میلہ گھومنے والے
میلہ گھومتے ہوئے
وہ گُم ہو جاتے ہیں
ابھی تک
گھر تک نہیں پہنچ پائے
پنگھوڑوں کے ساتھ
اُوپر نیچے ہوتے
بے ہنگم گانے سُنتے
کھلونے دیکھتے
چار آنے پاس تھے
جن کا مرُونڈا، جلیبیاں کھاتے
اور بنٹے والی بوتلیں پیتے ہیں
عید گاہ میں لگے
میلے کی چکا چوندھ میں
رنگین گیسی غُبارے
جب چھُوٹے
اُنہیں ساتھ جاتے دیکھا گیا
وہ اب جبری نیلاہٹ کا حصہ بن گئے ہیں
جن کی آنکھوں کے تارے تھے
وہ ان کو
گلیوں، بازاروں، سڑکوں، درگاہوں
دُور اُفتادہ جگہوں پر
تلاش کرتے ہیں
آسمان پر کسی کو شک نہیں ہوتا
٭٭٭
نہیں ممکن کہ مانجھی سے ستارہ دوستی کر لے
ہنسے اتنا
نئی کشتی
پُرانا شوق
دل میں پال رکھا تھا
گلے مل کر خوشی سے
درد کرتے جسم
اک دوجے پہ گرتے تھے
پھر اُس پاداش میں روتے رہے پہروں
خریدی تھی وہ ناؤ
رہن رکھ کر خواب
پائیں باغ بیچا
خاک چھانی اور دریوزہ گری کی
سارباں
ساحل کی ٹھنڈی ریت پر شب کو گواہی دے
ہمارے ہاتھ کانپے دستخط کرتے
وہ دستاویز
اُترتا رنگ و روغن
گوشواروں کے اثاثوں کا
اِدھر چہرے اُترتے تھے
مچھیروں اور ملاحوں کے آبائی گھروں پر مشتمل، اوجھل ہوئی، بستی میں
جانا تھا
بُجھی مشعل
سیہ آندھی، مسافت اور
اندھیرا در اندھیرا
کرتے تھے پیچھا، مگر مچھ
اک صدا دیتے
نہیں ممکن کہ
مانجھی سے
ستارہ دوستی کر لے
٭٭٭
میں تصویریں کھینچتا ہوں
شرجیل انظر کے لئے
چرنوں میں پڑے، آہ و زاری کرتے انسانوں کی
دہشت گردوں کے ہاتھوں مار ے جانے والے
بچے کی ماں کے آنسوؤں کی
مِٹی کو مقتل بننے کی
میں تصویریں کھینچتا ہوں
گھونسلوں سے گرتے پرندوں کی
سراب کے ساتھ سفر کرتے خوابوں کی
پناہ گزینوں کے چہروں پر پھیلتی پیلاہٹ کی
کپاس چُنتی عورتوں کی
بے لباسی میں ڈھلتے پستانوں کو تصویر کرتے
میری پوریں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں
میں تصویریں کھینچتا ہوں
اُس کے اخروٹ لگے ہونٹوں کی سُرخی کی
گالوں کے انار، ناف پر جھُولتے موتی
بالوں کے بال، پنڈلیوں کی چاندی اور سونا پاؤں
آنکھ کی پُتلی میں ہانپتے ہیں
مادھوری ڈکشت کی مشکل مسکراہٹ
اور تجریدی رقص کو
صُوفیوں کے سجائے، تھیا تھیا، پنڈال تک لے جاتا ہوں
فلم ذخیرے کے آخری کلک سے
کائناتی بھید کا منظر بھی
کیمرے میں
محفوظ کر لیتا ہوں
لیکن
اپنی تصویر کھینچنا بھول جاتا ہوں
٭٭٭