بس اسی نام کی تسبیح کئے جاتا ہوں
اپنے ایمان کی تصحیح کئے جاتا ہوں
اس پری زاد کی تصویر کشی کے بدلے
غالب و میر کی تشریح کئے جاتا ہوں
باندھتا ہوں نئے مضمون غزل کے ہر روز
اور خیالات کی توضیح کئے جاتا ہوں
سوچتا ہوں اسے سنتا ہوں، اسے دیکھتا ہوں
رات دن بس یہی تفریح کئے جاتا ہوں
نام فرعون کا اشعار میں لاتا ہوں شکیل
اور اس عہد کی تلمیح کئے جاتا ہوں
٭٭٭
لوٹ آئی ہیں پھر وہی راتیں
وہ تری یاد وہ تری باتیں
ہم سے پوچھو ہے کیا عذاب اس میں
ہم نے کھائی ہیں عشق میں ماتیں
ہر گھٹا لے کے اس کی یاد آئی
کیسی غمناک ہیں یہ برساتیں
درد، آنسو، سکوت، بے خوابی
رات لائی ہے پھر یہ سوغاتیں
آؤ اشکوں سے اب وضو کر لیں
پھر سے کرنی ہیں کچھ منا جاتیں
شہرِ یاراں میں ہے یہ کیا آسیب
کتنی ویران ہیں یہاں راتیں
روز جاتا ہوں اس گلی میں شکیل
ان سے باقی ہیں کچھ ملاقاتیں
٭٭٭