تھی تو اس نے محسوس کیا کہ سارے بچے جاگ رہے ہیں لیکن خاموش ہیں۔ آج تقریباً سارا دن ہی بچے بھوکے رہے تھے۔ لیکن کسی کی زبان پر حرفِ احتجاج نہیں آیا۔ زینب کا دل بھر آیا لیکن وہ خاموش رہی۔
شوکت کو سلا کر زینب وہیں بچوں کی پائنتی بیٹھی رہی۔ بجھتے ہوئے چولہے میں اس نے چند اور اپلے ڈال دیئے کیونکہ اب خُنکی بڑھ گئی تھی۔ کمرہ دھوئیں سے بھر گیا۔ گائے اور بکری کے پیشاب کی بُو، دیواروں اور چھت سے آنے والی سیلا بی پانی کی بُو، اُپلوں کے جلنے کی بو اور گیلے بستر کی بُو سے کمرہ عجیب و غریب بوؤں کا مرکز بن گیا تھا۔ لیکن ان بوؤں کی فکر کسے تھی۔ یہاں تو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ زینب کو بچوں کی زندگی کی فکر تھی اور بچوں کو ماں کی مصیبتوں کا بخوبی اندازہ تھا۔
زینب نے اپنی زندگی میں خوش حالی کم ہی دیکھی تھی۔ پھر بھی وہ مطمئن زندگی گزار رہی تھی۔ اس زندگی میں بھونچال اس وقت آیا جب اس کا خاوند سلطان علی ٹریکٹر کے ایک حادثے میں اچانک جاں بحق ہو گیا۔ سلطان علی اور اس کے دو بھائیوں کی دس ایکڑ زمین تھی۔ کچھ اس کی آمدنی تھی اور کچھ انہوں نے چوہدری کی زمین پٹے پر لی ہوئی تھی۔ تینوں بھائی مل کر محنت کرتے تھے۔ ان کے بیوی بچے بھی ان کا ساتھ دیتے تھے۔ اس طرح ان کا با آسانی گزارہ ہو جاتا تھا۔ سلطان علی اپنے بھائیوں سے بھی زیادہ محنتی تھا۔ وہ فالتو وقت میں چوہدری کے بھٹے پر مزدوری کر کے اضافی آمدنی بھی حاصل کر لیتا تھا۔ وہ اپنے بیوی بچوں سے بہت محبت کرتا تھا۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ اس کے بچے پڑھ لکھ کر اچھے اور خوشحال شہری بنیں۔ اسی وجہ سے اس نے بڑے بیٹے اور بیٹی کو گاؤں کے سکول میں داخل کروا دیا تھا۔ سلطان علی اور زینب کے خواب کچھ اور تھے مگر تقدیر کی منصوبہ بندی کچھ اور تھی۔
سلطان علی کی وفات کے بعد وقت کچھ اتنی تیزی سے بدلا کہ زینب کو سنبھلنے کا بھی موقع نہیں ملا۔ زینب کے دیوروں کی آنکھیں بدل گئیں۔ ان کی بیویوں کی زبانیں کھل گئیں اور ان کے بچوں کے ہاتھ زینب کے بچوں پر ستم آزمائی کے لئے آزاد ہو گئے۔ ابھی سلطان علی کو مرے تین ماہ بھی نہیں ہوئے کہ زینب کا ایک دیور رات کے اندھیرے میں زینب کے بستر میں گھس آیا۔ زینب نے اسے دو تھپڑ لگائے اور شور مچا دیا۔ دیور نے اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے الٹا زینب پر الزام لگا دیا۔ بڑے بھائی نے مرے ہوئے بھائی کی بیوہ کی بجائے زندہ بھائی کی حمایت کر دی۔ زینب کی بپتا سننے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ اس واقعے کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی کہ سلطان علی کے دوسرے بھائی نے زینب سے نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کر دی۔ زینب کے سخت جواب پر اس نے بھی اپنے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زینب پر بد چلنی کا الزام لگا دیا۔
دیوروں نے گھر سے نکالا تو زینب کے پاس اپنے اور بچوں کے سر چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ تو بھلا ہو گاؤں کے چوہدری کا، جس نے ترس کھا کر اپنی زمینوں پر ایک متروکہ ڈیرے پر اُسے رہنے کی اجازت دے دی۔ یہ کچا کوٹھا اگرچہ مویشیوں کے لیے بنایا گیا تھا لیکن زینب کے لیے یہ بھی غنیمت تھا۔ اس نے بلا تردّد چوہدری کی یہ پیش کش قبول کر لی اور بچوں کا ہاتھ پکڑ کر اس ویرانے میں چلی آئی۔
ڈیڑھ سال اس طرح گزرا جیسے ایک عمر گزرتی ہے۔ زینب بچوں کے سر پر سائباں بن گئی۔ لیکن اس کا اپنا سر زمانے کی کڑی دھوپ میں ننگا تھا کہ اس معاشرے میں یہ سائبان صرف مرد ہی مہیا کر سکتا ہے۔ ایک تنہا اور بے آسرا عورت کے لیے گاؤں کے کئی مرد سہارا بن کر آگے بڑھے۔ وہ یہ کام سائبان بننے کے لیے نہیں بلکہ وہ زینب کی اکلوتی پونجی، اس کی عزت کی چادر اتارنے کے درپے تھے۔ ان سب کی سوچ بھی وہی تھی جو زینب کے دیوروں کی تھی۔ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ تنہا اور غریب عورت کیونکر اور کتنی مزاحمت کرے گی۔ لیکن ایک ایک کو منہ کی کھانی پڑی۔ ان میں مزارعے بھی تھے اور گاؤں کے کئی زمیندار اور ان کے حواری بھی شامل تھے۔ کئی کی گالیوں سے تواضع ہوئی اور کئی تھپڑوں سے نوازے گئے۔ اس دوڑ میں خود اس چوہدری کا بیٹا بھی شامل ہو گیا جس کی زمینوں میں زینب رہ رہی تھی۔
چوہدری منیر علی جب زینب کے ڈیرے پر گیا تو اس کی مونچھیں پھڑک رہی تھیں۔ چہرہ جوانی کی سرخی میں رنگین تھا۔ زینب نے چوہدری کا بیٹا دیکھ کر اس کی حسب توفیق آؤ بھگت کی۔ چوہدری منیر سمجھ رہا تھا کہ اس کی جوانی، دولت اور زینب کی بے بسی اور محتاجی گوہر مقصود کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دیں گے۔ زینب نے جب اسے لسی کا گلاس پکڑایا تو اس نے زینب کا ہاتھ پکڑ لیا۔ زینب نے گھبرائے بغیر کہا ’’چوہدری میرا ہاتھ چھوڑ دے۔‘‘
’’میرا نام چوہدری منیر علی ہے زینبے! میں جس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہوں چھوڑتا نہیں ہوں‘‘
زینب نے پھر کہا ’’چوہدری میں کہہ رہی ہوں میرا ہاتھ چھوڑ دے اور یہاں سے چلا جا‘‘
چوہدری منیر نے زینب کا ہاتھ چھوڑنے کی بجائے اور مضبوطی سے پکڑ لیا اور اٹھ کر اسے کمرے کی طرف کھینچنے کی کوشش کرنے لگا۔ یکایک زینب کا الٹا ہاتھ چوہدری منیر کے گال پر نقشہ بنا گیا۔ چوہدری منیر نے صدمے اور تکلیف سے گھبرا کر ہاتھ چھوڑ دیا۔ وہ غصے میں زینب کی طرف بڑھا۔ اس وقت تک زینب کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا آ چکا تھا۔ دوسرے ہی لمحے یہ ڈنڈا چوہدری منیر کے کاندھوں پر ایسے برسا جیسے بم برستا ہے۔ چوہدری منیر گھبرا کر پیچھے ہٹا تو دوسرا ڈنڈا اس کی ٹانگوں پر نشان بنا گیا۔ اب تو چوہدری منیر جان بچانے کے لئے اُلٹا بھاگا لیکن زینب نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ وہ اسے مارتی اور بھگاتی گاؤں تک لے گئی۔ کھیتوں میں کام کرنے والے مرد اور عورتیں کام چھوڑ کر یہ انوکھا تماشا دیکھ رہے تھے۔ زمینداروں کے ہاتھوں مزارعوں کی پٹائی کا منظر تو وہ اکثر دیکھتے رہتے تھے لیکن آج الٹی گنگا بہہ رہی تھی۔ آج ایک مزارع عورت اپنے زمیندار کے نوجوان بیٹے کی ڈنڈوں سے تواضع کر رہی تھی اور وہ بھی دن دیہاڑے سب کے سامنے!
یہ منظر اتنا انوکھا تھا کہ وہ انگشت بدنداں ہو کر محوِ تماشا رہے اور کسی نے آگے بڑھ کر زینب کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ چوہدری منیر مار کھاتا ہوا آگے آگے تھا۔ زینب اس کی پٹائی کرتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ اور گاؤں کے لوگ ان کے پیچھے پیچھے تماشا دیکھتے چلے آ رہے تھے۔ نہ جانے کسی نے بڑے چوہدری کو خبر کر دی تھی یا وہ خود ہی گاؤں سے باہر آ رہا تھا۔ چوہدری نے اپنی آنکھوں سے یہ انوکھا تماشا دیکھا۔ اس کا جوان بیٹا جسے دیکھ کر مزارعے تھر تھر کانپنے لگتے تھے، آج ایک مزارع عورت کے ہاتھوں بے دردی سے پیٹا جا رہا تھا۔ باپ کو دیکھ کر چوہدری منیر دوڑ کر اس کے قدموں میں جا گرا۔ اس کا لباس جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا اس کا بدن بھی کئی جگہوں سے لہولہان تھا۔ اس کا خون اس کے اُجلے براق لباس پر چمکتا نظر آ رہا تھا۔ چوہدری کو دیکھ کر پہلی دفعہ زینب کا ہاتھ رکا، لیکن اس کی آنکھوں سے شعلے رواں تھے۔ اس نے پھنکار کر کہا ’’چوہدری صاحب سنبھالیے اپنے بیٹے کو! اس نے آج میری عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے اگر یہی کام کرنا ہوتا تو اپنا گھر کیوں چھوڑتی۔ اگر تم نے مجھے اسی لیے یہاں رہنے کی جگہ دی تھی تو مجھے یہ ہرگز گوارا نہیں۔ میں آج ہی تمہارا یہ ڈیرہ چھوڑ دوں گی۔‘‘
چوہدری بیٹے کی دگرگوں حالت کو نظر انداز کر کے آگے بڑھا، اپنے کاندھے پر رکھی چادر زینب کے ننگے سر پر ڈالی اور بولا ’’تم نے جو کچھ اس کے ساتھ کیا ہے، بالکل درست ہے۔ تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ آج کے بعد چوہدری منیر سمیت گاؤں کے کسی بھی مرد نے تمہاری طرف میلی نظر سے دیکھا تو اس کی آنکھیں میں نکالوں گا‘‘
بڑا چوہدری اگرچہ خدا ترس اور رحمدل انسان تھا لیکن پورے گاؤں کو یہ توقع نہیں تھی کہ ایک معمولی مزارع عورت کے لیے وہ اپنے بیٹے کی اتنی بے عزتی برداشت کر لے گا۔ مگر ان سب کی توقع کے برعکس چوہدری نے بیٹے کی طرف داری کرنے کے بجائے اسے قصور وار قرار دیا اور زینب کو شاباش دے کر واپس بھیج دیا۔
اس دن کے بعد گاؤں کے مردوں نے زینب کا پیچھا چھوڑ دیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے زینب کے ساتھ ہر طرح کا تعلق بھی ختم کر دیا۔ در اصل لوگ زینب کے دیوروں اور چوہدری منیر سے ڈرتے تھے۔ ان میں سے بہت سوں کو زینب نے سبق بھی سکھایا تھا۔ زینب بالکل اکیلی ہو گئی۔ لیکن ڈرنے اور گھبرانے کی بجائے وہ بچوں کے لیے محنت مزدوری میں مصروف ہو گئی۔ گاؤں کی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں میں ہر کام کرتی تھیں لیکن ہل چلانا صرف مردوں کا کام تھا۔ کبھی کوئی عورت ہل نہیں چلاتی تھی۔ یہ گاؤں کے رسم و رواج کے خلاف تھا۔ لیکن زینب کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس کا حل اس نے یہ نکالا کہ دن کے اجالے کی بجائے رات کے اندھیرے میں ہل چلاتی تھی۔
دو ایکڑ زمین سے جو کچھ حاصل ہوتا آدھا زمیندار کو دیتی اور آدھے سے گزارا کرنے کی کوشش کرتی۔ یہ ان کے لیے کافی نہیں تھا۔ زینب نے بھٹے پر مزدوری شروع کر دی۔ اس طرح اس کا گزارہ نسبتاً آسانی سے ہونے لگا۔
لیکن جتنی دیر تک وہ مزدوری پر ہوتی اس کے بچے بھوکے اس کا انتظار کرتے رہتے۔ زینب کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا۔ وقت جیسے تیسے گزر ہی رہا تھا کہ سیلاب کی یہ
مصیبت زینب کے لیے ایک بہت بڑا امتحان بن کر سامنے آ گئی۔
ایک ہفتے سے مسلسل بارشیں جاری تھیں۔ ہر جانب پانی ہی پانی تھا۔ کھیت تالاب بن گئے تھے اور راستے ندی نالے کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ پہلے چند دن تو زینب ٹپکتی چھت کی وجہ سے پریشان تھی لیکن پچھلے تین دن سے سیلابی پانی اس کے کچے گھروندے کو ڈھانے کے درپے تھا۔ اگر یہ گر جاتا تو زینب اور اس کے بچوں کا بچنا محال تھا۔ اگر بچ بھی جاتے تو بغیر چھت کے کہاں رہتے۔
اسی لیے زینب مسلسل تین دن سے اس سیلاب سے لڑ رہی تھی۔ کبھی گھر کے ایک طرف پشتہ بنانے کی کوشش کرتی اور کبھی دوسری طرف پانی کو کسی اور جانب دھکیلنے کے لیے نالیاں بنانے لگتی۔ کبھی چھت پر مٹی ڈال کر ٹپکنا کم کرنے کی سعی کرتی اور کبھی اپنے مختصر اثاثے کو خشک جگہ پر منتقل کرنے میں مصروف ہو جاتی۔ آج دن میں بارش کم ہوئی تھی۔ زینب کو اُمید لگ گئی کہ شاید سیلاب کم ہونا شروع ہو جائے۔ لیکن رات ہوتے ہی بارش پھر اسی زور و شور سے شروع ہو گئی تھی۔
زینب سوئے ہوئے بچوں کی پائنتی بیٹھی انہیں سوچوں میں غرق تھی۔ نیند، تھکاوٹ اور حبس سے اس کا جسم بے حال ہوا جا رہا تھا لیکن ابھی یہ جنگ ختم نہیں ہوئی تھی۔ آدھی رات کے گھپ اندھیرے اور تیز بارش میں وہ پھر کمر ہمت باندھ کر باہر نکل آ ئی۔ مغربی دیوار کے ساتھ پانی زینب کے بنائے ہوئے پشتے کو توڑ چکا تھا اور کچی دیوار کے ساتھ ٹکرا رہا تھا۔ زینب نے بیلچے سے وہاں مٹی ڈالنی شروع کر دی۔ گھر میں چند پتھر تھے۔ زینب نے وہ بھی شگاف میں ڈالے۔ اس طرح عارضی طور پر یہ خطرہ ٹل گیا۔ یہ سلسلہ صبح تک جاری رہا۔ سیلابی پانی کبھی گھر کی ایک دیوار میں راستے بنانے کی کوشش کرنے لگتا جب یہ راستہ بند ہوتا تو دوسری طرف یہ عمل جاری ہو جاتا۔
پو پھٹنے سے پہلے بارش رک گئی اس وقت تک زینب اتنی تھک چکی تھی کہ کسی بھی وقت گر کر بے ہوش ہو سکتی تھی۔ لیکن وہ اگلے دو گھنٹے گھر کے اردگرد گھوم کر اس کی رکھوالی کرتی رہی۔ اس دوران پانی کا زور کافی کم ہو گیا۔ دس بجے کے لگ بھگ چوہدری کا نوکر گھوڑا لے کر ادھر آ نکلا۔ گھوڑا گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ڈوبا بمشکل لیکن وہاں پہنچ ہی گیا۔ چوہدری کے نوکر نے جو منظر دیکھا وہ اس کی اور گاؤں والوں کی توقع کے برعکس تھا۔ گاؤں کے لوگ سمجھ رہے تھے کہ زینب اور اس کے بچے اب تک سیلاب کی نذر ہو چکے ہوں گے۔ گاؤں میں قیاس آرائیاں ہوتی رہیں لیکن کسی نے اتنی ہمت نہیں کی کہ جا کر ان کی خبر لیتا۔ آخر چوہدری کے ایک دلیر نوکر نورے نے یہ بیڑا اٹھایا اور بخیریت وہاں پہنچ بھی گیا۔
نورے نے کہا ’’زینب! گھبرانا نہیں اب خطرہ ٹل چکا ہے۔ کیونکہ پانی کا یہ ریلا نزدیکی نہر ٹوٹنے کی وجہ سے آیا تھا۔ اُس پر اب بند باندھ دیا گیا ہے۔ چوہدری صاحب کو تمہاری بہت فکر تھی۔ لیکن پانی نے سارے راستے بند کر دیے ہیں۔ میں بہت مشکل سے یہاں تک پہنچ پایا ہوں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کسی کو بھی امید نہیں تھی کہ تم لوگ اب تک زندہ ہو گے۔ لیکن تم تو بڑی بہادر عورت نکلیں‘‘
زینب جس کا جسم کیچڑ سے لتھڑا اور تھکن اور نیند سے آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھی۔ اس نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ’’بس اللہ نے ہماری حفاظت کی ہے‘‘
نُورا اپنے ساتھ روٹیاں اور سالن لے کر آیا تھا۔ اس نے یہ کھانا زینب اور اس کے بچوں کے سامنے رکھا۔ لیکن کسی نے کھانے کی جانب ہاتھ نہیں بڑھایا۔ نور علی ماں کا ہاتھ پکڑ کر بولا ’’ماں تم فکر نہ کرو میں جب بڑا ہوں گا تو تمہارے لیے پکا مکان بنواؤں گا‘‘
زینب کے ہونٹوں پر چار دن میں پہلی دفعہ مسکراہٹ آئی۔ اس نے کیچڑ بھرا ہاتھ نور علی کے سرپر رکھا اور اس کا ماتھا چوم لیا۔ اس کے سا تھ ہی زینب کی آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ دیوار سے ٹیک لگا کر سو گئی۔
٭٭٭