تعارف
سر پہ خوف شجر کا سایہ
اور چنریا کالی تھی ۔
دل کے سندربن میں اس دن
بارش ہونے والی تھی
ایسے میں اک پیڑ کی گیلی
شاخ پہ اتری سرد ہو ا
بولی، اپنا نام بتا
میرے اندر، ناگ سنہرا
تنہائی کا جاگ اٹھا
بل کھا کے
تھوڑا اٹھلا کے
بولا
میں بیساکھ کا بادل
میں سوکھا دریا
میں درویش کی سونی کٹیا
میں خالی درگاہ
٭٭٭
گاؤں کی دو پہر
دن کا راجہ تخت پہ بیٹھا اپنا حکم چلائے
سورج گھر کی دیواروں پہ دھوپ گرانے آئے
شبنم کا من موہنا چہرہ پھول سے نین چرائے
جیسے بلبل کی آنکھوں سے آنسو لڑھکا جائے
بوڑھ تلے سب، پپو گڈو کیڑی کاڑا کھیلیں
بیمانی بیمانی کہتی۔۔۔۔ منیا شور مچائے
چھاچھ اٹھائے سجنی، سرپہ، جب جب کھیت کو آئے
ہتھی چھوڑ کے ہل کی، سانبھل،راستہ تکتا جائے
جیواں کے تندور پہ ریشم پیڑا گول گھمائے
ماچھن جھٹ سے سوندھی روٹی اگنی پار لگائے
نیم تلے پوتے کو بوڑھی دادی پنکھا جھولے
بہو پہ نظر جمائے بیٹھی "حق ہو” پڑھتی جائے
بھید بھرے سونے رستوں پر سناٹا کرلائے
کیچڑ میں لیٹی پگڈنڈی ناگن سی بل کھائے
چتکبری گائے کے اوپر چڑیا جا جا پھدکے
لپک لپک کے کوا آئے، سینگوں پہ چڑھ جائے
کوہستان سے کالا بادل اٹھے، مینہ برسائے
پتوں کی پازیب بجے اور ساون نیر بہائے
٭٭٭
ہاتھ کی چکّی
پرانی ڈیوڑھی کی سرخ اینٹوں پہ
دھری وہ ہاتھ کی چکّی
میاں کی بانگ سے کچھ دیر
پہلے جاگ جاتی تھی
پرانی ڈیوڑھی کے داہنی جانب
جھکی چھتنار بیری پہ کئی پنچھی
ہری شاخوں پہ سوکھی گھاس
کے تکیے لگائے
موج کرتے تھے
کہیں مد ہوش سوتے تھے
کہیں کروٹ بدلتے تھے
کشادہ راہ پہ بیلوں کی جوڑی
اک دھمک کے ساتھ چلتی تھی
تو گلیوں کے کنارے پہ جمی
دیوار کی بنیاد ہلتی تھی
کبودی شال پہ اٹکے ستارے
آنکھ کے گوشوں سے نیچے تاکتے
سرگوشیوں میں بات کرتے، جھلملاتے تھے
وہ ہنستے مسکراتے رب اکبر کو
بلاتے تھے
تو اک مانوس حلقے میں جڑے تارے
بڑی بی کی پرانی کھاٹ پہ
چھاؤں گراتے تھے
خدا کے نام سے کھٹیا میں گویا
جان پڑتی تھی
بڑی بی اٹھ کے جاتی تو
بھڑولی کوری صحنک میں،
چھپا گیہوں اگلتی تھی
گھرر گھر چکّی چلتی تھی
بڑی بی اپنے سارے دکھ
غم و اندوہ کی گتھلی
سنہری رزق کے ہمراہ چکّی میں
گرا دیتی
وہ پتھر کے گڑاؤ میں
جما دستہ پکڑتی اور
چکّی کو چلا دیتی
وہ اس چکی کے پاٹوں میں
سبھی ارمان, اولادوں کی فرقت
سے جڑے قصے
ادھوری کھوکھ کی باتیں
اکیلے پن کے دھاگے سے بنی راتیں
گیہوں میں دبا کے پیستی اور
کوری صحنک کو
کناروں تک سحر کی روشنی
سے , نور کی دھارا سے بھر دیتی
سیہ شیشم کی لکڑی سے بنی
رنگیں مدھانی کو
محبت سے اٹھاتی اور بھری
چاٹی میں دھر دیتی
سپیدہ صبح کا بیدار ہوتا تو
پرندے شاخچوں پہ چہچہاتے
اور جھکی چھتنار بیری پہ کئی پنچھی
خدا کے نام کی تسبیح کرتے
زمانے رفتہ رفتہ بیتتے جاتے
فلک کو چومتے , اونچے مناروں
سے کہیں اوپر
میاں کی بانگ اب بھی سر اٹھاتی ہے
پرندے شاخچوں پہ چہچہاتے
خدا کے نام کی تسبیح کرتے ہیں
مگر رنگیں مدھانی آج تک
رعشہ زدہ ان انگلیوں کی راہ
تکتی ہے
شکستہ ڈیوڑھی کی چھت سے کچھ نیچے
کسی کی یاد کی برکھا برستی ہے
پرانی ہاتھ کی چکّی
ہتھیلی کو ترستی ہے
٭٭٭