دو نظمیں ۔۔۔ نصیر احمد ناصر

خواب اور محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ہمیں خبر ہے

ہمارے درمیان بے خبری کی دھند پھیلی ہوئی ہے

تلاش کے راستے پر چلتے ہوئے

ہمارے قدم اپنی منزل نہیں دیکھ پاتے

تمہارا اندر میری نظموں سے زیادہ خوبصورت اور اجلا ہے

مگر میری عینک کے شیشے روز بروز دبیز ہوتے جا رہے ہیں

پتا ہے ہمیں لکھتے ہوئے

نظمیں اور کہانیاں بے لفظ کیوں ہو جاتی ہیں؟

وہ ہماری جائے پیدائش، تاریخ اور عمر جاننا چاہتے ہیں

انہیں کیا معلوم

کہ خواب نہ پیدا ہوتے ہیں نہ مرتے ہیں

ان کا اندراج کسی رجسٹر میں نہیں ہوتا

میں نہیں جانتا

تم نے کب خواب کی انگلی تھامے ہوئے

نیند میں چلنا سیکھا

لیکن میں وہ خواب ہوں

جسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا

میں تو اُس روز ہی مر گیا تھا

جس روز باپ نے ماں کے حاملہ پیٹ پر ٹھوکر لگائی تھی

مگر میں قبر کے اندر بڑا ہوتا گیا

اتنا بڑا کہ ماں مجھے سر جھکائے بغیر دیکھ سکتی ہے

ایک بار کسی کی تصویر کھینچتے ہوئے

کیمرہ میرے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا تھا

تب مجھے پتا چلا

کہ خواب روشنی میں سیاہ کیوں ہو جاتے ہیں

انہیں ایکسپوز کرنے کے لیے

اندھیرے کا محلول کیوں ضروری ہے

روشنی تاریکی ہی میں نظر آتی ہے

ہم وہ نہیں جو دکھائی دیتے ہیں

ہماری جگہ کوئی اور ہوتا ہے

ہمارا کاسٹیوم پہنے ہوئے

بہتے پانی کی کوئی شکل نہیں ہوتی

شکلیں ہماری آنکھ میں ہوتی ہیں

خواب دیکھنے کے لیے

نیندوں کی نہیں آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے

پروٹوزوا سے منش تک

کئی ملین سالوں کی ارتقائی نیند

محض آنکھیں کھولنے کا عرصہ ہے

موت اور زندگی میں محبت کا فاصلہ ہے

جسے ناپنے کے لیے ہم عمر کا پیمانہ استعمال کرتے ہیں

اور جینے کا ڈھونگ رچاتے ہیں

لیکن محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی

یہ تو ایک نامعلوم انت سے

دوسرے نامعلوم انت تک موجود ہے

ہم جہاں سے اسے دریافت کرتے ہیں

وہیں پر اپنی اپنی حد مقرر کر لیتے ہیں

اور اسے رشتوں اور ناموں میں تقسیم کر دیتے ہیں

اداسی ہمارے علم اور تجربے سے کہیں زیادہ ہے

اسے پھیلنے دو!

رنگوں، پھولوں اور تتلیوں کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا

پرندوں، پودوں اور اچھے لوگوں سے باتیں کرنے کے لیے

خاموشی سے بہتر کوئی اظہار نہیں

کوئی بات اپنی عمر سے بڑی نہیں ہوتی

کیا خبر ہم کسی عظیم خواب کی بیداری میں ہوں

اور کوئی ہمیں کائناتی آنکھ سے دیکھ رہا ہو

پرم آتما کو خواب دیکھتے ہوئے ڈسٹرب مت کرو!!

٭٭٭

 

 

 

 

سفید بادل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سفید بادل عجیب شکلیں بنا رہے ہیں

وہ ریچھ دیکھو

وہ ہاتھیوں کی کئی قطاریں

وہ بوڑھا بابا کوئی کھڑا ہے

وہ جیسے بچے کئی غباروں سے کھیلتے ہوں

سفید بادل ہوا کے جھولے پہ جھولتے ہیں

کبھی سمٹتے ہیں رنج و غم سے

کبھی خوشی سے یہ پھولتے ہیں

عجب دو گیتی میں ہیں معلق

نہ آسماں کو نہ اس زمیں کو یہ بھولتے ہیں

سفید بادل ازل سے یونہی بھٹک رہے ہیں

سنا رہے ہیں عجیب قصے

عظیم کہنہ عمارتوں میں

قدیم روحوں کا اک جہاں تھا

بس ایک سیال روشنی تھی

بس ایک منظر دھواں دھواں تھا

رکا ہُوا سا کئی زمانوں کا کارواں تھا

سفید بادل سیاہ دھبوں میں ڈھل رہے ہیں

افق پہ طوفاں مچل رہے ہیں

زمیں کے اوپر، زمیں کے نیچے

ہزارہا روگ پَل رہے ہیں

سفید بادل دلوں کے اندر اتر رہے ہیں

رگوں میں بہتے پلازما میں اچھل رہے ہیں!!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے