نظمیں ۔۔۔ نجمہ منصور

 

کیا تم نے کبھی دیکھا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کیا تم نے کبھی دیکھا ہے!

پولی تھین کے تھیلے میں

کوڑا کرکٹ کی بجائے

جیتا جاگتا انسان پڑا ہو

کیڑے مکوڑے کی طرح

 

میں نے دیکھا ہے

بلکہ روز دیکھتی ہوں

اس دوران

میرے اندر کا سناٹا اور باہر کا شور

آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں اور

میں اس ادھیڑ بن میں

چپ چاپ آگے بڑھ جاتی ہوں

اپنے ذہن میں

ایک نئی نظم کا گوشوارہ بناتے ہوئے!!

٭٭٭

 

 

 

 

فرض کرو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سُنو!

فرض کرو

تمہارے کمرے کے روشندان سے جھانکتی دھوپ

تمہارے لکھے ہوئے وہ سارے خط

جو تم نے میرے نام کبھی پوسٹ نہیں کیے

یا وہ سارے لمحے جو تم نے

میرے بغیر بسر کرنا چاہے

میرے کمرے کی اَدھ کھلی کھڑکی میں رکھ جائے تو

یا فرض کرو

سر پھری نٹ کھٹ ہوا

تمہارے دروازے کے پٹ سے کان لگائے

تمہاری وہ ساری باتیں سن لے

جو تم صرف اپنے آپ سے

یا دیواروں سے کرتے ہو

اور پھر میرے دروازے کی چوکھٹ پر رکھ جائے

یا فرض کرو

زرد  روپہلی چاندنی کا نرم خو قافلہ

تمہاری آنکھوں سے بکھرے سارے خواب سمیٹ کر

میری پلکوں کے زینے پر ٹانک جائے

اور پھر فرض کرو

ایک دن وہ سارے خط وہ سارے لمحے

وہ ساری باتیں وہ سارے خواب

میں دل کی دراز میں کہیں رکھ کر بھول جاؤں

جنہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے

اپنی آنکھیں بھی گنوا بیٹھوں تو

فرض کرو

آخر فرض کرنے میں مضائقہ ہی کیا ہے؟

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے