غزلیں ۔۔۔ مصحف اقبال توصیفی

کہاں ہوں، کیوں ہوں، کچھ اپنا پتہ نہیں ملتا

یہ کیسی ڈور ہے جس کا سرا نہیں ملتا

 

کہاں گئے یہ مرے خال و خد خدا جانے

یہیں تو تھا وہ مرا آئینہ نہیں ملتا

 

وہ طفل ہم نے سنا کب کے ہو گئے بوڑھے

گلی کے موڑ پہ اک پیڑ تھا نہیں ملتا

 

دُعا کے آگے وہی ایک اینٹ کی دیوار

اسے بھی اور کوئی راستہ نہیں ملتا

 

خدا یہیں ہے۔ اگر ہے، بتوں نے سمجھایا

تو دیکھ آئے جرم میں خدا نہیں ملتا

 

یہ پیاسی دید کی آنکھیں کہو کہاں لے جائیں

پیالہ ملتا ہے لیکن بھرا نہیں ملتا

 

میں چاہتا ہوں بہت اس کو لیکن آخر کیوں

اسے بھی اور کوئی دوسرا نہیں ملتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ دل، دلِ بے قرار میرا

نہ یار تیرا نہ یار میرا

 

چلو کبھی ہم نہیں ملیں گے

مگر رہے گا ادھار میرا

 

وہاں مجھے ڈھونڈتے پھرو گے

چڑھے گا ایسا بخار میرا

 

تو جاؤ کیوں میرے پاس بیٹھو

اگر نہیں اعتبار میرا

 

عجیب بازار ہے یہ دنیا

دُکاں تری کاروبار میرا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے