تبصرے: بھگوت گیتا منظوم یا نسیم عرفاں از منور لکھنوی ۔۔۔ عبد الماجد دریابادی

257 صفحہ، مجلد مع گرد پوش، قیمت چھ روپیہ، آدرش کتاب گھر، ببلی خانہ، دہلی۔

 

منشی بشیشور پرشاد منور لکھنوی ثم دہلوی محض ایک پشتینی اور خاندانی شاعر نہیں، اپنی ذات سے بھی ایک کہنہ مشق اور خوش گو شاعر ہیں۔ غزل، مثنوی، رباعی وغیرہ ہر صنف کلام پر انھیں قدرت حاصل ہے اور اس کا ثبوت وہ بار بار پیش کر چکے ہیں۔ گیتا کا شمار دنیا کی مشہور ترین کتابوں میں ہے۔ منور اس کا منظوم اردو ترجمہ اپنے دلی عقیدت کے جذبہ سے متاثر ہو کر کئی سال قبل شائع کر چکے ہیں اور اب تھوڑی سی تبدیلیوں کے بعد یہ اس کا دوسرا ایڈیشن نکلا ہے، پہلے ایڈیشن کا بھی ذکر خیر ان صفحات میں آ چکا ہے۔

مثنوی کی بحر گلزار نسیم و ترانۂ شوق کی ہے اور شاعر کا کمال یہ ہے کہ گیتا جیسی ٹھوس اور عرفانی کتاب کے بھی ترجمہ میں شاعری کی لطافت پوری کی پوری باقی رکھی ہے۔ شروع ہی کے دو ایک بند ملاحظہ ہوں۔ راجہ دھرتراشٹر کے پوچھنے پر وزیر ان کے سامنے نقشہ جنگ یوں پیش کرتا ہے ؎

(7)۔ اے رہبرِ جادۂ حقیقت

اے مرشدِ حلقۂ ارادت

ننگ ناموس کے نگہباں

اے نازشِ دہر و فخرِ دوراں

اب اپنی طرف کا حال سنیے

ذکرِ اہل کمال سنیے

ہیں فوج میں کون کون سردار

کرتا ہوں بیان میں سلسلہ وار

(8)۔ خود آپ ہیں رہنمائے ممتاز

بھیشم جی ہیں شجاع و جانباز

ماہر فن جنگ میں کون ہے

نامی ہے دلیر استمنجے

کرپل آچارج مردِ میدان

دشمن کا ہے جن سے تنگ امکاں۔

اشوتھا مان و کرن رندھیر

جیوٹ کی ہے سو مدت تصویر

(10)۔ بھیشم ایسا سپاہ سالار

میری افواج کا ہے سردار

حیرت سے انھیں ہر ایک ہے تکتا

ان کو نہیں کوئی جیت سکتا

تھوڑا لشکر غنیم کا ہے

جاری حکم اس میں بھیم کا ہے

ہمت ہے ابھی سے پست اس کی

آسان ہے بہت شکست اس کی

(11)۔ جو امر تھا وہ کر چکا عرض

ہم سب کے لیے ہے اب یہی فرض

ادنیٰ، اعلیٰ، سپاہ، سردار

ہو جائیں پے ستیز تیار

ہمت باندھیں دلیر بن جائیں

لڑنے پر جب آئیں شیر بن جائیں

ہم آپ انھیں کا دم بھریں سب

بھیشم کی حفاظت کریں سب

اور نکتہ چینی پر کوئی آ ہی جائے تو ظاہر ہے کہ کس بشر کا کلام اس سے محفوظ رہ سکتا ہے؟ شاعر یا ادیب بڑے سے بڑے ہوں بہرحال لغزشیں سب سے ہوتی ہی رہتی ہیں، یہ لازمۂ بشریت ہے …… گیتا کو اور بھی کئی صاحب اردو میں اپنا چکے ہیں، لیکن ہر پھول اپنی اپنی الگ خوشبو رکھتا ہے، اردو بیزاری اور اردو کشی کے اس دور میں بھی شریف ہندوؤں کی جماعت تو بدستور خدمت اردو میں لگی ہی ہوئی ہے۔

شروع میں مصنف کی تصویر کے علاوہ سر تیج بہادر سپرو، سید سلیمان مرحوم، ڈاکٹر بھگوان داس وغیرہم کی رائیں اور تقریظیں بھی شامل ہیں۔

صدق جدید، نمبر 5، جلد 7 ، مورخہ 30 ؍ دسمبر 1955

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

چشم غزال از فضل احمد کریم فضلی صاحب

 

130 صفحہ، مجلد مع گرد پوش، مطبوعہ ٹائپ، قیمت تین روپیہ آٹھ آنہ، اردو مرکز گنپت روڈ، لاہور۔

 

‘‘میں مقدمہ، دیباچہ، پیش لفظ، تعارف وغیرہ کا قائل نہیں ’’(ص : 29) اور بے شک ایسے شاعر کو قائل ہونا چاہیے بھی نہیں، جو کچھ دوسرے نثر میں کہتے یا کہنا چاہتے ہیں، یہ سب شعر ہی شعر میں کہہ گئے ہیں …… مجموعۂ کلام کا نام‘‘چشم غزال ’’ہے اور سرورق کے بعد ہی نظر کا استقبال یہ شعر کرتے ہیں؎

کیا کہوں کیفیت چشمِ غزال

حسنِ سادہ اس کا ہے ضرب المثل

شوخ بھی معصوم بھی مغموم بھی

یوں سمجھیے جیسے فضلی کی غزل

اور پھر اس کے بعد؎

پھر بھی جی میں ہے بنوں اہل ہنر میں

گو خستگیِ اہل ہنر دیکھ رہا ہوں

دل پھر بھی وہی لعل و گہر ڈھال رہا ہے

گو خاک میں سب لعل و گہر دیکھ رہا ہوں

یہ بھی ہو لی اور آگے چلیے ؎

بات دل کی نہ کبھی ختم ہوئی

بات میں بات نکلتی آئی

معما اب بھی نہ حل ہوا ہو، تو ذرا اس‘‘زہر خند ’’کو سنتے چلیے

ایک ذی علم دوست ہیں میرے

تبصرے لکھ چکے ہیں بہتیرے

یوں لگے مجھ سے آپ فرمانے

‘‘کچھ لکھوں گر نہ تو بُرا مانے

تیرا حسن بیاں مجھے تسلیم

تیرا لطف زباں مجھے تسلیم ’’

لیکن اس کا بھی کچھ کیا ہے خیال

اب ہے معیار فن کا اور ہی کچھ ……

اب زمانہ فن برائے فن کا، شعر برائے شعر کا نہیں، اب

فن برائے پروپیگینڈا ہے

پروپیگینڈے کا دور دورا ہے

اور راز کی بات کان میں سننے کے قابل یہ ہے کہ

جو کہو بات ہو وہ شعر بدوش

جوش زا، جوش ریز، جوش فروش

کچھ کرو انقلاب کی باتیں

خوب ہوتی ہیں خواب کی باتیں

چاہئیے کچھ نہ کچھ تو عریانی

بے تکا یہ حجاب کیا معنی

اس سے ہوتے ہیں مشتعل کمسن

کمسنوں ہی کے آج کل ہیں دن

آگے سارا کلام اسی متن کی شرح ہے، اسی مبتدا کی خبر …… فضلی کا پہلا مجموعۂ کلام نغمۂ زندگی کے نام سے مدت ہوئی شائع ہو چکا ہے اور اب یہ دوسرا مجموعہ ادھر 12،10 سال کے کلام کا نکلا ہے، یہ اس وقت بھی بڑے مزے کے کہنے والے تھے اور اب تو قدرۃً کلام میں پختگی اور زیادہ آئی ہے، حیرت اس وقت بھی تھا اور اب بھی ہے کہ آئی، سی، ایس اور حکومت پاکستان کا ایک اعلا افسر اب تک اتنا صاف ستھرا، لطیف اور پاکیزہ مذاق سخن کیسے قائم رکھے ہوئے ہے۔

انھیں کے الفاظ میں

‘‘اس مجموعہ میں 45،40 غزلیں 12،10 نظمیں چند قطعات اور کچھ متفرق اشعار ہیں، یہ میری گذشتہ 12،11 سال کی شاعری کا قریب قریب پورا سرمایہ ہے ’’۔ (ص : 129)

غزلیں کس انداز کی ہیں، اس کے لیے یہ ہلکا پھلکا سا نمونہ کافی ہوگا:

ترے ہی لیے تھی تری بن گئی

غرض زندگی کام کی بن گئی

تری یاد دل میں چھپائے رہے

یہاں تک کہ وارفتگی بن گئی

عجب چیز ہے دل کا سوز و گداز

مری زندگی زندگی بن گئی

ستم تھی وہ فضلی ترے دل کی چوٹ

جو ہونٹوں تک آ کر ہنسی بن گئی

فضلی جس طرح انتہائی خوشی کے وقت بھی قہقہہ لگانا نہیں جانتے تھے صرف ایک ہمہ وقتی مسکراہٹ پر قناعت کرتے ہیں، اسی طرح انتہائے غم میں بھی وہ بین اور فغاں سے اجنبی ہیں، دوسروں کے دل میں درد پیدا کرا کے اپنے آنسو کچھ پی سے جاتے ہیں۔ خاتمہ کتاب کا عنوان ‘‘قائد اعظم کی وفات پر’’ ہے اور اس گھڑی ان کا قلب محزون غلو و مبالغہ نا آشنائیوں عبرتوں کے موتی سمیٹتا ہے

یاں احتشام قیصر و کسریٰ بھی ہیچ ہے

یاں شوکت سکندر و دارا نہیں ہے کچھ

جب چاہے ہم سے لے لے وہ اپنی امانتیں

جو کچھ ہے سب اسی کا ہمارا نہیں ہے کچھ

کیوں کر نہ خم بھلا سر تسلیم کیجیے

حکم خدا کے سامنے چارا نہیں ہے کچھ

جب سب سہارے ٹوٹ گئے تب کھلا یہ راز

اس کے سوا کسی کا سہارا نہیں ہے کچھ

اے زہر غم تجھے کوئی کب تک پیا کرے

مانا کہ ہم کو گوارا نہیں ہے کچھ

شعر و شاعری کو بدنام کرنے والے ہر زمانہ میں بہت رہے ہیں، اب بھی بہت ہیں۔ نیک نام کرنے والے تھوڑے ہی سے ہیں اور اسی اقلیت کے ایک نمائندہ جناب فضلی ہیں ……۔ کتاب کے شروع یا آخر میں کسی قسم کی فہرست یا اشاریہ نہ دینا، یہ البتہ ان کی ایک ستم ظریفی ہے اور بیسویں صدی کے ناظرین کے ساتھ ایک ظالمانہ مذاق!

صدق جدید، نمبر 6، جلد 6، مورخہ 6؍ جنوری 1956

٭٭٭

بشکریہ بھٹکلی ڈاٹ کام

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے