ساختیات (Structuralism)، زبان کی ساخت کا علم ہے۔ اس میں زبان کے ساختیاتی اجزا، ان کے باہمی تعلق اور وجود سے بحث کی جاتی ہے۔ ساختیات کا آغاز ماہر لسانیات ساسئیر کے ان دروس سے ہوتا ہے جنھیں ان کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں نے کتابی شکل میں شائع کروایا۔ اس سے زبان کے مروجہ اصول و ضوابط اور تعریفات پر ہی چوٹ نہیں پڑی بلکہ اس کا دائرہ اثر بشریات، نفسیات اور معاشرتی علوم ایسے شعبوں تک بھی وسیع ہوتا گیا۔ گوپی چند نارنگ کے مطابق ساختیات زبان کی معنی خیزی کی حقیقت تک پہنچنے کا علم ہے:
’’ساختیات بنیادی طور پر ایک ادراک حقیقت کا اصول ہے۔ یعنی حقیقت کائنات ہمارے شعور و ادراک کا حصہ کس طرح بنتی ہے، ہم اشیا کی حقیقت کو انگیز کس طرح کرتے ہیں یا معنی خیزی کن بنیادوں پر ہے اور معنی خیزی کا عمل کیوں کر ممکن ہوتا ہے اور کیوں کر جاری رہتا ہے۔‘‘(۱)
ساختیات(Structuralism) در حقیقت کسی بھی ادب پارے، نظم و نثر کی ساخت کا مطالعہ کرتے ہوئے اس میں موجود کوڈز(Codes) جن میں مختلف معاشرتی، تہذیبی اورثقافتی، نشانات، اشارات، علامات، استعارات، تشبیہات وغیرہ شامل ہوتے ہیں، کنوینشنز (Conventions)جن میں روایات و رسمیات وغیرہ شامل ہوتی ہیں اور شعریات و معنیات کا مکمل نظام موجود ہے، کی نشاندہی کرتی ہے۔ ذیل میں فیض احمد فیض کی نظم ’’دریچہ ‘‘ کے ساختیاتی جائزے سے قبل نظم ملاحظہ کیجیے:
دریچہ
گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں
ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لیے
ہر ایک وصلِ خداوند کی امنگ لیے
کسی پہ کرتے ہیں ابرِ بہار کو قرباں
کسی پہ قتل مہِ تابناک کرتے ہیں
کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دو نیم
کسی پہ بادِ صبا کو ہلاک کرتے ہیں
ہر آئے دن یہ خداوندگانِ مہرو جمال
لہو میں غرق مرے غم کدے میں آتے ہیں
اور آئے دن مری نظروں کے سامنے ان کے
شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں (۲)
یہ نظم فیض احمد فیض کے ان انگریزی خطوط کی یاد دلاتی ہے جو انھوں نے قید و بند کی صعوبتوں کے دوران (۱۹۵۵ء۔ ۱۹۵۱ء) اپنی بیگم کلثوم (ایلس) کے نام تحریر کیے تھے اور ان کا ترجمہ بذات خود ’’صلیبیں مرے دریچے میں‘‘ کے عنوان سے کیا تھا۔ یہ نظم بھی انھوں نے منٹگمری (موجودہ ساہیوال) کی جیل میں دسمبر ۱۹۵۴ء کو لکھی تھی۔ نظم کا اسلوب بظاہر سادہ ہے اور نظم یہ تاثر دے رہی ہے کہ فیض ایک دریچے سے ان ظالم و جابر حکمرانوں اور ان کے کارندوں کو دیکھ رہے ہیں جو زیر دستوں کی عزت پائمال کرنا، قتل و غارت گری کرنا اور اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بزور طاقت دبا دینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ وہ یہ منظر دیکھتے ہوئے رنجیدہ ہیں اور گویا اس خبر کو بیان کر رہے ہیں جس کے تانے بانے سے اس دنیا میں مسلسل ایک کشمکش کا نظام رواں ہے یعنی خیر و شر کا برسرِ پیکار ہونا۔ یہاں جیت ہمیشہ خیر کی ہوئی ہے لیکن اکثر جگہوں پر شر فاتح رہا ہے۔ بظاہر یہ سادہ سی بات ہے اور ہر ایک اسے جانتا بھی ہے اور مانتا بھی ہے لیکن ساختیاتی (Structuralistic) حوالے سے دیکھا جائے تو نظم کے نہ صرف معانی میں تغیر برپا ہوتا ہے بلکہ اس کی تفہیم میں آسانی پیدا ہوتی ہے اور اس کی ساخت کے مضمرات کی کئی نئی پرتیں بھی کھلتی ہیں۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے مطابق شعری اظہار اور اس سے جڑا معنیاتی نظام کسی بھی ادب پارے کو خاص بناتا ہے۔ اس ضمن میں وہ فیض احمد فیض کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
’’اگر شعری اظہارات الگ ہیں تو معنیاتی نظام بھی دوسروں سے الگ ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ فیض احمد فیض نے اردو شاعری میں نئے الفاظ کا اضافہ نہیں کیا، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے نئے اظہاری پیرائے وضع کیے، اور سینکڑوں ہزاروں لفظوں، ترکیبوں اور اظہاری سانچوں کو ان کے صدیوں پرانے مفاہیم سے ہٹا کر بالکل نئے معنیاتی نظام کے لیے برتا اور یہ اظہار پیرائے اور ان سے پیدا ہونے والا معنیاتی نظام بڑی حد تک فیض کا اپنا ہے۔ اگر اس بات کو ثابت کر سکتے ہیں تو فیض نے کلاسیکی شعری روایت کے سرچشمہ فیضان سے پورا پورا استفادہ کیا۔ ان کی لفظیات کلاسیکی روایت کی لفظیات ہے لیکن اپنی تخلیقیت کے جادوئی لمس سے وہ کس طرح نئے معنی کی تخلیق کرتے ہیں یہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ‘‘(۳)
نظم کا عنوان دریچہ ہے جس کا ترجمہ وکٹر کیرنان (V. G. KIERNAN)، داؤد کمال اور خالد حسن نے ’’The Window‘‘ کیا ہے۔ نظم لکھتے ہوئے فیض کہاں موجود ہیں؟ اور کیا ان کی نظم میں موجود ظلم و جبر کی خبر اور اشارات اتنے اہم ہیں کہ اس نظم کا کوئی ادبی مقام و مرتبہ متعین کیا جائے؟ کیا نظم کا عنوان نظم سے انصاف کرتا ہے یا کیا یہ واقعی کھڑکی کا درست مفہوم ادا کر سکتا ہے؟ ان سب سوالوں کے جوابات کے لیے نظم کے پس منظری مطالعے اور اس کی معاشرتی مطابقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہاں ’’دریچہ‘‘ در حقیقت ایک نشان (Sign) ہے جو تصور معنی اور تصور نما (Signifier & Signified) سے مل کر ترتیب پا رہا ہے۔ چوں کہ ساختیات کے مطابق زبان ایسی شفاف شے (Transparent Medium) نہیں ہے جس کے آر پار جھانکا جا سکے اس لیے اس کے معاشرتی معانی سے مدد لی جائے تو بظاہر یہ لفظ چھوٹے دروازے یا کھڑی کے معانی میں مستعمل ہے لیکن در حقیقت یہ کھڑکی کسی دیوار میں نسب نہیں ہے، نہ ہی یہ محض جیل کی سلاخوں کا منظر ہے بلکہ اس کے پس منظر میں وہ تمام انسان موجود ہیں جو حساس ہیں اور اپنی بصارت کو ضائع نہیں کر چکے۔ وہ دوسری جانب ان ظالم اور جابروں کو دیکھ رہے ہیں جو مظلومین پر ہمیشہ سے ظلم ڈھاتے چلے آ رہے ہیں۔ فیض کا یہ ’’دریچہ‘‘ تیسری دنیا کے ہر ملک کا منظر اور حساس آنکھ کی داستان ہے۔ نظم میں آگے بڑھیں تو اس دریچے کے معانی مزید واضح ہوتے جاتے ہیں۔ پہلے دو مصرعوں سے لگتا ہے کہ فیض دریچے کے اندر سے باہر آ چکے ہیں اور اب اس میدان میں بذات خود موجود ہیں جہاں وہ کہتے ہیں کہ ’’گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں۔۔ ۔ ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لیے‘‘
پہلے مصرعے میں ’’صلیبیں‘‘ جو کہ صلیب کی اسم جمع ہے، کی موجودگی سوال پیدا کرتی ہے کہ فیض کے ارد گرد صلیبیں کیوں ہیں؟ کیا وہ عالم خواب میں ہیں؟ یا کسی پھانسی گھاٹ میں؟ دوسرے مصرعے میں ’’مسیحا کے خون‘‘ کا واضح مطلب ہے کہ مسیحا نہیں رہے اور صلیبوں پر ان کے خون کے نشانات ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ دونوں مصرعے ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ’’صلیب‘‘ اور ’’مسیحا‘‘ کے معانی واضح نہیں ہیں۔ اس کے لیے زبان کے قدیم و جدید معانی سے گزرنا پڑے گا۔ یہاں ’’صلیب‘‘ اور ’’مسیحا‘‘ بنیادی طور پر دو استعارے (Signs) ہیں اور مشرقی شعریت (Poetics) کے مطابق تلمیحات ہیں۔ اب ان نشانات کا سراغ لگانے کے لیے ذرا حال سے ماضی کی جانب سفر کرنا پڑے گا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کا بظاہر مصلوب ہونا قدیم روایت ہے جسے کسی قدر فرق کے ساتھ اسلام میں بیان کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اپنی قربانی کے ذریعے اپنے تمام پیروکاروں کے گناہوں کے نشانات دھو گئے ہیں اور انھیں مصلوب کرنا ہی ان کی نجات کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ ایک صلیب اور ایک مسیحا کا ذکر ہے۔ فیض کے مطابق ان کے گرد ایک نہیں بہت ساری صلیبیں ہیں اور ہر ایک پر خون کا نشان ہے۔ معنیات (Sementics) کے مطابق تلمیح اور فیض کی بیان کردہ موجودہ صورتِ حال کا فرق واضح ہوتا ہے۔ فیض چوں کہ جیل میں موجود ہیں اس لیے وہ یہاں ظلم ہوتا دیکھتے ہیں جہاں جابر ہر چار و ناچار کو ظلم کی چکی میں پیستے جا رہے ہیں گویا یہ ان کی نجات کا واحد راستہ ہے۔ تیسرے مصرعے میں وہ ’’وصلِ خداوند‘‘ سے یہی مراد لیتے ہیں کہ اس طرح سارے گناہ بھی دھل جائیں گے اور خدا کا قرب بھی حاصل ہو گا۔ یہاں غور و فکر اور تشویش ( Gap) کی گنجائش ہے کہ کیوں کر مسیحاؤں کے قتل سے مسیحا کے پیدا کرنے والے کا قرب میسر ہو سکتا ہے۔ ساختیاتی حوالے سے دیکھا جائے تو ’’خدا‘‘ اور ’’خداوند‘‘ میں فرق ہے جس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ظالموں کا اگرچہ مقصد ایک ہی ہے لیکن ان کے ہاں خدا کا ایک ہی تصور نہیں ہے۔ فیض احمد فیض نے زبان کے تجریدی مخزن (Langue) میں سے تکلم (Parole) میں شعوری طور پر ایسا لفظ استعمال کیا ہے جو نہ صرف مصرعے کو بے وزن ہونے سے بچائے (Synchronization) بلکہ ان کے مفہوم کو بھی بہتر انداز میں واضح کر دے۔ اگر اس سے عمومی انسانی رویے کی بابت بات کی جائے تو اس سے اظالمین کی فکری ساخت کا اشارہ بھی ملتا ہے۔
چوتھے مصرعے میں ’’ابرِ بہار‘‘ اور اس کی ’’قربانی‘‘ معنوی حوالے سے افتراقی جوڑے (Binary Oppositions) ہیں۔ یہاں معنیات (Sementics) کو سمجھنے کے لیے گہرے تفکر کی ضرورت ہے۔ کون کس کو قربان کر رہا ہے، اسے سمجھنے کے لیے ماقبل کے تین مصرعے پتہ دیتے ہیں کہ ظالم مظلوموں کی جان کے درپے ہیں۔ یہ در حقیقت ایک ڈسکورس (Discourse) ہے جس کے رموز (Trace) ظالم کا پتہ دیتے ہیں۔ چوں کہ ابرِ بہار خوشیاں اور محبتیں لاتا ہے اس لیے اسے قربانی سے منسوب کرنا در حقیقت خیال کو اجنبیانے (Defamiliarize) کی غرض سے کیا گیا ہے۔ اس سے اگلے مصرعے میں ’’ مہِ تابناک ‘‘ کا قتل بھی الفاظ کو اجنبیانے (Defamiliarize)کی خاطر استعمال کیا گیا ہے۔ بالعموم نہ تو ابر بہار کو قربان کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی میں سکت ہے کہ وہ مہ تابناک کو قتل کر دے۔ ان دونوں مصرعوں کی ساخت میں جھانکنے سے ہی کسی نتیجے تک پہنچا جا سکتا ہے بصورتِ دیگر سمجھنے اور ترجمے کرنے میں ٹھوکر کھانے کا قوی امکان موجود رہتا ہے جیسا کہ داؤد کمال اور خالد حسن کے اس ترجمے سے عیاں ہے۔
"To some I offer in sacrifice clouds at springtime (4)”
اسی ضمن میں ڈاکٹر داؤد کشمیری اس نظم پر ہونے والے اعتراضات کا احاطہ کرتے ہوئے ایک اعتراض یوں نقل کیا ہے:
’’صلیب پر مہِ تاب ناک کو قتل کرنا، اس پر شاخسارِ دو نیم کا سر مست ہونا۔ بادِ صبا کو ہلاک رنا اور بر بہار کو قربان کرنا، صلیب کا وصلِ خداوند کی امنگ لیے ہوئے ہونا، خداوندگانِ مہر و جمال کے شہید جسم اور پھر ان شہید جسموں کا سلامت اٹھایا جانا، ان سب میں ترجمہ کر دینے والا ایسا انداز پایا جاتا ہے جس کو صحتِ زباں اور فصاحتِ بیاں سے کچھ نسبت نہیں۔ اس اجنبی انداز نے پوری نظم کو کم رتبہ اور بے اثر بنا کر رکھ دیا ہے۔‘‘ (۵)
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ ساختیات ادب پارے کی معنیات اور بہتر تفہیم تک رسائی دیتی ہے بصورتِ دیگر اعتراضات کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ فیض یہاں ’’ابرِ بہار‘‘، ’’ مہِ تابناک‘‘ اور ’’قربان‘‘ کو بطور استعارہ استعمال کرتے ہیں اور اس سے مراد ان مظلومین کی جوانیوں، تمناؤں اور جائز حاجات کا قتل عام ہے جو کہیں ابرِ بہار ہیں اور ہیں مہ تابناک۔ یہ ظالم کی طاقت کی گواہی ہے لیکن مظلومین کی تا حال موجودگی ان کے لیے امید کا اشارہ (Trace) بھی ہے۔
چھٹے اور ساتویں مصرعے میں ’’کسی‘‘ ضمیر کے صیغہ غائب کی نمائندگی ہے لیکن یہ غائب ہونے کے باوجود حاضر ہے۔ یہاں شاعرانہ ابلاغ (Poetics) کا حسن ہے کہ دونوں مصرعوں میں یہ بظاہر غائب مظلومین کے کل طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان دو مصرعوں میں فیض احمد فیض کی الفاظ کے معانی کو پھر سے اجنبیانے کی (Defamiliarize) کی شعوری کوشش نظر آتی ہے۔ وہ ظالم کے ظلم کی داستان کو طول دینے اور شدت بیان کرنے کے لیے زبان کے تجریدی نظام( لینگ langue) میں سے جو الفاظ تکلم (پیرول Parole) استعمال کرتے ہیں ان میں سر مست شاخسار کا دو نیم ہونا اور بادِ صبا کی ہلاکت شامل ہے۔ یہاں ساختیات کا یہ کلیہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر آمد در حقیقت آورد ہی کی شکل ہے اور رولنڈ بارتھیز کے مطابق کوئی بھی خیال ہوا میں تخلیق نہیں ہوتا بلکہ اس میں مطالعہ، مشاہدہ اور تجربات شامل ہو کر بین المتنیت (Intertextuality) کو جنم دیتے ہیں۔ سر مست شاخ یا سبزہ نومیدہ کا بے رحمی سے قتل اور بادِ صبا کی ہلاکت دونوں لرزہ خیز عوامل ہیں۔ ان کی معنویت ان کے حقیقی افتراق (Binary Oppositions) سے جنم لے رہی ہے۔ ورنہ بصورتِ دیگر یہ مصرعے بے معنی ہو جاتے ہیں۔
آٹھواں مصرعہ اس نظم کا سب سے زیادہ مبہم مصرعہ ہے۔ یہاں ان کے مخاطب کون ہیں یا ’’خداوندگانِ مہر و جمال‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں؟ وہ جن کے پاس ان کے سامنے طاقت ہے اور بظاہر عزت ہے اور وہ ہر سیاہ و سفید کے مالک ہیں یا پھر وہ جو مظلوم ہیں؟ اگلا مصرعہ قارئین کی فکر کی لہر کو دوبارہ سے نہ صرف پچھلے مصرعے سے جوڑتا (Synchronization) ہے بلکہ مفہوم تک رسائی بھی دیتا ہے۔ یہ بظاہر و بباطن خوبصورت لوگ وہی مظلومین ہیں جن کی لاشیں روز گرائی جاتی ہیں، جنھیں روز مصلوب کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ تھمنے میں نہیں آتا۔ ’’غم کدے‘‘ کا مفہوم بنا لہو میں تر جسموں کے اشارے کے سمجھنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
آخری مصرعے میں جسم کی شہادت کے باوجود سلامتی کو براہ راست صنعت تضاد (Binary Oppositions) کو استعمال کرتے ہوئے خیر کو شر سے بر سر پیکار دکھایا گیا ہے۔ مزید یہ کہ یہی وہ حاصل کلام مصرعہ ہے جو فیض کا یہ موقف واضح کرتا ہے کہ اگر راہ راست پر ہوں تو شہادت کے باوجود سلامتی ہے اور ظالمین کو شکست ہے۔ فیض کی اس نظم کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو اس میں دریچہ اشارہ، علامت اور استعارہ ہے جس سے فیض خود بھی اور اپنے قارئین کو بھی باہر نکال لاتے ہیں اور براہ راست اس قتل گاہ میں موجود ہوتے ہیں جہاں انسانیت، تہذیب اور مذہب کے علم بردار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور شر سے بر سرِ پیکار ہیں۔ اس سارے شاعرانہ عمل میں ( Poetic Process) میں زبان کو اجنبیانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے اور زبان کے تجریدی مخزن (لینگ) سے تکلم (پیرول) کے لیے ایسے الفاظ کا بکثرت استعمال کیا گیا ہے جو ایک جانب ظالم کا احوال کھول کر بیان کریں اور دوسری جانب مظلومین کے لیے قارئین کے دل میں رحم کے جذبات کو بیدار کر دیں۔ اس سارے عمل کے ساتھ ساتھ مشرقی شعریات کے مطابق تمام مصرعوں کو بحر اور وزن میں رکھنے (Synchronization) کا بھی التزام کیا گیا ہے۔
٭٭
حوالہ جات
۱۔ گوپی چند نارنگ، ’’ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۰ء، ص: ۴۰
۲۔ فیض احمد فیض، کلیاتِ فیض، زنداں نامہ، دلی: پرویز بک ڈپو،، ۱۹۵۵ء، ص: ۲۱۷
۳۔ گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر، فیض کا جمالیاتی احساس اور معنیاتی نظام، فیض احمد فیض، فیض صدی: منتخب مضامین۔ مرتبہ: پروفیسر یوسف حسن و ڈاکٹر روش ندیم، اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان، ۲۰۱۰ء، ص۴۳۴
4۔ Daud Kamal and Khalid Hasan, Translator, "O City of Lights, Faiz Ahmed Faiz Selected Poetry and Biographical Notes”, First Published, New York: Oxford University Press 2006, P-252
۵۔ داؤد کشمیری، ڈاکٹر، شرح کلامِ فیض، طرزِ فغاں سے طرزِ بیاں تک، ممبئی، پلاسکوٹ انڈسٹریز، ۲۰۰۱ء، ص: ۸۳
٭٭٭