غزلیں ۔۔۔۔ عبید حارث

سر پر سدا ہی دھوپ کا سایہ رہے گا اب

یہ دشت یوں ہی خون کا پیاسا رہے گا اب

 

دریا ملے تو ہونٹ ہی گیلا کریں فقط

سیراب جو بھی ہوگا وہ پیاسا رہے گا اب

 

جو کچھ ہوا ہے اس میں ہمارا قصور ہے

جو ہو رہا ہے روز ہی ہوتا رہے گا اب

 

اگلی گلی سے مڑ کے وہ جاتا ہے کس طرف

یہ دل اسی خیال میں الجھا رہے گا اب

 

موسم گزر گئے کئی بویا نہ ہم نے کچھ

آنگن ہمارے خواب کا سونا رہے گا اب

 

بکنے لگا ہے مال مرے دل کا آج کل

یہ کاروبار شوق ہے چلتا رہے گا اب  ٭٭٭

 

کوئلے کی شکل گوری ہو گئی

چور کے گھر میں بھی چوری ہو گئی

 

سن کے سو جاتے ہیں بچے رات میں

روز کی ان بن بھی لوری ہو گئی

 

آ لکھوں تجھے پر کوئی تازہ غزل

پھر بیاضِ شعر کوری ہو گئی

 

بھر گئی ہے غم کی باتوں سے ہنسی

زندگی خوشیوں سے کوری ہو گئی

 

سوچئے تو سب یہاں آزاد ہیں

اک ضرورت سب کی ڈوری ہو گئی

 

فطرتِ آدم سے ہیں مجبور سب

اک خطا ہم سے بھی سوری ہو گئی

 

ذائقہ کچھ چٹپٹا سا چاہیے

شاعری حارث چٹوری ہو گئی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے