انجینئر فیروز مظفر نے اپنے نامور والد پروفیسر مظفرؔ حنفی کے انتقال کے بعد ان کو یاد رکھنے اور ان کے زندہ جاوید تخلیقی کارناموں کو عوام الناس کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے جو لائق تحسین ہے۔
فیروز مظفر سائنس کے طالب علم پیشہ سے انجینئر ہیں۔ ان کو اردو شعر و ادب سے نہ صرف رغبت ہے بلکہ وہ خود صاحبِ طرز ادیب ہیں (ابھی ان کی شاعری کا مجھے علم نہیں ہوا، یقیناً شاعری بھی کرتے ہوں گے) بارہ کتابوں کے مرتب و مصنف ہیں۔ انوکھا شخص و شاعر ان کی تیرہویں کتاب ہے، جو اس وقت زیر مطالعہ ہے۔
پروفیسر مظفر حنفی کے دل میں اللہ کی عظمت جاگزیں تھی۔ لکھتے ہیں:
خدائے عز و جل تو جاوداں کرتا ہے لفظوں کو
مظفرؔ اپنی ہر تخلیق تیرے نام کرتا ہے
اردو کی مختلف جہات میں لکھی گئی تقریباً ۸۰ کتب میں پروفیسر مظفرؔ حنفی کی شخصیت ایک لیجنڈ کی ہے۔
فیروز مظفر نے اپنی اس کتاب کا مبسوط مقدمہ لکھا ہے جس کو پڑھ کر مظفرؔ حنفی کی زندگی کے کئی گوشے سامنے آتے ہیں، وہیں فیروز مظفر کا نثری اسلوب بھی سامنے آتا ہے، انھوں نے بہت منظم طریقہ سے اپنے والد کی حیات اور کارناموں کو بیان کیا ہے۔ ان کے ادبی سفر جو ۷۰ برس پر محیط ہے اس کو مبسوط انداز میں سن کے اندراج کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اپنے مضمون انوکھا شخص و شاعر میں فیروز مظفر اس کتاب کو ترتیب دینے کا اپنا مقصد بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’پیشِ نظر کتاب کی ترتیب و اشاعت کا مقصد مظفر حنفی کے کثیر الجہات ادبی کارناموں پر لکھے گئے تازہ بہ تازہ مضامین کو بیک وقت اہلِ نظر کے سامنے لانا ہے۔ تاکہ ان کی مجموعی ادبی حیثیت کا از سر نو تعین کیا جا سکے۔‘‘(ص: ۳۱)
کتاب ’’انوکھا شخص و شاعر مظفر حنفی‘‘ میں مختلف شہروں اور ملکوں کے اہل دانش کے ۷۳ مضامین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ۲۶ شاعروں نے ان کی وفات پر منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا ہے، وہ شامل ہیں۔ سب سے آخر میں کرناٹک اردو اکادمی کی طرف سے مظفرؔ حنفی کو پیش کیا گیا سپاس نامہ ہے۔
رشید انجم نے قلمی چہرہ کے عنوان سے ان کا خاکہ لکھا اور خوب لکھا۔
’’۱؍ اپریل کو ہوئے جلوہ گر، روح کو جسم، نبض کو حرکت، کان اذان سے بہرہ ور ہوئے۔ جب ذراسا قد نکالا ہوش روشن ہوا فکر کو شعلہ ملا۔ ۱۳ سال کی عمر میں پہلا شعر موزوں کیا۔
لوگ پڑھنے کا نام لیتے ہیں
ہم کلیجے کو تھام لیتے ہیں‘‘ (ص: ۳۱)
اس کتاب میں شامل ہر مضمون اپنے اپنے موضوع کے لحاظ سے وقیع ہے۔ مظفرؔ حنفی کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو جامع ہے۔ کئی اہلِ علم و فن نے ان سے متعلق مضامین لکھے ہیں، جن میں ان کی شخصیت کی جھلکیاں دکھائی ہیں۔ بقول مظفرؔ حنفی:
آپ مظفرؔ سے مل کر شاید مایوس نہ ہوں
دل کے صاف، بصیرت گہری ذہن رسا عمال کھلے
٭
طرز تعمیر کے کچھ نئے زاویے عصر نو کو مظفرؔ نے بخشے تو ہیں
اپنی ہی ذات پر وار کرتے ہوئے اپنی ہستی کو مسمار کرتے ہوئے
مظفرؔ حنفی نے اپنے بارے میں یوں کہا اور سچ کہا ہے ؎
آپ مظفرؔ سے مل کر شاید مایوس نہ ہوں
دل کا صاف، بصیرت گہری، ذہن رسا، اعمال کھلے
مظفرؔ حنفی کے ادبی سفر کی ابتدا افسانہ نگاری سے ہوئی تھی۔ انوکھا شخص و شاعر میں ان کی نثری خدمات پر لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور ان کی صاف گوئی کو سراہا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کو مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مظفرؔ حنفی کہتے ہیں ؎
میرا کمالِ ہنر میری صاف گوئی ہے
صعوبتیں بھی اسی بات پر اُٹھاتا ہوں
ان کی نثر، افسانے اور مضامین اور تحقیق و تنقید پر کئی لوگوں نے اپنی گرانقدر تحریروں میں ان کے اسلوب کو سراہا ہے۔ اپنے تنقیدی رویہ کے بارے میں مظفرؔ حنفی لکھتے ہیں:
’’اپنی تنقید میں، میں غیر مصلحت پسندانہ بیباک رویے کی وجہ سے نقادوں اور زعمائے ادب کو خوش نہیں رکھ سکا، نہ اپنی کوئی لابی بنائی جس کا خمیازہ مختلف ادبی محاذوں پر بے انصافی کی صورت میں مسلسل بھگتنا پڑا اور پڑے گا لیکن سر اونچا رکھنے کی یہ قیمت کچھ ایسی زیادہ بھی نہیں۔ پھر سچے ادبی فیصلے تو ہمیشہ سے آنے والا کل ہی کرتا ہے سو میں انتظار کروں گا‘‘۔ (میرا ادبی سفر)
قاعدہ ہے کہ ہر فنکار کی تحریر اپنا اسلوب اپنے ساتھ لاتی ہے۔ وہ جس انداز، جن الفاظ سے اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے وہی اس کا اسلوب ٹھہرتا ہے۔ مظفرؔ حنفی نے اپنی بات سچائی اور بیباکی سے تحریر کی اور شاعری میں میں ادا کی ہے۔ صاف گوئی ان کا شعار ہے۔ لکھتے ہیں ؎
مرے انکسارِ مزاج کو نہ حقیر جانیے بھول کر
ذرا دیکھئے تو اُچھال کر اگر ایک مشت غبار ہوں
مظفرؔ حنفی نے بچوں کے لیے بھی نظمیں لکھی ہیں، جو مختلف رسائل میں شائع ہو کر کتابی شکل میں بھی منظرِ عام پر آئیں۔ انھوں نے اپنے ابتدائی ایام کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’میں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ۱۱سال کی عمر میں ۱۹۴۷ء کے آس پاس کبھی کیا تھا۔ ۱۹۵۲ء تک بچوں کے لیے لکھتا رہا‘‘۔ (نقد ریزے، ص: ۱۵۲)
’انوکھا شخص و شاعر‘ میں ان کی اس جہات پر بھی اہلِ علم نے توجہ کی اور ان کے مضامین شامل اشاعت ہیں۔
مظفرؔ حنفی نے روحِ غزل کے نام سے انجمن ادب الٰہ آباد کے جشن زرّیں کے موقع پر شائع ہونے کے لیے ایک کتاب نصف صدی کی غزل کا انتخاب‘ تیار کی۔ یہ کتاب گزشتہ نصف صدی کی غزل کا منظرنامہ ہے، اس پر انوکھا شخص و شاعر میں دو مضمون شامل ہیں۔
مظفرؔ حنفی کی ادب میں پہچان بحیثیت شاعر ہے، ان کا شعر ہے ؎
مظفر ہم نہیں مانے، بہت یاروں نے سمجھایا
زمینِ شعر پر کیوں جان کی بازی لگاتے ہو
اپنے شعری اسلوب کے متعلق انھوں نے کہا ہے ؎
مظفر اپنی راہ خود بنائے گی میری غزل
میرا قلم نہ آئے گا پٹی پٹائی راہ پر
اہل علم و دانش نے ان کی شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مقالے تحریر کیے ہیں جس سے ان کی شاعری اور شاعرانہ مزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ’’انوکھا شخص و شاعر۔ مظفر حنفی‘‘ میں شامل مضامین قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہیں۔ مظفرؔ حنفی قاری، اہل علم و دانش ونقاد سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ؎
عظمت سے ہٹ کے ندرت و جدّت کو ناپئے
ہم اور چیز، غالبؔ و میرؔ و ذوقؔ اور
مظفرؔ حنفی اپنے لہجہ کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ خود کہتے ہیں ؎
سارے اعزازات سے افضل ترین
لہجہ بیباک میرے واسطے
٭
لکیروں کے فقیروں سے مظفر کچھ نہیں ہو گا
نئی نسلوں کی خاطر ہم نئی راہیں بناتے ہیں
یہ انوکھا شخص و شاعر اپنے اشعار میں اپنے لیے کیا کیا کہتا ہے۔ ذرا دیکھیں ؎
بھڑکی ہوئی اِک مشعل غم رکھتا ہوں
شبنم کی طرح دیدہ غم رکھتا ہوں
دہکتی ہوئی آگ اپنی چھپا لے دنیا
مجبور ہوں کاغذ پہ قلم رکھتا ہوں
٭
مری حیات کا سرمایہ ہے غزل گوئی
یہی سلیقہ مجھے عمر بھر میں آ جائے
٭
سچ ہے کہ ابھی عمر بڑی ہے مجھ کو
دھُن زود نویسی کی بری ہے مجھ کو
ڈرتا ہوں قلم کو بھی مرے چاٹ نہ جائے
احساس کی دیمک جو لگی ہے مجھ کو
٭
ٹھپہ لگا ہوا ہے مظفرؔ کے نام کا
اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اُٹھا کے دیکھ
٭
ہم بھی غزلیں پیش کریں گے اس دنیا دیوانی کو
جس نے پہلے دل نوچا ہے پھر چوما پیشانی کو
٭
اگر عوام سے نزدیک ہوں مظفرؔ میں
تو اِک خفیف سا کج بھی مری کلاہ میں ہے
٭
اے مظفرؔ صاف اور تہہ دار ہے میری غزل
آپ بیتی ہے حدیثِ دیگراں ہوتے ہوئے
٭
ڈبوکر خون میں لفظوں کو انگارے بناتا ہوں
پھر انگاروں کو دہکا کر غزل پارے بناتا ہوں
٭
ہمیشہ سے وہی کہتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں
مظفرؔ شاعری میں ہم سے عیاری نہیں ہو گا
٭
اشعار مظفرؔ کے فرسودہ زمینوں میں
دو ہاتھ میرے ہٹ کر فرسودہ خیالوں سے
٭
مری شناخت مری کج کلاہیاں ہی تو ہیں
کلاہ کج سے مظفرؔ مجھے زیاں ہے بہت
٭
ہمارے شعروں سے امکان ڈالنے والے
نکل ہی آئے گا کوئی خدا کے بندوں میں
٭
ہر ضرورت پہ مظفرؔ کا قلم حاضر ہے
شرط یہ ہے کہ قصیدہ نہ لکھا جائے
٭
یہ شوخ نگاروں کا زمانہ ہے مظفرؔ
اور آپ غزل کہتے ہیں آداب کے اندر
٭
دیانت خون بن کر دوڑتی ہے اس کی باتوں میں
اسی میں ہے مظفرؔ کی غزل کا راز نقادو
٭
تم نے دیکھا نہیں مظفرؔ کو
انجمن وہ بھی اپنی ذات میں ہے
٭
کبھی کانٹے مرے دستِ ہنر میں دوب جاتے ہیں
کبھی دنیا مرے پائے ہنر میں بیٹھ جاتی ہے
٭
زمین ہم کو جکڑتی ہوئی قدم بہ قدم
ہم آسمانوں کو زیر کمند کرتے ہوئے
٭
بیاضیں اور کتابیں ہیں کام آئیں تو
ہمارے گھر سے دفینہ نہیں نکلنے کا
٭
ہر چند کہ فنکار کہا جاتا ہوں
میں وقت کے دریا میں بہا جاتا ہوں
کیا کیا نہ لکھا جائے گا میرے پیچھے
افسوس کہ محروم رہا جاتا ہوں
٭
بیٹھیں گے اگر نقش قدم خاک اُڑے گی
مرنے پہ کہاں میرا سفر ختم ہوا ہے
حقیقت یہی ہے کہ مظفرؔ حنفی کے نہیں ہونے پر ان کا ادبی سفر ختم نہیں ہو گیا بلکہ رواں دواں ہے۔ ان کی اپنی تخلیقات کے ذریعہ اپنے سعادت مند بیٹوں کے ذہنوں اور عمل کے ذریعہ۔ انجینئر فیروز مظفر کی مرتب کردہ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد عام قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قد کتنا بڑا ہے۔ فیروز مظفر اپنے مقصد میں کامیاب ہیں، ان کو اتنی اچھی کتاب مرتب کرنے پر مبارکباد اور ان کے قلم کے رواں رہنے کے لئے دعائیں۔ کتاب ’انوکھا شخص و شاعر مظفر حنفی‘‘ اس کا چھوٹا سا نمونہ ہے۔
ظفر اقبال نے ان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ؎
بزمِ سخن میں ہوتے ہیں اب جس کے تذکرے
افسوس ایسا آج سخنور نہیں رہا
آخر میں اس کتاب کے کچھ مضامین کی فہرست دی جا رہی ہے:
سخنور مظفر حنفی سلطانہ مہر (امریکہ)
ایک خط جو کچھ برس پہلے لکھا گیا ستیہ پال آنند (امریکہ)
مظفرؔ حنفی خالی ہاتھ نہیں گئے ندیم صدیقی (بمبئی)
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا ڈاکٹر لیاقت جعفری (جموں)
مظفرؔ حنفی یادیں باتیں مناظر عاشق ہرگانوی (بھاگلپور)
مظفرؔ حنفی میرے معنوی بھائی غلام مرتضیٰ راہی (فتح پور)
استاد محترم شمع افروز زیدی (دہلی)
مظفرؔ حنفی کی کتاب مضامین تازہ نعیم کوثر (بھوپال)
مظفرؔ حنفی کے مضامین تازہ ڈاکٹر محبوب راہی (بارسی ٹاکلی)
بھولی بسری کہانیاں اقبال مجید (بھوپال)
مظفرؔ حنفی کی افسانہ نگاری ابواللیث جاوید (دہلی)
مظفرؔ حنفی اور ان کی کتاب ’کچھ انٹرویوز‘ ڈاکٹر رضیہ حامد (بھوپال)
مظفرؔ حنفی کی ’بول میری مینا‘ حلیم صابر (کلکتہ)
بچوں کے نمائندہ شاعر پروفیسر کوثر مظہری (دہلی)
مظفرؔ حنفی کی شاعری میں گہرے جذبات کی آمیزش ڈاکٹر امام اعظم (کولکتہ)
تین کتابیں ’ہاتھ اوپر کئے‘، ’پرچم گردوبار‘، ’لاگ لپیٹ کے بغیر‘ پروفیسر صغرا مہدی (دہلی)
مظفرؔ حنفی کا مجموعہ کلام ’پانی کی زباں‘ غلام مرتضیٰ راہی (فتح پور)
طلسم حرف۔ مظفر حنفی کی انفرادیت کا ایک اور دستاویزی ثبوت محبوب راہی (بارسی ٹاکلی)
ہیرے ایک ڈال کے نصرت ظہیر (دہلی)
مظفرؔ حنفی کی شاعری میں عصری حسیت محسن جلگانوی (حیدرآباد)
مظفرؔ حنفی کی شعری فتوحات ڈاکٹر تقی عابدی (کناڈا)
٭٭٭